انسانی حقوق اوراسلام
ڈاکٹرمحی الدین حبیبی
حیدرآباد ۔ دکن
موبائل : 08978155985
درحقیقت اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی ہستی ایسی مطلق اور واحد اعلیٰ و ارفع ہستی ہے، جو تمام کائنات اور انسانوں کی مالک ہے۔ وہی مختارِ کل، ربّ العالمین، رزاق مطلق، رحمن و رحیم ہے کہ جس کی رحمت و ربوبیت تمام مخلوق کو محیط ہے، جس نے ہر انسان کو عزت و افتخار بخشا ہے اور اسی نے اپنی روح خاص، جسدِ آدم میں پھونکی ہے، جس کے نتیجہ میں تمام انسانیت اُسی ہستئ عظیم سے جڑی ہوئی ہے اور اسی کی وساطت سے دیگر متفرق انسانی صفات کے باوجود، تمام انسانی بنیادی طور پر ایک ہی ہیں اور قومیت، رنگ اور نسل کی بنیاد پر اس وجہ سے کہ وہ واقعاتی اختلاف رکھتے ہیں، کوئی نتیجہ خیز اور حقیقی تفریق نہیں کی جاسکتی۔
اس طرح ہر انسان دوسرے انسان کا قرابت دار ہے اور تمام انسان اسی رشتہ اخوت کی اساس پر ایک ہی ملتِ انسانی کے افراد قرار پاتے ہیں، جو انتہائی رحم و کرم کرنے والے ربّ کائنات کے محترم و مکرم بندے کہلاتے ہیں۔ اس ملکوتی فضاء میں جب اسلامی توحید کا اعتراف کیا جاتا ہے، جو اس کے تمام نظریات کا مرکز ہے، تو نسل انسانی کی وحدت اور اخوت کی حقیقت خودبخود آشکار ہوجاتی ہے۔
اگرچہ ایک اسلامی ریاست کرۂ ارض کے کسی بھی خطہ میں قائم کی جاسکتی ہے، کیوں کہ اسلام، کسی بھی قسم کے جغرافیائی حدود کو انسانی حقوق و فرائض کے نفاذ میں رکاوٹ نہیں سمجھتا۔ اسلام نے چند عالمی بنیادی حقوقِ انسانی کے اصول وضع کیے ہیں، جن کو ہر حالت اور ہر موقع پر لاگو کیا جاتا ہے۔ کوئی شخص اسلامی ریاست کے حدود میں رہتا ہو یا باہر رہتا ہو، اس تعلق سے قرآن کے احکامات یوں ہیں:
’’اے ایمان والو! انصاف کے علمبردار بنو اور خدا کو ’’حاضر و ناظر‘‘ جانو۔ ایسا نہ ہو کہ کسی قوم کی دشمنی تمھیں مساوات سے روک دے۔ انصاف (مساوات) قائم رکھو، کیوں کہ یہ تم کو تقویٰ سے قریب کرے گا۔‘‘ (۵:۸)
انسانی خون، ہر حالت میں قابل احترام ہے اور بغیر کسی سبب کے یہ بہایا نہیں جاسکتا۔ اگر کوئی اس احترام کو نظرانداز کرتے ہوئے کسی انسان کی جان لیتا ہے تو گویا وہ ساری انسانیت کا خون کرتا ہے۔
’’جو شخص کسی شخص کا بلاعوض دوسرے شخص کو بغیر کسی فساد کے قتل کرڈالے تو گویا اس نے تمام انسانوں کا قتل کرڈالا اور جو شخص کسی شخص کو بچالے تو گویا اس نے تمان انسانوں کو بچالیا۔‘‘ (۵:۳۲) اسلام اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ عورتوں، بچوں، بوڑھوں ، بیمار اور زخم خوردہ لوگوں پر ظلم کیا جائے۔ عورت کی عزت اور عصمت کی تو بہرحال برقرار رکھی جانی چاہیے، بھوکے کو کھانا کھلانا اور ننگے کو کپڑا مہیا کرنا اور زخمی اور بیمار کو طبّی امداد پہنچانا ہر صورت میں ، چاہے وہ مسلمان ہو یا دشمنوں کی جماعت سے ہی کیوں نہ ہو، ضروری ہے۔
جب ہم اسلام میں انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ’’حقوق‘‘ اللہ جل شانہ کے عطا کردہ ہیں۔ یہ کسی بادشاہ یا کسی مجلس مقننہ کی جانب سے نہیں ہوتے۔ یہاں یہ نکتہ قابل غور ہے کہ بادشاہوں یا قانون ساز مجلسوں کے وضع کردہ ’’حقوق‘‘ واپس بھی لیے جاتے ہیں۔ یہی حال ان ’’حقوق‘‘ کا بھی ہوتا ہے، جو کسی مطلق العنان حکمراں کی ایماء پر دیئے جاتے ہیں۔ اس طرح دنیوی نظام کے ’’حقوقِ انسانی‘‘ جب چاہے موقع کی مناسبت سے تسلیم کیے جاتے ہیں اور حسبِ منشاء اُن سے ’’دستبرداری بھی حاصل کرلی جاتی ہے، گویا علی الاعلان خلاف ورزیاں ہوتی ہیں، لیکن ’’اسلام حقوقِ انسانی‘‘ چوں کہ خالق کائنات کا عطیہ اکرم ہوتے ہیں، اس لیے انہیں دنیا کی کوئی قانونساز مجلس یا حکومت یا کوئی اتھاریٹی نہ تو چھین سکتی ہے اور نہ ہی ان میں کوئی ترمیم کا حق رکھتی ہے، کسی کو اس میں تحریف و دستبرداری کا کوئی اختیار نہیں ہوتا۔ ایسا بھی نہیں کہ یہ صرف ’’کاغذی کارروائی‘‘ ہو کہ ایک نمود و نمائش کی طرح اعلان کردیا اور عملی طور پر اس کا انکار کردیا اور ایسا بھی نہیں کہ اسلامی حقوق انسانی صرف چند فلسفیانہ نظریات پر مشتمل ہو کہ جس کی کوئی نافذ العمل صورت نہ ہو۔
اقوام متحدہ کا چارٹر، اعلانات اور قراردادیں کوئی بھی چیز ان ’’الٰہی حقوق‘‘ کا مقابلہ نہیں کرسکتی، کیوں کہ اوّل اذکر صرف چند مخصوص صورتوں میں مخصوص لوگوں پر لاگو ہوتے ہیں، جب کہ اسلامی حقوق ہر وقت، ہر زمانہ میں کسی بھی ’’مؤمن‘‘ کو جو اپنے آپ کو مسلمان ہونے دعویٰ کرتا ہے اس پر یہ بات لازم ہوتی ہے کہ وہ ان حقوق کی نہ صرف پاسداری کرے، بلکہ انہیں نافذ بھی کرے۔ اگر وہ ان حقوق کی ادائیگی میں کوئی تساہل کریں یا پھر انکار کریں ، تحریف و تبدیل سے کام لیں یا صرف زبانی جمع خرچ اور حیلہ سازی کے ذریعہ خلاف ورزی کریں تو ایسے حکمراں یا حکومت کے لیے قرآن کریم کا یہ صاف اور دوٹوک اعلان یوں ہے:
’’جو لوگ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے نازل کردہ اصولوں کے مطابق عدل و انصاف نہیں کرتے۔۔۔ (یقینا) ۔۔۔ وہ ایمان والے نہیں ، کافر ہیں۔ (۵۔۴۴)
ایک اسلامی ریاست میں ’’حقوقِ انسانی‘‘ کی تفصیل اس طرح ہے:
(۱) زندگی اور ملکیت کا تحفظ: ’’حجۃ الوداع‘‘ کے مبارک موقع پر اپنے خطابِ جہاں تاب میں رسول اکرم صلی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’تمہاری زندگیاں اور تمہارا مال ایک دوسرے کے لیے جائز نہیں کہ اُن کو (حق ملکیت اور قصاص) کے بغیر اپنالو، یہاں تک کہ تم سب حاضر کیے جاؤگے اپنے رب کے سامنے یومِ حشر کے دن۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ذمیوں کے حقوق کے تعلق سے بھی یوں ارشاد فرمایا کہ ’’جو کوئی کسی ذمی (وہ غیرمسلم جس کی حفاظت کی ذمہ داری ایک اسلامی ریاست لیتی ہے) کو قتل کرے گا تو وہ جنت کی خوشبو بھی نہ سونگھ پائے گا۔
(۲) عزت و وقار کا تحفظ :ارشادِ ربانی ہے:
(۱) اے ایمان والو! تم میں کا ایک گروہ دوسرے گروہ کا مذاق نہ اڑائے۔‘‘
(۲) ایک دوسرے کی برائی (رسوائی) نہ کرے۔
(۳) برے ناموں سے (ایک دوسرے کو) بے عزت مت کرو۔
(۴) غیبت اور عیب جوئی کی باتیں مت کرو۔
’’کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے۔ اس کو تم ناگوار سمجھتے ہو۔ (۴۹: ۱۱ تا ۱۲)
(۳) شخصی زندگی کی پاکیزگی و تحفظ
(۱) قرآن حکیم حسبِ ذیل احکامات لاگو کرتا ہے:
(۲) کسی کے گھر میں بغیر اجازت داخل نہ ہو، یہاں تک کہ تمہیں یقین ہوجائے کہ صاحبِ خانہ نے اجازت دے دی ہو۔ (۲۴: ۲۷)
(۴) شخصی آزادی کا تحفظ: اسلام اس اصول کا داعی ہے کہ کوئی شہری اُس وقت تک قید و بند میں مبتلا نہیں کیا جاسکتا جب تک کہ اس کا جرم ایک کھلی عدالت میں ثابت نہ ہوجائے۔ کسی فرد کو محض شک و شبہ کی بنیاد پر گرفتار نہیں کیا جاسکتا اور اس کو کسی عدالتی کارروائی کے بغیر قید بھی نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی مناسب دفاع کے مواقع مہیا کیے بغیر کوئی فیصلہ کیا جاسکتا ہے۔
(۵) ظلم و بربریت‘‘ کے خلاف احتجاج کا حق :اسلام نے جو ’’حقوقِ انسانی‘‘ عطا کیے ہیں، ان میں ایک یہ ہے کہ کوئی بھی حکومت کے ظلم و ستم کے خلاف احتجاج کا حق رکھتا ہے، جیسا کہ قرآن کا فرمان ہے:
’’اللہ تعالیٰ ، بری بات زبان پر لانے کو پسند نہیں کرتے بجزمظلوم کے اور اللہ تبارک و تعالیٰ خوب سنتے ہیں اور خوب جانتے ہیں۔‘‘ (۴:۱۴۸)
اسلام میں، جیسا کہ اس سے قبل بتلایا گیا ، تمام اختیارات، اللہ جل شانہ کیہوتے ہیں، انسان کو تو بس یہ اختیارات تفویض کیے جاتے ہیں، جو ایک ’’امانت‘‘ کا درجہ رکھتے ہیں، جو کوئی بھی (حکمراں) ان اختیارات کا حامل ہوتا ہے اُس کو پوری عزت و تکریم کے ساتھ اپنی رعایا کے روبرو جواب دہ ہونا پڑتا ہے کہ انہیں کی فلاح و بہبود کے لیے اللہ تعالیٰ نے اسے یہ حکمرانی و اختیارات سونپے ہیں۔ اسی بات کا اتباع کرتے ہوئے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنے پہلے خطاب میں میں فرمایا کہ ’’میرے ساتھ تعاون کرو ، اگر میں صحیح راستہ پر رہوں اور میری اصلاح کرو اگر میں کوئی غلط کام کروں۔ میری اس وقت تک اطاعت کرو جب تک کہ میں اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کا پابند رہوں ، لیکن اس وقت میری اتباہ نہ کرنا جب تم مجھے اس راہ سے ہٹا ہوا پاؤ۔‘‘
(۶) اظہارِ خیال کی آزادی: اسلام اپنی ریاست کے تمام شہریوں کو فکر اور اظہارِ خیال کی آزادی اس شرط پر دیتا ہے کہ وہ حق و صداقت کی اشاعت و تبلیغ کریں، نہ کہ کذب و افتراء پردازی کو فروغ دیں۔ اسلام کا یہ نظریۂ آزادی اظہارِ خیال مغرب میں مروّجہ نظریہ کہیں زیادہ بلند و برتر ہے، کیوں کہ اسلام کسی بھی صورت میں ’’بدی‘‘ اور دغابازی‘‘ کو بڑھاوا نہیں دیتا۔ یہ کسی کو اس بات کا حق بھی نہیں دیتا کہ وہ کسی کے خلاف تنقید کرتے ہوئے بدکلامی اور بدتمیزی کا مظاہرہ کریں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں کسی بھی معاملہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپؐ سے دریافت کرتے کہ کہیں اس سلسلہ میں کوئی الٰہی احکامات تو نہیں آئے ہیں؟ جب آپؐ یہ فرماتے کہ اس خصوص میں کوئی وحی یا احکام نازل نہیں ہوئے ہیں تو تب ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں اپنی (آزادانہ) منفرد رائے کا اظہار کرتے۔
(۷) ’’تنظیم‘‘ کی آزادی: اسلام ، لوگوں کو کوئی ’’انجمن‘‘ یا ’’جماعت‘‘ یا ’’تنظیم‘‘ قائم کرنے کی آزادی بھی بعض عام اصولوں کی متابعت میں عطا کرتا ہے۔
(۸) ضمیر اور یقین کی آزادی: اس تعلق سے اسلام کا نظریہ، قرآن کریم کی رو سے اس طرح ہے:
’’ایمان و یقین کے معاملہ میں کوئی دوغلا پن (منافقت) نہیں ہونی چاہیے۔‘‘ (۲:۲۵۶)
اس طرح اسلام، بنیادی اخلاقی خصوصیات کی اساس پر ایک ایسا اعلیٰ و ارفع اخلاقی نظام قائم کرتا ہے جس کی ’’صداقت‘‘ اور ’’خیرطلبی‘‘ کے اصولوں سے ساری انسانیت استفادہ کرسکتی ہے، کیوں کہ اسلام ’’خودی کی بے راہ روی‘‘ ، ’’ظلم و استبداد‘‘ ، ’’عیش پرستی‘‘ اور ’’بدنظمی‘‘ جیسے عناصر سے ’’تزکیۂ نفس‘‘ کرتا ہے، یعنی نفس کی طہارت انجام دیتا ہے۔ یہ ایسے متقی و پرہیزگار لوگوں کو تیار کرتا ہے جو اپنے نظریۂ اخلاق پر پکا یقین رکھتے ہیں، پرہیزگاری کی زندگی گذارتے ہیں، اصولِ زندگی کو اپناتے ہیں اور کذب و افترا سے سمجھوتہ نہیں کرتے۔ یہ اپنے ماننے والوں میں اخلاقی ذمہ داری کے احساس کو جگاتا بھی ہے اور ان میں ’’انانیت‘‘ کو قابو میں کرنے کی صلاحیت بھی پیدا کرتا ہے۔
گویا اسلام ہر حالت میں اور ایک کے لیے رحمدلی، فیاضی، رحمت، ہمدردی، امن و سلامتی، بے ریا نیکی، بے مطلب حسن سلوک اور صدق و صفا کو فروغ دیتا ہے۔ اس طرح ایک مسلمان کو شریفانہ اور اعلیٰ صفات سے متصف کرتا ہے، جس سے صرف نیکی اور خیر ہی کی امید کی جاسکتی ہے۔