رکھشا بندھن : بہن بھائیوں کا محبت بھرا تہوار ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ محمد رضی الدین معظم

Share

raksha  رکھشارکھشا بندھن (راکھی پونم)
بہن بھائیوں کا محبت بھرا تہوار

محمد رضی الدین معظم
مکان نمبر 20-3-866 ’’رحیم منزل ‘‘ ، شاہ گنج ، حیدرآباد ۔2
سیل: +914069990266, 09848615340

برسات کا حسین موسم ساون کا مہینہ پورے چاند کی رات کا یہ تہوار مسکراتا ماہتاب عطر بیر ہواؤں کے مدھ ماتے جھونکے فضاؤں میں رقصاں خوشی کے رمزے اور مسرت کے شہد آگیں نقری قہقہے‘ چنبیلی‘ موتیا‘ جوہی‘گلاب کے گیمرے۔ کیوڑے سے گوندھی ہوئی شب دیجور سے سیاہ چوٹیاں سوار سنگھار کے پور پور مہندی لگے۔ پیارے پیارے ہاتھ بے پایاں خلوص اور پاکیزہ پریم کی تجلیوں سے بھری نینوں کے کنول۔ نیک تمناؤں کے جذبات سے معمور مسکراتے باغ و بہار‘ ماؤں ‘ بہنوں اور بیٹیوں کے شگفتہ چہرے جو زندگی کی ساری صعوبتوں کو آج یکسر بھول کر دعاؤں اور آشیرواد کے مہکتے گلاب نچھاور کرتے ہیں۔ جن کی تقدیس کے سامنے کتنے دھڑکتے ہوئے بھائیوں اور بیٹوں کے دل بصد احترام سجدہ ریز ہوگئے ۔ پھر گھر کے سونے آنگن میں رونق سی آجاتی ہے اور ’’راکھی بندھا لوبھیا۔ ساون آیا‘‘ کے روح پرور سرحدی میٹھے اور رسیلے گیت‘ دل کے نازک تاروں کو چھنجھوڑ کر پاکیزہ پریم و رفاقت کے بندھنوں میں جکڑ لیتے ہیں۔ روج کی گہرائیوں میں ایک مانوس سی کسک ایک لطیف خوشبو ایک بے نام سے درد کی ٹیسیس بھی ابھر آتی ہیں‘ جن کے اظہار کے لئے الفاظ نہیں ملتے۔ ہاں جنہیں صرف محسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔

یہ رشتے یہ پیار کے اٹوٹ رشتے‘ ہر سال تجدید وفا کے حیات افروز گیت سناتے ہیں‘ جو روح کی خلوتوں کو خلوص کی مہکتی خوشبو اور کیف سے آباد کرتے ہیں۔ اس مبارک دن یہ محسوس ہوتا ہے کہ زندگی میں کوئی غم نہیں ۔ کوئی مسئلہ نہیں۔ درد و غم کی لہریں یوں تھم جاتی ہیں۔ جیسے ویرانے میں پہلے سے بہار آگئی ہے۔ یہ پیار بھری خوشیاں یہ رفاقتیں ‘ رونقیں اور مسرتیں۔کاش کہ دائمی ہوجائیں۔ برس بھر کے بچھڑے عزیز آملتے ہیں‘ مرجھائے چہرے کھل اٹھتے ہیں۔ منتظر نینوں میں خلوص و پیار کے چراغ جل اٹھتے ہیں اور وفور جذبات سے ایک باپ ایک بھائی اور ایک بیٹے کی سلگتی ہوئی پلکیس بھیگ جاتی ہیں۔ دل کو ایک نادیدہ آسودی و احساس ہوتاہے۔ کس قدر اپنائیت و یگانگت کا جذبہ محسوس ہوتا ہے۔ اس دن یہ تہوار ہجوم رنج والم میں گھر کر بھی مسکرانے کا درس دیتا ہے اور زندگی سرشار ارمانوں کے ہجوم میں جھوم جھوم اٹھتی ہے۔ سیڈول کلائیوں میں پیار کی زرتار راکھی جھلملانے لگتی ہے۔ یہ تہوار ہمیں یاد دلاتا ہے کہ زمانہ کی گردش ماحول کو بدل دیتی ہے۔ انسان کے خد وخال میں تبدیلیاں کررہی ہے‘ لیکن انسانی رشتے ناطے اس اٹوٹ پیار کے بندھن سے تاقیامت منقطع نہیں ہوسکتے۔
یہ تہوار ساون کی پورنا شی کو منایا جاتا ہے۔ اسے ’’سلوفو‘‘ بھی کہتے ہیں۔ جو فارسی لفاظ ’’سال نو‘‘ کابگڑا ہوا روپ ہے اور سمراٹ اکبر کے دور سے رائچ ہے۔ ہندی میں اسے شراونی اور رکھشا بندھن کے نام سے موسوم کرتے ہیں اور رشی ترین ‘ کجری پورنما اور راکھی پونم بھی کہتے ہیں۔ یہ تہوار فصل خریف کے بارآدر ہونے کی ابتدائی امید اور خوشی کا دن کہلاتا ہے۔ شاستر کے انوسار اس تہوار پر ’’جو‘‘ کی خیرات کی جاتی ہے۔ پراچین کال میں دیوابسر سنگرام میں رکھشا کے لئے اپنے بھائیوں کے ہاتھ میں ’’مسول‘‘ باندھی تھی۔ رگ ویدی ،یجرویدی اور سام ویدی برہمن مختلف ایام میں علیحدہ علیحدہ نکشتروں کے انوسار اس تہوار کو مناتے تھے۔ بھوشیہ پران کے بموجب رکھشیر (شری مہادیوجی) اس تہوار کی مہما اندانی‘‘ کو بتائی تھی۔ یہ تہوار دراصل حسن شائستگی ‘ رنگا رنگ تصویر کشی اور مشاہدہ قدرت کے پاکیزہ جذبات کی عکاسئی کی دلیل ہے۔ یہ محفل صناعی اور نظارہ قدرت کے سطحی مشاہدہ پر مبنی نہیں بلکہ قدرتی حسن اور اس کے اندر پوشیدہ صداقت کو محسوس کرکے بنی نوع انسان کی تلاش و تحفظ کی دعاؤں اور ان نعمتوں کے لئے ایشور کا شکرانہ تعریف ‘ توصیف‘ اسنتی کے گیت گائے جاتے ہیں۔ ابتداء ہی سے بھارت کا مسلک وحدت میں کثرت اور کثرت میں وحدت پر مبنی ہے‘ جس کی حقیقت صرف یہی ہے کہ ایشور کا جلوہ ہر ڈھنگ اور ہر رنگ سے ہویدا ہے۔ گویا جدھر دیکھتا ہوں ادھر تو ہی تو ہے۔‘‘ یہی اس کی وحدانیت کا اچھا اور سچا اعتراف ہے۔ چنانچہ اس تہوار کے اوسر پر برسات کے حسین و دلکش نظاروں کے مشاہدے خوشنما پرندوں کی تصویرکشی اور برہمنوں کا اپنی روحانی شکتی سے عوام کے تحفظ و سلامتی کا تعویذ تیار کرکے تقسیم کرنا ہی اصل مقصد تھا۔ لیکن فی زمانے اس متبرک تہوار کے اصلی خد وخال بری طرح مسخ ہوچکے ہیں۔ مشاہدہ قدرت کا اب تو ذکر ہی چھوڑیئے۔ تصویر کشی تو کوئی جانتا ہی نہیں اور رکھشا بندھن کے دن برہمنوں کے لئے یہ جو لازمی تھا کہ یگیہ آرتبھ کرکے خلق خدا کی سلامتی و حفاظت کی دعائیں کرتے ہوئے راکھی تیار کرتے اور اس کے صلہ میں ہر شخص حسب مقدور دکھشنا یا نذرانہ بصد احترام و ادب ان کی سیوا میں بھینٹ کرتا کیونکہ شاستر کی آگیا انوسار کسی بزرگ کی خدمت میں خالی ہاتھ حاضر ہونا بڑی بے ادبی اور معیوب سمجھا جاتا تھا‘ لیکن اب نہ وہ پہلا سا خلوص نہ پہلی سی فضا نہ پہلی سی باتیں ۔۔۔
اس تہوار کی اب تو یہ حالت ہوگئی ہے کہ برہمن حضرات بازاروں سے رنگین ڈورے خرید کر خیرات کی خاطر گھر گھر پہنچ کر راکھی باندھتے پھرتے ہیں جبکہ لوگوں کو خود برہمنوں کی ہوائیں حاضر ہوکر ادب و غیر تاسے راکھی بندھاونے کا اصول تھا کیونکہ راکھی حقیقت میں حفاظت کا ایک مقصدی تعویذ ہے۔
’’راکھی پونم‘‘ کے دن ہندو لوگ ایشور کا جن کرکے اپنی جان و مال ‘ سلامتی و خوشحالی و حفاظت و رکھشا کے لئے دعائیں کرتے ہیں۔ خواتین و لڑکیاں بڑی شردھا سے اپنے بھائیوں‘ عزیزوں اور بزرگوں کی پیشانی پر چندن کم کم کا ٹیکہ لگاتی ہیں۔ ان کے سر پر ’’بجریاں‘‘ چاول جھڑکتی ہیں۔ سلامتی اور درازی عمر کی دعائیں کرتے ہوئے کلائی پر راکھی باندھتی ہیں اور سروں پر نیگ کے پیسے نچھاور کرتی ہیں اور اپنے ہاتھ سے مٹھائی کھلاتی ہیں۔ یہ تہوار ہمارے دیش میں بھائی بہن کے سچے اور اٹوٹ پریم کے طور پر منایا جاتا ہے۔ بہنوں کی اس تہوار پر شاندار ضیافت کی جاتی ہے اور انہیں حسب مقدور قیمتی پوشاک ‘ زیور اور رقم سے نوازا جاتا ہے اور نذرانے بھینٹ کرتے ہیں۔
اس تہوار کے آغاز کی روایت یدھشٹر سے شری کرشن نے یوں بتائی تھی کہ ایک مرتبہ ’’راجہاندر‘‘ اور دتیوں میں مسلسل بارہ سال تک خونریز جنگ ہوتی رہی۔ دتیوں نے اپنی مہیب عسکری قوت سے راجہ اندر کو چاروں طرف سے محصور کرلیا۔ شکست کے آثار نظر آنے لگے۔ راجہ اندر گھبراگئے اور اپنے پوجیہ گرد برہسپتی سے فتح کی تدبیر پوچھی اور مدد کے طالب ہوئے۔ گروجی نے اس معاملہ میں مجبوری ظاہر کی اس پر راجہ اندر کی مہارانی ’’شچی‘‘ نے کرین مہاراج کی آگیا انوسار برہمنوں سے زبردست یگیہ کروایا اور منتروں دعاؤں سے ایک مقدس راکھی تیار کی جسے راجہ اندر کو پہنا دیا گیا‘ اسی راکھی کے تیج و پرتاب سے راجہ اندر دتیوں پر فتح یاب ہوئے۔ رکھشا بندھن کا یہ تہوار کسی واقعہ کی یادگار کے طور پر منایا جاتا ہے۔
ایک روایت یہ بھی ہے کہ اسی دن ’’ہیگرو بھگوان‘‘ کا اوتار ہوا جس نے ’’مدھو کیٹو‘‘ نامی راکشس کا سرب ناش کرکے مخلوق خدا کی رکشا کی شراون ’’پونما شی‘‘ کو ہندو خواتین ’’سرون‘‘ کی پوجا کرتی ہیں جو نادانستہ طور پر مہاراجہ دسترتھ کے بان سے ہلاک ہوا تھا۔ پنجاب میں یہ تہوار ’’رکھڑی‘‘ کے نام سے موسوم ہے۔ دکن میں اسے نارلی پورنما اور راکھی پورنما کہتے یہں۔ دکن میں اس روز پووتی پورنما شی کا اوتست منایا جاتا ہے اور پوترا یعنی نیا جنیو تیار کرکے پہلے شری وشنو جی شری شیو جی اور شری گنیش جی کو پہناتے ہیں۔ بعدازاں خود پہنتے ہیں۔ بمبئی کے ساحلی بندرگاہ اور کونکن کے شہروں میں نارلی پورنما کا اوتسب سمندر کی پوجا کرکے منایا جاتا ہے۔ سمندر پر ناریل اور جنیو چڑھاتے ہیں تاکہ سمندری تجارت و سفر میں ’’ورن دیوتا‘‘ کی رکھشا و اشیرواد پراپت ہو۔ ہندو لوگ سمندری تجارت کے وسیلہ پراچین کال ہی سے لنکا‘ جاوا‘ سماترا اور ماریش وغیرہ میں بس گئے ہیں۔ کونکن میں اس دن بڑے میلے لگتے ہیں۔ مہاراشٹرا میں اس تہوار کے ضمن میں ایک ہفتہ تک برت رکھے جاتے ہیں۔ روی وار کو سوریہ برت ‘ سوموار کو پردوش برت‘ منگل کو منگلاپوری برت‘ بدھ کو بدھ پوجن برت ‘ برہسپت کو گورو پوجا برت‘ شکروار کو چندروات برت اور برلکشمی برت سنچیروار کو شری نرسنگھ جی اور شری ہنومان کی پوجا و برت ‘ بنگال میں اس دن ’’سنیلاسمیتی‘‘ بہت دھوم دھام سے منائی جاتی ہے۔ ہنگامی برہمن نیا جنیو دھار ن کرتے ہیں۔ راکھی تہوار پر یوں توسارے بھارت ورش میں ‘ بھانت بھانت کی دیدہ زیبخوش رنگ اور زرق برق راکھیاں بڑے اہتمام سے تیار کی جاتی ہیں‘ لیکن بندیل کھنڈ کی راکھی بہت عمدہ اور بہت قیمت ہی ہوتی ہے۔ اس کا قطر ایک فٹ سے کم نہیں ہوتا۔ برہمن لوگ راکھی باندھتے وقت جو اشلوک پڑھتے ہیں‘ اس میں راجہ بل کا تذکرہ ضرور ہوتا ہے۔ مارواڑی لوگ بھی بڑے اہتمام سے یہ تہوار مناتے ہیں اور ان لوگوں میں راکھی باندھنے کا بہت رواج ہے۔ مقدس راکھی کی حرمت بڑی انمول ہے۔ راکھی باندھنے سے برسوں کی دشمنی و عداوت‘ دوستی و پریم میں بدل جاتی ہے۔ راچپوتانہ کی تاریخ اس کی شاہد ہے کہ مغلوب راجہ کی بہن یا بیٹی نے جب اپنے دشمن کو راکھی باندھی‘ تو اس نے اس کی عزت‘ حرمت اور بات کا اسی طرح لحاظ کیا گویا یہ ان کی ماں جائی بہن تھی۔ مسلم حکمرانوں نے بھی ’’راکھی‘‘ کا کامل احترام کیا۔ تاریخ ہند میں ’’ہمایوں اور رانی کروناوتی‘‘ کی داستان تاقیامت زندہ رہے گی۔
’’بھوشوترپران‘‘ کے بموجب رکھشا بندھن کے دن دیوتا رشی پتروں کا پوجن ترین سیوا کرنا شبھ ہے۔ علیٰ الصبح اشنان اور بدھوت سندھیا سے فارغ ہوکر نیا جنیو دھارن کرنا چاہے۔ گلشن رکھ کر ’’شری برھماجی‘‘ کا پوجن شردھا و عقیدت سے چندن پھول ‘ پھل ‘ دھوپ‘ دیپ بستر مشٹان سے کریں۔ برہمنوں سے رکھشا بندھن کرادیں اور انہیں بھوجن کراکے حسب مقدور دکھشنا و نذرانہ بھینٹ کریں۔ کیونکہ رکھشا بندھن بطور اشیرواد کے ایک مقدس دعا ہے۔ ’’بھدرا‘‘ میں رکھشا بندھن کی ممانعت ہے۔ صرف خواتین پوجا کے سمئے زرد رنگ کے دھاگوں کی راکھی بناکر اپنے خاوندوں اور عزیزوں کے باندھتی ہیں۔ تاکہ ایشور ان کے سہاگ عزیزوں کی سلامتی اور جان و مال کی رکھشا کریں۔ ’’راکھی پونم‘‘ کا مقدس تہوار پاکیزہ پریم و مسرت کا ایک رنگا رنگ تہوار ہے۔ ٹوٹے دل‘ ٹوٹے رشتے ناطے جوڑنے اور استوار کرنے کا تہوار ہے۔ اس مبارک تہوار پر اہل وطن کو حضرت نظیر اکبرآبادی کس خلوص و پیار سے قومی یکجہتی و یگانگت کا جانفرا پیام دیتے ہیں اور کس شردھا سے خود برہمن مہاراج کا بھیس بنائے ‘ پیار کی راکھی بندھوا نے کی دعوت عام دیتے ہیں ملاحظہ ہو؂
ہوس جو دل میں گذری ہے کہوں کیا آہ میں تم کو
یہی آتا ہے جی میں بن کے بانہیں آج تو یارو
’’میں اپنے ہاتھ سے پیارے کے باندھوں پیار کی راکھی
بہن زنالہ اور تشقہ لگاماتھے اوپر بارے
نظر آیا ہے بانہیں بن کے راکھی باندھنے پیارے
’’بندھا لو اس سے تم ہنس کر اب اس تہوار کی راکھی‘‘
بلاشبہ یہ تہوار ایک ہمہ گیر فلسفہ اور اخلاقی سچائی کا مظہر ہے۔ آزمائش اور مصیبتوں کے ان ریگزاروں میں ’’ناری کے تین روپ‘‘ کس طرح آشاؤ ں کے دیپ بن کر نئی زندگی کی راہنمائی کرتے ہیں‘ کس طرح نئے عزم نئے حوصلے‘ ہمت و استقلال کے نخلستان ثابت ہوتے ہیں۔ اس پاکیزہ تہوار میں ایک ماں‘ ایک بہن اور ایک بیٹی ہے اور ’’راکھی‘ کچے دھاگوں کے معمولی تار کا نام نہیں بلکہ ایک اٹوٹ بندھن ‘ ایک مستحکم وعدہ ‘ ایک مقدس عہد ہے جو وہ اپنے سرتاج‘ اپنے پتا‘ اپنے بھیا اور اپنے جگر کے ٹکڑے کی درازی عمر سلامی و خوش حالی کے جذبات و نیک تمناؤں کی شکل میں نچھاور کرتے ہوئے پرم پتا پرماتما سے دعا و پرارتھنا کرتی ہے کہ اس مقدس راکھی کی لاج رکھے اور صلہ میں اپنی عزت و حرمت کے تحفظ کی طلب گار ہوتی ہے۔ ہاں یہ مقدس تہوار انسانی زندگی میں یہ احساس پیدا کرتا ہے کہ ماں ‘ بہن اور بیٹی کے روپ میں ایشور نے ایک انمول نعمت انسان کو عطا فرمائی ہے‘ جو صرف پرخلوص محبت کی طلب گار ہے۔ جس کے دل میں انسان کی قدر ہے اور یہ پاکیزہ احساسات وجذبات انسانی پریم و محبت کی بے قدری نہیں کرتے۔ جن کا وجود انسانی زندگی کی کم مائیگی کا احساس پیدا کرکے دلوں کو افسردہ نہیں کرتا جو اپنی بے غرض پر خلوص اشیرواد‘ دعاؤں اور محبت سے ہمارے دلوں کے خوابیدہ نازک تار جھنجھوڑ کر ایک انہونی اور روحانی بے پایاں مسرت کے ساتھ ساتھ ایک جذبہ تقویت بھی عطا کرتے ہیں اور ہمارے دلوں کو یہ سکون و شانتی اور اطمنان نصیب ہوتا کہ زندگی صرف دکھ اور درد کا نام نہیں ہے۔ انسانی زندگی صرف اپنے نفس کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی نہیں ہے‘ بلکہ ہنسیخوشی بھی زندگی ہی کی باتیں ہیں۔ یہاں ذمہ داریوں اور مقدس عہد نبھانے کے کانٹنے اور بندھن بھی ہیں اورا شیرواد‘ خلوص و محبت کی مسرتوں کے پھول میں بھی کانٹوں کو نظر میں رکھو اور ان پھولوں سے دل میں بے پایاں خوشی بھرلو۔۔۔ یہ تہوار سماجی رشتوں کی پاکیزگی حرمت اور تقدس کے ساتھ ناقابل شکست عزائم مضبوط بندھنوں کے عہد اور ذمہ داریوں کے احساس بے پایاں کا نصیب بھی ہے۔ اس لحاظ سے اس تہوار کی افادیت ہمارے عظیم دیش کے عوام کے اخلاقی اقدار اور جذبات و خیالات سے قریب ہے اور جو نام نہاد مغربی تہذیب ومعاشرت کے فرسودہ نتائج و عواقب سے بھارتی سماج سنسکرتی و معاشرہ کو بچاتی ہے۔ اس شبھ اور سرپربرادران وطن کو رکھشا بندھن کی دلی مبارکباد یتے ہوئے آیئے ہم سب کہ تعمیر وطن کے لئے ہمارے اخلاقی اقدار ہماری سبھیتا اور ہمارے عظیم کلچرل کی رکھشا کے لئے آپسی بھید بھاؤ مٹاکر ہم سب ایک ہوکر جدوجہد کریں گے ۔
ایشور سے پرارتھنا ہے کہ بھارت ورش میں امن ‘ شانتی ‘ اتحاد‘ پیار و محبت یگا نگت اور تعمیر وطن کے لئے ہر قسم کی قربانی کے پرخلوص جذبات عملی طور پر دن دونی رات چوگنی ترقی کرتے رہیں۔
Md.Raziuddin Moazzam
محمد رضی الدین معظم

Share
Share
Share