یوم آزادی
ہماری ہرسانس سے روشن ہے نام آزادی
محمد رضی الدین معظم
مکان نمبر 20-3-866 ’’رحیم منزل ‘‘ ، شاہ گنج ، حیدرآباد ۔2
سیل: +914069990266, 09848615340
ہر سال آزادی کا دن آتا ہے تو اہل ملک کو فطری طور پر خوشی ہوتی ہے کہ آج ہی کے دن ہمارا ملک برسہا برس کی محکومی اور آزادی کی ایک طویل جدوجہد کے بعد آزادی سے ہمکنار ہوا تھا۔ انگریزوں کے تسلط سے ملک پر ہر طرف کی المناک فضاء چھائی ہوئی تھی اور مٹھی بھر انگریزوں کے آگے کروڑوں ہندوستانیوں کے سر جھکے ہوئے تھے۔ انگریزوں کو ہمارے ملک پر ہر طرح کا اختیار تھا۔ وہ جو چاہتے تھے کر گذر جاتے تھے۔ ہمارے ہی ملک کے بارے میں ہم کو زبان تک ہلانے کی مجال نہ تھی۔ سیاہ و سفید کے انگریز مالک تھے۔ رہ رہ کر یہ آرزوؤں نے ہمارے دلوں میں کروٹ لیتی تھی۔ آخر ہم کب اپنے ملک کے مالک و مختار بنیں گے اور انگریزوں کی غلامی سے نجات پائیں گے۔ یہی آرزو جدوجہد آزادی کی محرک بنی ۔
وہ ایک یادگار دن تھا۔ جبکہ کانگریس کی جدوجہد شروع ہوئی۔ انگریزوں نے بظاہر تحریک آزادی کو کوئی اہمیت نہ دی‘ لیکن ان کی نکتہ شناس نگاہوں نے یہ تاڑ لیا کہ اس کا انجام ان کے زوال کا باعث ہوگا۔ انہوں نے اس تحریک کو ہر طرح سے کچلنے میں کوئی کسر اٹھانہ رکھی‘ لیکن وہ اس تحریک کو جتنا بھی کچلتے اور دباتے تھے‘ یہ اتنا ہی زور پکڑتی جاتی تھی۔ ہندوستان کے بہترین و قابل سپوت ‘ ممتاز معظم و لئیق و جمیل قائد اس تحریک سے وابستہ ہوگئے۔ ایک دن وہ بھی آیا کہ یہ تحریک اتنی طاقتور ہوگئی کہ انگریزوں کو ’’ہندوستان چھوڑ دو‘‘ کی آگاہی دی گئی۔
انگریزوں نے جدوجہد آزادی میں حصہ لینے والوں پر طرح طرح کے ظلم و ستم توڑے اوران کے حوصلوں کو پست ہمت کرنے کو بڑے بڑے لالچ دے کر اپنا بنانے کی بے سود کوشش شروع کی‘ لیکن ہمارے مصلحین و قائدین کی کوشش اتنی کمزور نہ پڑتی تھی کہ انگریزوں کے ظلم و ستم ان جانباز ان وطن کی قدم ایک لمحہ کے لئے بھی ڈگمگاتے‘ وہ برابر ان ستمگر انگریزوں کے مقابلے میں ڈٹے رہے۔ یہ جدوجہد آزادی برابر جاری رہی۔ سال پر سال گذر گئے‘ لیکن نہ عوام آزادی کے حصول کے مصمم ارادہ سے مایوس ہوئے نہ آزادی کے سپاہیوں کا حوصلہ پست ہوا۔ آزادی کا قافلہ رواں دواں آگے بڑھتا گیا۔ آزادی کی منزل جوں ‘ جوں قریب آتی گئی‘ آزادی کے ہزار ہا سورما ایک ایک کرکے ہمارے درمیان سے مادرِ وطن کی خاطر قربان ہوتے گئے۔ لیکن خوشی و مسرت اس بات کی ہے کہ مہاتما گاندھی جو کانگریس کے رہنما و مصلح اور آزادی کے علمبردار تھے۔ آزادی کا سورج ہوتا ہوا دیکھ سکے۔
۱۵؍اگست ۱۹۴۷ء کا دن آزادی ہند کے لئے مقدر تھا۔ انگریز باوجودکرو فر ہندوستان چھوڑنے پر مجبور ہوگئے اور ملک کی عنان حکومت عوام کے ہاتھوں میں آگئی۔ اب ہندوستان ایک آزاد ملک ہے اور تمام ہندوستانی ایک آزاد قومی حیثیت کے مالک ہیں۔ آزادی کا دن تھا کہ تقسیم ملک کے نتیجہ میں نسلی و خونریزی کے غمناک بادل اس پر چھا گئے ۔ تھوڑے ہی دن گذرے تھے کہ آزادی کا اعظم و فائق مصلح مہاتما گاندھی بدبخت گوڈسے کے ناپاک و ظالم ہاتھوں جاں بحق ہوگیا۔ اس طرح آزادی کی خوشی پھر ایک بار غم سے ہمکنار ہوگئی۔ آزادی کے بعد اس میں شک نہیں کہ ہم بڑے بڑے کٹھن مسائل سے دوچار رہے۔ جس سے آزادی کا مزا کرکرا ہوگیا اور ہم آج بھی آزادی حاصل کرکے برسہا برس گذر گئے‘ لیکن مصائب و آلام کا شکار ہیں اور اپنی آزادی کے تحفظ اور ملک کی سالمیت کے لئے مسلسل قربانیاں دے رہے ہیں۔ آزادی کے بعد آسودگی اور اطمینان قلب سے یک گونہ محروم ہیں۔ لیکن آزادی ایک ایسی نعمت عظمیٰ ہے ‘ جس کی ہم دل سے قدر کرتے ہیں اور کبھی نہیں چاہتے کہ آگے چل کر ہماری آزادی پھر ایک بار خطرات سے دوچار ہوجائے۔ یہ صحیح ہے کہ آزادی کو ہم جس طرح مصیبتوں پر مصیبتیں جھیل کر اور بڑی بڑی قربانیاں دے کر حاصل کی ‘ اس کی بقا اور تحفظ کے لئے بھی ہمیں اس طرح قربانیاں دینی ہو ں گی۔
آزادی کے بعد ہم خاموش ہو کر نہیں بیٹھ سکتے ‘کیونکہ ملک کی ترقی و خوشحالی کے لئے ہمیں زبردست تعمیری اور ترقیاتی سرگرمیاں جاری رکھنی ہیں۔ بین الاقوامی حالات بھی ہمارے ملک پر اثر انداز ہوئے اور ہمیں چین نصیب نہ ہوا۔
بہرحال ہمیں آزادی کے بعد ملک کی ترقی و خوشحالی کی جدوجہد کی دوسری مہم شروع کرنی پڑی ۔ آزادی کے بعد ہمیں جن حالات سے گذرنا پڑا۔ اس کا کسی کو آزادی سے پہلے اندازہ نہیں تھا۔ جو لوگ یہ سمجھتے تھے کہ آزادی کے بعد ہمیں ہر طرح کی آسودگی اور عیش و عشرت کی زندگی نصیب ہوگی۔ انہیں آزادی کے بعد یقیناًمایوسی ہوئی ‘ کیونکہ ہندوستان ہنوز ایک نازک اور عبوری دور سے گذررہا ہے۔ زبردستی ایمرجنسی کے باعث جن مظالم کاشکار ہوئے وہ لائق بیان نہیں اور کسی کو بھی آزادی سے پہلے اس قسم کے حالات رونما ہونے کا اندازہ نہ تھا۔
امید ہے کہ خوشحالی کی منزل پر پہنچنے کے لئے بہت جلد راہ مل جائے گی۔ پنچ سالہ منصوبوں کے ذریعہ ملک کو خوشحال بنانے کی جو کوشش ہورہی ہے‘ ہر چند اس کے امید افزاء اور خوشگوار نتائج برآمد ہورہے ہیں۔ اس میں شک نہیں اب بھی خوشحالی کی منزل بہت دور ہے۔ اگر اس دوران ہم اپنی موجودہ حکومت کا ہاتھ بٹاتے ہوئے اپنی جدوجہد کو ہم آہنگی ویک جہتی سے جاری رکھیں تو ہم بہت جلد اس منزل پر پہنچ جائیں گے۔
جیسا کہ ہم واقف ہوچکے ہیں کہ ملک کو برطانوی سامراج کے تسلط سے آزاد ہوکر کئی سال گذر چکے ہیں‘ قوموں کی زندگی میں یہ مدت مختصر بھی ہے اور دراز بھی چوں کہ آزادی وطن کے عوام کی ترقی و خوشحالی ہی آزاد ملک کا معیار ہوتی ہے۔ مختلف شعبوں میں ترقی کے باوجود معاشی آزادی و خوشحالی کی جدوجہد ہنوز باقی ہے۔
جواہرلال نہرو کی قیادت میں منصوبہ بند معیشت پر عمل پیرائی کے باوجود امیر و غریب کے فاصلے و فرق و امتیازات بڑھ رہے تھے۔ بیروزگاری اور قیمتوں میں اضافہ ایک نیا اقتصادی مسئلہ بنا۔یہ معاشی مسائل دن بہ دن پیچیدہ ہوتے جارہے ہیں۔ یوم آزادی ایک ایسی فضاء میں منارہے ہیں جو معاشی آزادی کے دیرینہ خواب کی یقیناًتکمیل کرے گی۔ ہمارے ملک نے افراط زر اور قیمتوں میں اضافہ کے باوجود حکومت کی مساعی جمیلہ کے باعث اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں اور چند سال قبل ’’آریہ بھٹ‘‘ کی خلائی پر واز چلائی ۔ دوڑمیں شریک دنیا کے بیشتر ممالک میں صرف ہمارا واحد اعزاز ہے۔ بمبئی‘ ہائی کے تیل کی دریافت ہمارے ماہرین اور ٹکنالوجسٹ کی تحقیق ہمارے تعلیم یافتہ طبقہ کی ریسرچ اور مہارت کا ارتقاء کا روشن نشان ہیں۔ لیکن تصویر کے اس روشن رخ کے باوجود معاشی انحطاط اور قومی ڈسپلن کی کمزوری ، دہشت گردی ، رشوت خوری ، سیاسی قائدین کا مختلف اسکینڈلس میں ملوث ہونا ایک بڑا خراب رخ رہاہے۔ ایمرجنسی کے دوران کچھ طاقتیں ترقی پسند طاقتوں اور سوشلزم کے لئے ہمارے نصب العین کو نقصان پہنچانے تیزی سے حرکت میں آئیں۔
ہمارے یوم آزادی کے مبارک اقبال مسعود موقع پر خوشی و فخر کی ایک بنیاد مستحکم ہوئی ہے اور وہ اقتصادی جرائم پر گہرا وار ہے ۔ پچھلے برسوں میں اسمگلنگ ‘ چور بازاری‘ ذخیرہ اندوزی اور منافع خوری ‘ مختلف طرح سے دہشت گردانہ حملے اور فسادات کا برپا ہونا اقتصادی جرم کی ایک نئی اصطلاح بن گئی ہے۔ اس میں اضافہ ہی ہورہا ہے جو ایک آزادانہ مقتدر جمہوری ملک کے لئے ناسور ہیں۔
بہرحال آج کے اس مقدس دن کو منانے ہوئے ہمیں اس بات کو ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ دیش کی آزادی کے لئے ہمارے ان گنت سورماؤں نے قربانی اور ایثار محض اس لئے کیا تھا کہ آزاد ملک میں عوام کوخوشحالی حاصل ہو۔ ان مجاہدین وطن کی ایثار و قربانی کے لئے ہمارا خراج یہی ہوسکتا ہے کہ ملک ترقی کرے۔ جمہوریت مستحکم رہے۔ کمپیوٹر اور سائنس کی روز بروز بڑھتی ہوئی ترقی کے اس دور میں ہمیں ترقی یافتہ ممالک کے شانہ بہ شانہ چلنے کے لیے سخت سے سخت محنت کی ضرورت ہے ۔ اس موقع پر قوم کو یہ عہد کرنا ہوگا کہ اب یہی لیل و نہار رہیں گے۔ یہی کرنیں اجالا بن جائیں گی اور معاشی آزادی و خوشحالی کی دیرینہ تمنا جلد سے جلد عملی حقیقت بن جائے گی۔
Md.Raziuddin Moazzam