شعرالہند ۔ میری اردو شاعری کی بیاض ۔ قسط 6
(شعراء کے دواوین اور سوانح سے کشید کیا ہواآب حیات )
نظیراکبرآبادیؔ
پروفیسرمحسن عثمانی ندوی
ای میل :
میری اردو شاعری کی بیاض قسط ۔ 5 ۔ کے لیے کلک کریں
نظیراکبرآبادیؔ (۱۷۴۰۔۱۸۳۰ء)
نظیر اکبر آبادی دہلی میں پیدا ہوئے ان کا اصلی نام ولی محمد تھا، اور ان کے والد کا نام محمد فاروق تھا، جب نادر شاہ نے دہلی پر حملہ کیا اور بعد میں احمد شاہ ابدالی کا حملہ ہوا اور دہلی شہر کے حالات نہایت خراب اور ابتر ہوگئے تو وہ اپنی نانی اور والدہ کے ساتھ آگرہ آگئے ، فارسی عربی اور خوش نویسی میں مہارت حاصل تھی، اس لئے کسب روزگار کے لئے ایک اسکول میں مدرس ہوگئے، اورپھر انھوں نے آگرہ میں مستقل سکونت اختیار کی، صوفی منش تھے، بے نیاز اور مستغنی قسم کے آدمی تھے،
مشہور ہے کہ انھوں نے دو لاکھ شعر کہے تھے، چونکہ وہ اپنے کلام کی حفاظت نہیں کرتے تھے اس لئے تلف ہوگئے ، صرف چھ ہزار اشعار ان کی کلیات میں موجود ہیں، وہ میر تقی میر اور مرزا محمد رفیع سودا کے ہم عصر تھے، نظیر اکبر آبادی سر کا راور دربار کے شاعر نہیں تھے، رؤسا محلات میں مشاعروں میں شریک نہیں ہوتے تھے، ان کی حیثیت ایک عوامی شاعر کی تھی، انھوں نے عوام میں رہ کر عوام کی زبان میں اور عوام کے لئے ہی شاعری کی ہے، چونکہ وہ روساء اور امراء کی مجلسوں سے کنارہ کش رہتے تھے، اس لئے ان کے کلام میں قصیدہ نام کی کوئی چیز نہیں ہے، انھوں نے نوے سال کی عمر پائی تھی، ان کی نظمیں آدمی نامہ ، بنجارہ نامہ، اور جاڑے اور برسات کے موسم کے بارے میں ہیں، انھوں نے غزلیں بھی کہیں ہیں، اور اچھی کہی ہیں، مثال کے طور پر غزل کے چند اشعار یہ ہیں:
دور سے آئے تھے ساقی سن کے مے خانہ کو ہم
بس ترستے ہی چلے افسوس پیمانے کو ہم
باغ میں لگتا نہیں صحراء سے گھبراتا ہے دل
اب کہاں لے جاکے بیٹھیں ایسے دیوانے کو ہم
نظیر اکبر آبادی کی ایک مشہور او ر پسندیدہ نظم آدمی نامہ ہے، جو سولہ بندوں پر مشتمل ہے، دو بند نمونہ کے طور پر پیش کئے جارہے ہیں:
مسجد بھی آدمی نے بنائی ہے یاں میاں
بنتے ہیں آدمی ہی امام اور خطبہ خواں
پڑھتے ہیں آدمی ہی قرآن اور نماز یاں
اور آدمی ہی ان کی چراتے ہیں جوتیاں
جو ان کو تاڑتا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
اشراف اور کمینہ سے لے شاہ تا وزیر
ہیں آدمی ہی صاحب عزت بھی اور حقیر
یاں آدمی مرید ہے اور آدمی ہی پیر
اچھا بھی آدمی ہی کہاتا ہے اے نظیر
اور سب میں جو برا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
انھوں نے انسانی زندگی کو بنجارہ کی زندگی سے تشبیہ دی ہے، ایسا بنجارہ جس کا کہیں مستقل ٹھکانا نہیں ، وہ بے سروسامانی کے عالم میں زندگی گذارتا ہے، یہ رونقیں صرف ایک دم تک ہیں، جب دم نکل جاتا ہے، تو وہ عزیز جن کے لئے سب ٹھاٹ جمع کئے تھے وہ بھی پاس نہیں آتے ، دیکھئے نظیر اکبر آبادی نے اس کا نقشہ کس طرح کھینچا ہے
جب چلتے چلتے رستے میں یہ گون تری ڈھل جاوے گی
ایک بدھیا تیر ی مٹی پر پھر گھاس نہ چرنے آئیگی
یہ کھیپ جو تو نے لادی ہے سب حصوں میں بٹ جائیگی
دھی پوت جنوائی بٹیا کیا ! بنجارن پاس نہ آئیگی
سب ٹھاٹ پڑ ا رہ جاوے کا جب لاد چلے گا بنجارہ
شیخ غلام حمدانی مصحفیؔ (۱۷۵۰۔ ۱۸۲۴ء)
مصحفیؔ کی پیدائش اتر پریش کے ایک شہر امروہہ میں ہوئی، انھوں نے دہلی میں تعلیم حاصل کی، پھر بودو باش کیلئے لکھنؤ آگئے ، دہلی سے لکھنؤ جو شعراء آئے ان کی قیام گاہ یا پنا ہ گاہ مرزا سلیمان شکوہ کی حویلی تھی، مصحفی بھی وہیں رہنے لگے، اور پچیس روپیہ وظیفہ مقرر ہوگیا، لکھنؤ میں اس زمانے میں میر محمد تقی میر بھی موجو د تھے، جو لکھنؤ کی مروجہ شاعری سے متأثر ہوئے بغیر اپنی علمی قابلیت اور زبان دانی کا سکہ جما چکے تھے، لکھنؤ اور دہلی دبستانوں کا امتزاج مصحفی کی شاعری میں ملتا ہے، وہ نر م مدہم اور مبہم نقوش اور تصورات کے شاعر ہیں، ان کا ذہن جو ش اور شدت جذبات کی ترجمانی نہیں کرتا، ان کی شاعری کا ماحول دھندلا دھندلا اور خوابناک ہے، ان کے بہت سے اشعار بہت مقبول اور زبان زد عام وخاص ہیں، جیسے یہ اشعار :
مصحفیؔ ہم تو یہ سمجھے تھے ہوگا کوئی زخم
تیرے دل میں بہت کام رفو کا نکلا
چلی بھی جرس غنچہ کی صدا پہ نسیم
کہیں تو قافلہ نوبہار ٹھیرے گا
کچھ تو ہوتے ہیں محبت میں جنوں کے آثار
اور کچھ لوگ بھی دیوانہ بنا دیتے ہیں
تیرے کوچے اس بہانے ہمیں دن سے رات کرنا
کبھی اس سے بات کرنا کبھی اس سے بات کرنا
کھبی در کو تک کے کھڑے رہے کبھی آہ بھر کے چلے گئے
تیر ے کوچے میں جوہم آئے بھی تو ٹھہر ٹھہر کے چلے گئے
حسرت پہ اس مسافر بے کس کی روئے
جو تھک کے بیٹھ جاتا ہو منزل کے سامنے
تذکرے کی کتاب سے معلوم ہوتا ہے کہ مصحفیؔ کسی کے شاگر د نہیں تھے، انھیں کتابوں کے مطالعہ کا شوق تھا، ادب کی کتابیں او رشعراء کے تذکرے اور مذہبی لٹریچر کا وہ مطالعہ کیا کرتے تھے، کسی کے پاس کوئی اہم کتاب ہو تی اور وہ پڑھنے کے لئے نہیں دیتا تو اس کے گھر پر جاکر کتاب کا مطالعہ کرتے، مصحفی کی شاعر ی میں بے حد نفاست پسندی ہے، ان کے یہاں وہ رنگ رلیاں نہیں ہیں جس کے نقیب انشاء اور جرات ہوا کرتے تھے، لیکن یہ قسمت کی قلا بازی تھی کہ مصحفی کی مالی مدد نواب سلیمان شکوہ نے پچیس رپئے سے گھٹا کر پانچ روپئے کردی، وہ عسرت کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوئے، نواب سلیمان شکوہ نے مصحفی کی جگہ پر انشاء کو استاذ مقرر کردیا تھا، کیوں کہ اس وقت انشاء کا طوطی بو ل رہاتھا، لکھنؤ میں انشاء اور مصحفی کے درمیان مقابلہ آرائی کی بساط بچھا دی گئی تھی، دونوں کے شاگرتھے، اور مقابلہ یاوہ گوئی اور ہر زہ سرائی میں ہوتا تھا، یہ اردو شاعری کا سیاہ باب ہے، اور باہمی تہمت طرازی اور عیب جوئی میں فحش باتیں بھی در آئی ہیں، مقابلہ تو لکھنؤ میں ناسخ اور آتش کے درمیان بھی ہوا کرتا تھا، لیکن وہ ادبی اور سنجیدہ مقابلہ تھا جس اردو زبان وادب کو فروغ ہوا لیکن مصحفی اور انشاء کے درمیان مقابلہ میں ہرزہ سرائی اور سفلہ پن تھا، جو افسوناک اور اندوہناک تھا، مصحفیؔ نے عمر عزیز کے چوہتر برس گذار نے بعد آخرت کے لئے رخت سفر باندھا اور ا پنے پیچھے شاگردوں اور مداحوں کی کثیر تعداد چھوڑی۔