ہماری تخلیق کا جواز کیا ہے؟
ڈاکٹرمحی الدین حبیبی
حیدرآباد ۔ دکن
موبائل : 08978155985
ہماری تخلیق کا جواز ساری دنیا ہی نہیں کل کائنات کی تسخیر ہے۔ آج کا انسان شاید مادّی ترقی کی معراج پر فائز ہے۔ علمِ حیاتیات ہو کہ طبعیات، علمِ معاشیات ہو کہ مواصلات، غرض ہر علم و فن میں بے مثال اور حیرتناک کارنامے نظر آتے ہیں۔ انسان نے آسمان پر کمندیں پھینک دیں، چاند پر قدم رکھ چکا ہے، مریخ کو کھنگال رہا ہے، لیکن انسان کی یہ مادّی ترقی ہمارے لیے کوئی تعجب کی بات نہیں۔
اللہ ربّ العالمین کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ : ’’(اے انسانو!) ہماری عبادت کرو، شرک نہ کرو اور ہم کو پہچانو‘‘۔ یہی ہماری تخلیق کا مقصد ہے، بلکہ اسوۂ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام، صالحین اور اولیائے کاملین کے مطابق آگے کا مقامِ عرفان ’’لیعرفون‘‘ بھی ہے۔ معرفتِ الٰہی کا اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی ذات کا عرفان، عبودیت کے مرحلوں سے گزرنے کے بعد ہی آتا ہے، کیوں کہ ہمیں اپنے رسول رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلہ سے یہ پیغام پہنچا دیا گیا کہ ’’ہم قریب ہیں، رگِ جاں سے بھی زیادہ اقرب!‘‘ لیکن شرطِ کامیابی یہ قرار دی گئی کہ اسوۂ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم پر چلیں ، سوز عشق نبی سے سرشار ہوکر ’’فوزاً عظیما‘‘ کے حقدار بنیں، پھر یہ بھی کہا گیا کہ ’’صالحین اور خاشعین کی صحبت اختیار کرو‘‘ اور بالاتباع ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اچھے ہم نشین کی صحبت کی تاکید بھی آئی ہے۔ یہ سب اسی وقت ہوسکتا ہے جب ہم ’’کہہ دو کہ میری نماز، میری قربانی، میرا جینا، میرا مرنا سب اللہ ربّ العالمین کے لیے ہے‘‘ یا پھر ’’اس کے نام کی تسبیح کرو اور سب سے ٹوٹ کر اسی کے ہوجائے‘‘ والے مقامات پر فائز ہوں۔
سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی کے باوجود ’’عرفانِ الٰہی‘‘ یا ’’معرفتِ الٰہی‘‘ کی ضرورت ہمیشہ محسوس کی جاتی رہی ہے کہ انسانی تاریخ بلکہ ماقبل تاریخ کے ادوار بھی ایک باطنی نظام سے ہمیشہ مستفید و مستفیض ہوتے رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ پیغمبر اوّل حضرت آدم علیہ السلام کے پیام ربانی سے حضور ختم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم تک ہر قوم اور ہر علاقہ کے لیے ہدایاتِ الٰہیہ کا متواتر نزول ہوتا رہا ہے۔ قرآن حکیم نے کبھی سائنسی و شماریاتی بنیادیں تلاش نہیں کی، بلکہ وہ آیات حکمت و دانش کے ذریعہ اولی الالباب کو للکارتا آیا ہے کہ تم آفاق و انفس میں ہماری واضح نشانیوں پر ایمان لاؤ، تاکہ معرفتِ حق کی سبیل نکل آئے۔ ویسے اب سائنس خود مذہبی بنیادیں تلاش کررہی ہے۔ بیسویں صدی کا سب سے بڑا سائنسداں آئنسٹائن نے نظریۂ اضافت پیش کرکے ہلچل پیدا کردی تھی اور یہ اعتراف کیا تھا کہ کائنات کے قوانین میں ایک مافوق الانسان روح کارفرما ہے۔
طبعی علوم کا منفی پہلو یہ ہے کہ جب مادّی دنیا کی گتھیوں کو سلجھایا جاتا ہے تو اس سے کہیں زیادہ پیچیدگیاں سامنے آتی ہیں۔ بہت سارے حقائق سائنسی نقطۂ نظر سے لاینحل نظر آتے ہیں۔ انسانی علم کی بے بسی اور بے بضاعتی کھل کر ظاہر ہوتی ہے اور ایمان لانا پڑتا ہے کہ ’’ان العلم عند اللہ‘‘ اس لیے شاہراہِ اسلام اور طریق مستقیم ہی ہمیں باطنی دنیا سے بھی ہم آہنگ کرتا ہے۔ اسی باطنی نظام کو اصطلاحاً ’’تصوف‘‘ کہا گیا ہے، حالانکہ یہ طریقہ قرآن و سنت سے ماخوذ و منصوص ہے، جس کو طریقت بھی کہتے ہیں، جو حقیقت (عرفان ذاتِ الٰہیہ) کی جانب منازل طے کرواتا ہے۔ ’’و علمنا من لدنا علما‘‘ کی تفسیر میں علماء نے ’’علمِ لدنی‘‘ کی طرف اشارہ کیا ہے کہ جس کی تفہیم و تشریح اور رشد و ہدایت اولیاء اور عرفان کی صحبت کیمیاء اثر ہی سے میسر آسکتی ہے، تاکہ تعلق باللہ، اخلاصِ عمل، تزکیۂ نفس اور تجلیۂ روح سے ہمکنار ہوں۔ یہی وہ منزل ہے جہاں ایمان، ایقان کا درجہ حاصل کرلیتاہے اور یہ درجہ یونہی حاصل نہیں ہوتا ۔ جس طرح سائنس تجرباتی توثیق کے بعد نتیجہ کا اعلان کرتی ہے، یہاں بھی مجاہدات، تزکیۂ نفس اور تطہیر اخلاق کے مراحل و منازل کے کرنے پڑتے ہیں، اسی لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جہادِ نفس کو جہادِ اکبر قرار دیا ہے۔
شکمِ مادر سے باہر آنے کے بعد جس TRIGGER کی بات کی گئی ہے، وہ تخلیق آدم کی الوہی تخلیقیت کا مظہر ، جو ’’کن فیکون‘‘ کے مخفی کوڈ سے تمام ذولیاتی نظام کو تحریک دیتا چلا آرہا ہے۔ وہ بھی ایک مدتِ معینہ، یعنی ’’اجل مسمیٰ‘‘ تک نہیں کہا جاسکتا کہ یہ نومولود کب تک بقیدِ حیات رہے گا اور اگر عمر پائے گا بھی تو اس کا بھی تعین نہیں کہ سمعی، لسانی، بصری اور شعوری خصوصیات سے بھی متصف ہوگا کہ نہیں؟ ویسے خالق آدم اور کائنات کے افضال و اکرام کے تحت ’’الست بربکم‘‘ (کیا میں تمہارا رب نہیں؟) اور ’’قالوا بلی‘‘ (کیوں نہیں!) کا عہد واثق گویا ربوبیتِ الٰہیہ کا اثبات اور عبودیت کا اعتراف ابتدائے آفرینش ہی سے انسان میں موجود ہے، جیسا کہ مفہومِ حدیث کے مطابق ’’ہر بچہ مسلمان ہی پیدا ہوتا ہے، تاہم والدین اسے یہودی و نصرانی بنا دیتے ہیں۔‘‘
میثاق عالم ارواح میں تمام نسل آدم کی ’’توثیق توحید‘‘ ہی معبودیت کے سامنے عبودیت کا سرتسلیم خم کرنا ہی انسانی تخلیق کا جواز اور نصب العین ہے۔ یہ اسی ازلی اور الوہی سرشت کی تاثیر ہے کہ نسل انسانی بلالحاظ زماں و مکاں حق سبحانہ و تعالیٰ کی ربوبیتِ عامہ کی قائل رہی ہے۔
انسان کی روحانی ترقی کا مقصد اور جواز اطاعتِ الٰہی و رسول اور اتباعِ اصحاب نجومِ دین اور صالحین کے علاوہ کچھ اور نہیں۔ مادی مسائل تو ترک کرکے تاریک الدینا ہوکر رہبانیت اختیار کرنے کو خود قرآن و سنت نے روکا ہے، کیوں کہ کرۂ ارض پر انسان کو بھیجا گیا ، فرشتوں کو نہیں۔ فرشتوں کے خصائص کے اعتبار سے ان کی ہدایات کا نظام ہمارے ادراک کے ماوراء ہے۔ صراط مستقیم تو یہی ہے کہ احکامِ الٰہی کے تحت دین و دنیا میں توافق و تطابق پیدا کیا جائے، جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’فعند اللّٰہ ثواب الدنیا و الاٰخرۃ۔‘‘ (النساء)
اسلامی تعلیمات نہ شکست خوردہ ذہنیت پیدا کرتی ہیں، نہ جمود و خمود۔ ایک طرف یہ دنیا پرستی سے روکتی ہے تو دوسری طرف ترکِ دنیا و رہبانیت سے منع کرتی ہے۔ ایک طرف وہ حبِ دنیا سے روکتی ہے تو دوسری جانب دین و دنیا میں توافق پیدا کرنے کی تاکید کرتی ہے۔ الحمد للہ ! اسلام ایک ایسی سرزمین ہے ، جہاں کی آب و ہوا معتدل بھی ہے اور خوشگوار بھی۔ اسی طرح انسان کے روحانی ارتقاء کا نصب العین یعنی مخلصانہ عبودیت کی روحانی تشنگی ہمیشہ سیرابی کی منتظر رہی ہے۔ انسانی فطرت میں خیر و شر کی آمیزش کی گئی ہے، جو شر کو مغلوب کرے گا، وہی خیر کے حسنات سے مستفید ہوگا اور تزکیہ، تصفیہ اور تجلیۂ قلب سب کچھ حاصل ہوجائے گا۔ واضح رہے کہ معبودیت ، عبادت کا تقاضہ کرتی ہے، جس میں تمام فرائض، واجبات ، سنن اور امر و نواہی ، نماز ، روزہ ، حج ، زکوٰۃ، قربانی وغیرہ شامل ہیں، جب کہ ربوبیت کے روبرو توبہ ، مغفرت، دعا، توکل ، صبر و شکر، خوف و رجا، ذکر ، مراقبہ و مشاہدہ کی وساطت سے ہم استعانت کے آرزومند ہوتے ہیں۔
ہماری یہی بندگی تعلق باللہ یعنی حقوق اللہ اور حقوق العباد کے تحت ایک عالمی نظام کو نافذ کرنے کے امکانات کو بھی روشن کرتی ہے۔ عالمی اخوت کا اسلامی نظریہ ’’اعلامیہ انسانی حقوق کی دفعہ ایک‘‘ آج سے ۱۵۰۰ سال پہلے پیش کردیا گیا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی تحمید و تمجید اور حاکمیت و ربوبیت و معبودی کے سامنے تمام نسلی ، قومی، لسانی اور گروہی تنازعات کو وحدتِ انسانیت کا درس دیا گیا، جس کی تفصیل ہمیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبۂ حجۃ الوداع میں ملتی ہے۔
خالق کائنات اپنے اس شاہکار کو ضلالت و گمراہی میں ضائع کرنا نہیں چاہتا کہ وہ مقام و مرتبہ کے لحاظ ’’خلیفۃ فی الارض‘‘ ، اکرام و اعزاز کے اعتبار سے ’’اشرف المخلوقات‘‘ اور تخلیق کی رو سے ’’احسن تقویم‘‘ کے سانچے میں ڈھالا گیا ہے۔ ابتدائے آفرینش ہی سیہر گمراہی کے وقت ، ہر جگہ اور ہر قوم میں رہبری و رہنمائی کی گئی ۔ یہ دعوتِ حق جس طرح پچھلی صدیوں میں قائم تھی، آج بھی اپنی کاملیت ، رضائے الٰہی اور اتمامِ نعمت کے اعتبار سے اس نئے عہد ہزار سالہ ہوکر آئندہ صدیاں، تاقیامت دائم و قائم ہے کہ ہر وقت، ہر آن، ہر لمحہ ’’اسلام‘‘ انسانی گروہوں کے لیے رہنما و رہبر ہوگا، جو حق و صداقت کی طرف دعوتِ تامہ منشائے الٰہی کے مطابق دیتا رہے گا اور یہ ’’نوید علم و عرفان‘‘ انسانی مسائل کا حل ڈھونڈتی رہے گی۔ دین اسلام بہت بڑی نعمت ہے، جو ہم کو میسر ہے، محض مانوسیت اور معنویت کے تحت ہم تساہل اور تجاہل عارفانہ میں گرفتار ہیں، حالانکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’جس کسی پر نعمت کا نزول ہو اس کو چاہیے کہ شکر ادا کرے۔‘‘