اردوکی ’’ورجینا وولف‘‘ قرۃ العین حیدر
ڈاکٹر تہمینہ عباس
کراچی
ای میل :
قرۃ العین حیدر 20 جنوری1926ء کو علی گڑھ میں پیدا ہوئیں انھوں نے زندگی کا ابتدائی حصہ پورٹ بلیئر (جزائر انڈیمان ، نکوبار) اور مشرق میں گزارا۔دہردون کانونٹ اور ازابیلا تھوبرن کالج ، لکھنؤ یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں ایم اے کیا۔قرۃ العین حیدر کا گھرانی روشن خیال اور اعلی تعلیم یافتہ تھا۔قرۃ العین حیدر نے چھ سال کی عمر میں پہلی کہانی تحریر کی ۔ان کے والد سجاد حیدر یلدرم اور نذر سجاد ظہیر صاحب طرز ادیب اور اولین خاتون افسانہ نگار تھیں ۔قرۃ العین حیدر اردو ادب میں عینی آپا کے نام سے معروف ہیں۔
انھوں نے اس وقت ناول نگاری شروع کی جب اردو ادب شاعری کے زیر اثر تھا ۔ان کا خاندان نسلوں سے تعلیم یافتہ تھا۔گھر میں علمی اور ادبی ماحول تھا ۔نیز ان کے گھرانے پر مغربی تہذیب و تمدن کے اثرات بھی نمایا ں تھے۔جس کے مثبت اثرات قرۃ العین حیدر نے بھی قبول کیے۔ان کا گھرانہ ماڈرن بھی تھا اور پرانی اقدار کی پاسداری کرنے والا بھی ، اس زمانے میں بھی اس گھرانے کی خواتین اعلی تعلیم یافتہ تھیں۔ان کی شخصیت پراپنے گھرانے کے گہرے اثرات نظر آتے ہیں۔یہ ہی وجہ ہے کہ ان کی کہانیاں ، ناول، اور دیگر تحریریں اسی لکھنؤ ، اپنے خاندان ،گھریلو ماحول، فضا اور اپنی ذات کے گرد گھومتی ہیں۔
ان کی مشہور تصانیف ،(ناول) میرے بھی صنم خانے، سفینۂ غم دل، آگ کا دریا، آخر شب کے ہمسفر، گردش رنگ چمن، چاندنی بیگم، کارجہاں دراز ہے،(افسانوں کے مجموعے)ستاروں سے آگے، شیشہ کا دل، ہیں۔
قرۃ العین حیدر نے 1956ء میں قیام پاکستان کے دوران اپنا مشہور ناول ’’ آگ کا دریا ‘‘ تحریر کیا ۔اس ناول کی اشاعت کے بعد ان کو بے شمار اعتراضات،مخالفتوں اور طعن و تشنیع کا سامنا کرنا پڑا۔’’آگ کا دریا‘‘ پڑھتے ہی انسانی ذہن جگر مراد آبادی کے اس مشہور صرعے کی طرف چلا جا تا ہے۔
’’ایک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جا نا ہے‘‘
قرۃ العین حیدر نے ’’آگ کا دریا‘‘ پر کیے گئے اعتراضات کا جواب ’’ کارجہاں دراز ہے‘‘ میں دیا ہے۔انھیں پاکستان میں قیام اور ملازمت کے دوران لوگوں کے عجیب و غریب رویے کا سامنا کرنا پڑا۔کسی نے انھیں ہندوستان نواز کہا کسی نے انھیں دیوی جی کا خطاب دیا۔پاکستان میں ملازمت کے دوران بھی ناانصافیوں کا سامنا کرنا پڑا۔جن سے دلبرداشتہ ہوکر قرۃ العین حیدر واپس ہندوستان چلی گئیں۔قرۃ العین حیدر کی ذہنی سطح بلند تھی۔وہ آگے تک سوچنے کی صلاحیت رکھتی تھیں ۔شمیم حنفی کا قرۃ العین حیدر کے حوالے سے کہنا ہے کہ ان کی پرانی کہانیوں پر نظر ڈالی جائے تو اس بات کا احساس ہوتاہے کہ ہمارے آج کے لکھنے والے آج جہا ں پہنچے ہیں وہ ان منزلوں تک اپنے ابتدائی زمانے میں پہنچ چکی تھیں ۔
قرۃ العین حیدر ہر حوالے سے ایک منفرد شخصیت تھیں۔بیسویں صدی کی نوجوان لکھنے والی خواتین میں قرۃ العین حیدر کی شخصیت زیادہ باوقار اور نمایاں تھی۔خواہ یہ وقار ان کے بالائی طبقے سے تعلق رکھنے کی وجہ سے ہو۔انھوں نے حق تلفی، ناانصافی، سماجی ناز برداری، عدم مساوات، امن و آشتی، مشترکہ کلچر کی تباہی،اخلاقی زوال اور انسانیت کے دکھ کو نہ صرف محسوس کیا بلکہ اپنی تحریروں میں ان حقائق کا پر زور اظہار بھی کیا۔اور انسانی اقدار کی تباہی پر ماتم کنا ں بھی رہیں۔قرۃ العین حیدر کو ان کی علمی اور ادبی خدمات کے سلسلے میں مختلف علمی اور ادبی انعامات و ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔
1967میں ’’پت جھڑ کی آواز‘‘ پہ ساہتیا علمی ایوارڈ ملا۔1969ء میں انھیں تراجم کے سلسلے میں ’’ سویت لینڈ نہروایوارڈ‘‘ سے نوازا گیا۔1982 ء میں مجموعی ادبی خدمات کے سلسلے میں اتر پردیش اردو اکیڈمی نے انھیں اپنے سب سے بڑے اعزاز سے نوازا۔1984ء میں ’’پدم شیریں‘‘ ایوارڈ ملا۔1990ء میں بھارت کا سب سے بڑا علمی اور ادبی ایوارڈ و اعزاز’’گیان پیٹھ ایوارڈ‘‘ سے نوازا گیا۔1988ء میں ’’ اقبال سمان‘‘ اور 1994ء میں بہادر شاہ ظفر ایوارڈ سے نوازا گیا۔
قرۃ العین حیدر 1949ء میں بھارت سے پاکستا ن آگئی تھیں۔1950ء میں وہ پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ میں پبلک انفارمیشن آفیسر تعینات رہیں۔کچھ عرصے ایئر لائن سے بھی وابستہ رہیں۔اسی دوران لندن میں پاکستانی ہائر کمیشن میں پریس آتاشی کی خدمات سر انجام دیں۔ڈاکیومینٹری فلموں کی پر ڈیو سراورپاکستان کواٹر لیگ کی ایڈیٹر بھی رہیں۔اسی دوران ’’ آگ کا دریا‘‘ منظر عاپر آگیا اور عینی آپا 1981ء میں واپس بھارت چلی گئیں۔بھارت میں اردو ادب کی خدمت کے عوض متعدد اعزازات حاصل کیے۔
اردو ادب کی یہ نامور مصنفہ اور ’’آگ کا دریا ‘‘ جیسے ناقابل فراموش ناول کی تخلیق کار کیلاش ہاسپٹل نوئیڈا میں ایک ماہ کی مدت سے زیادہ زیر علاج رہیں اور بالاخر 21اگست 2007ء کی درمیانی شب اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں۔
Dr.Tahmina Abbas