کارخانہ قدرت کے سات حیوانی عجوبے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ڈاکٹرعزیزاحمد عرسی

Share

azizکارخانہ قدرت کے سات حیوانی عجوبے

ڈاکٹرعزیزاحمد عرسی
ورنگل ۔ تلنگانہ
ای میل :

اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ اس کائنات کی تمام اشیاء اپنے خالق کی بے پناہ قوت و علم کا مظاہرہ کرتی ہیں اس کا اظہار قرآن کی کئی آیات سے ہوتا ہے جو مستقلاً اس بات کی دلالت کرتی ہیں کہ خالق کی پیدا کردہ ہر شئے اس کی قوت کی شاہد ہے ۔ہم ایسے ماحول میں رہتے ہیں جہاں انسانی استدلال منطق اور سائنس کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔اسی لئے کئی عقلیت پسند قرآن میں پیش کردہ شواہدات اور اس کے منطقی انداز تفکر سے متاثر ہوکر اس کو سائنسی فکر رکھنے والی الہامی کتاب قرار دیتے ہیں۔جب کہ قرآن سائنس کی کتاب نہیں ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس کی زائد از چھ ہزار آیات میں سے تقریباً ایک ہزار آیات سائنسی حقائق کا اظہار کرتی ہیں۔

جیسے ’’ یہ سب آسمان اور زمین باہم ملے ہوئے تھے پھر ہم نے انہیں جدا کیا (الانبیاء)۔ موجودہ دور میں پیش کردہ انفجار عظیم کا نظریہ یعنی Big Bang کا نظریہ اسی آیت کی تصدیق کرتا ہے۔ میرا احساس ہے کہ کوئی بھی سائنسی نظریہ قرآن میں موجود اس مفہوم کی آیات سے اختلاف نہیں کرسکتا بشرطیکہ تجربہ مکمل صحت کے ساتھ انجام دیا جائے۔دور حاضر کے سائنسدانوں نے کائنات کی تخلیق کے وقت ایک د ھویں کے امکانا ت کا اظہار کیا ہے جس کے متعلق قرآن نے آج سے ساڑھے چودہ سو سال قبل بتادیا تھا کہ ’’پھر وہ آسمان کی طرف متوجہہ ہوا جو اس وقت محض دھواں تھا‘‘(حٰم السجدہ)۔ذیل میں پیش کردہ دو آیات کے ترجمے میں لفظ ’پرونا‘ اور ’لپیٹنا‘ استعمال ہوئے ہیں جو زمین کے گول ہونے کی طرف اشارہ کرتی ہیں کیونکہ اگر زمین گول نہ ہوتی تو دن یکایک نکل آتا اور رات اچانک نمودار ہوتی ’’کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ رات کو دن میں پروتا ہوا لے آتا ہے اور دن کو رات میں‘‘۔(لقمٰن)۔ ’’ وہی دن پر رات کو اور رات پر دن کو لپیٹتا ہے اسی نے سورج اور چاند اس طرح مسخر کر رکھا ہے کہ ہر ایک ایک وقت مقررتک چلے جارہا ہے ‘‘۔(الزمر) ۔علاوہ اس کے آج کے دور میں جدید آلات نے یہ ممکن کیا کہ سمندر کی گہرائی میں اندھیرے کے بارے میں دنیا کو بتا سکیں ورنہ انسان کچھ عرصہ قبل تک سمندر کی گہرائی میں اندھیرے کے وجود سے ناواقف تھا جبکہ قرآن نے ساڑھے چودہ سو سال بتایا کہ ’’گہرے سمندر میں اندھیرا ہے کہ اوپر ایک موج چھائی ہوئی ہے اس کے اوپر ایک اور موج، اور اس کے اوپر بادل، تاریکی پر تاریکی مسلط ہے آدمی اپنا ہاتھ نکالے تو اسے بھی نہ دیکھ پائے ‘‘(النور)۔1925میں امریکی ماہر فلکیات Edvin Hubbleنے تجربات کے ذریعہ یہ بتایا کہ کائنات مزید وسعت پارہی ہے، جس کا اظہار قرآن میں بہت
پہلے آچکا کہ’’ آسمان کو ہم نے اپنے زور سے بنایا اور ہم اسے وسیع کرکے پھیلاتے ہیں‘‘ (الذٰریت) ۔ اسی طرح ساڑھے چودہ سو سال قبل یہ بھی بتا دیا گیا کہ’’ پانی سے ہر زندہ چیز پیدا کی گئی‘‘ (الانبیاء)’’ پانی سے ایک بشر پیدا کیا‘‘(الفرقان) ’’اللہ نے ہر جاندار کو ایک طرح کے پانی سے پیدا کیا‘‘ (النور)۔علاوہ ازیں قرآن میں کئی مقامات جیسے یٰسین، النحل، النمل، فاطر، کہف، الغاشیہ،العنکبوت،الانعام وغیرہ میںیہ بتایا گیا ہے کہ جانوروں سے انسان کو کیا فائدہ حاصل ہوتا ہے۔میں نے اس کتاب میں کوشش کی ہے کہ جانوروں کی صفات کو اس انداز میں بیان کروں جس سے قاری میں خدا شناسی کاجوہرپیدا ہواور انسان تمام چیزوں کا جائزہ لینے کے بعد اللہ کی صناعی کی تعریف کرسکے ۔ کیونکہ اسلام اور سائنس ایک دوسرے کی ضد نہیں ہیں اور نہ ہی مبنی بر صحت جدیدسائنسی تحقیقات قرآن سے متصادم ہیں۔اس دنیا میں جانوروں کا بھی حق ہے حدیث میں ارشاد ہے ’’جو اللہ کی مخلوق پر رحم کرے گا خدا اس پر رحم کرے گا‘‘۔ جانوروں کے صفات بتا کر لوگوں کے قلوب کو گرمانا کوئی نیا طریقہ نہیں ہے بلکہ ہم کو تاریخ میں حضرت علیؓ کا ایک قول ملتا ہے جس میں انہوں نے ارشاد فرمایا کہ ’’ جانوروں کی زندگیوں سے سیکھو ،شہد کی مکھی سے سبق لو کہ وہ اپنی گرمی سے کسی بھی چیز کی صفائی کرتی ہے، جس چیز کو خارج کرتی ہے اس میں مٹھاس ہوتی ہے ا ور جہاں بیٹھتی ہے اس کو برباد نہیں کرتی۔ ‘‘اس سے معلوم ہوا کہ سائنس کی مددسے انسانی زندگی کے مسائل کو سلجھانے کی کوشش مستحسن ہے لیکن انسان کو ہر حال میں مذہب کے دامن کو تھامے رکھنا ہوگا۔
میں یہ مضمون ہندسہ ’’سات‘‘ کے نام معنون کرنا چاہتا ہوں ، نجانے کیوں مجھے حرف سات میں ایک پراسراریت نظر آتی ہے اور دل غیر محسوس طریقے سے اس جانب کھنچنے لگتا ہے، میں اس کو کوئی نام نہیں دے سکتا اور نہ اس کی کوئی وجہہ بیان کرسکتا ہوں، یہی بے وجہی ہوگی کہ اس پراسرار حرف سات نے مجھ سے ’’سات عجوبے‘‘ نامی ضخیم کتاب لکھوائی ہے،اور آج ایک مضمون ’’سات حیوانی عجوبے‘‘ لکھوارہی ہے۔
اس بات سے قطع نظر کہ دنیا میں رنگ سات ہیں جوہر میں سات مدار ہیں، طواف اور سعی میں سات چکر ہیں، جمرات میں سات کنکر مارے جاتے ہیں، سورۃ فاتحہ کی سات آیات ہیں،مجھے لفظ سات کی پراسرایت کی تہوں میں کوئی اور ہی راز چھپا نظر آتا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اس راز کی گہرائی تک ہم نہیں پہنچ پارہے ہیں ، ورنہ قرآن میں بار بار اس حرف کا تذکرہ نہ ہوتا۔میں یہاں دو ایک مثالوں کے ذریعہ اپنی بات واضح کرنے کوشش کروں گا ، اگر ہم آسمانوں کی تعداد کا تذکرہ قرآن میں دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ سات آسمان ہیں ، اور یہ بڑی عجیب بات ہے کہ سات آسمانوں کی تخلیق کا تذکرہ اللہ نے قرآن میں سات مرتبہ کیا ہے ۔جیسے (1) سورہ الطارق آیت نمبر ۱۲ میں ذکر ہے اللہ الذی خلق سبع سماوات و من الارض مثلھن، ترجمہ : اللہ ہی وہ ہے جس ساتوں آسمانوں کو پیدا کیا اور زمینوں میں بھی ویسی ہی زمینیں بنائیں۔(2) سورہ البقرہ آیت نمبر ۲۹ ، ثم استویٰ الی اسماء فسواہن سبع سماوات ترجمہ : اس کے بعد اس نے آسمان کا رخ کیا تو سات مستحکم آسمان بنادئے ۔ (3) سورہ النبا آیت نمبر ۲۴ ، و بنینا فوقکم سبعاً شدادا۔ ترجمہ : اور تمہارے اوپر سات آسمان قائم کئے۔(4) سور فصلٰت آیت نمبر ۱۲، فقضا ھن سبع سماوات فی یومین۔ ترجمہ: تب اس نے دو دن کے اندر سات آسمان بنادئے۔ (5) سورہ نوح آیت نمبر ۱۵ ، الم تروا کیف خلق اللہ سبع سماوات طباقا ترجمہ : کیا تم نے نہیں دیکھا کہ خدا نے کس طرح تہہ بہ تہہ سات آسمان بنائے ہیں ۔ (6) ۔سورہ الملک آیت نمبر ۳ ، الذی خلق سبع سماوات طباقا ترجمہ : اسی نے سات آسمان تہ بہ تہ پیدا کئے ۔ (7) سورہ المومنون آیت نمبر ۱۷ میں ذکر ہے ولقد خلقنا فوقکم سبع طرائق وما کنا عن الخلق غافلین۔ ترجمہ : اور ہم نے تمہارے اوپر سات آسمان پیدا کئے اور ہم خلقت سے غافل نہیں ہیں۔ (المومنون ۔ ۱۷) ۔قرآن میں سات آسمانوں کا تذکرہ کئی مقامات پر موجود ہے لیکن سات آسمانوں کی تخلیق کا صرف سات مرتبہ ہی تذکرہ ہے جو محض اتفاق نہیں ہے بلکہ میری نظر میں یہ خدا کے خالق ہونے کی نشانی ہے جو اسی طرح مختلف انداز میں جابجا ظاہر ہوتی رہتی ہے ۔علاوہ اس کے قرآن میں لفظ سات کئی جگہ موجود ہیمیں صرف ایک کا ذکر کرتے ہوئے آگے بڑھتا ہوں کہ قرآن جہنم کا ذکر کرتے ہوئے کہتا کہ لھا سبعۃ ابواب۔۔ترجمہ : اس کے سات
دروازے ہیں ۔(الحجر ۔۴۴)
انجیل میں بھی لفظ سات کا متعدد بار ستعمال ہوا ہے ایک محقق کے مطابق سات کا استعمال زائد از 700مرتبہ ہوا ہے،Revelation میں ’’7‘‘ کا استعمال کئی بار ہوا ہے ،جیسے سات چرچ ، سات ارواح، سات تارے، وغیرہ وغیرہ۔
ہندوازم میں بھی سات اہمیت رکھتا ہے جیسے شادی کے موقعہ پر سات پھیرے (Seven Steps)جس میں دولہن کی ساڑی کا کونہ دولہے کے کرتے سے باندھا جاتا ہے اور ‘Saptapadi’ کی رسم انجام دی جاتی ہے۔ہندو مذہب میں برھما خالق ہے عمل تخلیق میں سہولت کی خاطر برھما ؔ نے سات Sapta Rishi کو بنایا جن کے نام Bhrigu, Angira, Atri, Gautama, Kashyapa, Vashishta, اور Agastya ہیں ، ہندو مذہب نے سات بہشت اور سات زیر زمین دنیا یا پاتال کا تصور دیا ہے۔ بہشت کے نام bhu, bhuvas, svar, mahas, janas, tapas, اور satya ہیں اور زیر زمین دنیاؤں کے نام atala, vitala, sutala, rasaataala, talatala, mahaatala, اور paatala ہیں ۔ اسی طرح ہندو مذہب میں سات دریائیں مقدس ہیں جیسے ، گنگا، جمنا، سرسوتی، گوداوری،نرمدا، سندھو اور کاویری۔ بہر حال حرف سات ہر ایک کے لئے اپنے اندر ایک انجانی کشش رکھتا ہے جس کو بیان کرنا مشکل ہے۔اس تمہید کے بعد میں اپنے اصل موضوع کی طرف آتا ہوں ،اس سے قبل کہ میں کارکانہ قدرت کے سات حیوانی عجوبوں کا ذکر کروں یہ بتانا چاہوں گا کہ دنیا کے مختلف مذاہب نے جانوروں کو کیا اہمیت و حیثیت دی ہے۔
ہندو مذہب نے جانوروں کو بہت زیادہ اہمیت دی ہے ،ہندوازم کے مختلف مکاتیب فکر کے نزدیک روحانی اعتبار سے انسان اور زندگی کے مختلف اشکال خواہ وہ نباتات ہوں یا حیوانات زیادہ فرق نہیں ہے کیونکہ یہ سب خدا کی تجلیات کے مظہر ہوتے ہیں ، ان کے نزدیک حیوانات کم تر مخلوق نہیں ہے بلکہ ارتقائی حیثیت میں انسان کے مقابلے نچلے درجے میں ہیں۔بدھ ازم اور جین ازم میں بھی جانوروں کی اپنی الگ اہمیت ہے، ہندو مذہب میں کئی جانور ان کے مقدس دیوی دیوتاؤں کی سواریاں ہیں ۔جیسے دیوتا گنیش کی سواری چوہا ہے، دیوتا برھماؔ کی سواری بطخ ہے ،اسی طرح وشنو ؔ کی گروڈا،شیوا ؔ کی نندی، اندرا کی ہاتھی،ورونا کی سواری مگر مچھ، سورج دیوتا کی رتھ کھینچتے سات گھوڑے،سرسوتی کی سواری مور،لکشمی کی الّو، پاروتی ؔ کی سواری ببر، مہیشوری کا بیل، واشنوی کی چیل ، کاما ؔ کی طوطا،کیتوؔ کی عقاب وغیرہ وغیرہ۔ ہاتھی کو ہندوازم میں مذہنی نشان کی حیثیت حاصل ہے،بدھ مذہب اور جین مذہب میں بھی ہاتھی کو مقدس جانتے ہیں ،ہندو مذہب میں سانپ کی پوجا کو بھی کافی اہمیت حاصل ہے ، علاوہ اس کے گائے کی ہندوازم میں اہمیت مسلمہ ہے، ان کے پاس گائے کی ہر شئے( حتی کہ گوبر اور پیشاب) اورہر عضو مقدس ہے،گھوڑے بھی اس مذہب میں خاص حیثیت رکھتے ہیں جو کئی دیوتاؤں کی سواریوں کو کھینچتے ہیں،مہابھارت میں یاماؔ کی جنت کی سیر کا ذکر ہے جس میں وہ کتے کے ساتھ تھے ، ہندو مذہب میں ایک تصوراتی جانور Makara کی بھی بڑی اہمیت ہے جس کا سر مگر مچھ کا اور جسم چھپکلی کی طرح ہوتا ہے ،اس کے علاوہ بھی ہندو مذہب میں جن جانوروں کا ذکر کیا گیا ہے وہ اس طرح ہیں، ٖFowlمرغ، Crowکوا،Fly مکھی، Butturfly تتلی،Craneہنس ،Doveکبوتر ،Falconشاہین ،مکڑیSpider ، چمگاڈرBats ،ریچھ Bear، Boar ،بھینسBuffalo ،،بلی Cat ،ہرنDeer ، ،لومڑیFox ،بکریGoat ،لیوپارڈLeopard ، بندرMonkey ،شیرTiger ،خرگوشRabbit ،،گلہریSquirrel ،تانبیلTurtle ، چیل Eagle ، Goose، وغیرہ وغیرہ ۔ ویدک دور میں جانوروں کے گوشت کو کھایا جاتا تھا بلکہ انہیں قربان بھی کیا جاتا تھا لیکن جین مذہب کی تعلیمات نے بر صغیر کے لوگوں کی غذائی فہرست کو بدل دیا ، ہندوستان میں کئی بادشاہ جین مذہب کے پیروکار تھے جیسے چندرگپت موریا وغیرہ ان راجاؤں نے جانوروں کی نگہداشت سے متعلق احکامات جاری کئے اور ان پر عمل کروایا، اشوک اعظم نے بھی اپنے دور میں جانوروں کی لڑائی کو بند کروایا اور ان کی بہتر پرورش کی طرف توجہہ دی۔انجیل میں بھی کئی جانوروں کا ذکر کیا گیا ہے جن کی فہرست کافی طویل ہے۔
قرآن میں کئی ایک جانداروں کا ذکر ہوا ہے۔ لیکن قرآن نے صاف طور پر یہ بھی بتا دیا ہے کہ اللہ نے تمہارے لئے یہ مویشی جانور(اسی لئے) بنائے (ہیں)تاکہ ان میں تم کسی پر سوار ہو اور کسی کا گوشت کھاؤ۔(غافر ۔ ۷۹ ) علاوہ اس کے قرآن میں ہی یہ ذکر بھی ہے کہ’’ وہی ہے جس نے مویشیوں میں سے وہ جانور بھی پیدا کئے جس سے سواری اور باربرداری کا کام لیا جاتا ہے اور وہ (جانور)بھی(پیدا کئے) جو کھانے اور بچھانے کے کام آتے ہیں۔‘‘ (الانعام۔ ۱۴۲) ’’اس نے جانور پیدا کئے جس میں تمہارے لئے پوشاک بھی ہے اور خوراک بھی،اور طرح طرح کے دوسرے فائدے بھی۔اور ان میں تمہاری رونق بھی ہے جب چرا کر
لاؤ تب بھی اور جب چرانے لے جاؤ تب بھی۔‘‘(النحل۔ ۵ اور ۶)
قرآن میں جن جانوروں کا ذکر ہوا ہے ان میں، کوّا، بھیڑیا ، ھدھد، دیمک ،گھوڑا گدھا، خچر، وھیل، کتا، چیونٹی، ہاتھی ، سانپ، اژدھا، ابابیل، سلوٰی ، مکڑی ، مچھر، مکھی، اونٹ، شہد کی مکھی، خنزیر، بھیڑبکری(دنبہ)، مچھلی ، ببر، Locusts(ٹڈی )،بندر،گائے وغیرہ وغیرہ شامل ہیں ، ان کے علاوہ مویشی ، وحشی جانداروں اور پرندوں سے متعلق بھی کئی جگہ اشارات ملتے ہیں۔ لیکن چار جاندار ایسے ہیں جن کے متعلق محسوس ہوتا ہے کہ قرآن نے ان کا تذکرہ خصوصیت سے کیا ہے ۔ یہ جاندار (۱)اونٹ (۲) شہد کی مکھی (۳)مچھر (۴) مکھی
میں نے اس مضمون کے لئے مندرجہ بالا فہرست سے صرف ایک کا انتخاب کیا ہے اور بقیہ حیوانی عجوبوں میں اکثریت ایسے جاندارں کی ہے جن کا راست قرآن میں ذکر موجود نہیں ہے ۔ویسے جہاں تک حیوانی عجوبوں کی بات ہے دنیا کا سب سے بڑا حیوانی عجوبہ حیوان ناطق حضرت انسان ہی ہے ، لیکن میں اس فہرست میں حیوان ناطق کو شامل نہیں کررہا ہوں۔ دنیا میں کئی عجیب و غریب جاندار ہیں جن کی شکل ہیت اور خصوصیات ایسی ہیں کہ ہم ان پر مشکل سے یقین کریں۔مثلاً Aye-aye،Blobfish،Tapir، قطبی ریچھ، Angora Rabbitوغیرہ، علاوہ ان کے قدرت میں نہ صرف شکل و ہیت بلکہ کئی انوکھی خصوصیات رکھنے والے جاندار بھی موجود ہیں، جیسے ، ڈولفن، آکٹوپس،گینڈا، بچھو،Tarsius مگرمچھ، Humming Birdشیر، Peregrine falcon ، وھیل شارک، Anaconda، دریائی گھوڑا،آدھا گھوڑاEchidna آدھا زیبرا Quaggaپنگوئن،Loris، بلی، Pangolins چیونٹی،Skunk،شہد کی مکھی ، Hedgehog ، تتلی،Seal، مور، Chameleon ،جگنو، Coelacanth، دیمک، Platypus،مکڑی، Hawk ، کتا،Bayaوغیرہ لیکن میں نے یہاں ایسے جانداروں کا انتخاب کیا ہے جنہیں ہم بخوبی جانتے ہیں لیکن ان کے حیران کن اوصاف سے واقف نہیں۔ میں نے اس خصوص میں انتخاب کی اساسجن خصوصیات پر رکھی ان میں* عام طور پر دکھائی دینے والے جاندار یا ایسے جاندار جن کو اکثر لوگ بہتر طور پر جانتے ہیں* جغرافیائی اعتبار سے ساری دنیا میں پھیلے ہوئے جاندار * ایسے جاندار جن کے حالات زندگی ایک قاری کو حیرت میں ڈال دیں اور اس جاندار کی مخصوص خصوصیات کا مطالعہ انسانی ذہن کی گرہوں کوکھول کر اس جاندار کوقاری کے حق میں خدا کا ایک بین نشان ثابت کرے۔سورۃ فصلات میں ارشاد ہے کہ’’خود ہم ان کو عنقریب اطراف عالم میں بھی اور ان کی ذات میں بھی اپنی نشانیاں دکھائیں گے،یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہوجائے گا کہ قرآن حق ہے ، کیا تم کو یہ کافی نہیں کہ تمہارا پرورگا ہر چیز سے خبردار ہے‘‘

Share
Share
Share