عورت کی آزادی اوراسلام ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ڈاکٹرمحی الدین حبیبی

Share

mohiuddin habibiعورت کی آزادی اور اسلام

ڈاکٹرمحی الدین حبیبی
حیدرآباد ۔ دکن
موبائل : 08978155985

آج لوگ خیال کرتے ہیں کہ عورت کو آزادی مغرب نے دی اور یہ تحریک صرف بیسویں صدی ہی میں شروع ہوئی۔ درحقیقت عورت کی آزادی کی اس تحریک کا آغاز کسی عورت کی جانب سے نہیں ہوا، بلکہ ساتویں صدی عیسوی میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی جانب سے اس کا یہ آغاز ہوا جس کو ’’وحی‘‘ کی صورت میں ختم رسل دانائے سبل صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا گیا۔ قرآن اور حدیث نبویؐ دو ایسے مستند ماخذ ہیں جن سے ہر مسلمان عورت اپنے ’’حقوق اور فرائض‘‘ حاصل کرتی ہے۔

(۱) انسانی حقوق:
چودہ سو سال قبل ہی اسلام نے عورت کو بھی اللہ کی عبادت اور تعریف و توصیف کے لیے برابر کا درجہ دیا اور اس کی اخلاقی ترقی کے لیے کوئی حدبندی نہیں کی، بلکہ اسلام نے جہاں تک انسانیت کا معاملہ ہے عورت کو بھی مساویانہ حق دیا، جیسا کہ قرآن کا ارشاد ہے:
’’اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تم سب کو ایک جان (نفس واحدہ) سے پیدا کیا اور جان سے اس کا جوڑا پیدا کیا اور ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلائیں اور تم خدائے تعالیٰ سے ڈرو جس کے نام سے ایک دوسرے سے حقوق کا مطالبہ کیا کرتے ہو اور قرابت سے ڈرو بالیقین اللہ تعالیٰ تم سب کی اطلاع رکھتے ہیں۔ (۴:۱)
چوں کہ عورت اور مرد ایک ہی اصل سے ہیں، اس لیے ’’انسانیت‘‘ کے اعتبار سے ان میں کوئی تفاوت نہیں۔ عورت، فطری اعتبار سے بری نہیں ہوسکتی (جیسا کہ بعض مذاہب کا خیال ہے) اور نہ ہی مرد ’’بدی‘‘ کا محور ہوسکتا ہے، اسی طرح کوئی صنف بھی برتر ننہیں ہوسکتی، کیوں کہ یہ مساواتِ انسانی کے خلاف ہوگا۔
(۲) شہری حقوق :
اسلام میں ایک عورت کو اس کی انفرادی شخصیت کی بنیاد پر اظہار اور انتخاب کی بنیادی آزادی حاصل ہے۔ سب سے پہلے تو اسے اپنے ’’مذہب‘‘ کے انتخاب کی پوری آزادی حاصل رہتی ہے، جیسا کہ قرآن کہتا ہے: ’’مذہب کے معاملہ میں کوئی زبردستی نہیں (کیوں کہ) ’’سچائی‘‘ کو ’’گمراہی‘‘ کے مقابلہ میں واضح انداز میں پیش کردیا گیا ہے۔‘‘ (۲: ۲۵۶)
عورتوں کو اپنے خیالات اور نظریات پیش کرنے کے لیے ہمیشہ ہمت افزائی کی گئی ہے۔ کئی ایسی احادیث نبویؐ موجود ہیں، جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ عورتوں کو بالراست بارگاہِ نبویؐ میں اپنے مذہبی ، اقتصادی اور سماجی معاملات سے متعلق سوالات پوچھنے کی آزادی حاصل تھی۔
ایک مسلمان عورت کو اپنے شوہر کے انتخاب کی آزادی ہے اور شادی کے بعد شوہر کے نام کو اپنے نام کا جزو بناسکتی ہے۔ ایک مسلم خاتون کی شہادت بھی قانونی معاملات میں قبول کی جاتی ہے۔ حقیقت میں جہاں کئی عورتیں ایک معاملہ میں اگر متفقہ طور پر کوئی بات کہیں تو اس کو بھی تسلیم کیا جاتا ہے۔
(۳) سماجی حقوق:
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان (مرد اور عورت) پر فرض ہے۔ اس علم میں قرآن ، حدیث اور دیگر علومِ جدیدہ بھی شامل ہیں۔ مرد اور عورتوں دونوں میں علم حاصل کرنے کی مساویانہ صلاحیت کو تسلیم کیا گیا ہے۔ چوں کہ مرد اور عورت دونوں پر یہ لازم ہے کہ وہ زندگی کے ہر میدان میں اچھے کردار کو فروغ دیں اور برے افعال کی مذمت کریں۔ یہ کام کوئی عورت بغیر مناسب اور ضروری تعلیم حاصل کیے بغیر نہیں کرسکتی اور نہ ہی وہ یہ فریضہ، اپنی فطری صلاحیتوں اور رجحانات کے بغیر انجام دے سکتی ہیں۔
جہاں عورت کو گھر سنبھالنے کی ذمہ داری رہتی ہے، بچوں کی دیکھ بھال ، پرورش اور تعلیم کے لیے اپنا اہم کردار ادا کرنا پڑتا ہے وہیں اگر اس کو اپنی سوسائٹی کے لیے کچھ فلاحی خدمات انجام دینا ہو تو وہ ایسا کرسکتی ہے۔ بشرطیکہ اس کے خاندان کے فرائض کی ادائیگی میں کوئی کمی نہ ہو۔
باہمی مساوات کے باوجود اسلام ، مرد اور عورت میں فطری اعتبار سے پائے جانے والے فرق کو بھی تسلیم کرتا ہے۔ کچھ کام عورتوں کے لیے موزوں ہوتے ہیں تو کچھ کام مردوں کے لیے مناسب۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ کوئی کسی سے کمتر یا برتر ہے۔ اللہ تعالیٰ دونوں صنفوں کو یکساں طور پر نوازتا ہے اگرچہ کہ دونوں کے دائرۂ کار الگ الگ ہی کیوں نہ ہوں۔
ماں کی ممتا کے تعلق سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’ماں کے قدموں تلے جنت ہوتی ہے‘‘ جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ایک معاشرہ کی کامیابی اُن ماؤں کی رہین منت ہوتی ہے جنہوں نے کہ اس کی آبیاری کی ہوتی ہے۔ سب سے اوّلین اور عظیم تر اثر جو ایک فرد، احساسِ تحفظ ، محبت اور تربیت کے سلسلہ میں حاصل کرتا ہے ، اُس کا سرچشمہ ’’ماں‘‘ کی ذات والا صفات ہی ہوتی ہے، اس لیے ایک عورت کو تعلیم یافتہ اور باشعور ہونا چاہیے، تاکہ وہ ایک جامع اور نافع سرپرست کہلاسکے۔
(۴) سیاسی حقوق:
چودہ سو سال قبل اسلام نے جو حق ایک مسلمان عورت کو دیا وہ حق رائے دہی ہے، جس کی رو سے کوئی بھی عورت عوامی مسائل پر اپنے خیالات کا اظہار کرسکتی ہے اور سیاست میں بھی حصہ لے سکتی ہے۔ اس کی ایک مثال ہمیں قرآن کریم کی اس سورہ میں ملتی ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کہ جب ایمان والی عورتیں آپ کے پاس بیعت لینے آئیں تو ان کی بیعت اور عہد و پیمان کو قبول کرلیا کرو۔‘‘ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ایک عورت کو اپنے قائد کا انتخاب کرنے اور اس کا اعلان کرنے کا حق حاصل ہے۔ اسلام، کسی عورت کو حکومت میں اہم عہدوں کے حاصل کرنے سے بھی منع نہیں کرتا۔ ابودرّمان ابن عوف رضی اللہ عنہ نے حضرت عثمان ابن عفان رضی اللہ عنہ کو خلیفہ سوم کی حیثیت سے سفارش کرنے سے قبل بہت سی باشعور خواتین سے مشورہ کیا تھا۔
(۵) اقتصادی حقوق :
قرآن کا ارشاد ہے: ’’(قسم) اس ذات کی جس نے مرد اور عورت کو پیدا کیا بے شک تمہاری کوششیں مختلف ہیں۔ (اللیل: ۳تا ۴)
ان آیات میں اللہ جل شانہ اعلان فرماتے ہیں کہ اس نے مرد اور عورت کے درمیان صنفی فرق رکھا ہے، تاکہ ہر ایک اپنے انفرادی کردار اور افعال کو خوبی کے ساتھ نبھائے۔ اسی طرح جس طرح کہ ہم معاشرہ میں دیکھتے ہیں کہ مختلف کاموں کے لیے مختلف لوگ (ہنرمند) رکھے جاتے ہیں۔ ایک خاندان میں بھی ان ہی خطوط پر مختلف ذمہ داریاں نبھائی جاتی ہیں۔ عموماً اسلام اس بات کی وکالت کرتا ہے کہ عورت بچوں کی پرورش اور تربیت کا کام سنبھالے، جب کہ مرد تمام امور کی نگہبانی انجام دے، اس لیے عورتوں کو معاشی اعانت کا حق دیا گیا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے: ’’مردوں پر قوام بناکر عورتوں کے نام و نفقہ کی پوری ذمہ داری رکھی ہے، کیوں کہ اللہ نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے، کیوں کہ (مرد) عورتوں پر خرچہ کرنے کے ذمہ دار ہیں۔‘‘ ۴:۳۴)
اس طرح مردوں کو عورتوں کا سرپرست اور مالی معاملات کا ذمہ دار بنایا ہے، تاکہ وہ عورتوں کی مالی اعانت کریں، ان کی حفاظت کریں اور ان کو عزت و تکریم کے ساتھ رکھیں۔ ایک مسلمان عورت کو دولت کمانے کا حق بھی حاصل ہے اور اپنی ملکیت اور جائیداد رکھنے کا حق بھی ملتا ہے، بلکہ وہ کسی بھی قانون معاہدہ کے ذریعہ اپنی جائیداد کو خرید و فروخت بھی کرسکتی ہے۔ وہ اپنا بزنس خود کرسکتی ہے اور بشمول شوہر کسی کو بھی اس میں داخل اندازی کی اجازت نہیں ہوتی۔ اس سلسلہ میں قرآن کا فرمان ہے:
’’مردوں کے لیے ان کی کمائی کا حصہ ثابت ہے اور عورتوں کے لیے ان کی کمائیکا حصہ ثابت ہے اور اللہ تعالیٰ سے اس کے فضل کی درخواست کیا کرو، بے شک اللہ تعالیٰ ہر چیز کو خوب جانتے ہیں۔‘‘ (سورۃ النساء: ۳۲)
ایک عورت اپنے رشتہ داروں سے ’’وراثت‘‘ میں بھی حق رکھتی ہے، جیسا کہ قرآن کہتا ہے:
’’مردوں کے لیے جو والدین و رشتہ دار چھوڑیں اس میں ان کا حصہ ہے اسی طرح عورتوں کے لیے بھی جو والدین اور رشتہ دار چھوڑیں اس میں بھی ان کا حصہ ہے، چاہے وہ کم ہو یا زیادہ، جیسا کہ حکم دیا گیا ہے۔‘‘ (۴:۷)
(۶) بیوی کے حقوق:
اس تعلق سے قرآن حکیم کا یہ جتلانا ہے کہ ’’اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہارے واسطے تمہاری ہی جنس سے تمہاری بیویاں بنائیں، تاکہ تم کو ان کے پاس سکون حاصل کرسکو۔ اور تم میاں بیوی میں محبت اور ہمدردی پیدا کی۔ اس میں ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو غور و فکر سے کام لیتے ہیں۔‘‘ (سورۃ الروم: ۲۱)
اسلام میں ’’شادی‘‘ صرف ایک طبعی اور جذباتی ضرورت نہیں ہے، بلکہ حقیقتاً یہ ایک اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی نشانی ہے۔ یہ دراصل ، آپسی حقوق اور فرائض سے متعلق خدائی احکامات کے تحت ایک پاک بندھن ہے کہ اللہ نے مرد اور عورت کی تخلیق، باہمی انحصار کی فطرت پر کی ہے، اس لیے ان کے تعلقات میں التزام ہے، یعنی وہ ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں، اسی لیے قرآن میں میاں بیوی کے درمیان ایک خوشگوار ہم آہنگی کو بڑھاوا دیا گیا۔ ’’وہ (مرد) تمہارا لباس ہیں اور (عورتیں، ان کا لباس ہیں۔‘‘ (۲:۱۸۷)
لباس، کسی کے بھی نہ صرف ’’عیب‘‘ چھپاتا ہے، بلکہ اس کی حفاظت بھی کرتا ہے، اسی طرح رفیق حیات کو بھی اسی انداز سے دیکھنے کی تعلیم دی گئی ہے، یعنی دونوں ایک دوسرے کے عیوب کو بھی چھپاتے ہیں اور دونوں ایک دوسرے کی ضرورت بھی ہیں، بصورتِ دیگر سترپوشی ممکن نہیں۔
محبت اور تحفظ کا جذبہ ’’شادی‘‘ کا ایک لازمی نتیجہ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک مسلمان بیوی کو اس نکاح سے کئی حقوق بھی حاصل ہوجاتے ہیں۔ سب سے پہلے تو اسے ’’مہر‘‘ کی رقم ملتی ہے، جو شوہر کی جانب سے بطورِ تحفہ دی جاتی ہے، جو نکاح کے صحیح ہونے کے لیے ایک لازمہ ہے۔ دوسرا حق اس (بیوی) کا ’’نان و نفقہ‘‘ ہے، جو بیوی کے دولتمند ہونے کے باوجود اسے روٹی، کپڑا اور مکان کی صورت میں مہیا کرنا پڑتا ہے، لیکن شوہر کو اس معاملہ میں اپنی حیثیت سے زیادہ خرچ کرنے سے منع کیا گیا ہے اور بیوی پر بھی لازم ہے کہ وہ کوئی غیرضروری یا بے جا مطالبات نہ کرے، جیسا کہ قرآن مجید کی ہدایت ہے :
’’وسعت والے کو اپنی وسعت کے موافق خرچ کرنا چاہیے اور جس کی آمدنی کم ہو اس کو چاہیے کہ اللہ نے جتنا اس کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرے۔ خدا تعالیٰ کسی شخص کو اس سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا جتنا اس کو دیا ہے۔ اللہ تنگی کے بعد جلد ہی فراغت بھی دے گا (گو بقدرِ ضرورت و حاجت روائی سہی۔‘‘ (۶۵:۷)
اللہ نے ظاہر ہے مردوں کو عورتوں پر ’’قوام‘‘ یعنی نگرانِ کار بنایا ہے اور خاندان کی قیادت ، شوہر کے ہاتھوں میں دی ہے۔ اس کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ نہ صرف خود اللہ کی اطاعت کرے ، بلکہ گھر کے تمام اراکین کو اللہ کی فرمانبرداری کے لیے ہر وقت رہنمائی بھی کرتا رہے۔
ایک بیوی کے حقوق زوجیت کے دائرہ سے آگے بھی تسلیم کیے گئے ہیں۔ وہ نرم برتاؤ کا حق بھی رکھتی ہے، جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرام ہے: ’’تم میں بہتر مؤمن وہی ہے جو اپنے کردار میں اعلیٰ و ارفع ہے اور تم میں سب سے بہتر وہی ہے جو اپنی بیویوں کے ساتھ بہترین سلوک کرتا ہے۔‘‘ اللہ سبحانہ و تعالیٰ بھی یہی فرماتے ہیں کہ اس نے تمہارے جوڑے تخلیق کرکے تمہارے درمیان محبت، رحم اور سکون رکھ دیا ہے۔ دونوں ایک دوسرے کی ضرورت ہیں، جس میں جنسی اشتہاء بھی شامل ہے، تاکہ اس فطری خواہشکی جائز طریقہ کے ساتھ تکمیل ہو۔ اگر کوئی فریق اس سے انکار کرے تو یقیناًاس کی چاہ میں دوسرا فریق گمراہ ہوسکتا ہے۔
(۷) بیوی کے فرائض :
مذکورہ بالا حقوق کے ساتھ ساتھ چند ذمہ داریاں بھی ایک عورت کو نبھانا پڑتی ہیں، چنانچہ چند فرائض کی ادائیگی بھی عورت کے لیے ضروری ہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’بہترین عورتیں وہ ہیں جو اپنے شوہروں کی غیرموجودگی میں بھی ان کے (شوہروں کے) حقوق کی پاستداری کرتی ہیں (جیسا کہ) اللہ نے انہیں (شوہروں کے ذریعہ) تحفظ فراہم کیا ہے۔‘‘ (۴:۳۴)
ایک عورت پر یہ بھی لازم ہے کہ وہ اپنے شوہر کے رازوں کی اور ہم بستری سے متعلق معاملات کی پردہ داری کرے، کیوں کہ جس طرح ایک شوہر ، بیوی کی عزت و عصمت کا محافظ ہوتا ہے اسی طرح ایک عورت بھی اس کی قربت کے رازوں کی امین ہوتی ہے۔
ایک عورت کو اپنے شوہر کی جائیداد و املاک کی بھی حفاظت کرنی چاہیے۔ اس پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ مکان اور اس میں موجود اشیاء کی ممکنہ حد تک کسی نقصان اور سرقہ ہونے سے حفاظت کرے۔ اس کو گھر کے انتظامات کچھ اس طرح عقل مندی سے سنبھالنے چاہئیں کہ کسی بھی اسراف یا نقصان سے بچا جاسکے۔ عورت کو چاہیے کہ وہ کسی ایسے شخص کو گھر میں آنے نہ دے جس کو شوہر ناپسند کرتا ہو، اس کی مرضی کے خلاف ، اخراجات بھی نہیں کرنے چاہئیں۔
اس طرح ایک مسلمان عورت کو اپنے شوہر کے ساتھ باہمی تعاون اور ارتباط کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے۔ یقیناًایک ایسے شوہر کے ساتھ تعاون نہیں ہوسکتا جو اللہ تبارک و تعالیٰ کا نافرمان ہو۔ ایسی صورت میں وہ عدول حکمی کرسکتی ہے جب کہ اس کو کئی حرام یا ناجائز کام کرنے کے لیے کہا جائے ، لیکن ایک شوہر پر بھی یہ لازم ہے کہ وہ بیوی کی فرمانبرداری کا ناجائز فائدہ نہ اٹھائے، بلکہ اس کی ضروریات اور خوشیوں کا خیال رکھے۔
(۸) اختتامیہ: ارشادِ ربانی ہے:
’’اور کسی ایماندار مرد اور کسی ایماندار عورت کو گنجائش نہیں ہے جب کہ اللہ اور رسولؐ کسی کام کا حکم دیں کہ پھر ان مؤمنین کو ان کے اس کام میں کوئی اختیار باقی رہے اور جو شخص اللہ کا اور رسول کا کہنا نہ مانے گا وہ صریح گمراہی میں پڑا ہے۔‘‘
(سورۂ احزاب: ۳۶)
ہم کہہ سکتے ہیں کہ آج سے چودہ سو سال پہلے ہی ایک مسلمان عورت کو اتنے حقوق اور فرائض عطا کیے گئے ہیں۔ آج کے زمانہ کی عورت مغربی تہذیب میں بھی اس سے محروم ہے۔ ’’حقوق و فرائض‘‘ کی یہ سوغات، اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی فیاضی ہے کہ جو ہماری سوسائٹی میں ایک توازن قائم کرتی ہے، جو چیز ہمیں بادی النظر میں نامناسب اور غیرموجود نظر آتی ہے اس کو کسی اور چیز سے پورا کردیا گیا ہے اور ایک دوسرے مقام یا موقع پر اس کی سودمندی اور فلاح و بہبود کو ظاہر کیا گیا ہے، کیوں کہ اسلام ایک فطری اور مکمل طرزِ حیات ہے۔

Share
Share
Share