انشائیہ : کوئی لوٹا دے میرے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جاوید نہال حشمی

Share

Jawed Nehal Hashamiانشائیہ
کوئی لوٹا دے میرے …

جاوید نہال حشمی
ای میل :

مجھے ٹھیک سے یاد نہیں کہ میرے بالوں کے جھڑنے کا عمل پہلے شروع ہوا تھا یاان میں سفیدی جھلکنے کی ابتدا پہلے ہوئی تھی۔ لیکن جب آئینے سے وحشت شروع ہوئی تو آدھے سے زیادہ بال داغِ مفارقت دے چکے تھے۔ پسماندگان میں بچے کھچے بال بیوگی کا سفید لبادہ اوڑھے کنپٹیوں اور سر کے پیچھے ڈٹے، ستی کی رسم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے نظر آئے۔

بعض لوگوں کاکہنا ہے کہ گنجا پن دولت آنے کی نشانی ہے۔ مجھے اس مفروضے پرہمیشہ سے شک رہا ہے کیوں کہ ایسی صورت میں انکم ٹیکس اور انفورسمنٹ ڈائریکٹریٹ والے اپنے ڈیٹا بیس میں شہر کے تمام گنجے لوگوں کی فہرست تیار رکھتے۔بلکہ ان کے ا فسران بھیس بدل کر راہ چلتے لوگوں کے بال نوچتے پھرتے کہ کہیں کوئی اپنی جویلری اور پراپرٹی وِگ میں تو چھپائے نہیں پھر رہا ہے۔البتّہ وِپرو کے مالک عظیم پریم جی کے ساتھ یہ طریقۂ تفتیش اپنانے پر متعلقہ افسران کو معطلی یا تبادلے کا سامنا کرنا پڑتا۔
عورتیں عموماً اس وبالِ جان سے پیدائشی طور پر مستثنیٰ ہیں (یہی وجہ ہے کہ دنیا میں ہزاروں کروڑ پتی ہیں لیکن”کروڑ پتنی“ گنتی کے چند)۔ اگر ان کی یہ استثنائی حیثیت ختم ہو جائے تو دنیا کے تمام بیوٹی پارلرس بند ہو جائیں گے۔ شیمپو، تیل اور کنگھی بنانے والی فیکٹریوں میں تالے لگ جائیں گے۔البتّہ اسکارف اور حجاب بنانے اور فروخت کرنے والوں کی چاندی ہو جائے گی۔شادی شدہ جوڑے دوسروں کی شادی کی تقاریب میں وقت پربلکہ بعض اوقات وقت سے پہلے پہنچ پائیں گے۔ عورتوں کی آپسی ہاتھا پائی کی نوعیت میں بھی قدرے تبدیلی آئے گی کہ روایتی گتھم گتھا کے انداز میں ترمیم کی ضرورت پیش آئے گی۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ گنجا پن عقل اور علم و دانش کے اعلیٰ درجے پر ہونے کا غماز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر پروفیسر، ڈاکٹر، دانشور اور سائنس داں وغیرہ گنجے ہوتے ہیں (البرٹ آئنسٹائن نے تحقیق میں بھی چیٹنگ کی ہوگی! یقین نہیں آتا…)۔ لہٰذا عورتوں کی مذکورہ استثنائی حیثیت کے در پردہ حقیقت…خیر، چھوڑئیے اس بات کو۔ ہم کون ہوتے ہیں مشیتِ ایزدی میں دخل دینے والے۔
کالج کے دنوں میں اکثر فکر دامن گیر ہوتی کہ کیا بال بچے ہونے تک بال بچے رہیں گے۔مگر پھر خیال آیا جب اوپر والے نے راکیش روشن اور اکشے کھنّہ کو نہیں بخشا تو میری کیا وقعت؟ لہٰذا کثرتِ استغفار کے ساتھ گڑگڑا کر دعا کی یا مولا، بھلے ہی وقت سے قبل میرے بالوں کو سفید کر دے کہ اسے خضاب کا حجاب حاصل ہوگا مگر جھڑنے کے عذاب سے محفوظ رکھ۔ لیکن افسوس، دعا کے صرف پہلے حصے کو شرفِ قبولیت حاصل ہوا، اور یوں دوہرے عذاب میں مبتلا ہوا۔
آج کے مرد، دو ہی جگہ اداس ہوتے ہیں: بیوی کے سامنے یا پھر آئینے کے سامنے۔ یہ الگ بات ہے کہ بیوی کے سامنے مسکراتے رہنے کی مشق کرنی پڑتی ہے جب کہ آئینے کے سامنے پوز دینے کی___ ایک مخصوص زاویے کی تلاش میں جو کم از کم کیمرے کی آنکھوں کو دھوکا دے سکے، اور پھر اس کے بعد فیس بک دوستوں کو تا وقتیکہ کوئی ان کا آدھار کارڈ یا ووٹرس کارڈ کا فوٹو نہ پوسٹ کر دے!
گنجا پن ایک بتدریج عمل ہے جس کے دوران یہ پتہ ہی نہیں چلتا کہ مخاطب کرنے والے کب ”بھائی صاحب“ سے ”انکل جی“ پر اُتر آئے۔ اس کا احساس تب ہوتا ہے جب پارکوں اور تفریح گاہوں میں حسینائیں نظریں ملتے ہی مسکرانے میں غیر فطری فراخدلی کا مظاہرہ کرنے یعنی ہنسنے لگتی ہیں۔ گنجے پن کا سب سے اذیّت ناک مرحلہ وہ ہوتا ہے جب لڑکیاں محبت کی نظر سے دیکھنے کی بجائے عزت کی نگاہ سے دیکھنا شروع کر دیتی ہیں۔ یہ اس بات کا اشارہ ہوتا ہے کہ وقت تیزی سے ہاتھ سے نکلتا جا رہا ہے اور جوانی سر سے پھسلتی جارہی ہے۔ بہ لفظِ دیگر، اب سیاہ چشمہ اور جینس کوئی تاثر چھوڑنے سے معذور ہیں، اور آپ کو بھی اقرارِ محبت کا خیال چھوڑ کر اظہارِ شفقت کے لیے تیار رہنا چاہئے۔
ویسے گنجا ہونے کے کئی فائدے بھی ہیں۔ کیمرہ دیکھتے ہی بال سنوارنے کی عجلت نہیں ہوتی۔ حجّام کی دکان میں صرف مفت کا اخبار پڑھ کر بلا جھجھک باہر نکل سکتے ہیں۔شیمپو، تیل اور کنگھےکی جھنجھٹوں سے یکسر آزادی حاصل ہو جاتی ہے۔البتّہ نہاتے وقت کچھ لوگوں کو مشکل پیش آسکتی ہے کہ صابن مَلنا کہاں سے شروع کریں۔
پتھر، تانبے اورلوہے کے ادَوار کی طرح الیکٹرانک دَور کا بھی خاتمہ ہوگا اور ایک اور نئے دَور کا آغاز ہوگا: ”گنجوں کا دَور“ جس میں کچھ محاوروں میں ردّو بدل کی ضرورت پیش آئے گی۔
’سر کے بال نوچنا‘ کو ’سرکی کھال نوچنا‘ میں بدلنا پڑ سکتا ہے۔’برخودار، میرے یہ بال دھوپ میں سفید نہیں ہوئے‘ جیسے جملوں کی شکل ہوگی ’برخوردار، میرے یہ بال دھوپ میں ناپید نہیں ہوئے‘۔’بال کی کھال نکالنا‘ کی بجائے ’کھال کے بال نکالنا‘ زیادہ موزوں ہوگا۔ ’ہتھیلی پر سرسوں جمانا‘ سے بدرجہا حقیقت پسندانہ ہوگا ’چندیا پر بال اُگانا‘۔
اردو شاعری کے روایتی استعارات و تشبیہات کو بھی اَپ ڈیٹ کرنے کی ضرورت پیش آئے گی۔ مثلاً ’سیاہ گھنے بادل‘ کالعدم قرار پائیں گے اور ان کی جگہ ’سنگلاخ بھوری چٹان‘ یا ’ اُجڑے چمن‘ کی اصطلاح استعمال کرنی ہوگی۔’آنچل کا سرکنا‘ متروک قرار پائے گا۔ اس کی جگہ ’آنچل کا پھسلنا‘مستعمل ہوگا۔
گنجے پن کے وبائی شکل اختیار کرجانے کے سبب اگلی نصف صدی میں صورتِ حال بہت مختلف ہوگی۔ اگر آپ کے سر پر بال ہوں گے تو آپ محفلوں میں اس طرح شرماتے پھریں گے گویا کسی لڑکی کی مونچھیں نکل آئی ہوں۔ اپنے سر پر بالوں کے باعث کئی بار آپ کو طنز و تضحیک کا نشانہ بھی بننا پڑے گا۔ گنجوں کی بھیڑ میں آپ کو دیکھ کر ہنستے ہنستے لوگوں کے پیٹ میں بل پڑ جائیں گے۔لڑکیاں اپنے بوائے فرینڈس کے چکنے سر پر بڑے پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے آپ کے سر کی طرف انگلی سے اشارہ کر کے ان کے کانوں میں کھسر پھسر کریں گی، اور وہ ایک فلک شگاف تضحیک آمیز قہقہہ لگا کر آپ کو وہاں سے بھاگنے پر مجبور کر دیں گے۔دفتر میں باس کی جھڑکی بھی سننی پڑ سکتی ہے: ’یہ کیا لفنگوں کی صورت بنائے آفس آتے ہو؟سر پر بال اُگنے لگے ہیں، اور تمہیں اس کی ذرا بھی پرواہ نہیں؟ کیا تم روز اپنا سر شیو نہیں کرتے؟‘
آپ کے رشتے کی بات طے ہو جائے گی اور پھر ایک دن لڑکی والوں کو پتہ چلےگا کہ آپ کے سر پر بال بھی آتے ہیں۔ دوسرے روز ہی لڑکی کے باپ کا فون آئے گا: ’معاف کیجئے گا ہم یہ رشتہ ختم کر رہے ہیں۔‘
’مگر کیوں؟‘
’ازدواجی رشتے اعتماد اور بھروسے کی بنیاد پر قائم ہوتے ہیں، اور آپ نے ہم سے اتنی بڑی بات چھپائی؟‘
’کیسی بات؟‘
’یہی کہ آپ کے بیتے کے سر پر بال ہوتے ہیں۔‘
’لل…لیکن…‘
’وہ تو اچھا ہوا کہ رمضو حجام سے اس خبر کی تصدیق ہو گئی اور میری بچی بال بال بچ گئی۔ اگر خدا نخواستہ یہ شادی ہو جاتی تو میری بیٹی کی تو زندگی برباد ہو جاتی۔ میں اپنے خاندان والوں کو کیا منہ دکھاتا؟ لوگ تو یہی کہتے نا کہ شہر کے سارے گنجے نوجوان مر گئے تھے کیا جو اپنی بیٹی کو ایک بال والے کے سر منڈھ دیا…‘
اور ایسے مایوس اور غم زدہ نوجوانوں کے لیے اخبارات میں کچھ اس طرح کے اشتہارات ملیں گے:
کیا آپ اپنے بالوں سے پریشان ہیں؟ روز روز سر منڈوانےسے تنگ آ چکے ہیں؟ تو پھر آزمائیے ”صفایا“ شیمپو جو بالوں کا صرف اوپر سے ہی نہیں بلکہ جڑ سے صفایا کردیتاہے۔
اگر آپ کے بالوں کی وجہ سے آپ کی شادی نہیں ہو پا رہی ہے تو مایوس نہ ہوں۔ ہمارے ”بلجھڑ تیل“ کے استعمال سے کئی مایوس نوجوان رشتۂ ازدواج میں بندھ چکے ہیں۔
کسی کلینک کا اشتہار یوں ہوگا:
کیا آپ کے بال آپ کے لیے وبال بن چکے ہیں؟ آج ہی رجوع کریں ڈاکٹر گنجئے سنگھ سے جن کے علاج سے آپ کی آنے والی سات نسلوں کے سر پر بھی بال نہیں آئیں گے۔
کاش، یہ دن جلد ہی دیکھنے کو ملیں تا کہ میں بیگم سے نظریں ملا کر بات کر سکوں جو مجھے آئینے کے سامنے کھڑے دیکھ کر زیر لب گنگناتے ہوئے گزرتی ہے: ’ کیا کروں رام مجھے …“
لیکن فی الحال تو میں یہی گنگنا تا رہتا ہوں: ’کوئی لوٹا دے میرے، بیتے ہوئے دن…‘

Share
Share
Share