اقبالؔ اورحیدرآباد دکن ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ڈاکٹرسید حامد ماہتابؔ

Share

hamed دکن
اقبالؔ اورحیدرآباد دکن

ڈاکٹرسید حامد ماہتابؔ
موبائل : 09948998297
ای میل :

غیر منقسم ہندوستان میں حید رآبا دکو مشرقی تہذیب و تمدن کی آخری نشانی سمجھا جا تا تھا ۔ دہلی کے اُجڑنے اورلکھنو کی تقدیر کے بگڑنے کے بعد مسلم شرفاء کے اکثر گھرانوں نے دکن ہی کا رُخ کیا ۔ان کے ساتھ شمالی ہند کی بہت سی تہذیبی اور تمدنی خصوصیات نے بھی ہجرت کی لیکن اہلِ دکن خود ایک قدیم اورعظیم الشان تہذیب کے وارث تھے ۔ بر صغیر میں کوہِ وندھیا چل اورست پڑا کے اس طر ف سطح مر تفع پر پھیلے ہوئے سارے سرسبز و شاداب علاقے کو یہ شرف حاصل ہے کہ اس پر مسلسل سات آٹھ سو سال تک مسلمان فرمارواؤں کے پرچم لہرائے ہیں حکمران خاندان بدلے لیکن زمانہ اقتدار ہمیشہ مسلمانوں کے دستِ انصاف پرور میں رہا اسی انصاف اورعدل کی برکات تھیں کہ دکن میں ہندو و مسلم کے حیرت ناک اتحاد نے ایک نئے معاشرے کو جنم دیا

قطب شاہیوں کے دور میں ایرانی علماء اورسفراء کی مسلسل آمد ورفت نے فارسی زبان کے اثرات کی نبیاد کو بہت گہرا کردیا اوراس طر ح اُردو شاعری اپنے آغا ز ہی میں نکھر نے سنور نے لگی تھی اُردو کے پہلے صاحبِ دیوان شاعر محمد قلی قطب شاہ کی شاعری دکنی زبان میں ہو نے کے باو جود اپنے اندر سلاست وروانی کے اَن گنت شاہکار پوشیدہ رکھتی ہے اسی بنیاد پر ولیؔ اور سراجؔ نے اُردو شاعری کی شاندارعمارت کھڑی کردی اور ولی ؔ نے دلی جا کر اہلِ زبان کے اس مر کزِ اولین کو اُردو کی لطافتوں سے آشنا کیا ۔
سابق ریا ست حیدر آباد میں تبدیلیاں ہو نے لگیں او رعلمی و ادبی تغیرات آنے لگے جامعہ عثمانیہ کا قیام عمل میں آیا اوراس جامعہ کی ضرورت کو پورا کر نے لئے دارالترجمہ بھی قا ئم کیاگیا بہت سی نایاب کتابیں دوسری زبانوں سے اُردو زبان میں ترجمہ کی جانے لگیں ۔اسی زمانے میں اُردو شاعری کی پرانی ڈگر کو چھوڑکر ایک نئی شاہراہ پررہنما کی حیثیت سے بڑھنے اور ایک نئی منزل کی نشا ندہی کرنیوالے مولانا حالیؔ او رمولانا شبلیؔ نے بھی دکن کا رُخ کیا ۔ سرسید کی ایما پر چراغ علی ‘ وقا رالملک اور محسن الملک نے بھی حیدر آباد دکن کا رُخ کیا تھا حیدر آباد میں علم و داب کی دنیا میں ایک انقلاب برپا ہو گیا ۔ مولانا حالیؔ بھی آتے جاتے رہے لیکن مولانا شبلی تو ایک طو یل عرصہ کیلئے یہیں کے ہوکررہ گئے ۔ اُستاد داغؔ دہلوی اورامیرمینا ئی کوبھی اسی خاک کا پیوند ہونا تھا ۔ ان تمام کے علاوہ خود حیدرآباد میں کئی ذی اثرشخصیات جیسے کہ سید حُسین بلگرامی (عمادالملک)، ملاعبدالقیوم‘ رفعت یار جنگ اول اورمولوی انواراللہ ( فصیلت جنگ ) وغیرہ موجود تھیں ۔ جن کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں ۔ ملاعبدالقیوم نے مولانا شبلی کے سا تھ مل کر ندوۃ العلماء ( لکھنو ) کی شاخ بھی حیدرآباد میں قائم کی تھی ۔ حیدرآباد کا ماحول با لکل جدا گا نہ تھا گویا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان میں ہندوستان سے الگ مشر قی و مغربی تہذیب کے یکجا ہو نے سے ایک نیا ملک نمودارہورہا ہے ۔ فا نی ؔ نے طنز نہیں کیا تھا بلکہ حقیقت حال بیان کیا ۔
’’فانی ؔ دکن میں آکے یہ عقدہ کھلا کہ ہم
ہندوستان میں رہتے ہیں ہندوستان سے دور‘‘
حیدرآبا د میں شمالی ہند سے آنے والوں کو ہندوستانی اور جنوبی ہند سے آنے والوں کو مدراسی کہا جاتا تھا ۔ ممکن ہے کہ فانی ؔ کے تحتِ الشعور میں یہی جذبہ موجود ہو لیکن جب پنجاب کی سرزمین سے اقبال ؔ کی اجنبی مگردل موہ لینے والی آواز بلند ہو ئی اوردیکھتے ہی دیکھتے سا رے ہندوستان پر طاری ہو گئی اہلِ دکن کے کان اس آواز کے مدتوں سے منتظر اور اس سے روحانی طو رپر پہلے ہی سے آشنا تھے اقبال ؔ جن کھوئے ہوؤں کی جستجو میں نکلے تھے ان کی جستجو اوران کی آرزو اہلِ دکن کے سینوں میں ایک دبی ہوئی چنگاری کی طرح مدتوں سے سلگ رہی تھی جو نیا شیو الا وہ تعمیر کرنا چاہتے تھے وہ ہندومسلم اتحاد کی شکل میں دکن میں پہلے سے ہی عملاًموجودتھا۔نامورشاعر علامہ اقبال کو بھی حیدرآباد سے خاصی دلچسپی رہی ہے آخر اقبال کا حیدرآباد سے کیا تعلق تھا ؟ یہ ایک چونکا دینے والا مگر بہت ہی اہم سوال ہے اس سوال کے پس منظر میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ جب دہلی اورلکھنو اُجڑ گئے ‘ تباہ ہو گئے تب اُردو کا ایک بڑا مرکز صرف حیدرآباد ہی رہ گیا تھا یہ حیدرآباد مسلمانانِ ہند کا تمدنی مظہربھی تھا ۔علامہ اقبال کسی مخصوص علاقہ یا فرقہ کے شاعر نہیں تھے بلکہ سارے مشرق کادل ان کی شاعری میں دھڑکتا ہوا نظرآتا ہے علامہ کو شاعرِ مشرق بھی کہا جاتا ہے ان کی شاعری گویا بنی نوع کیلئے ایک نایاب تحفہ اورناقابلِ فراموش ورثہ ہے ۔ انھوں نے اپنی شاعری کے ذریعہ سارے انسانوں کو بلامذہب و ملتِ ایک ڈور سے باندھنے کی کامیاب کوشش کی تھی ۔ اقبالؔ کے حیدر آباد سے بہت گہرے روابط تھے ۔
’’لاہور کے بعد جن شہروں سے علامہ اقبال کی وابستگی رہی ہے ان میں بھوپال اورحیدرآباد خصوصی اہمیت کے حامل ہیں ‘‘۔۱؂
سابق ریاست حیدر آباد میں چوں کہ عثمانیہ یونیورسٹی کا قیام عمل میں آچکا تھا اور اپنی مادری زبان کے ذریعہ تعلیم حاصل کرنیکی وجہ سے حیدرآباد کے اہلِ قلم نے اقبالؔ کے پیام کو اپنی نظرسے جانچا تھا اقبالؔ نہ صرف ایک عظیم شاعر تھے بلکہ ایک بڑے فلسفی ‘ زمانہ کے نبض شنا س حکیم اورمستقل شعار سیاسی مدّبر بھی تھے ۔ ان کی دور بین نظروں میں حیدرآباد کی تاریخی ‘ تمدنی ‘ جغرافیائی اور سیاسی حیثیت سے بڑی اہمیت تھی بلکہ یوں کہا جائے تو بیجاہ نہ ہوگا کہ حیدرآباد کے حالات سے ان کو ذاتی دلچسپی تھی وہ ہمیشہ ہی سے حیدرآباد کو آزاد و شاد دیکھنے کے آرزو مند رہے تھے ۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ حیدرآباد کی افسانوی دولت سے مرعوب تھے اور وہاں کی مطمئن اورآسودہ حال زندگی کے خواب دیکھا کرتے تھے ۔ اگرچہ ان کے اُستاد داغؔ دکن جاکر فصیح الملک ہو گئے تھے تو وہ بھی کسی ایسے پرشوکت خطاب کے مُتمنّی تھے ایسا بالکل نہیں ہے بلکہ اقبالؔ کی حیدر آباد سے دلچسپی ذاتی سے زیادہ صفا تی اوراسلامی اخوت پر مبنی تھی ان کی درویشا نہ زندگی میں ایسے سطحی خیالات دخل پا ہی نہیں سکتے تھے اورخود اہلِ حیدرآباد کو ہمیشہ یہ آرزو رہی کہ اقبالؔ کسی طرح یہاں مستقل قیام کرتے ،اہلِ حیدرآباد کی اس آرزو کو شا ید کسی حد تک اقبالؔ کی تا ئید بھی حاصل تھی۔
’’اقبالؔ سے حیدر آبای والہا نہ محبت کرتے تھے اورآج بھی کرتے ہیں۔ آصف جاہ سا بع کے دور میں اقبال ؔ حیدرآباد میں کو ئی اچھا عہدہ پانے کے مُتمنّی تھے۔ مہاراجہ کشن پرشاد اورسراکبرحیدری سے اقبالؔ کے دوستانہ تعلقات تھے لیکن بعض حلقوں کاکہنا ہے کہ حیدرآباد میں بعض افراد اس کے حق میں نہیں تھے کہ اقبالؔ یہاں کوئی اچھا عہدہ حاصل کریں لیکن بعض حقا ئق ایسے ہیں جن سے یہ ثابت ہو تا ہے کہ اقبالؔ کو بھی حیدر آباد سے ایسا لگا ؤ نہیں تھا وہ صرف ایک اچھے عہدے کیلئے حیدرآباد سے تعلق خاطر رکھتے تھے ۔‘‘۲؂
اقبال ؔ کے حیدر آباد کھینچ لئے جانے کی خبریں اکثروبیشتر اڑتی رہتی تھیں ۔ اسی طرح کی ایک خبر جو مخبرِ دکن میں شائع ہوئی تھی اورجسے محمد دین فوق نے ان تک پہنچایا تھا اس کے بارے میں اقبال ؔ نے فوق صاحب کولکھا ؂
’’اخباروں میں کچھ شا ئع ہوا ہے اسے میں نے پڑھا ہے مگر سب اخبار میری نظرسے نہیں گذرتے مخبرِ دکن کیلئے میں شکرگذارہوں مجھے اس معاملہ کامطلق علم نہیں ‘ نہ میں نے حیدر آباد میں کسی کو لکھا ہے نہ وہاں سے مجھے کسی نے تحریک کی ہے میرے خیال میں یہ بات محض اخباری گپ شپ ہے حیدرآباد میں تو مجھ سے بہتر آدمی موجود ہوں گے ‘‘۳؂
اورایک بار تو یہ خبر کچھ ایسے انداز میں پھیلی کہ مبارکباد کے تار بھی اڑگئے چنانچہ اقبالؔ ‘ مہاراجہ کشن پرشادکو لکھتے ہیں :
’’یہاں پنجاب اوریوپی کے اخباروں میں چرچا ہوا تو دور دور سے مبارکباد کے تار بھی اڑ گئے……..بہرحال مرضئی مولا از ہمہ اولیٰ‘‘۔۴؂
لیکن مرضئی مولاکو یہ منظور نہ تھا کہ اقبالؔ حیدرآباد کے ہوتے اگرچہ حیدرآباد میں بھی اکثر یہ افواہیں پھیلتی رہتی تھیں کہ اقبالؔ ہائی کو رٹ کے چیف جسٹس بنادئیے گئے کبھی یہ سننے میں آتا کہ وہ جامعہ عثمانیہ کے وائس چانسلر ہوگئے ہیں علی ہذا لقیاس لیکن ان میں سے کوئی خبر بھی حقیقت نہ بن سکی حالا نکہ اہلِ حیدرآباد اور خصوصاََ مہا راجہ کشن پرشاد اورسراکبر حیدر ی جیسے ذی اثرحضرات دل سے چا ہتے تھے کہ اقبالؔ حیدرآباد آجائیں مگر کیا وجہ تھی کہ ایسا نہ ہو سکا اقبال ؔ جب پہلی بار ۱۹۱۰ء میں حیدرآباد تشریف لائے تو سراکبرحیدری نے ان کا پُر خلوص استقبال کیا اورنہا یت محبت سے پیش آئے بیگم حیدری نے اکثرشرفاء سے ان کی ملاقات کروائی تھی اقبالؔ کے دل پران کے اخلاق کا گہرا اثرہوا ۔ انھوں نے عطیہ بیگم فیضی ؔ کو اپنے خط مورخہ۳۰/مارچ ۱۹۱۰ ء میں لکھا۔
’’حیدری صاحب ایک پابند وضع اوروسیع المشرب بزرگ ہیں ۔ اُن سے ملاقات سے قبل میری رائے تھی کہ وہ اعداد و شمار سے کام رکھنے والے ایک خشک طبع انسان ہوں گے لیکن میں نے دیکھا ہے کہ قدرت نے انھیں دردِ دل اور فکرِبلند کی نعمت سے مالا مال کررکھاہے اُن دونوں کیلئے میرے دل میں بے حد احترام ہے‘‘۔۵؂
اقبالؔ کے ذہن میں حید رآباد کے لئے ہمیشہ کوئی نہ کوئی اسکیم موجود رہتی تھی اور بعض حلقوں سے بھی پتہ چلتا ہے کہ وہ حیدرآباد میں واقعی اچھے عہدہ کے مُتمنّی تھے ۔ شا ید اس وجہ سے ان کے ذہن میں حیدرآباد کیلئے ہمیشہ ایک نئی اسکیم رہتی تھی ۔ وہ اپنے اس خط مور خہ ۳۰/مارچ ۱۹۱۰ء میں آگے رقم طراز ہیں کہ :
’’ میں اگر حیدرآباد میں چند روز اورٹھہر جاتا تو مجھے یقین ہے کہ اعلیٰ حضرت حضور نظام مجھے ضرور شرف باریا بی بخشتے ………….میرا سفرحیدرآباد بلا مقصد نہ تھا ………۔‘‘۶؂
اس خط سے بھی ہمیں اس طر ح کے واضح اشا رے ملتے ہیں کہ اقبالؔ وا قعی حیدرآباد سے تعلق خاطر رکھتے تھے ۔ اقبالؔ کے اس خط کے جواب میں عطیہ بیگم فیضیؔ نے انھیں غیط وغضب آلو د خط لکھا جس کی تفصیل یو ں ہے ۔
’’تم حیدر آباد تک آئے اورخبجیرہ نہ پہنچے‘ معلوم ہوا ہے کہ تم حیدرآباد میں نوکری کرنا چاہتے ہو حال آں کہ ہندوستان کے کسی والئ ریاست کے ہاں تمہارا نوکرہونا تمہا ری صلاحیتوں کو سلب کردے گا ۔‘‘۷؂
اس خط کے جواب میں اقبالؔ نے معذرت خواہی کے کئی خطو ط ان کو بھیجے اور لکھا کہ ’’رہا حید رآباد میں ملازمت کا سوال تو میں اس کا تصوّر بھی نہیں کر سکتا‘‘ ۔حیدرآباد کایہ پہلا سفر ۱۹۱۰ء اقبالؔ نے یوروپ سے واپسی کے تقریباََ ایک سال بعد کیاتھا لیکن جب اقبال ؔ ۱۹۲۹ء میں توسیعی لکچر کے سلسلے میں حیدرآباد گئے تھے تو ان کا والہا نہ انداز میں استقبال کیاگیا اورآپ کو نظام گورنمنٹ نے اپنا مہمان بنا یا علامہ اقبالؔ کی ملاقات اعلیٰ حضرت حضورنظام سے نہا یت دوستانہ ماحول میں ہوئی تھی اورآپ پر سے وہ تمام پابندیاں ہٹادی گئیں جو کہ حضورنظام سے ملاقات کے وقت عائد رہتی تھی ایسی رعایت سے ہندوستان بھر میں گنتی کے چند دانشور مستثنیٰ تھے جن میں قائدآعظم اوراقبالؔ خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں اقبالؔ نے ’’رموزِ بے خودی ‘‘ کا ایک نسخہ حضور نظام کی خدمت میں ہدیتہ پیش کیا تھا ۔ جن لوگوں نے حیدر آبا د کے سقوط اورزوال سے پہلے حیدرآباد کو نہیں دیکھا وہ اس کا تصوّر بھی نہیں کر سکتے کہ حیدرآباد کیاتھا۔عام ریاستوں کے برخلاف وہ کتنی بڑی مملکت تھی ‘کیا آدابِ شاہی تھے اور دوسری دیسی ریاستوں کے روسا ء کے مقا بلے میں نظام کی حیثیت کتنی مہتم بالشان اورمطلق العنان تھی ایسے دربارمیں اقبالؔ کی یہ پذیرائی اورایسی سرکار سے اقبال ؔ کی یہ سادہ وبے تکلف گفتگو اس بات کی شا ہد ہے کہ حضورنظام بھی اقبالؔ کو پسند کرتے تھے اوران کے مخالف نہیں تھے پھر کیا وجہ ہے کہ یہاں ان کی ملازمت کی کوئی شکل نہیں بن سکی پھراس صورت میں کہ خوداقبال ؔ نظام اورحیدر آباد کی اخلاقی تا ئید اورخدمت کیلئے ہمیشہ آمادہ رہتے تھے ۔ جب اقبالؔ نے پہلی بار حیدرآباد کا سفر کیا تب تخت آصف جاہی پر داغ ؔ کے شاگرد میرمحبوب علی خاں متمکن تھے ۔ داغؔ نے جب دکن کا رخ کیا اور طویل مدت تک انتظار کے باوجود داغؔ کی دربارِ نظام میں باریابی نہ ہو سکی اوروہ واپس ہو گئے پھر اسی سال بلوا ئے گئے لیکن استادی کا شرف سا ڑھے تین سال کے قیام کے بعد بخشا گیا اوروہ جس طرح نوازے گئے وہ اظہر من الشمس ہے ۔ ؔاقبال کو اتنی فرصت کہا ں تھی کہ وہ کچھ وقت اورانتظار کرتے چنا نچہ وہ اورنگ آباد ہوتے ہوئے مغل بادشاہ عالمگیر کی مزار پر فاتحہ پڑھتے ہو ئے لاہور لو ٹ گئے اس ساری تفصیل سے یہ بات ظا ہر ہے کہ اقبالؔ ؔ کو ابتداء ہی سے حیدرآباد اورحیدرآباد کے حالات سے دلچسپی رہی ۔۱۹۲۹ء میں اقبال ؔ جب دوسری بار حیدرآباد آئے تو ان کی ملاقات موجودہ نظام دکن سے ہوئی اورحید رآباد کے حالات میں بھی زمیں آسمان کا فرق پیدا ہو گیا تھا ‘جامعہ عثمانیہ کے قیام نے دکن کی کایا پلٹ دی تھی اب کی بار انھیں دکن میں بہت سے اقبالؔ شناس بھی ملے جو ان کے پیام کے آشنا اوران کے بہت سے فلسفیانہ اورعلمی مضا مین کے ترجموں سے مسلح تھے فطری طورپراقبالؔ ؔ کو نوجوانانِ دکن کی یہ ادا ئیں بھاگئیں اورانھیں حید رآباد سے اوربھی زیادہ دلچسپی پیدا ہوگئی چنانچہ اس کا ثبوت اس طر ح سے ملتا ہے کہ
’’…..جب اقبالؔ ؔ گول میز کانفرنس میں شرکت کیلئے جاتے ہیں اورہندوستان کے آئینی مستقبل اوراس کی سیاسی الجھنوں کا حل‘ صوبوں کی مکمل آزادی اورا ن کو راست وزیر ہند کے تحت کر دینے کی اسکیم کی شکل میں پیش کرتے ہیں تو اس وقت بھی وہ حیدرآباد کو فراموش نہیں کر تے ہیں‘‘۔۸؂
اقبالؔ ؔ کو حیدرآباد سے خاص دلچسپی تھی اقبالؔ ؔ سے بہت سا رے لو گ سفارشی خط لے کر حیدرآباد جاتے اوراعلیٰ ملازمتیں و وظا ئف حاصل کر لیتے تھے تو پھر خود ان کی عملی خدمات سے حیدر آباد کیوں محروم رہا؟ جبکہ سراکبرحیدری اورمہا راجہ کشن پرشاد سے اقبالؔ ؔ کے قریبی تعلقات تھے اوریہ لو گ مملکت آصفیہ میں اچھے اثرورسو خ کے حا مل تھے پھر نہ جانے کیوں اقبالؔ ؔ کا خاطر خواہ تعلق حیدر آباد سے نہ ہو سکا ۔ ا ن تمام سوالوں کے عوض یہ کہا جاسکتا ہے کہ بعض افراد اقبالؔ ؔ کے اچھا عہدہ حاصل کر نے کے حق میں نہیں تھے ۔ اس کے علاوہ ہو شیاراور چالاک انگریز جن کے ذرائع معلومات بہت وسیع اورپوشیدہ تھے جنھوں نے بڑی چالا کی سے ہندوستان پر قبضہ کررکھا تھا ان کے جاسو س ملک بھر میں پھیلے ہوئے تھے اورپل پل کی خبران تک پہنچتی تھی ۔ ان انگریزوں نے حیدرآباد میں وقارالملک ‘ محسن الملک ‘ ظفرعلی خاں ‘ عبدالحلیم شرر ؔ اور آخر میں علی امام کو تک ٹکنے نہ دیا تھا ۔ وہ بھلا اقبالؔ جیسے خطرہ کو حید رآباد میں کیسے پروان چڑھنے دیتے ۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ حضور نظام سے لے کر ایک عام حیدر آبادی کی خواہش اورتمنا کے با وجود اقبالؔ ؔ حیدرآباد میں مستقل قیام نہ کر سکے لیکن اس کاملال سبھی کو رہا کہ اقبالؔ ؔ جیسی شخصیت حیدر آباد میں نہ بس پائی ۔
اقبالؔ ؔ کے حیدرآبادی دوستوں میں سرفہرست مہاراجہ کشن پرشاد کا اسم گرامی آتا ہے مہا راجہ کو عام طور پر قدیم مشرقی تہذیب کی بسا ط کا آخری مہرہ سمجھا جاتاتھا ان کی مہتم بالشان شخصیت اپنی گونا گوں صلاحیتوں اوراہمتیوں کے ساتھ حید رآباد کی ہرجہتی زندگی کی نصف صدی پرچھائی ہوئی ہے ان کے تذکرے کے بغیر حیدرآباد کی کوئی سیا سی ‘ سماجی اور ادبی تاریخ مکمل نہیں ہوسکتی ۔ مہاراجہ کشن پرشاد اقبالؔ ؔ کے گہرے شخصی دوستوں میں سے تھے اوراقبالؔ ؔ نے حیدرآباد کا دو مر تبہ دورہ ان ہی کی دعوت پر کیا تھا ۔ جب اقبالؔ ۱۹۱۰ء میں حیدر آباد آئے تومہاراجہ کشن پر شاد نے بھی بڑی خاطرمدارت کی تھی جس کے بارے میں اقبالؔ رقم طرازہیں جوکہ ان کی شان میں لکھے گئے قصیدے سے قبل شکریہ کے عنوان سے ایک نو ٹ تحریر کیاگیا تھا ملاحظہ ہو ؂
’’ہز اکسیلنسی کی نوازش کریمانہ و وسعت اخلاق نے جو نقش میرے دل پر چھوڑے ہیں وہ میرے دل سے کبھی نہیں ہٹیں گے ‘‘۹؂
اس کے علاوہ خطوط میں مہا راجہ اوراقبالؔ ؔ کے ایک دوسرے کے لئے استعمال کئے گئے القاب بھی ان کے دوستانہ تعلقات کو ظاہر کرتے ہیں جن میں ہزا کسیلنسی اورمائی ڈیراقبالؔ کے علاوہ فقیرکا لقب بھی قابلِ ذکر ہے۔ ڈاکٹرسید محی الدین قادری زور ؔ نے علامہ اقبالؔ اورمہا راجہ کرشن پرشاد کے خطوط کو یکجا کرکے کتابی شکل میں شائع کیا تھا جو کہ اب نایاب ہے ۔ اقبالؔ ؔ کے دیگر اہم دوستوں میں نواب بہادریارجنگ ‘ سراکبرحیدری وغیرہ بھی قابل ذکر ہیں اکبرحیدری کی شخصیت بڑی نزاعی اوردلچسپ ہے ۔ جوجدید حیدرآباد کے بنانے اورسنوار نے میں سالارجنگ کے بعد جتنی اہمیت اکبرحیدری کو حاصل ہے اتنی کسی دوسرے کو نہیں ۔اکبر حیدری کا نام تاریخ میں سنہری حروف سے اس لئے بھی لکھا جا ئے گا کہ انھوں نے جامعہ عثمانیہ کے قیام میں بہت اہم کردار نبھایا جسے حیدرآبادی کبھی فراموش نہیں کرسکتے ۔اکبرحیدری نہ صرف ایک اعلیٰ درجے کے ایڈ منسٹریٹر اورسیاسی مدّبر تھے بلکہ وہ ایک درویش صفت اوربڑے علم دوست انسان بھی تھے۔ اس موخرء الذکر خوبی نے انھیں اقبالؔ ؔ کے حلقہ احباب میں شامل کیا ۔ علامہ اقبالؔ کے مولوی عبدالحق ‘ سروجنی نائیڈو سے بھی اچھے مراسم تھے ۔ کلامِ اقبالؔ سے ان کے شغف کایہ عالم تھا کہ جب اقبالؔ کی زندگی میں اہلِ حیدرآباد نے پہلا یومِ اقبالؔ منایا تو مسز نائیڈو حیدرآباد میں موجود نہیں تھیں لیکن جیسے ہی انھیں اس تقریب کی اطلاع ملی تو انھوں نے تار کے ذریعہ یہ پیغام روانہ کیا:
’’میں اپنے بہترین دوست اقبالؔ کو ہندوستانی نشا ۃ ثانیہ کا عظیم ترین شاعر سمجھتی ہوں اس شاعر کے اُردو اور فارسی شعری کارنامے ہندوستانی قوم کے زبردست رہبر ثابت ہوں گے ‘‘۔۱۰؂
اقبالؔ پر حیدر آباد میں ہی نہیں بلکہ ساری دنیا میں بہت کچھ لکھا گیا مگرحیدرآباد میں اقبالؔ ؔ پر کچھ زیادہ ہی کام ہوا ہے ۔
’’اہلِ حیدرآباد اس امتیاز کے بھی حامل ہیں کہ انھوں نے اقبالؔ ؔ کی زندگی میں ہی ’’یومِ اقبالؔ ‘‘ منانے میں پہل کی ۔ اس دور کا حیدرآباد دریا دل لوگوں سے معمور تھا ۔ علم دوست اورفقیر منش امیروں کا حیدرآباد ‘ درمیانہ طبقے کے خوش پوش کج کلاہوں کا حیدرآباد ‘ امارت گذیدہ مولویوں اورگوشہ نشین علماء کا حیدرآباد ‘ ہندومسلم اتحاد کے نقطہء عروج پرستارہ کی طر ح چمکنے والا حیدرآباد ۔ اسی حیدرآباد نے مشرق کے سب سے بڑے انقلابی شاعر اورحکیم کو پُروقار اوروالہا نہ انداز میں خراجِ عقیدت پیش کیا ہے جسے زندگی میں کبھی نہیں بھلا یا جا سکتا ۔‘‘۱۱؂
اس کے علاوہ اقبالؔ صدی تقاریب کاانعقاد مئی ۱۹۷۳ء میں عظیم الشان پیمانے پر انعقاد عمل میں آیا جو بہت کامیاب رہی ۔ اقبالؔ ؔ کو اہلِ حیدرآباد سے اوراہلِ حید رآباد کو اقبالؔ ؔ سے الفت ہے ‘ تھی اور رہے گی حیدرآباد میں اقبالؔ ؔ کلب بھی قا ئم کیا گیا ۔ حیدر آباد میں اقبالؔ پر لکھی گئی مطبوعات کی فہرست در جِ ذیل ہیں۔
مطبوعات کے نام مصنف /مر تبہ کے نام
۱۔ روحِ اقبال ۔۔۔۔۔ ڈاکٹر یوسف حسین خاں
۲۔اقبال کا تصوّرِ زماں و مکاں ۔۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹررضی الدین صدیقی
۳۔شاد واقبال ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مرتبہ ڈاکٹرسید محی الدین قادری زور ؔ
ؔ ۴۔اقبال ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مرتبہ ڈاکٹر مولو ی عبدالحق
۵۔مقامِ اقبال ۔۔۔۔۔۔۔۔ اشفاق حسین
۶۔آثارِ اقبال ۔۔۔۔۔۔۔۔ مرتبہ ڈاکٹرغلام دستگیر رشید ؔ
۷۔رموزِاقبال ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مصنف ڈاکٹر میر ولی الدین
۸۔اقبال کی کہانی کچھ میری اور کچھ انکی زبانی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ مصنف ڈاکٹر ظہیر الدین احمد البحا معی
۹۔قرآ ن اوراقبال ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مصنف ابو محمد مصلح
۱۰۔متاعِ اقبال ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مصنف ابو ظفر عبد الواحد
۱۱۔فکرِاقبال ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مرتبہ غلام دستگیررشد ؔ
۱۲۔اقبال ایک جدید تشکیل ۔۔۔۔۔۔۔۔ مصنف عزیز احمد
۱۳۔فلسفہء عجم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مترجمہ میر حسن الدین
۱۴۔ترجمہ ء خطبات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مترجم میر حسن الدین
۱۵۔حکمتِ اقبال ۔۔۔۔۔۔۔۔ مر تبہ ڈاکٹرغلام دستگیر رشیدؔ
۱۶۔اقبال (فن اور فکر ) انگریزی زبان میں ۔۔۔۔۔۔ مصنف ایس۔ اے ۔واحد
۱۷۔کلیاتِ اقبال ۔۔۔۔۔۔۔۔ مرتبہ عبدالرزاق راشدؔ
۱۸۔اقبال کا سیاسی کارنامہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ محمد احمد خاں
۱۹۔نظم اقبال ‘سفرحیدرآباد دکن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مرتبہ تصدق حسین تاج ؔ
۲۰۔مر قعِ اقبال ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مرتبہ بزمِ اقبالؔ
۲۱۔الحیاۃ و الموت فی فلسفہء اقبال ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مرتبہ حسن الا عظمی
۲۲۔اقبال پر فارسی میں رسا لہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مصنف داعی اسلام آقا ئے محمد علی
۲۳۔سب رس کااقبالؔ نمبر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مرتبہ خواجہ حمید الدین شا ہد و صاحبزادۂ میکش
ان تمام کتابوں کے علاوہ کئی مضامین بھی اقبالؔ ؔ پرلکھے گئے اگرہم ان تمام پر اظہارِ خیال کر نے لگے تو ہمیں دفتر کی کمی پڑ جائے گی ۔ قصہء مختصر یوں کہ اقبالؔ ؔ کو حیدرآباد سے اور حیدرآباد کو اقبالؔ سے دلچسپی تھی مگر افسوس کہ اقبالؔ ؔ حیدرآباد کے نہ ہو سکے ۔ شا ید اللہ عزوجل کو یہ منظور نہ تھا ۔

حوالہ جات

۱؂ ۔۔۔خطبہ استقبالیہ،عا بدعلی خاں۔عا لمی اقبالؔ سمینار سونئیر۔اپر یل ۱۹۸۶ ؁ء۔ص ۷
۲؂ ۔۔۔پر و فیسر بیگ احساس ۔’’اقبا ل او رحیدرآباد ……تعلقات کی کشمکش‘‘۔شورِ جہاں ۔
مطبو عہ اشاعت ۲۰۰۵ء ۔ص ۳۵
۳؂ ۔۔۔نظرؔ حیدر آبادی ۔’’اقبالؔ اورحیدرآباد ‘‘۔مطبوعہ اشاعت ۱۹۶۱ء ۔ص۱۳
۴؂ ۔۔۔نظرؔ حیدر آبادی ۔’’اقبالؔ اورحیدرآباد ‘‘۔مطبوعہ اشاعت ۱۹۶۱ء ۔ص۱۳
۵؂۔۔۔پروفیسر بیگ احساس۔ ’’ اقبالؔ اور حید رآباد ___ تعلقات کی کشمکش‘‘۔شورِ جہاں۔
مطبو عہ اشاعت ۲۰۰۵ء ۔ص ۳۵
۶؂ ۔۔۔نظر ؔ حیدر آبادی۔اقبالؔ اور حیدر آباد ۔مطبو عہ اشاعت ۱۹۶۱ء ۔ص ۱۷ ‘ ۱۸
۷؂ ۔۔۔پروفیسر بیگ احساس ۔’’اقبالؔ اور حیدرآباد ……تعلقات کی کشمکش‘‘۔شورِ جہاں ۔
مطبو عہ اشاعت ۲۰۰۵ء۔ص ۳۶
۸؂ ۔۔۔نظرؔ حیدر آبادی۔ اقبا ل اور حیدرآباد ۔مطبو عہ اشاعت ۱۹۶۱ء۔ص ۱۹
۹؂ ۔۔۔پر وفیسر بیگ احساس ۔’’اقبالؔ اور حیدرآباد____تعلقات کی کشمکش‘‘ ۔شورِ جہاں۔
مطبو عہ اشاعت ۲۰۰۵ ء ص۳۶
۱۰؂ ۔۔۔نظر ؔ حیدرآبادی۔مسز سروجنی نا ئیڈو اوراقبالؔ ۔’’اقبالؔ اور حیدر آباد ‘‘ ۔ مطبوعہ اشاعت ۱۹۶۱ء۔
ص ۲۲۰‘ ۲۲۱
۱۱؂ ۔۔۔نظر ؔ حیدر آبادی۔حیدر آباد میں پہلا یومِ اقبالؔ ۔ ’’عالمی اقبالؔ سمینار سوئیز۔
مطبوعہ اشاعت ۔اپر یل ۱۹۸۶ء ۔ ص ۱۷

Share
Share
Share