گیت : فن اور تکنیک ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ثمینہ بیگم

Share

Sameena Photoگیت : فن اور تکنیک

ثمینہ بیگم
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی ۔ حیدرآبد
ای میل :

’’ گیت ‘‘ جسے ہم عام زبان میں گانا بھی کہتے ہیں۔گیت کی خاصیت یہ ہے کہ اس میں ردیف و قافیہ کی پابندی ہو یا نہ ہو اس میں نغمگی ، ترنم یا جسے ہم آہنگ بھی کہتے ہیں وہ بے حد ضروری ہے ۔
ہر وہ جملہ گیت ہے جس میں آہنگ ہو ۔ سینہ بہ سینہ ،نسل در نسل گیت منتقل ہوتے آئے ہیں ۔ لیکن انہوں نے کبھی بھی تحریری لباس کا سہارا نہیں لیا کیوں کہ گیت کا تعلق بصارت سے زیادہ سماعت سے ہے ۔
مختلف محققین نے گیتوں کی تعریف مختلف انداز میں کی ہے جو مندرجہ ذیل ہیں ۔

’’گیت غنائی شاعری کا سب سے زیادہ عوام پسند اور قدیم ترین روپ ہے۔‘‘ ۱؂
’’ گیت مزاجاً نسوانیت کے غنائی اظہارکی ایک صورت ہے۔ ثقافتی لحاظ سے اس کا نہایت گہرا تعلق زمین سے ہے اور زمین عورت کے مشابہ ہے ۔ وہ عورت ہی کی طرح ’’روح‘‘ کو ارضی جسم عطا کرتی ہے اور زندگی کی بقا اس کا عظیم ترین مقصد ہے مگر اس مقصد کی تکمیل کے لئے خود ’’زمین ‘‘ کو آسمان کی ضرورت ہے۔‘‘ ۲؂
’’گیت اردو شاعری کی ایسی صنف ہے جس میں داخلیت ، موسقیت، عروضی قید سے آزاد زبان کی سادگی ،طرزِ ادا اور موضوعات کا تنوع پایاجاتا ہے ۔‘‘ ۳؂
’’گیت کا مرکزی وصف نغمگی ہے۔ دراصل الفاظ کو جب مترنم الفاظ میں سمو یا جاتا ہے اور مترنم الفاظ ترتیب وار لائے جاتے ہیں تو گیت جنم لیتا ہے ۔‘‘ ۴؂
’’گیت اصطلاح عام میں ایک گانا ہوا جو گایا جاتا ہے اور جس میں ترنم و شیرینی کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے۔ ادبی معنوں میں گیت ایک چھوٹی سی لی ریکل نظم ہوئی جس میں ایک منفرد خیال یا جذبہ داخلی طور پر بیان کیا جائے کوئی قوم خواہ وہ تہذیب و تمدن کی کسی منزل پر ہی کیوں نہ ہوایسی نہیں ملے گی جس کے پاس گیتوں کا کافی ذخیرہ نہ ہو یہ گیت اس قوم کیمذاق ، اس کے جذبات اور اس کے تمناؤں کے آئینہ دار ہیں ۔‘‘ ۵؂
’’عوامی گیت ، روایتی گیت اور آہنگ جو عام لوگوں میں مروج ہوتے ہیں جن میں مصنفین کا نام عموماًنہیں ملتا۔‘‘ ۶؂
’’لوک گیت عوامی ادب کی وہ مشہور صنف سخن ہے جو انسانی پیدائش سے ظہور میں آئی ہے ۔ اس کی جغرافیائی حد بندیاں تو ضرور ہیں لیکن اس کے باوجود یہ وہ قیمتی سرمایہ ہے جسے ضبطِ تحریر میں نہیں لایاجاتا تھا۔ یہ عوام کے داخلی جذبات کا فطری اظہار ہے اس کا خاص کام خواتین کے جذبات کا بے اختیار اور ان کے بھر پور احساسات کا بیان ہوتا تھا۔‘‘ ۷؂
’’عہدِ قدیم میں کسی مخصوص فرماں روا کی کار گزاریاں ، اس کے فلاح و بہبود کے کارناموں کے ستائش گا ہ تھا ۔ بہت کچھ تبدیل ہوکر عوام کے زباں زد ہوجاتے تھے اور پیڑھی در پیڑھی اور سینہ بہ سینہ چلتے رہے تھے جو بعد میں جن گاتھا یا لوک گیت کے نام سے مشہور ہوگئے۔‘‘ ۸؂
’’ اَن پڑھ دیہاتیوں کے دلوں سے نکلے ہوئے وہ جذباتی بول جو شعری اور لسانی پابندیوں سے آزاد ہوں۔ پھر بھی ان میں لحن اور ایک قسم کا میٹھا سُر ہے۔‘‘ ۹؂
’’عوام کے دلوں سے نکلے ہوئے بول جو غیر اختیاری طور پر اضطراری حالت میں کسی المناک یا طر ب ناک جذبے سے تاثر کے بعد نکل جاتے ہیں۔‘‘ ۱۰؂
’’نشاط و الم کے پر جوش جذبات کی مخصوص کیفیت کو چند مناسب الفاظ میں ترنّم کے سہارے بیان کرنے کو’’ گیت ‘‘ کہا جاتا ہے۔‘‘ ۱۱؂
’’انسان اپنی خوشیوں کا جسمانی اظہار رقص کے ذریعے اور زبانی اظہار گیت کے ذریعے کرتا ہے ۔ دراصل جب انسان بے انتہا خوش ہوتا ہے تو کچھ گُن گُنا تا ہے اور جب کبھی خوشی کی انتہا ہوتی ہے تو اپنے جسمانی اعضاء کو بھی حرکت دینے لگتا ہے۔ یہیں سے رقص کا آغاز ہوتا ہے اور جب ان جذبات کو تحریری شکل میں پیش کیا جا تا ہے تو اسے گیت کہتیہیں ۔‘‘ ۱۲؂
’’لوک گیت میں عوام کے جذبات کا فطری اور براہِ راست اظہار ہوتا ہے ۔ یہ عوام کے دلوں میں محفوظ رہنے والا وہ ادبی سرمایہ ہے جو ضبطِ تحریر میں نہیں لایا جاسکا۔ اس میں عوام کے جذبات کا برملا اظہار ہوتا ہے اور اس میں انسان کے دلوں کی آواز واضح طور پر سنی جا سکتی ہے جس میں ان کے سادہ اور معصوم جذبات کی عکاسی ہوتی ہے۔ لوک ادب اجتماعی خوشیوں اور غموں کا آئینہ ہے ۔ انسان جب بہت خوش ہوتا ہے تو اپنی خوشی کا اظہار وہ رقص یا گانے کے ذریعہ کرتا ہے لوک گیتوں کا تعلق بھی اسی زبانی گیت سے ہے ۔ جب اسے ضبطِ تحریر میں لایا گیا تو اس کو ’’ لوک گیت ‘‘ کے نام سے موسوم کیا گیا۔‘‘۱۳؂
’’قافیہ اور ردیف کی جگہ محض لحن میں یکسانیت اور شعری پابندیوں سے بالکل آزاد روزمرہ پر مشتمل عام چیزوں کو سونے اور چاندی کا بناہوا بتانا۔ ہمارے لوک گیتوں میں سونے کا گڑوا ہے جس میں گنگا جل بھرا ہوا ہے۔ سونے کی تھال میں بھوجن پروسا جارہا ہے۔ سونے کا محل ہے چاندی کے کیواڑ ہیں۔‘‘۱۴؂
’’گیت کے اصل معنی ’’گایاگیا‘‘ اور ’’گان‘‘ ہیں ۔ گان وہ ہے جو گایاجاتا ہے ۔ دونوں کو ملاکر یہ معنی سامنے آتا ہے کہ جو گایا جاسکے وہی گیت ہے ۔‘‘۱۵؂
’’ وہ صنف جس نے نغمگی ، آہنگ اور ترنم کو الفاظ کی تالیفی موسیقی کا جامہ دیا، وہ ہے گیت !!‘‘ ۱۶؂
مندرجہ بالاتمام محققین کے مختلف خیالات سے یہی بات ظاہر ہوتی ہے کہ ’’ وہ عوامی شاعری جو سُر اور لَے کا سہارا لے کر عوامی جذبات کا اظہار کرتی ہے اُسے ہم گیت کہتے ہے ۔
اردو میں اصناف سخن کا تعین ان کی تکنیک اور موضوعات کے لحاظ سے کیا جاتا ہے ڈھولک کے گیتوں کی نہ ایک مخصوص تکنیک اور نہ ہی ایک خاص موضوع۔لہٰذا اس میں جس بات پر توجہ دی جاتی ہے،وہ لَے اور آہنگ ہے ۔یہ لَے کبھی ڈھولک کی تھاپ سے پیدا ہوتا ہے تو کبھی الفاظ رقافیوں سے البتہ گیتوں کی زبان و لفظیات وغیرہ مقامی ہوتے ہیں۔ لیکن ہر گیت میں ایک خاصیت ایسی ہے جو ان تمام سے جدا ہے وہ یہ گیت کا پہلا مصرعہ پر ایک مصرعہ کے بعد دہرایا جاتا ہے جیسے ٹیپ کا مصرعہ ہوتاہے ۔ یعنی کوئی ایک یا دو عورتیں گیت شروع کرتی ہے اور پہلا مصرعہ گا یتں ہے جسے ساریعورتیں کورس میں یہی پہلاوالا مصرعہ دہراتیں ہیں ایسا ہر ایک گیت میں ہوتا ہے اس بات کی وضاحت ’’اردو گیت ‘‘ میں ’’ڈاکٹر قیصر جہاں‘‘ نے کی ہے ۔
’’گیت میں غنائیت کو بر قرار رکھنے کے لئے ٹیپ کے مصرعے کا استعمال بھی عموماً ہوتا ہے ۔ ہر بند کے بعد ٹیپ کو دہراکر گیت میں غنائیت پیدا کی جاتی ہے دراصل وہ ڈورہے جو گیت کے تمام بند کو ایک ساتھ پروتی ہے اور وحدت تاثر قائم رکھتی ہے۔
گھر آئی گھٹا سکھی ساون کی
لائے کون خبر یاپی کے آون کی گھر آئی گھٹاسکھی ساون کی
بعض اوقات ٹیپ کا استعمال گیت میں نہیں ہوتا۔ ایسی حالت میں گیت کے پہلے مصرعے سے ٹیپ کا کام لیا جاتا ہے ۔ ایک مصرعہ جسے بار بارد ہرایاجاتا ہے ،وہ ٹیپ کامصرعہ کہلاتاہے۔ ؂
کیسے تھے بند تم نے بھی دوار
بھکاری من کتنا للچایا
کھوکر یہ کتنا پچھتایا
کتنا چاہا پر نہیں آیا
رحم تک پاتا کیا پار
کیسے تھے بند تم نے بھی دوار‘‘ ۱۷؂
گیت وزن وبحر سے کوسوں دور ہے اور اس کی کوئی خاص ہئیت یا تکنیک بھی نہیں ہے ۔ یہ صرف ڈھولک کی تھاپ پر ، سر اور تال کے ساتھ ساتھ تالیوں کی گونج میں اپنا اصلی چہرہ دکھاتے ہیں۔ کچھ گیت غزل کی طرح ہم قافیہ اور ہم ردیف بھی ہوتے ہیں ۔ مثلاََ ؂
آسماں سے اتارا گیا
زندگی دے کے مارا گیا
میں تو مڑ کے نہیں دیکھتا
نام لے کے پکارا گیا
آج بازی لگائے بیٹھی ہوں
تن من کو جلائے بیٹھی ہوں
تم سمجھتے میاں میرا کوئی نہیں
آج محفل جمائے بیٹھی ہوں
ہونے دو خوش دل کی ارمان نکلنے دو
شب تھوڑی سی باقی ہے انکار کور رہنے دو
ایک باغ کا مالی نے دوہار گنا لایا
غیروں نے چھوا ہوگا اس ہار کو رہنے دوگیتوں کی مثالیں حسبِ ذیل ہیں ؂
*جاگے جاگے نندیا, تم جاگے ساری رات
مجھے نہیں معلوم نا
*جھٹکے سے توڑی انار , سمدن سالواڑے
*دل میں خوف خدا ہے , خدا کی قسم
*کیا مزے کا ہریا طوطا , اڑگیامیرے ہا تھ سے
اڑتانہیں رات سے , اڑائی دونوں ہاتھ سے
*ہری ڈوری لگی بی اجمیر, وہ خواجہ وہ میرے پیر
*دلہا گاؤں کا گنوار , دلہن بولتی بی نہیں
شملہ چھوڑا بی نہیں, ہیٹ پینتا بی نہ
*لوٹے میں گھڑا ڈوباؤں, کیا بیگم تیرے لیے
ان گیتوں کے علاوہ دوسرے گیت جو مختلف ہئیت کے ہوتے ہیں ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
گیت

Share
Share
Share