اردو صحافت برائے اطفال ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ڈاکٹرسید فاضل حسین پرویز

Share

fazilاردو صحافت برائے اطفال

ڈاکٹرسید فاضل حسین پرویز
چیف ایڈیٹر گواہ اردو ویکلی‘ حیدرآباد۔
فون:09395381226

نئی نسل اگر اپنی زبان سے واقف نہیں ہے تو اس زبان کا مستقبل تاریک ہوجاتا ہے۔ کسی بھی زبان کے مستقبل کا اندازہ اس بات سے لگایا جاتا ہے کہ آیا اُس زبان کے بولنے والوں کی نئی نسل اس سے کس حد تک واقف ہے۔ اگر نئی نسل اُس زبان سے آشنا نہیں ہے‘ اسے بول چال اور تعلیم و تدریس کی زبان کے طور پر استعمال نہیں کرتی ہے تو یہ زبان ختم ہوجاتی ہے۔ اردو مشاہرین اور اکابرین نے اس نکتے کو سمجھتے ہوئے بچوں کے ادب اور بچوں کی صحافت پر توجہ دی۔ چنانچہ ہر دور میں ایسے رسائل شائع ہوتے رہے جو یاتو بچوں سے متعلق رہے یا پھر بچوں کی دلچسپی کا ان میں مواد شامل رہا۔

ماہنامہ شاعر نے اردو میں بچوں کے ادب پر ایک خصوصی شمارہ شائع کیا (جون:2013ء) جس میں ضیاء اللہ کھوکر کے مضمون کو شامل کیا گیا ہے۔ یہ مضمون اس کتاب سے ماخوذ ہے جو بچوں کی صحافت کے 100سال مکمل ہونے پر گجران والا پاکستان سے ضیاء اللہ کھوکر نے شائع کی جس میں 1902ء سے 2002ء تک شائع ہونے والے اردو میں بچوں کے رسائل و جرائد کی تفصیلات حروف تہجی کی ترتیب سے شائع ہوئی ہے۔ اس مضمون کے مطابق بچوں کا اخبار لاہور سے مئی 1902ء میں شائع ہوا تھا۔ جملہ 192 رسائل و جرائد کی فہرست شائع کی گئی ہے۔ ان میں سے 29شمارے ہندوستان سے ہوا کرتے تھے۔ ان میں سے کچھ اب بھی جاری ہیں اور بعض کی اشاعت مسدود ہوچکی ہے۔
(1) ماہنامہ اتالیق (حیدرآباد دکن)۔ آغاز 1917ء‘ ایڈیٹر : مولوی فاضل محمد عبدالرب کوکب۔
(2) ماہنامہ اردو کومک (مالیگاؤں)۔ آغاز جنوری 1966ء‘ ایڈیٹر: انصاری حفیظ الرحمن بی ایس سی
(3) ماہنامہ اطفال ادب (گیا)۔ آغاز دسمبر 1998ء‘ ایڈیٹر: ایم اے کریمی
(4) ماہنامہ اُمنگ (نئی دہلی)۔ آغاز دسمبر 1987ء مرتب: سید شریف الحسن نقوی‘ مخمور سعیدی
(5) ماہنامہ اچھا ساتھی سرکردہ (بجنور)۔ آغاز نومبر 1993ء‘ مدیر: سراج الدین ندوی
(6) ماہنامہ بچوں کا اخبار (لاہور)۔ آغاز مئی 1902ء مرتب: منشی محبوب عالم
(7) ماہنامہ بچوں کا میگزین (حیدرآباد)۔ مدیر اعلیٰ: محمد فاروق دانش، اعزازی مدیر: رفیق بھیا
(8) ماہنامہ بچوں کا ہلال (رامپور)۔ مدیر: عبدالملک سلیم‘ معاون ایڈیٹر: عبدالباری سلیم
(9) ماہنامہ بچوں کی دنیا (گیا)۔ آغاز نومبر1993: ایڈیٹر: نوشابہ کلیم
(10) ماہنامہ بھائی جان (حیدرآباد)۔ آغاز ستمبر 1982ء‘ ایڈیٹر : محمد فاروق دانش
(11) ہفت روزہ پریم (لاہور)۔ آغاز 15؍اپریل1926ء‘ ایڈیٹر تاجور نجیب آبادی
(12) ہفت روزہ پھول (لاہور)۔ آغاز: اکتوبر 1909ء‘ ا یڈیٹر بنت نذر الباقر
(13) پندرہ روزہ ؍ماہنامہ پیام تعلیم (نئی دہلی)۔ آغاز: اپریل 1926ء‘ ایڈیٹر سید انصاری بی اے شاہد علی خان
(14) ماہنامہ تعلیم نو (حیدرآباد) آغاز اپریل 2000ء‘ چیف ایڈیٹر: نعیم احمد آکاش
(15) ماہنامہ تعلیم و تربیت (لاہور)۔ آغاز مارچ 1941ء‘ ایڈیٹر: ڈاکٹر عبدالوحید
(16) ماہنامہ چاند (لاہور)۔ آغاز 1925ء‘ ایڈیٹر: خلیق احمد خلیقی صدیقی سہارنپوری
(17) ماہنامہ رتن (جموں)۔ آغاز جنوری 1932ء‘ ایڈیٹر: کندن لال ایم اے
(18) ماہنامہ سب رس (حیدرآباد‘ دکن)۔ آغاز جنوری 1938ء‘ زیر ادارت معین الدین احمد انصاری بی ایس سی‘ زیر نگرانی ڈاکٹرمحی الدین قادری زور
(19) ماہنامہ عزیز (گورکھپور)۔ آغاز جنوری 1930ء‘ ایڈیٹر بدیع الزماں اعظمی
(20) ہفت روزہ غنچہ (بجنور)۔ آغاز 1922ء‘ ایڈیٹر عزیز بی اے
(21) ماہنامہ کھلونا (نئی دہلی)۔ آغاز اپریل 1948ء‘ مدیران یونس دہلوی، ادریس دہلوی
(22) ماہنامہ گلدستہ اطفال (لاہور)۔ آغاز اگست 1922ء‘ زیر سرپرستی: حضرت نوح ناروی
(23) ماہنامہ متعلم۔ آغاز 1924ء‘
(24) ماہنامہ نٹ کھٹ (حیدرآباد)۔ آغاز جولائی 1990ء‘ مدیر: اسلم شہزاد
(25) ماہنامہ نرالی دنیا (نئی دہلی)۔ آغاز دسمبر 1992ء‘ مدیر: تنویر احمد
(26) پندرہ روزہ؍ماہنامہ نور (رامپور)۔ آغاز 1952ء‘ مدیر اعلیٰ و نگران: ابوسلیم محمد عبدالحئی
(27) ہفت روزہ نونہال (لاہور)۔ آغاز 8؍جولائی 1922ء ایڈیٹر: حکیم احمد شجاع بی اے علیگ
(28) ہفت روزہ ؍ پندرہ روزہ ہدایت (لاہور)۔ آغاز 1938ء‘ ایڈیٹر اکرم بی اے
(29) ہفت روزہ ہونہار (لاہور)۔ آغاز جنوری 1936ء‘ ایڈیٹر : میاں عبدالمجید بھٹی
شاعر کے مدیر جنہوں نے کھوکر کا مضمون مرتب کیا وہ لکھتے ہیں کہ دہلی سے ایک رسالہ ’’پھلواری‘‘ شائع ہوتا تھا جس کا اس میں ذکر نہیں ہے۔
فاروق سید ’’بچوں کے لئے اردو اخبارات و رسائل‘‘ کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ اردو کے نیم مردہ جسم کے لئے تازہ خون اور تازہ خون کے لئے نئے ذہنوں کی ضرورت ہے۔ یہ نئے ذہن ہماری موجودہ نسل ہے۔ موجودہ نسل کو تندرستو توانا بنانے کے لئے ان کی ذہنی آبیاری کی ضرورت ہے۔ ذہنی آبیاری یا نشونما کا کام بچوں کے رسالے بہت ذمہ داری کے ساتھ ادا کررہے ہیں لیکن بچوں کے رسالوں تک بچوں کی رسائی کی سب سے بڑی رُکاوٹ والدین اور اساتذہ ہیں۔ اسکول کا انتظامیہ بچوں کے والدین‘ طالب علموں کے اساتذہ کے نزدیک پڑھائی کا مطلب صرف اور صرف نصابی کتابوں کی تعلیم تک ہی محدود ہے۔ ان کی نظر میں غیر درسی کتابیں بالخصوص رسائل کا مطالعہ تضیع اوقات کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ وہ چا ہتے ہیں کہ ان کے بچے دسویں اور بارہویں میں سب سے زیادہ مارکس حاصل کرنے والے روبوٹ بن جائیں۔ جن کے سینے میں دل کی جگہ مارکس کی مشین فٹ کردیں اور جو الف سے اللہ ب سے بسم الہ پ سے پڑھائی کے بجائے الف سے ایک، ب سے بیس، پ سے پچاس کی گنتی سیکھیں جو زندگی بھر گنتی کے اُلٹ پھیر میں اُلجھے رہیں۔
بڑوں کی اس چھوٹی ذہنیت نے چھوٹوں کا بڑا کھلونا (دہلی) چھین لیا۔ ان کے معصوم ہاتھ کلیاں (لکھنؤ)، غنچہ (بجنور۔کلکتہ) اور پھول (دہلی) سے آشنا بھی نہ ہونے پائے تھے کہ ان کی انگلیاں ریموٹ کے کھُل جا سم سم کی چکاچوند میں اس طرح الجھیں کہ جل پری (مالیگاؤں) اور منہ میں ٹافی (لکھنؤ) نہیں دکھائی دیتی کہ پھلواری (دلی) تو بہت پہلے بند ہوچکا ہے اس لئے بزم اطفال (ہفت روزہ‘ مالیگاؤں) میں صف ماتم بچھ گئی ہے۔ ننھا (ممبئی)، منّا (ممبئی)، ہونہار (دہلی)، دوست (حیدرآباد) تھے۔ ان کے بچپن (دہلی) میں بچوں کی دنیا (گیا۔بہار)، جگنو (بھوپال)، خوشبو (سہسرام)، چاند (ناگپور)، چندانگری (مرادآباد) بہت اہم رسالے ہوا کرتے تھے جن کے نام بھی شاید ہی کسی کو یاد ہوں گے۔
فاروق سید کے مطابق اس وقت بچوں کے باغ کی زینت جو پھول بنے ہوئے ہیں ان میں پیام تعلیم (دہلی)، اُمنگ (دہلی)، بچوں کا ہلال اور نور (رامپور)، گل بوٹے (ممبئی) اچھا ساتھی (بجنور) گلشن ا طفال (مالیگاؤں) غبارہ (بنگلور) قابل ذکر ہیں۔ بچوں کے لئے واحد ہفت روزہ خیر اندیش 1987ء سے مسلسل اپنے وجود کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ اس کے علاوہ بچوں کے اخبارات کے نام پر روزناموں میں ہفتے میں ایک یادو مرتبہ بچوں کے لئے ضمیمے شائع ہوتے ہیں‘ جسے ہم نعمت غیر مترقبہ کہہ سکتے ہیں۔
یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ جتنے رسالے اس وقت لڑکھڑاتے ہوئے اپنی موجودگی کا احساس دلارہے ہیں سب کسی نہ کسی بیساکھی کو سہارا بنائے ہوئے ہیں۔ پیام تعلیم، مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ کی وجہ سے جاری ہے۔ ہلال اور نور کو مکتبہ الحسنات سہارا دےئے ہوئے ہے۔ اُمنگ، دہلی اردو اکادمی کی مہربانی سے‘ گلشن اطفال بچوں کی کتابوں کی اشاعت کے سہارے گل بوٹے، تعلیمی سرگرمیوں اور دیگر اشاعتی کاموں کے بل بوتے پر ہر ماہ پابندی سے نکل رہا ہے۔ اچھا ساتھی اور غبارہ کی بیساکھیوں کا علم نہیں ہے لیکن بہت وثوق کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ بچوں کا رسالہ‘ کسی سہارے کے بغیر چل ہی نہیں سکتا۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ہندوستان کے تقریباً تمام اردو اخبارات بچوں اور نوجوانوں کے لئے خصوصیایڈیشن شائع کرتے ہیں۔ انہی ایڈیشنوں سے مستقبل کے قلمکار تیار ہوتے ہیں۔ اس سلسلہ میں حیدرآباد کے روزنامہ رہنمائے دکن نے پہلے بچوں کا صفحہ پھر طلبہ اور نوجوانوں کا صفحہ کے سلسلہ کا آغاز کیا۔ نوجوانوں کا صفحہ اب بھی جاری ہے۔ رہنمائے دکن کے ان صفحات پر ماضی میں قلمی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے والے آج ہندوستان کے نامور ادیب، شاعر اور صحافیوں میں شمار کئے جاتے ہیں۔ بچوں اور نوجوانوں کے صفحہ پر ہونہار طلبہ و نوجوانوں کے تعارف کا سلسلہ بھی ایک طویل عرصہ تک جاری رہا۔ منصف نے بھی بچوں کے لئے ہفتہ واری صفحہ مختص کیا ہے جس میں بچوں کے مضامین‘ ان کے آرٹ کے علاوہ کمسن بچوں کی سالگرہ کے موقع پر ان کی تصاویر کے ساتھ مبارکبادی کے پیامات بھی شائع کئے جاتے ہیں۔ روزنامہ اعتماد کا پھلواری ایڈیشن کافی مقبول ہے۔ روزنامہ راشٹریہ سہارا نے بھی اس سلسلہ کو جاری رکھا ہے۔ دہلی، ممبئی، پٹنہ، کولکتہ کے اخبارات میں بھی بچوں کے صفحے ہفتہ واری ایڈیشن کے طور پر شائع ہوتے ہیں۔ البتہ اردو صحافت کے مقابلے میں انگریزی صحافت نے بچوں کے ادب و صحافت کو بہت زیادہ اہمیت دی ہے۔
بچوں کو ہمیشہ سے کارٹونس سے بہت زیادہ دلچسپی رہی ہے۔ کامکس سیریز مختلف زبانوں میں شائع ہوتی تھیں اور اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ ممتاز شاعر رؤف خلش کے فرزند مکرم نیاز نے پہلی اردو کارٹون ویب سائٹ شروع کی جس میں انہوں نے اپنے دور کے مشہور کامکس کو اردو میں پیش کیا۔اس سے پہلے انگریزی میں بچوں کے پسندیدہ مافوق الفطرت کردار جیسے ’’سوپر مین‘‘، ’’فینٹم‘‘، ’’ٹارزن‘‘، ’’اسپیڈر مین‘‘، ’’ہرکیولیس‘‘، ’’ہی مین‘‘، ’’ٹام اینڈ جیری‘‘ اردو رسالوں میں شائع کئے جاتے تھے۔ مجموعی طور پر 86ایسے کردار ہیں جو کارٹون کامکس اور ٹیلیویژن سیریلس پر پیش ہوتے ہیں۔ محترمہ بانو سرتاج نے ان تمام کرداروں کو ایک کتابی شکل دی جو ’’دنیا کارٹون اور کامکس کیرکٹر‘‘ کے عنوان 2012ء میں منظر عام پر آئی۔
ان کامک کیرکٹرس سے متعلق سیریز شائع کرتے ہوئے اردو اخبارات، جرائد و رسائل نے اپنی مقبولیت کو قائم رکھنے کی بڑی کامیاب کوشش کی ہے۔ ملانصیرالدین، ملا دوپیازا، بیربل کے کردار بھی بچوں میں بے حد مقبول رہے۔ نئی نسل کے قاریوں میں اخبارات، جرائد و رسائل کی مقبولیت میں الف لیلیٰ کی داستانوں کی قسط وار اشاعت کا بھی بڑا اہم رول ہے۔ علی بابا چالیس چور، سندھ باز جہازی جیسے کردار بچوں کے لئے زندہ جاوید رہے ہیں۔ اس طرح یہ کہا جاسکتا ہے کہ اردو صحافت نے بچوں کا ادب اپنے آپ میں ضم کرتے ہوئے ایک نئی جہت اختیار کی۔ بچوں کیلئے شاعری، ان کے لئے کہانیاں، پہیلیاں، شائع کرکے اردو صحافت کو نئی نسل میں زندہ رکھا گیا۔ مرزا غالب، سرسید احمد خان، شبلی نعمانی، برج نارائن چکبست، اکبر الہ آبادی، پریم چند، تلوک چند محروم، حامد اللہ افسر، خواجہ حسن نظامی، محمود اسرائیل، حفیظ جالندھری، شفیع الدین نیر، افسر میرٹھی، اسماعیل میرٹھی، سیماب اکبرآبادی، علامہ اقبال، نذیر اکبرآبادی، حیدر بخش حیدری، بہادر علی حسینی، محمد حسین آزاد، سید ولی حیدر، مائل خیرآبادی، کرشن چندر، امجد حسین حافظ کرناٹکی، سراج انور، محوی صدیقی، اختر شیرانی، امتیاز علی تاج،ڈاکٹر ذاکر حسین (صدر جمہوریہ)، محمد مجیب، ابوالفہم خان، غلام رسول مہر، غلام مصطفےٰ تبسم، مرزا ادیب، صالحہ عابد حسین، قدسیہ زیدی، عبدالواحد سندھی، عبدالغفار موہولی، قرۃ العین حیدر، پرکاش پنڈت، ظفر پیامی، اطہر پرویز، اظہار اثر، افتخار احمد اقبال، قاضی مشتاق احمد، اندر جیت لال، ایم اے کریمی، انور کمال حسینی، مہدی جعفر، بدیع الزماں اعظمی، احمد اسحاق، محمد اکرام، پریم پال اشک، خواجہ احمد عباس، جیلانی بانو، گوپی چند نارنگ، رام لال، سہیل عظمیٰ آبادی، عصمت چغتائی، شکیلہ رحمان، عفت موہانی، قتیل شفائی، حرمت الکرام، فضا ابن فیضی، کیف احمد صدیقی، شوکت پردیسی، کوثر چاندپوری، مسرور جہاں، واجدہ تبسم، اظہر افسر، مظفر حنفی، جگن ناتھ آزاد، علقمہ شبلی، نذیر فتح پوری، سلام بن رزاق، عادل اسیر نے بچوں کے لئے شاعری کی اور خوب نثر لکھی۔ انہوں نے کتابیں بھی لکھیں اور ان کے مضامین اخبارات و جرائد اور رسائل کی زینت بھی بنے۔

Share
Share
Share