اردوزبان کے آغازکے متعلق مختلف نظریات
ڈاکٹرعزیز اللہ شیرانی
اردو زبان کی ابتدا سے متعلق ماہرین علم و ادب نے اپنے اپنے نظریات پیش کئے ہیں۔ یہ تمام نظریات ایک دوسرے کے خلاف معلوم ہوتے ہیں۔ ان میں ہم خیالی کا فقدان ہے۔
اردو میں سب سے قدیم شاعر امیر خسرو کا کلام ملتا ہے ۔ خسروؔ کا زمانہ تیرھویں عیسوی صدی کے نصف سے چودھویں صدی عیسویں کے ربع اول کا زمانہ ہے۔ خسروؔ نے اپنی مثنوی ’’نہ سپہر‘‘ میں ہندوستان کی ۱۲‘ بولیوں میں ’’زبان دہلی‘‘ کا بھی ذکر کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دہلی اور اس کے نواح میں دھیرے دھیرے زبان بن رہی تھی۔ اور یہ بننے کا عمل امیر خسرو سے سو دو سو سال پہلے شروع ہوا ہوگا لیکن زبان کے نمونے اور ان کی دستاویزات موجود نہیں ہونے کی وجہ سے صحیح وقت اور جگہ کا تعین نہیں کیا جاسکتا۔ میرامن دہلوی‘ انشاءؔ امام بخش صہبائی نے اردو کی پیدائش کے لئے یہی بتایا کہ مسلمانوں کی آمد کے بعد مقامی لوگوں کے اشتراک سے یہ زبان بنی۔ میرامن نے ’’باغ و بہار‘‘ میں اردو کے لئے یہ نظریہ دیا ۔ اردو کی ابتدا عہد اکبری میں ہوئی اور عہد شاہ جہانی میں اس نئی زبان نے برگ و بار حاصل کئے۔
۱ ۔ محمد حسین آزاد کا نظریہ:
محمد حسین آزادکا اردو کی پیدائش کے سلسلہ میں یہ نظریہ ہے کہ اردو کی پیدائش برج بھاشا سے ہوئی۔ انھوں نے اپنی کتاب ’’آب حیات‘‘ میں جہاں ایک طرف شعرائے اردو کے کلام و حالات پر اظہار خیال کیا ہے وہیں دوسری جانب اردو کی ابتدا کے بارے میں بھی اظہار خیال کیا ہے۔ ’’آب حیات‘‘ میں وہ فرماتے ہیں ’’اتنی بات ہر شخص جانتا ہے کہ ہماری اردو زبان برج بھاشا سے نکلی ہے اور برج بھاشا خاص ہندوستان کی زبان ہے۔‘‘
برج کا علاقہ دہلی اور متھرا کے آس پاس ہے۔ محمد حسین آزادؔ نے اس بات پر زور دیا کہ اردو کی پیدائش میں مقامی علاقے کے زبان یعنی برج بھاشا کا اہم رول ہے۔ وہ کسی حد تک میرامن دہلوی کے اس نظریہ سے اتفاق کرتے ہیں۔ جس میں کہا گیا ہے کہ مغلوں کے زمانے میں آگرہ کو مرکزی حیثیت حاصل تھی اور اس کے گردو نواح میں برج بھاشا کے اثرات سے اردو نے جنم لیا۔
اردو میں برج بھاشا کے الفاظ کا استعمال بھی ہوا ہے۔ آزاد کے اس نظریہ کو ماہرین لسانیات نے مسترد کردیا کیونکہ اردو اور برج بھاشا کے ضمائر اور افعال میں بڑا فرق ہے۔
.2 سید سلیمان ندوی کا نظریہ:
اردو کی ابتدا سندھ میں ہوئی۔ سید سلیمان ندوی نے اپنی کتاب ’’نقوش سلیمانی‘‘ میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ اردو کے ابتدائی نقوش مسلمانوں کی فرح سندھ کے بعد سے ملتے ہیں۔ اس لئے وہ اردو کی پیدائش سندھ کو قرار دیتے ہیں۔ تاریخی اور لسانی بنیادوں پر ثابت کرتے ہیں۔
اردو کے سرماےۂ الفاظ میں عربی ‘ فارسی کے عناصر کی موجودگی ہے۔ مسلمان سب سے پہلے ساحلی علاقوں سے سندھ اور ملابار آئے۔
محمد بن قاسم نے 712ء میں سندھ کو فتح کیا اس سے پہلے بھی مسلمانوں کیقافلے تجارت کی غرض سے ہندوستان آتے تھے۔ الغرض مسلمان یہاں آکر بس گئے۔ انھوں نے سندھ میں اسلامی حکومت قائم کی‘ ان کی زبان عربی تھی۔ ہندوستانی زبان اور عربی زبان میں رابطہ ہوا۔ وہ ایک دوسرے کی زبان کا استعمال کرنے لگے۔ سید سلیمان ندوی ’’نقوش سلیمانی‘‘ میں اپنے نظریے کو اس طرح پیش کرتے ہیں:
’’مسلمان سب سے پہلے سندھ میں پہنچتے ہیں اس لئے قرین قیاس یہی ہے کہ جس کو ہم آج اردو کہتے ہیں اس کا ہیولا اس وادئی سندھ میں تیار ہوا ہوگا۔‘‘
سید سلیمانندوی کے قیاس پر مبنی اس نظریہ کو ماہرین لسانیات نے مسترد کردیا کیوں کہ سندھ کے علاقے میں سندھی زبان بولی جاتی تھی اردو نہیں۔ سندھی پر عربی کے اثرات ضرور پڑے اس میں بہت سے الفاظ عربی کے ہیں یہاں تک کہ سندھی کا رسم الخط بھی عربی کا ہی ہے۔
.3 نصیر الدین ہاشمی کا نظریہ:
نصیر الدین ہاشمی نے اپنی کتاب ’’دکن میں اردو‘‘ میں سید سلیمان ندوی کی رائے کو سامنے رکھتے ہوئے بتایا کہ فتح سندھ سے پہلے دکن کے علاقے میں عرب مسلمانوں کی آمد ہوئی جن کا تعلق مقامی لوگوں سے ہوا اس لئے اردو کی پیدائش دکن میں ہوئی۔ پندرہویں صدی سے سترہویں صدی کے دوران دکن میں اردو کا بول بالا تھا۔ نصیر الدین ہاشمی کا نظریہ ہے:
’’بعض علماء اردو کی پیدائش کا علاقہ سندھ کو بیان کرتے ہیں۔ اگر اس حقیقت کو تسلیم کرلیا جائے تو پھر مالابار علاقہ بھی کھڑی بولی اردو کی پیدائش کا خطہ کہا جائے گا‘ کیونکہ فتح سندھ سے بہت عرصہ پیشتر اس علاقے میں عرب آباد تھے۔‘‘
نصیر الدین ہاشمی کانظریہ تسلیم نہیں کیا گیا کیوں کہ دکن میں جو زبانیں بولی جاتی تھی وہ ملیالم‘ تامل اور کنڑ تھیں۔ یہ زبانیں دوسرے لسانی خاندانی دراوڑی سے تعلق رکھتی ہیں جب کہ اردو ہند آرہائی زبان ہے لہٰذا دکن کی زبانوں اور عربی کے اختلاط سے اردو کاوجود ہونا ناممکن ہے۔
کچھ ماہرین نے اردو کی پیدائش پنجاب سے بتائی ہے جہاں دسویں اور گیارھویں صدی عیسوی میں کافی مسلمان درۂ خیبر کی طرف سے پنجاب میں آئے اور یہیں بس گئے۔ ان کا مقامی لوگوں سے میل جول ہوا۔ وہیں اردو پیدا ہوئی ‘ پنجاب کے اثرات اردو میں آئے۔
پنڈت کیفی نے لاہور سے دہلی تک کی قدیم زبان کو اردو کی پیدائش مانا۔ سنیتی کمار چٹرجی نے ’’انڈ آرین اینڈ ہندی‘‘ میں کیفی کی تائید کی۔ ٹی گراہم بیلی نے اردو کی ابتدا پنجاب سے بتائی۔
جارج گریرسن نے ’’لسانی جائزہ ہند‘‘ میں اردو کی پیدائش بالائی دو آبہ اور روہیل کھنڈ کی بولی ورنا کلر ہندوستانی سے مانا ہے ژول بلاک ہریانوی سے اردو کی پیدائش بتاتے ہیں۔
.4 محمود شیرانی کا نظریہ:
ردو پنجاب سے پیدا ہوئی: محمود شیرانی نے ۱۹۲۸ء میں ’’پنجاب میں اردو‘‘ لکھی۔ انھوں نے لسانی اور تاریخی حوالوں سے اردو کی ابتدا پر پنجاب کے گہرے اثرات بتائے۔ انھوں نے قدیم پنجاب اور قدیم اردو کا موازنہ کرکے یہ فیصلہ دیا ۔ انھوں نے سرماےۂ الفاظ ‘ صرف و نحو‘ اور تاریخ و ارتقائی بنیاد پر فیصلہ دیا۔ اور غیر مطبوعہ کتابوں اور مخطوطات کو پیش کیا۔ پروفیسر شیرانی نے پنجابی زبان کے افعال اور ضمائر کی اردو سے مماثلت بتاتے ہوئے اپنانظریہ پیش کیا۔
اردو پنجابی کے امتزاج اور اردو کی ابتدائی تاریخی تنقیدی لسانی اور ترویجی اہمیت کو عالمانہ وضاحت کے ساتھ پیش کیا۔ اور اردو زبان کے پنجاب میں پیدا ہونے اور اس کے فروغ پانے کا نیا سراغ نکالا۔
پروفیسر شیرانی اردو زبان کا رشتہ پنجابی لہٰندا۔ ہریاننظریہ یہ ہے کہ ’’چونکہ نویں صدی ہجری میں بہت سے خاندان پنجاب سے نکل کر دہلی آئے ہیں۔ ان کے لشکر پنجاب اور پنجابیوں سے تعلق رکھتے تھے اس لئے کوئی تعجب نہیں اگر ان نوواردوں نے دہلی کی زبان پر اثر ڈالا ہو‘‘ (مقدمہ پنجاب میں اردو) پروفیسر شیرانی آگے فرماتے ہیں کہ:
’’اردو دہلی کی قدیم زبان نہیں بلکہ وہ مسلمانوں کے ساتھ دہلی جاتی ہے۔ اور چونکہ مسلمان پنجاب سے ہجرت کرکے جاتے ہیں اس لئے ضروری ہے کہ وہ پنجاب سے کوئی زبان اپنے ساتھ لے کر گئے ہوں گے۔‘‘
مسعود حسین خاں نے ۱۹۴۸ء میں اپنی کتاب ’’مقدمہ تاریخ زبان اردو‘‘ میں محمود شیرانی کی تردید کی اور بتایا کہ محمود شیرانی نے جو پنجاب کی خصوصیات کو بنیاد بنایا ہے وہ سب ہریانوی میں موجود ہیں۔
محی الدین قادری زور نے مسعود حسین صاحب سے اختلاف کیا انھوں نے کہا کہ ہریانوی اردو کے بعد کی زبان ہے محی الدین قادری زور ہندوستانی لسانیات ہی میں اردو کی ابتدا پنجابی اور ہریانوی دونوں کی طرف دکھائی بعد میں انھوں نے پنجاب کو ہی اہمیت دی۔
محی الدین قادی زور اور محمود شیرانی کے نظریہ کو ماہرین لسانیات نے مسترد کردیا اس طرح اردو کی پیدائش کے نظریات ایک مسئلہ بنے رہے۔ اردو کی پیدائش کے سلسلہ میں قدیم ماہرین نے جو نظریات پیش کئے تھے انھیں مسترد کردیا۔ اور اپنے جدید نظریے پیش کئے جو لسانیات پر مبنی ہیں۔
5- ڈاکٹر مسعود حسین خاں کا نظریہ: اردو دہلی کے نواحی علاقہ میں پیدا ہوئی۔ ڈاکٹر مسعود حسین خاں نے ’’مقدمہ تاریخ زبان اردو‘‘ 1948ء میں اپنا مستند نظریہ دیا۔ انھوں نے پچھلے نظریوں کو مسترد کرتے ہوئے اپنا نظریہ پیش کیا۔
ان کے مطابق قدیم اردو کی تشکیل براہ راست ہریانی کے زیر اثر ہوئی۔ اس پر رفتہ رفتہ کھڑی بولی کے اثرات پڑتے ہیں۔ اور پندرھویں صدی عیسوی میں آگرہ دار السلطنت بن جاتا ہے اور کرشن بھکتی کی تحریک کے ساتھ برج بھاشا عام طور پر مقبول ہوجاتی ہے تو سلاطین دہلی کے عہد کی تشکیل شدہ زبان کی نوک پلک برجی محاورے کے ذریعہ درست ہوتی ہے۔‘‘نواح دہلی کی یہ بولیاں (ہریانی‘ کھڑی بولی اور برج) اردو کا اصل منبع اور سرچشمہ ہیں اور حضرت دہلی اس کا صحیح مولد و منشا‘ لیکن ایک زبان کے طور پر اردو کی ابتداء اس طرح ممکن ہوسکی جب مسلمانوں نے دہلی پر اقتدار حاصل کرلیا‘‘۔ پروفیسر گیان چند جین نے اردو کی پیدائش کے سلسلہ میں یہ نظریہ دیا کہ اردو کھڑی بولی کا روپ ہے۔
بہرحال پروفیسر مسعود حسین خاں کے نظریہ کو ماہرین لسانیات نے تسلیم کرلیا ہے۔
ان تمام نظریات کی بحث کا ماحصل یہ ہے کہ کھڑی بولی سے اردو پیدا ہوئی جو دہلی کے نواحی علاقوں‘ مرادآباد میرٹھ اور قنوج میں بولی جاتی تھی۔ بعد میں یہی زبان ہندوستان کے دوسرے علاقوں میں پھیلتی گئی۔ اپنی ابتدا سے لے کر آج تک اردو کو کئی نام دئے گئے مثلاً ہندی‘ ہندوی‘ہندوستانی‘ ریختہ اور اردوئے معلی وغیرہ وغیرہ۔ لیکن آخر میں زبان نام اردو رکھا گیا۔ اور یہ ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کی علمبردار بن گئی۔
مسعود حسین خاں کے نظریہ سے کئی ماہر لسانیات نے اتفاق کیا۔ ان میں سہیل بخاری‘ گیان چند جین‘ مرزا خلیل احمد بیگ اور انصار اللہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ان تمام ماہرین نے اردو اور کھڑی بولی کے رشتہ کو تفصیل سے پیش کیا ہے۔ مزید یہ امید کی جاتی ہے کہ ماہرین لسانیات اور محققین اردو کی ابتداء کے متعلق تحقیقی سفر جاری رکھیں گے۔ (تلخیص ۔ ماخوذ )