اسلم عمادی کی تصنیف ادبی گفتگو کا جائزہ
ڈاکٹر قطب سرشار
لیکچرار‘اردو‘ محبوب نگر ۔ تلنگانہ
اسلم عمادی کا شمار ان شاعروں کی صف میں ہوتا ہے جو ۱۹۶۰ء کے بعد ساتویں دہے میں نئی آواز اور اچھوتے لہجوں کے حوالے سے ادبی افق پر نمودار ہوئے جدت فکر وار شدت جذبہ کے ساتھ اپنے وجود کا احساس دلایا جدیدیت یا جدید لب ولہجہ کے حوالوں سے یہ ایک عرصے تک اپنا تعارف کرواتے رہے۔ اسلم عمادی اخبارات ورسائل میں اپنی نظموں ، غزلوں کی چنگاریوں کو اپناتعارف نامہ بناتے رہے ہیں۔ ساتھ ہی ان کے نثری اظہار کے ادراک نے ان کی ادبی شناخت کو اور بھی روشن کردیاہے ۔ دنیائے ادب شاعروں سے مسرت وبصیرت اور تنقید نگاروں سے حکمت وفلسفہ کا اکتساب کرتی ہے۔
اسلم نے یہ چاروں خراج بیک وقت حاصل کرلئے۔ اس لئے کہ اسلم ، بیک وقت ذہین ، حساس ، تازہ کار شاعر ہیں تو عمیق نظر تنقیدی بصیرت کے حامل نثر نگار بھی۔ ۱۹۷۴ء تا ۱۹۹۵ء کے دوران (پورے اکیس برسوں میں ) انہوں نے اردو دنیا کو چار شعری مجموعے دےئے۔ نیا جزیرہ ۱۹۷۴ء ، اجنبی پرندے ۱۹۷۹ء اگلے موسم کا انتظار ۱۹۸۴ء کے بعد اکیسویں صدی میں بیسویں صدی کے دیدہ ریزی کا ورثہ اکٹھا کر کے ’’ادبی گفتگو ‘‘ کے نام سے پیش کردیا۔ اس کتاب کا کوئی مضمون غیر مطبوعہ نہیں ہے۔ افکار تازہ سے مملو شاعری کے حوالے سے اسلم عمادی کی شبیہ بیسویں صدی کی آخری چار دہائیوں کے کینوس پر اس طرح ابھر کر آگئی کہ ان کا نام نئی شاعری کے نقطۂ آغاز کے معتبر حوالوں میں شامل ہوگیا۔ تنقیدی توانائی سے معمور اپنی نثر نگاری کے بارے میں ان کا اپنا خیال ہے ’’ مجھ میں نثر نگاری کا شعور قدرتی طور پر پوشیدہ تھا ‘‘۔ ( ادبی گفتگو ص ۔ ۹)
بیک وقت شعر گوئی اور نثر نگاری کا عمل ایک ساتھ دو گھوڑوں کی سواری کے مترادف از حد دشوار کن مظاہرہ ہوتا ہے۔ اس مظاہرے میں اسلم نے کہیں بھی اپنا توازن بگڑنے نہیں دیا۔ ادبی گفتگو میں ۲۴۴ صفحات پر ۲۰ تنقیدی مضامین اور ۱۱ کتابوں پر تبصرے شامل ہیں۔ ۲۰ مضامین کو ۷ عنوانات کے تحت تقسیم کردیاگیا ہے۔ ۱ ؍ مضامین ۔ ۲؍ بحث وتمحیص ، ۳؍ خصوصی مطالعے ، ۴؍ تجزیاتی مطالعے ، ۵؍ جائزہ ، ۶؍ تعارف اور ساتواں عنوان ہے یاد ۔ آخری صفحات پر ۱۱ ؍تبصرے جو مختلف رسائل کے لئے تحریر کردہ تھے درج ہیں۔ صفحات ۷ تا ۱۰ پر حیدرآباد کے نامور شاعر اور تنقیدی ادراک کے حامل نثر نگار علی ظہیر کا مقدمہ اور مصنف کی تحریر سے کتاب کے موضوع ، مواد اور محرکات تحریر اور کتاب کی قدر واہمیت کے اشارے ملتے ہیں۔ ابتدائی تین مضامین کے عنوانات، جدید شاعری کے چند موضوعات ’’ فن شعر اور ترسیل ‘‘ شاعر کے ابعاد، اپنے موضوعات کی بھر پور نمائندگی کرتے ہیں۔
جدید شاعری کی معروضیت ، ہےئت اور موضوع پر تمثیلوں ، دلیلوں اور جامع اصطلاحی زبان میں کی گئی گفتگو سے موضوعات کا ادراک اور فنی بصیرت وآگہی اور توانائی کا احساس ہوتا ہے۔ بحث وتمحیص کے عنوان پر دو مضامین ہیں۔ نئی غزل پر چند باتیں اور نئی زندگی اور نئی اردو شاعری، یہ وہ موضوعات ہیں جن پر اسلم عمادی نے غزل کے جدید آہنگ، جدت اظہار اور تغیر پذیری جیسی تازہ وتوانا صفات شعر پر اپنے ادراکات اور نظریات کے حوالے سے بحث کی ہے۔ کتاب کا تیسرا عنوان ہے، خصوصی مطالعہ، اس کے ذیل میں پانچ مضامین ہیں جو علی الترتیب خورشید احمد جامی، قاضی سلیم، حسن فرخ اور سلیمان ادیب کی شاعری کے تخلیقی اور فنی خصوصیات کے جائزے ہیں۔ مضامین سے پہلے ’’ قابل غور ‘‘ کے عنوان سے ایک فٹ نوٹ درج ہے۔ جس سے اسلم عمادی کی تنقیدی نثر کا معیار اور ذہانت جھلکتی ہے۔ فٹ نوٹ کے الفاظ ہیں ۔
’’جدیدیت ، ترقی پسند اور ما بعد جدیدیت یہ ساری تراکیب شاید تنقید نگاروں اور مدرسین ادب کے لئے اہم ہوں، نئے شاعر اور نئے قاری کے لئے بنیادی طور پر سلوگن (نعرہ) بن کر رہ گئے ہیں۔ یہ بات مکمل طور پر ثابت ہوگئی ہے کہ شاعر زندہ رہے گا اور کرافٹ شاعر کی طرح یاد نہیں کیا جائے گا۔ چاہے وہ کتنا ہی دل آویز فنی صنم تراش لے ‘‘۔ (ادبی گفتگو ص ۔ ۷۶)
پہلا مضمون ’’ غالب کا غیر متوقع لہجہ ‘‘ غالب کے طرز بیان کے ابعاد کا فنی پیمانوں پر جائزہ عمدہ طرز انتقاد اور تخلیقی ادراک سے مملو ہے۔ انہوں نے غالب کے اشعار کے حوالوں سے غالب کے لہجے کو فکری استعجاب اور عیارانہ سادگی کی تعبیر ان الفاظ میں کی ہے۔
’’غالب کا لہجہ ایک ایسے شکست خوردہ بہادر کا لہجہ ہے جو مستقبل میں نا امید تو نہیں ہے حال کی اس گھناؤنی سیاست سے مایوس ہے جس نے اسے مکارانہ طور پر شکست دی ہے۔ غالب کی شاعری ایک عنصر ایسا منفی بھی ہے جو مثبت کا نغمہ گر ہے ‘‘۔ (ادبی گفتگو ص ۔ ۸۱)
راز کی تحریر (خورشید احمد جامی) دوسرا مضمون ہے جو جدید غزل کے سرخیل خورشید احمد جامی کی شاعری کا مختصر اور جامع جائزہ ہے۔ جامی کے اچھوتے فکری زاویوں ، پیکر تراشی اور پر وقار لب ولہجے کا احاطہ کرنے کا انداز اسلم عمادی کو دیگر جائزہ نگاروں سے مختلف اور ممیز کرتا ہے۔ جامی کے بعد قاضی سلیم کی شعری تصنیف ’’ نجات سے پہلے ‘‘ کا جائزہ اس خوبی سے لیا گیا ہے کہ قاضی سلیم کی شاعری کے فکر انگیز ابعاد روشن ہوگئے ہیں۔ حسن فرخ کو دھند میں لہراتے ہوئے شعلے سے تعبیر کرتے ہوئے لکھا ہے ‘‘ ۔ میں حسن کو نئی شاعری کے سمجھنے کے لئے ایک اہم کڑی سمجھتا ہوں۔ ٹوٹا ہوا واسطہ اور مالم یعلم دونوں ہی نمائندہ صحائف ہیں ‘‘۔ حسن فرخ کی شاعری پر اس قدر سنجیدہ اور پر مغز اظہار اس سے پہلے اور بعد میں شائد نہیں ہوا ہے۔ مضمون ’’خاموش سی چیخ ‘‘ میں سلیمان اریب کی شاعری اور شخصیت کو جوڑتے ہوئے گمبھیر لفظوں میں سلیمان اریب کے مکمل پورٹریٹ کو ابھارا گیا ہے۔ لکھتے ہیں : ۔
اریب ایک ایسی زندہ انا کا نام ہے جو شکستہ کشتی میں سوار ہے۔ جو موت کے ساحل کا انتظار کر رہی ہے۔ ہر ایک لمحے کو گنتی رہتی ہے۔ نہ جانے کونسا لمحہ اسے ساحل پر پہنچادے۔ اس فولاد کو ماحول، آب وہوا اور صحت نے پگھلا کر سرخ کردیا ہے۔
(ادبی گفتگو ۔ ۱۰۴) کے صفحہ ۱۱۳ سے تجزیاتی مطالعے شروع ہوتے ہیں تین شاعروں ن ۔ م راشد ، عزیز قیسی کی ایک ایک نظم اور زیب غوری کی ایک غزل کا مختصر تجزیاتی مطالعہ احتیاط چابکدستی اور ذہانت کیا ہے۔
جائزہ کے عنوان پر ایک مضمون حیدرآباد میں اردو نئی شاعری ۱۹۶۰۔ ۱۹۷۱جو اسلم عمادی نے ۱۹۷۱ء میں ماہ نامہ پیکر (مدیر اعظم راہی) کے لئے لکھا تھا جو موضوع اور تنوع کے اعتبار سے نئی روایت کا آغاز سمجھا گیا۔ چنانچہ اس مضمون کی بڑی پذیرائی ہوئی تھی۔خاص بات یہ ہے کہ اس میں مخدوم محی الدن، خورشید احمد جامی، سلیمان اریب، عزیز قیسی، شادتمکنت، وقار خلیل، راشد آذر، مغنی تبسم انور معظم، کنول پرشاد کنول، حکیم یوسف حسین خان اختر حسن اور اقبال متین جیسے سینےئر شعرا کے ساتھ نئی نسل اور نئے لہجے کے نمائندہ شعراء رؤف خلش، غیاث متین، حسن فرخ، مسعود عابد، مصحف اقبال توصیفی، شفیق فاطمہ شعری، علی الدین نوید، رحمن جامی، سلیمان اطہر جاوید، نقی علی خان، ثاقب ، قطب سرشار، ڈاکٹر غیاث صدیقی، رؤف خیر، علی ظہیر اور باذل عباسی کو بھی شامل رکھا گیا ہے۔
مضمون کا عنوان جائزہ ہے اس پر تاریخ ادب کے صفحات کا گماں ہوتا ہے تاہم ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ کسی جائزہ نگار نے حیدرآباد دکن کے نئے لکھنے والوں کو خصوصیت کے ساتھ موضوع بناتے ہوئے ادبی دنیا میں ان کی اہمیت اور قدر وقیمت کو محسوس کروایا ہے۔ اس کتاب کا چھٹا عنوان ہے تعارف اس کے ذیل میں چار مضامین ، وقار خلیل ، علی سردار جعفری، خلیل چشتی اور غیاث متین کی شاعری کے خدوخال کے مکمل تعارف نامے ہیں۔ جو اسلم کے عمیق مطالعے تجزیاتی ہنر اور تعبیرات شعری کا گراں قدر ارتکاز ہیں۔ وقار خلیل کے بارے میں لکھتے ہیں وقار کی شاعری بلاشبہ اس صدی کی ہم سفر ہے۔ قافلہ زماں کی مسافت کے ساتھ ساتھ چشم وا، جو بھی زیر وبم، بلند وپست، دھوپ چھاؤں دیکھتی ہے اس کو بے جھجھک بیان کرتی جاتی ہے۔ یہی عصری شاعری کی شناخت ہے۔ (دابی گفتگو ۱۷۶) سردار جعفری کے بارے میں اسلم کا خیال ہے۔ مجھے ذاتی طور پر سردار ایک منطقی طرز شعر کے شاعر لگے جو اپنے منتخب شدہ کلیے کو ثابت کرنے کے لئے مفروضات اور بحث کی تخلیق کرتے رہتے ہیں یہ روایت بہت سے ترقی پسند شاعروں کی شاعری میں رائج ہے۔ ان کی منظر نگاری ، ارشادات، تراکیب سب مقالات کے عناصر کی طرح ایک خاص نتیجہ کو اخذ کرنے کے لئے آلہ کار کی طرح ہیں۔ غیاث متین کی زینہ زینہ راکھ کی شاعری پر بات کرتے ہوئے اسلم، غیاث متین کے طرز اظہار اور فکری تناظر کی گتھیاں ان لفظوں میں سلجھاتے ہیں۔
’’غیاث کی نظموں میں آہنگ، نثر سے قریب تر ہے ان کا صوتیات سے گہرا تعلق ہے۔ آواز کے کے اتار چڑھاؤ سے ان کی نظموں میں ایک خاص گہرائی پیدا ہوتی ہے۔ غیاث بوڑھی پیڑھی سے بضد ہیں کہ اس کو ایک وجودی کائی سمجھاجائے اس ضد میں وہ کبھی دلیل اور تمثیلی تناظر سے وکالت کرتا ہے۔ کبھی روایات کو شجر خشک کے مماثل بتاتا ہے ‘‘۔ (ادبی گفتگو صفحہ ۱۹۵۔ ۱۹۷)
اسلم عمادی نے مضامین کے آخری زمرے کو یاد کا عنوان دیا ہے۔ یہ مضامین اردو کے بلند پایہ شاعر ونقاد ڈاکٹر خلیل الرحمن اعظمی اور مولانا ابوالحسن ندوی کے سانحہ ارتحال پر ان بزرگوں کو خراج عقیدت کے بطور تحریر کئے ہیں۔ مضامین سے پہلے اسلم کی مختصر تحریر ملاحظہ ہو :
’’ جب کوئی شعلہ جوالہ مائل بہ فنا ہوتا ہے تو ضرور احساس پر ضرب لگتی ہے اور اس طرح کبھی نظم میں اور کبھی نثر میں ضرب کے ارتکاز کے مماثل کچھ نہ کچھ لکھ لیتا ہوں یا کہہ اٹھتا ہوں ‘‘ ۔
اسلم کو لگتا ہے کہ اعظمی صاحب کے اشعار ان کے لاشعور سے مناسبت رکھتے ہیں کیونکہ ان کے اشعار کی بازگشت ان کے ذہن میں ہونے لگتی ہے۔ انہیں لگتا ہے کہ ان کی شاعری بجھے بجھے تبسم کی مانند ہے۔ اسلم کے مضمون کی یہ سطریں ملاحظہ کریں۔ اعظمی صاحب کی شاعری نہ جانے کیوں مجھے بجھے بجھے تبسم کی طرح لگتی ہے اور یہ بجھا بجھا تبسم سارے منظر پر محیط ہے۔ ہمارے اور ہمارے احساسات سے اتنا قریب تر ہے کہ ہمیں ان کا شعر اپنے جذبات کی تفسیر لگتا ہے۔ ان کا لب ولہجہ سنجیدہ اور متوازن ہے اور ہ سنجیدگی قاری کو الفاظ کے پیچھے چھپے ہوئے ان جذبات تک پہنچنے پر متوجہ کرتی ہے۔ جو شعر کا مقصود ہے۔ وہ ان تشنہ تشنہ کرب کو محسوس کرسکتا ہے ( ادبی گفتگو ص ۔ ۲۰۳۔ ۲۰۴)
ادبی گفتگو کے آخری چھبیس صفحات پر اسلم عمادی کے تحریر کردہ ۱۱ ؍ تبصرے پھیلے ہوئے ہیں جوسب رس، پیکر، آندھراپردیش ، برگ آوارہ، منصف، کتاب اور دیگر رسائل میں شائع ہوئے تھے۔ ان تبصروں کو زبان فن پارے کو جانچنے پرکھنے کا کمال، عمق نگاہی سارے معیارات ان کے تنقیدی مضامین سے مماثلترکھتے ہیں۔ مثلا جگن ناتھ آزاد کی کتاب ’’ اقبال اور مغربی مفکرین ‘‘ پر تبصرے کا یہ اقتباس دیکھئے :
’’ حیات اور انسان کی تعلقات وتفاعل کا مطالعہ، اقبال نے جس عمق سے کیا، اسے اتنے ہی حسین وجمیل اندازِ شاعری میں پیش کیا۔ناقدین نے لاکھ سرمارا کہ اقبال کو شاعر کہیں کہ فلسفی لیکن اقبال دونوں ہی سمتوں میں جید نکلے۔ (ادبی گفتگو ۲۲۸)
اسلم عمادی کی تمام تر تحریریں فن تنقید کے ان کے اپنے نقطہ نظر کی ترجمان ہیں۔ صفحہ ۱۲ پر انہوں نے اپنے نظریہ انتقاد کا اظہار ان لفظوں میں کردیا ہے۔ میری نگاہ میں فن تنقید فنکار کی مقتدی ہے۔ شعر آمد پر منحصر ہے اور تنقید شعر اور اس کے متعلقات کو سمجھنے کی کوشش ہے۔ شاعر سے یہ امید لگانا کہ وہ ناقد کی مقررہ حدوں اور متعین ابعاد کی پابندی کرے قطعاً نامناسب ہے۔ ’’ادبی گفتگو ‘‘ تنقیدی مضامین ، تبصروں، جائزوں اور خصوصی مطالعہ کی ایک ایسی دستاویز ہے جو اردو تنقید وتحقیق کے طالب علموں کے لئے گراں مایہ سوغات سے کم نہیں۔ اس کتاب کی اشاعت پر میں اردو دنیا اور اسلم عمادی دونوں کو یکساں مبارکباد کے لائق مانتا ہوں۔