بیجاپور کی ادبی خدمات ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پروفیسرابوالفضل سید محمود قادری

Share

GolGumbaz2 بیجاپور
بیجاپور کی ادبی خدمات
(ایک جائزہ)

پروفیسرابوالفضل سید محمود قادری
سابق صدر شعبہ اردو
عثمانیہ یونیورسٹی پی جی کالج ۔ حیدرآباد

سلطان محمد شاہ بہمنی کے دورِ حکومت میں سلاطین عثمانیہ کا ایک جواں سال شہزادہ ایران سے دکن آیا اور وزیر اعظم محمودگاوان کی وساطت سے ۱۴۸۱ء میں شاہی فوج کے سپاہیوں میں شامل کرلیا گیا، شہزادہ نہایت خوبرو، ذہن، بہادر اور اعلیٰ صلاحیتوں کا حامل تھا اور اسی سبب، تیزی سے ترقی کرتے ہوئے سلطان محمود شاہ بہمنی کا مقربِ خاص بن گیا۔ شہزادہ نہ صرف شاہی خطابات اور عنایات سے بہرہ ور ہوتا رہا بلکہ ۱۴۸۵ء میں عادل خان کے خطاب سے سرفراز ہونے کے بعد بہمنی سلطنت کے صوبۂ بیجاپور کا حاکم مقرر کیا گیا۔

سلطان محمود شاہ بہمنی کے دورِ حکومت میں بہمنی سلطنت اپنے زوال کی طرف تیزی سے بڑھ رہی تھی۔ ملک میں فسادات اور خانہ جنگیوں کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا کہ پھر حکومت کے قدم جمنے نہیں پائے۔ اس افراتفری میں بہمنی سلطنت کے مختلف صوبے آزاد ہونے لگے، چنانچہ ۱۴۹۰ء میں یوسف عادل شاہ نے اپنی مطلق العنانی کا اعلان کرتے ہوئے، بیجاپور میں عادل شاہی حکومت کی داغ بیل ڈالی۔
سلطان یوسف عادل شاہ علماء اور اہل فن کا بڑا قدرداں تھا ، اس نے دور دراز کے ممالک سے اہل علم کو بیجاپور بلایا اور اُن کی ہمیشہ قدر و منزلت کرتا رہا۔ وہ خود بھی فارسی کا شاعر تھا۔ اس کا بیٹا سلطان اسمعٰیل عادل شاہ بھی نہایت علم دوست اور ہنر پرور تھا۔ اپنے باپ کی طرح اس نے بھی اہل علم و فن کی بڑی قدردانی اور سرپرستی کی۔ وہ بھی فارسی کا ایک اچھا شاعر تھا اور وفائی تخلص کرتا تھا۔ غرض عادل شاہی حکومت میں ابتدا ہی سے علم، ادب، شاعری اور فنونِ لطیفہ کو فیاضانہ سرپرستی حاصل رہی۔ یوسف عادل شاہ سے علی عادل شاہ ثانی تک بیجاپور کے جو چھ حکمرانگذرے ہیں، ان سبہوں نے شعر و ادب کی سرپرستی کو اپنا وطیرہ بنائے رکھا اور علم و ہنر کی اس قدردانی کے نتیجہ میں سرزمین بیجاپور کی ادبی فضاء اپنی ترقی کی معراج کو پہنچ گئی۔
گجرات اور بیجاپور کا ادبی، تہذیبی ، ثقافتی اور مذہبی روایات کا تعلق ہمیشہ سے گہرا رہا ہے۔ دکنی زبان و ادب اپنے ابتدائی تشکیلی مرحلوں اور اس کے بعد گجری روایتوں سے گذر کر عادل شاہی دور میں داخل ہونے تک اپنی انفرادیت قائم کرچکی تھی۔ سلطنت بیجاپور کے قیام اور استحکام سے بہت پہلے گجرات کی ادبی روایات صوفیائے کرام کے ذریعہ بیجاپور پہنچ چکی تھیں۔ گجری زبان کے ذخیرۂ الفاظ ، طرزِفکر، مزاج ، لہجہ اور آہنگ پر سنسکرت اور ہندوی ادبی روایات کا بڑا گہرا رنگ اور اثر غالب رہا ہے، یہاں تک کہ فارسی طرز اور اس کے اثرات کا رنگ بھی تھا مدھم اور ماند پڑ گیا ہے، گویا گجری ادب اصل میں ہندوی اور سنسکرت کی ادبی روایات کی ایک طرح سے تجدید ہے۔ بہمنی دور کی ادبی اقدار اسی روایت کی ایک طرح سے توسیع ہے اور بیجاپور کا ادب بھی اس روایت اور مزاج کی تجدید اور توسیع مزید ہے لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ جیسے جیسے فارسی طرز اور انداز گہرا ہوتا گیا ، قدیم ہندوی رنگ رفتہ رفتہ ہلکا اور پھیکا پڑتا گیا۔ یہہ وہ دور ہے جب کہ دکنی زبان اپنے عبوری اور صوفیانہ دور سے گذر کر ادبی دور میں داخل ہوچکی تھی۔
شاہانِ دکن نے ہر دور میں ہمیشہ دکنی زبان و ادب کی سرپرستی اور خدمت کی ہے۔ سلاطین بیجاپور نے اس زبان کو واحد قومی زبان کی حیثیت سے قبول کرلیا تھا اور ابراہیم عادل شاہ کے دور میں دفتری اُمور بھی اسی زبان میں انجام دیئے جانے لگے۔ اِن بادشاہوں کے دربار میں جہاں فارسی شعرأ کا طوطی بولتا تھا دکنی زبان کے شعرأ بھی ان کے دوش بدوش اپنی فنی شخصیت کا لوہا منوارہے تھے۔ نہ صرف یہہ بلکہ ابراہیم عادل شاہ ثانی، جو خاص و عام میں ’’ جگت گرو‘‘ کے نام سے معروف تھا، اس کے طبعزاد ’’ کتابِ نورس‘‘ اور علی عادل شاہ ثانی شاہی کے کلیات اس باتکے واضح ثبوت ہیں کہ ان سلاطین بیجاپور کا فارسی زبان سے جو خاندانی رشتہ تھا ، وہ کم و بیش منقطع ہوچکا تھا، اور دکنی ہی اُن کی اپنی زبان ہوگئی تھی۔
یوں تو عادل شاہی دور میں فنونِ لطیفہ نے ترقی کے اونچے زینے طے کئے لیکن ابتدا ہی سے شاعری کو خاصی اہمیت دی جاتی رہی، بیجاپور کے اولین ادبی دور میں اگرچہ کہ ہمیں موضوعات کا تنوع ملتا ہے لیکن اس عہد کی کم و بیش ساری تحریروں پر مذہب اور تصوف کی گھری چھاپ موجود ہے، اس دور کے صوفیائے کرام میں یوں تو بہت سارے نام ملتے ہیں لیکن ان میں قابل ذکر حضرت میراں جی شمس العاشق، حضرت برہان الدین جانم اور حضرت امین الدین اعلیٰ کے نام نامی ہیں۔
مذہب اور تصوف کے دور کے بعد شاعری کے اظہار و بیان میں ایک طرح کی باقاعدگی اور موضوعات کا تنوع اُجاگر ہوتا گیا ۔ اخلاقی اقدار کی اہمیت شعرائے بیجاپور کے ہاں ہمیشہ اہم اور واضح رہی ، اظہار و ابلاغ کے اس انداز کو اجاگر کرنے میں انہوں نے محیرالعقول عناصر کو شامل کیا۔ تخیل کی بلند پروازی نہ صرف عشقیہ مثنویوں کی حد تک محدود رہی بلکہ اُن مذہبی قصوں میں بھی یہہ انداز اور طور واضح ہوتا گیا، جو روایتی انداز کے حامل ہیں۔ مقیمیؔ کی ’’ چندر بدن اور مہ یار‘‘ اور صنعتیؔ کی مثنوی ’’قصۂ بے نظیر‘‘ اس کی واضح مثالیں ہیں۔
عشقیہ مثنویوں میں یہی انداز ہاشمیؔ کی ’’یوسف زلیخا‘‘ اور نصرتیؔ کی ’’ گلشنِ عشق‘‘ میں بھی موجود ہے۔ عاجزؔ کی ’’ یوسف زلیخا‘‘ اپنی منظر نگاری کے اعتبار سے بیجاپور کی ایک نمائندہ مثنوی ہے۔ عشقیہ مثنویوں کے علاوہ رزمیہ مثنویوں میں حسن شوقیؔ کی مثنوی ’’ فتح نامہ نظام شاہ، کمال خان رستمیؔ کی مثنوی ’’خاورنامہ‘‘ مرزا محمد مقیم کی مثنوی ’’ فتح نامہ بکمیری‘‘ اور نصرتیؔ کی مثنوی ’’علی نامہ‘‘ میں بھی یہی اندازی موجود ہے۔ سن شوقیؔ کا ’’میزبانی نامہ‘‘ اور عبدلؔ کا ’’ابراہیم نامہ‘‘ شعرائے بیجاپور کے موضوعات کے تنوع کی قابل قدر مثنویاں ہیں۔ اس دور میں شعرائیبیجاپور کے دیگر اصنافِ سخن کی طرف بھی توجہ کی، مثنوی کے علاوہ غزل اور قصیدہ کی جانب رجوع ہوئے۔ ہاشمی کی غزلیں جہاں ریختی کی پیش رو ہیں ،وہیں شاہیؔ اور خصوصاً نصرتیؔ کی غزل گوئی نے بھی ایک معیار کو بنایا ہے ۔ قصیدہ کی ھضیف بھی اسی عہد میں ابھر کر مقبول ہوئی۔ اس کی واضح مثالیں ملک خشنودؔ کی ’’ جنت سنگھار‘‘ ہے جس میں اس نے محمد عادل شاہ کی مدح کی ہے ، نصرتیؔ کا ’’ فتح نامہ بہلول خان‘‘ بھی اسی قصیدہ کے زمرہ میں شامل ہے، بادشاہِ وقت کی مدح کے علاوہ بزرگانِ دین کی مدح کارجحان بھی واضح ہوتا گیا، چنانچہ علی عادہ شاہ شاہی نے حضرت گیسودراز کی مدح میں ایک قصیدہ لکھا ۔ بیجاپور میں صنفِ قصیدہ نصرتیؔ کے ’’علی نامہ‘‘ میں اپنے نقطۂ عروج کو پہنچ چکا اور یہہ ایسے قصائید ہیں جو فارسی کے بہتریں قصیدوں کو معیار اور نمونہ بنا کر تحریر کئے گئے۔ زبان و بیان کی قدامت کے باوجود فنی معیارات کے اعتبار سے آج بھی ان کی اہمیت مسلم ہے۔
اسی دور میں مرثیہ نگاری بھی ایک مقبول صنف ادب کی حیثیت سے ابھر گئی ، چنانچہ ابتدا سے آخر تک بیجاپور کے کم و بیش سارے ہی شعرأ نے اس صنف سخن میں طبع آزمائی کی ہے۔
حضرت برہان الدین جانمؔ سے شاہیؔ اور مرزاؔ تک بیجاپور کے مرثیہ گو شعرأ کی ایک طویل فہرست دستیاب ہوتی ہے۔
شعرائے بیجاپور کے پاس ہمیں ہجوگوئی کی روایت بھی ملتی ہے۔ یہہ ہجو کہیں تو غزل کے کسی شعر میں موجود ہے اور کہیں باقاعدہ موضوع کے روپ میں، ملک خشنودؔ نے ’’ ہارون‘‘ نامی گھوڑے کی ہجو لکھی ہے اور نصرتیؔ نے بھی اپنے عہد کے شعرأ کی ایک طویل ہجو لکھی تھی۔
غرض بیجاپور کی ادبی خدمات کے اس مختصر سے جائزے سے اس بات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں کے شعرأ نے ادب کی تمام اصناف میں طبع آزمائی کی ہے اور اپنی فنی صلاحیتوں کو اجاگر کرتے ہوئے ادب کی گراں قدر خدمت انجام دی ہے۔

(مشمولہ : مقالاتِ محمودقادری ۔ ۔ مرتب : ڈاکٹرمحمدعطااللہ خان)

Share
Share
Share