شعرالہند ۔ میری اردو شاعری کی بیاض ۔ قسط 3
(شعراء کے دواوین اور سوانح سے کشید کیا ہواآب حیات )
مرزاسوداؔ اور میردردؔ
پروفیسرمحسن عثمانی ندوی
ای میل :
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
میری اردو شاعری کی بیاض قسط ۔ 2 ۔ کے لیے کلک کریں
مرزا محمد رفیع سوداؔ
مرزا محمد رفیع سودؔا (۱۷۱۳۔۱۷۸۰ء) کے آباء واجداد کابل سے ہندوستان آئے تھے اور دہلی کے محلے کابلی دروازہ میں رہنے لگے تھے، مرزا محمد رفیع نے ابتدائی تعلیم گھر ہی پر پائی، اور دیگر علوم اور عروض کی تعلیم شاہ حاتم سے حاصل کی، سودا کے ایک رفیق اور ہم نشیں سراج الدین علی خاں آرزو تھے، وہ بھی شاعر تھے، دونوں ایک دوسرے کو اپنا کلام سنایا کرتے تھے،
سودا پہلے فارسی میں شعر کہتے تھے، بعد میں اردو میں غزلیں کہنا شروع کیں، ان کی غزلیں اتنی مقبول ہوئیں کہ دہلی کی گلیوں میں لوگ انھیں گاتے پھرتے تھے، اس وقت دہلی میں شاہ عالم کی حکمرانی تھی، جب شاہ عالم کو علم ہواکہ سودا اردو میں بہترین غزلیں کہتے ہیں توبادشاہ نے بھی اپنا کلام اصلاح کے لئے ان کو دینا شروع کیا، دہلی کے حالات خراب ہوتے گئے، ملکی انتظام درہم برہم تھا، سودا نے اس صورت حال کی عکاسی اپنی ایک نظم ’’شہر آشوب ‘‘میں کی ہے، بعد میں سودا دہلی کی سکونت کو چھوڑکر اودھ کے پایہ تخت منتقل ہوگئے اور وہاں جب آصف الدولہ مسند نشین ہوئے تو انھوں نے سودا کی بہت قدر منزلت کی، اور پانچ سو روپئے ماہنانہ وظیفہ مقرر کیا۔
دو سو سال سے اس وقت اردو نے فارسی زبان کی جگہ لینی شروع کردی تھی، اردو میں شاعری ہورہی تھی، نثر لکھی جارہی تھی، ان حالات میں سودا کی غزلیں جو آسان بحروں میں تھیں، مقبول ہونے لگیں ، سودا کے چند مشہور اشعار نمونہ کے طور پر پیش کئے جاتے ہیں:
گل پھینکے ہے، اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی
اے خانہ بر انداز چمن ، کچھ تو ادھر بھی
کیفیت چشم اس کی مجھے یاد ہے سودا
ساغر کو مرے ہاتھ سے لینا کہ چلا میں
ظالم میں کہہ رہا تھا کہ اس خو سے در گذر
سودا کا قتل ہے یہ چھپایا نہ جائیگا
ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں
تڑپے ہے مرغ قبلہ نما آشیانے میں
فکر معاش ، عشق بتاں، یاد رفتگاں
اس زندگی میں اب کوئی کیا کیا کیا کرے
سوداؔ خدا کے واسطے کر قصہ مختصر
اپنی تو نیند اڑ گئی تیرے فسانہ میں
سودؔ ا ایک نہایت پرگو شاعر تھے، انھوں نے تقریباً ہر صنف سخن میں طبع آزامائی کی ہے، انھوں نے قصیدہ گوئی کی بنیاد ڈالی ہے، اور اسے فصاحت وبلاغت کے بلند مرتبہ تک پہونچایا ہے، وہ اس میدان کے پہلے شہ سوار ہیں ، دہلی میں عمرعزیز کا بڑا حصہ گذارا، آخر میں وہ لکھنؤ آگئے ، یہاں سودا کو قدر دانوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا، میر تقی میر بھی دہلی چھوڑ کر لکھنؤ آچکے تھے، اور دونوں میں چشمک رہتی تھی، اس مقابلہ سے اردو زبان کا بہت فائدہ ہوا، ستر سال کی عمر میں اس جہان فانی سے رخصت ہوئے، اور لکھنؤ کے آغا باقر کے امام باڑے کے صحن میں مدفون ہوئے۔
خواجہ میر دردؔ
خواجہ میردردؔ (۱۷۲۱۔۱۷۸۵ء) دہلی کے صوفی منش شاعر تھے، جب دہلی تاراج ہورہی تھی اورحملہ آوروں کا نشانہ بن رہی تھی، اور میرتقی میر اور مرزا محمد رفیع سودا جیسے شعراء دہلی سے ہجرت کرکے لکھنؤ جارہے تھے، اس وقت بھی خواجہ میر درد نے اپنا آستانہ نہ چھوڑا اور ان کی حال وقال کی محفلیں اور مجلس سما ع کی رونقیں قائم اور دائم رہیں ، خواجہ میر درد اپنے بزرگوں کے آستانے پر ثابت قدم رہے، اور اپنی شاعری کے ذریعہ عشق حقیقی اور معرفت الہی کا درس دیتے رہے، وعظ کی محفلیں بھی منعقد ہوتی رہیں، اور اردو زبان کی ترقی واشاعت کا کام بھی چلتا رہا، اور بلند پایہ مضامین اشعار میں منتقل ہوتے رہے، اس طرح خواجہ میر درد نے اردو زبان کے استحکام کے ساتھ شاعری کی بساط بھی اہل زبان کے لئے پھیلائی ، چنانچہ ان کی غزلیں خواص وعوام میں مقبول ہوتی رہیں، یہاں تک کہ ان کا شمار اردو زبان کے اساتذہ میں ہونے لگا، ان کے اشعار زبان زد عوام وخواص ہوگئے، ان کے چند مشہور اشعار یہ ہیں:
زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے
تر دامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو
دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کروبیاں
وائے نادانی کہ وقت مرگ یہ ثابت ہوا
خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا
جلتا ہے اب پڑا خس وخاشاک میں ملا
وہ گل کہ ایک عمر چمن کا چراغ تھا
ان لبوں نے نہ کی مسیحائی
ہم نے سوسو طرح سے مر دیکھا
سینہ ودل حسرتوں سے چھا گیا
بس ہجوم یاس جی گھبرا گیا
جائیے اے دردؔ کیوں صہبا وپیمانے کے بیچ
کچھ عجب مستی ہے اپنے دل کے پیمانے کے بیچ
خواجہ میر درد ؔ کے کلام میں معرفت وعشق اور درد وسوز کا رنگ گہرا ہے، اور اسی کے ساتھ ساتھ زبان کی صفائی بہت نمایاں ہے، بحریں عام طور پر چھوٹی اور مترنم ہیں ، ان کے کلام میں کوئی خاص بات ہے، جس کی وجہ سے ان کے کلام میں آج بھی پڑھنے والوں کو لذت اور مستی کا احساس ہوتا ہے۔
One thought on “میری اردوشاعری کی بیاض ۔ قسط 3 ۔ سوداؔ و دردؔ ۔ ۔ ۔ ۔ پروفیسرمحسن عثمانی ندوی”
دواوین اور سوانح سے کشید کیا گیا آب حیات، بہت خوب. انتہائی مختصر انداز میں اجمالی تعارف ان مضامین کی خوبی ہے اور جہان اردو کے جواہر پاروں میں اضافہ.