اسلام کا اخلاقی نظام ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ڈاکٹرمحی الدین حبیبی

Share

mohiuddin habibi

اسلام کا اخلاقی نظام

ڈاکٹرمحی الدین حبیبی
حیدرآباد ۔ دکن
موبائل : 08978155985

اسلام نے ابتدائے آفرینش ہی سے علاقائی سطح پر کسی نظریہ یا نظام کے بارے میں نہیں سوچا، جب بھی کوئی لائحۂ عمل پیش کیا تو اس کا خطاب تمام جہاں کے لوگ رہے، تمام اقطاعِ عالم کے اقوام رہے۔ اسلام نے جو عالمی سطح کے بنیادی حقوق (Fundamental Rights) انسانیت کی بھلائی کے لیے وضع کیے ہیں، وہ نہ صرف ایک مسلمان ہی کو نہیں ’’انسان‘‘ کو معزز و مکرم بناتے ہیں۔ اس طرح جو بات بھی فرد اور معاشرہ کے لیے بہرمند ہوگی وہ اسلام سے علاقہ رکھے گی اور جو بات بھی نقصان رساں ہوگی اس کا تعلق اسلام سے نہ ہوگا۔ اسلام ابن آدم کو اتنی اہمیت دیتا ہے کہ اس نے بڑے صاف اور شفاف اندازِ بیاں میں حکیمانہ طور پر کہہ دیا : وَ لَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْ اٰدَمَ (ہم نے نسل انسانی کو اکرام بخشا ہے۔) اور بڑی وضاحت کے ساتھ مندرجہ ذیل انتباہ دیا ہے:

’’نیکی یہ نہیں کہ تم مشرق و مغرب کی جانب اپنا چہرہ کرلو، بلکہ نیکی یہ ہے کہ تم اللہ پر ، روزِ قیامت پر، فرشتوں پر، اللہ کی کتابوں پر، رسولوں پر ایمان لاؤ اور اپنے مال میں سے اس کی (اللہ کی) محبت کی خاطر اپنے رشتہ داروں، یتیموں، ضرورتمندوں، مسافروں، فقیروں، مسکینوں اور غلاموں کو آزاد کرنے کے لیے خرچ کرو، نمازوں پر استقامت رکھو، زکوٰۃ دیا کرو، معاہدوں کی پابندی کرو، تکالیف اور پریشانیوں (ہر دورِ ابتلاء) میں ثابت قدم رہو (صبر کرو) یہی لوگ صادق، سچے ہیں اور اللہ کو (حاضر و ناظر) جان کر ڈرتے ہیں۔‘‘ (۲: ۱۷۷)
یہ گویا نصائح عشرہ (دس نصیحتیں یا احکامات) ہیں۔ ہم کو مذکورہ بالا آیات میں بتلایا گیا ہے کہ نیک اور متقی کون ہوتا ہے۔ وہ یقیناًاللہ کے احکامات کا فرمانبردار ضرور ہوتا ہے، لیکن اس کی نظر ہمیشہ محبتِ الٰہی اور اپنے ہم نفس برادرانِ اسلام کی محبت سے روگرداں نہیں ہوتی۔ اس گفتگو سے یہ چار نکتے سامنے آتے ہیں:
(۱) ہمارا ایمان سچا اور پرخلوص ہونا چاہیے۔
(۲) اس ایمان کے اثرات انسانی برادری کے لیے صدقہ و خیرات میں نظر آتے ہیں۔
(۳) ہم کو ایک اچھے شہری کی حیثیت سے ہمارے سماجی اداروں کی اعانت و حمایت کرنی چاہیے۔
(۴) ہماری خود کی اسپرٹ یا جدوجہد غیر متزلزل ، مستقل و مستحکم ہونی چاہیے۔
یہی وہ معیارات ہیں جن کی روشنی میں کسی فرد، یا جماعت کی کارکردگی کو اچھا یا برا کہا جاسکتا ہے۔ اس فیصلہ کا معیار ہی ایک ایسے مرکز کی تخلیق کرتا ہے جس کے محور پر سارے کا سارا ’’ اخلاقی نظام ‘‘ گردش کرتا ہے۔ اسلام کوئی اخلاقی حکم لگانے سے قبل انسان کے دل میں یہ یقین مضبوط کرتا ہے کہ اس کا یہ معاملہ اللہ کے ساتھ ہے جو ’بصیر و خبیر‘‘ کی حیثیت سے ہر وقت ہر جگہ اُس کو دیکھ رہا ہے۔ ہوسکتا ہے انسان ساری دنیا سے خود کو چھپالے، لیکن اس ذات والا سے کوئی چیز مخفی نہیں رہ سکتی۔ ہوسکتا ہے وہ کسی کو دھوکہ دے ، لیکن انسان خدا کو دھوکا نہیں دے سکتا۔ ہوسکتا ہے وہ کسی کی داروگیر سے بچ نکلے، لیکن اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی گرفت سے بچ نہیں سکتا۔ اس طرح اسلام ، اللہ کی خوشنودی اور رضامندی کو مقصدِ حیات بناکر ’’اخلاق کے معیار‘‘ کا ایک بنیادی اصول فراہم کیا ہے۔ یہ اصول لازمی طور پر انسان کو اخلاقی نظام کے ارتقاء کے لیے لامحدود امکانات کو روشن کرتا ، الٰہی پیامات (آیات) کو علوم کو ماخذ بناکر اسلام ہم کو اخلاقی معیار کے لیے ایک استقلال اور استقامت بخشتا ہے، جو فطری مطابقت، ضروری موافقت اور اجتہاد کی اہلیت پیدا کرتا ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی بے راہ روی، ضلالت اور اخلاقی زوال کی اجازت بھی نہیں دیتا۔ دوسرے الفاظ میں اس بات کی اجازت دی جاتی ہے کہ انسان خدا کی محبت اور خوف سے اخلاقی اقدار کا پابند ہوجائے اور کسی بیرونی دباؤ کے بغیر اخلاقی قوانین کو تسلیم کرنے لگے۔ اسلام اللہ پر ، ایمان اور یومِ جزاء و سزا کے تصور کے تحت ایک مسلمان ہی ایسی تحریکی قوت کو فروغ دیتا ہے جو اس کو اپنے اخلاقی معیار کے ساتھ انتہائی اخلاق اور عجز کے ساتھ ، قلب و روح کی گہرائی کے ساتھ برقرار رکھنے پر قدرت عطا کرتا ہے۔ یہ فطرت پرستی اور جدیدیت کے جھوٹے احساس کے تحت کسی انوکھی اخلاقی اقدار اور نہ ہی کسی مسلمہ اخلاقی اصولوں کی اہمیت کو کم کرنے کی اجازت دیتا ہے، نہ ہی اسلام کسی اخلاقی اصول میں غلو پسند کرتا ہے اور نہ ہی کسی اصول کو بغیر کسی سبب کے ترک کرنے کی صلاح دیتا ہے اور ان عام معروف اخلاقی حسنات کو ایک توازن و توافق عطا کرتا ہے اور یہی انسان کے لیے اخلاقی نظام ایک مخصوص بنیاد کا کام کرتی ہے۔ اس طرح اسلام انسانی زندگی کو ایک خاص وسعت بھی فراہم کرتا ہے، جس میں ان کی گھریلو وابستگیاں ، معاشرتی رویے اور ان کی سیاسی، اقتصادی، قانونی ، تعلیمی اور سماجی ، الغرض تمام معاملات شامل ہوتے ہیں، گویا وہ گھر کی دہلیز سے لے کر سماج تک کھانے کی ٹیبل سے لے کر میدانِ جنگ اور امن کانفرنسوں تک یعنی مہد سے لے کر لحد تک انسان کی ہر زندگی کا احاطہ کرتا ہے۔
قصۂ کوتاہ، حیات کا کوئی ایسا گوشہ نہیں جس کو اس عالمی، اخلاقی اقدار کے دائرہ میں نہ لایا گیا ہو، اس طرح ’’حسن خلق‘‘ کو تمام زندگی کے معاملات پر مقدم و مکرم رکھا گیا ، تاکہ خودغرض خواہشات ، دلچسپیوں کو ’’اخلاقی نظام‘‘ کے ماتحت کردیا جائے۔ یہ اس شخص کے لیے ایک ایسا نظامِ حیات مہیا کرتا ہے جس کی بنیاد ’’خیر‘‘ پر ہوتی ہے اور تمام برائیوں سے ’’مبرا‘‘ ہوتی ہے۔ یہ لوگوں کو صرف ’’خیر کو اپنانے کی تحریک نہیں دیتا ، خیر کو قائم کرنیاور بدی کے ازالہ کے لیے بھی ترغیب دیتا ہے۔ گویا یہ ضمیر کے فیصلہ کی بالادستی کو برقرار رکھتے ہوئے بدی کو خیر کے تابع رکھتا ہے، تاکہ برائی کوئی دوسرا راگ نہ الاپے۔ جو لوگ اس دعوتِ حق حسن اخلاق پر لبیک کہتے ہیں اور پھر ایک پاک و صاف ملت کے اجزائے ترکیبی بنتے ہیں تو انہیں ’’امتِ مسلمہ‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ اس امت کی تشکیل کا واحد مقصدِ عظیم یہی ہے کہ نیکی اور خیر کو قائم کرنے کے لیے ایک منظم کوشش کی جائے، تاکہ ’’بدی‘‘ کی طاقتوں کا قلع قمع ہوجائے۔
ذیل میں ہم کچھ بنیادی اخلاقی تعلیمات پیش کرتے ہیں، جو ایک مسلمان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتی ہیں۔ یہ تعلیمات ایسی ہیں کہ جو ایک مسلمان کے شخصی کردار اور سماجی ذمہ داریوں کا احاطہ کرتی ہیں۔
(۱) تقویٰ و پرہیزگاری : قرآن کریم ’’تقویٰ‘‘ کو ایک مسلمان کی اعلیٰ صفت قرار دیتا ہے:
’’اللہ کے نزدیک تم سب میں بڑا مکرم و معظم وہی ہے جو سب سے زیادہ متقی و پرہیزگار ہے۔ عجز و انکساری ، شرم و حیاء، جذبات و خواہشات پر قابو ، صدق و صفا، رواداری و یکجہتی ، صبر و استقامت اور عہد کی پابندی ایسی اخلاقی قدریں ہیں جن پر قرآن حکیم نے بار بار اپنے ارشادات میں زور دیا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے: ’’و اللّٰہُ یُحِبُّ الصَّابِرِیْنَ اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ (۳:۱۴۶)
’’اور دوڑو مغفرت کی طرف جو تمہارے پروردگار کی طرف سے ہے اور اس جنت کی طرف جس کی وسعت ایسی ہے جیسے آسمان و زمین کی وسعت، جو (صرف) اللہ سے ڈرنے والوں کے لیے تیار کی گئی ہے۔ ایسے لوگ جو (اللہ کی راہ میں) خرچ کرتے ہیں ، فراغت میں اور تنگی میں اور غصہ کے ضبط کرنے والے ہیں اور لوگوں سے درگذر کرنے والے ہیں، اللہ تعالیٰ ایسے نیکواکاروں کو محبوب رکھتا ہے۔‘‘ (۱۳: ۱۳۳: ۱۳۴)
پھر ارشاد ہوتا ہے:
’’نماز پڑھا کرو اور اچھے کاموں کی نصیحت کرو اور برے کاموں سے منع کیا کرو اور تجھ پر جو مصیبت واقع ہو اس پر صبر کیا کر ، یہ ہمت کے کاموں میں سے ہے اور لوگوں سے اپنا رخ مت پھیر اور زمین پر اتراکر مت چلے۔ بے شک اللہ تعالیٰ کسی تکبر کرنے والے کو فخر کرنے والے کو پسند نہیں کرتا اور اپنی چال میں اعتدال اختیار کر اور اپنی آواز کو پست کر۔ بے شک آوازوں میں سب سے بری آواز گدھوں کی ہوتی ہے۔ (۳۱: ۱۷: ۱۹)
ہمارا اخلاقی رویہ کیسا ہونا چاہیے ، اس کا مکمل خلاصہ ہمیں اس حدیث نبویؐ میں ملتا ہے:
’’ربّ العالمین نے مجھے نو چیزوں کا حکم دیا ہے: (۱) متقی و پرہیزگار رہوں (۲) ظاہر میں بھی باطن میں بھی (۳) حق و انصاف کی بات کرو (۳) ناگواری میں اور خوشگواری میں بھی (۴) اعتدال کو اپناؤ چاہے غریب رہو یا امیر رہو (۵) ان سے بھی تعلقات استوار رکھو جو تعلقات کو توڑ دیتے ہیں (۶) مجھ سے روگردانی کرنے ولے کو بھی عطا کرو (۷) میرا سکوت میرا تفکر بن جائے (۸) میری نظر ہی مری فہمائش کا کام کرے۔ (۹) اور یہ کہ میں ہمیشہ حق بات کا حکم دوں۔
(ب) سماجی ذمہ داریاں: اسلامی تعلیمات کی ساری بنیاد رحم و الفت پر قائم ہے، تاکہ ایک مسلمان باہمی ہمدردی کا برتاؤ کرتا رہے، کیوں کہ عام طور پر ایک عام ’’نظریۂ رحمت‘‘ کو نظر انداز کردیا جاتا ہے، اس لیے اسلام خصوصی طور پر اس پر زور دیتا ہے کہ اس پر رحم و کرم کے معاملہ کو خصوصیت دی جائے اور تعلقات کی قربت کے اعتبار سے اس کی ابتداء اپنے اہل خاندان سے کی جائے ، جس میں ماں باپ ، شوہر ، بیوی اور اولاد شامل ہیں۔ اس کے بعد قریبی رشتہ داروں، پڑوسی ، دوست احباب ، جان پہچان والے اور یتیم و یسیر ، بیواؤں، قوم کے ضرورتمندوں ، برادرانِ اسلام اور تمام انسان اور جانور وغیرہ شامل ہیں۔ (ج) والدین : والدین کا احترام اور نگہداشت پر اسلامی تعلیمات میں بڑا زور دیا گیا ہے، یہ تو ایک مسلمان کے ایک جزو ہے۔ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’تمہارا رب تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم اس ذات کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو، اور یہ کہ اپنے والدین کے ساتھ رحم کا برتاؤ کرو۔ جب ان میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑی عمر کو پہنچ جائیں اور اگر ان کو تم پاؤں تو ان کو نہ جھڑکو اور نہ ہی (گھر سے) بے دخل کردو، بلکہ ان کے ساتھ عزت کا برتاؤ کرو اور رحم کے تقاضہ کے مطابق ان کے آگے عجز و انکسار کے ساتھ رہو اور کہو اے میرے رب ان پر اسی طرح رحم فرما جس طرح کہ انہوں نے مجھ پر بچپن پر رحم کیا تھا۔‘‘ (۱۷۔۲۳۔۲۴)
(۴) اعزہ و اقرباء : قرابت داروں کے تعلق سے احکامات اس طرح ہیں:
’’اور قرابت داروں کو ان کا حق مالی اور غیر حق مالی دیتے رہنا اور محتاج و مسافر کو بھی دیتے رہنا اور اپنے مال کو بے موقع و فضول خرچی میں نہ اڑانا۔ (۱۷: ۲۶)
(۵) پڑوسیوں کے بارے میں ارشادِ نبویؐ ہے کہ : ’’وہ مؤمن نہیں جو خود تو پیٹ بھر کر کھائے ، جب کہ اس کا پڑوسی اس کے بازو میں بھوکا رہے اور وہ بھی مؤمن نہیں جس کی شرانگیزی سے اس کا پڑوسی محفوظ نہ رہے۔‘‘
درحقیقت ، قرآن اور حقیقت کی رو سے ایک مسلمان پر بڑی خاص اخلاقی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ یہ ذمہ داری والدین، قرابت دار ، پڑوسیوں ہی کو نہیں ، بلکہ ساری انسانیت اور حیوانات و نباتات کو اپنے دائرۂ کار میں لیتی ہے۔ مثال کے طور پر مختلف پرندوں اور جانوروں کا شکار محض مشغلہ و کھیل کے لیے منع ہے اور پھل دار درخت کا بھی بلاضرورت کاٹنا بھی منع ہے۔
اس طرح اسلام بنیادی اخلاقی خصوصیات کی اساس پر ایک ایسا اعلیٰ و ارفع اخلاقی نظام قائم کرتا ہے جس کی صداقت اور خیرطلبی کے اصول سے ساری انسانیت استفادہ کرسکتی ہے، کیوں کہ اسلام خود کی بے راہ روی ، ظلم و استبداد ، عیش پرستی اور بدنظمی جیسے عناصر سے ’’تزکیۂ نفس‘‘ کرتا ہے، یعنی نفس کی طہارت انجام دیتا ہے۔ یہ ایسے متقی و پرہیزگار بندوں کو تیار کرتا ہے جو اپنے نظریۂ اخلاق پر پکا یقین رکھتے ہیں، پرہیزگاری کی زندگی گزارتے ہیں، اصولی زندگی کو اپناتے ہیں اور کذب و افتراء سے سمجھوتہ نہیں کرتے۔ یہ اپنے ماننے والوں میں اخلاقی ذمہ داری کے احساس کو جگاتا بھی ہے اور ان میں انانیت اور ’’خودپرستی‘‘ کو قابو میں کرنے کی صلاحیت بھی پیدا کرتا ہے۔ گویا اسلام، ہر حالت میں اور ہر ایک کے لیے رحم دلی، فیاضی، رحمت ، ہمدردی، امن ، سلامتی، بے ریائی، نیکی ، بے مطلب حسن سلوک اور صدق و صفا کو فروغ دیتا ہے، اس طرح ایک مسلمان کو شریفانہ اور اعلیٰ صفات سے متصف کرتا ہے جس سے صرف نیکی اور خیر ہی کی امید کی جاسکتی ہے۔
اللّٰہم اہدنا الصراط المستقیم

Share
Share
Share