ڈاکٹرمحمد جمال شریف اوردکنیات ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پروفیسرمجید بیدار

Share

bedarM

ڈاکٹر محمد جمال شریف اور دکنیات

پروفیسرمجید بیدار
سابق صدر شعبہ اردو ‘ جامعہ عثمانیہ حیدرآباد

دکن کی سرزمین میں شعر و ادب کا قدیم انداز دکنی زبان کی نمائندگی کرتا ہے دکنی زبان میں تحقیقی کارناموں کا سلسلہ حکیم شمس اللہ قادری کی کتاب ’’اردوئے قدیم‘‘ کی اشاعت سے مربوط ہے۔ وہ دکنیات کے پہلے مصنف ہیں جنہوں نے دکنی شاعری اور نثر نگاری کی بازیافت میں پیش رفت انجام دی‘ پھر یہ سلسلہ نصیر الدین ہاشمی ‘ ڈاکٹر سید محی الدین زور‘ پروفیسر عبدالقادر سروری اور پروفیسر سید محمد جیسے ادیبوں اور نقادوں کے ذریعہ فروغ پاتے ہوئے آگے بڑھا۔ دکنی کے ان ابتدائی محققین نے دکنی زبان اور دکنی شعر و ادب کے ارتقاء کے تجزیے کو تاریخی پس منظر میں نمایاں کرنے پر خصوصی توجہ دی۔ پروفیسر مغنی تبسم نے دکنی تحقیقات کے بارے میں لکھا ہے ۔۔۔

’’گذشتہ ستر اسی سال کے دوران دکنی ادبیات میں کافی کام ہوا‘ جو زیادہ تر منتشر حالت میں تھا۔ اس بات کی سخت ضرورت تھی کہ ابتدائی دکنی شاعری کی ایک مخصوص تاریخ مرتب ہو‘ ڈاکٹر محمد جمال شریف کی یہ کتاب اس ضرورت کو پورا کرتی ہے اور بڑی خوبی سے پورا کرتی ہے۔ دکن میں ولی ؔ سے پہلے کی اردو شاعری کے لئے یہ کتاب ایک دستاویز کا حکم رکھتی ہے۔ ڈاکٹر محمد علی اثر نے اس پر نظر ثانی کرکے اس کو جدید تحقیقات کے مطابق بنا دیا ہے۔ ‘‘ (۱) پروفیسر مغنی تبسم ’’دکن میں اردو شاعری ۔ ولی سے پہلے ‘‘مطبوعہ 2004ء ادارہ ادبیات اردو ‘ حیدرآباد ( ڈسک کور پر پروفیسر مغنی تبسم کی رائے)
عصر حاضرکے ایسے نامورمحقق اور نقاد کی رائے سے خود اندازہ ہوتا ہے کہ دکنی زبان اور اس کی تاریخ پر تحقیقی مواد فراہم کرنے کے منصوبہ کو روبہ عمل لانے کے لئے ڈاکٹر محمد جمال شریف نے یونیورسٹی کی تحقیق پر توجہ دی اور دکنی ادبیات میں خاص طور پر شاعری کا جامع احاطہ کرنے کا ارادہ کیا۔ اس دور تک دکنی مخطوطات کی جامع فہرستوں کی ترتیب نصیر الدین ہاشمی اور ڈاکٹر سید محی الدین زور ؔ کی کوششوں سے منظرعام پر آچکی تھی۔ اس کے علاوہ دکنی کے مختلف شاعروں اور ادیبوں کے کارناموں پر تحقیقی کام تکمیل کے مرحلے سے گذر چکا تھا‘ جس کے خاطر خواہ نتائج بھی برآمد ہونے لگے تھے۔ ڈاکٹر محمد ضیاء الدین احمد شکیب نے اس حقیقت کا انکشاف اس انداز سے کیا ہے ۔
’’پیش نظر کتاب ڈاکٹر محمد جمال شریف نے 1963ء میں مکمل کرلی تھی ‘لیکن افسوس ہے کہ 1972ء میں ان کا انتقال ہوگیا اور یہ کام دھرا کا دھرا رہ گیا۔ ان کی صاحبزادی ڈاکٹر نجمہ جمال جو فارسی کی لکچرر ہیں‘ میری شاگرد رہی ہیں ‘ انہیں اس بات کا خیال آیا کہ اپنے والد کے اس علمی کارنامے کو شائع کیا جائے۔ ظاہر ہے کہ 1963ء سے اب تک دکنی شعریات میں تحقیق کا کام کافی آگے بڑھ چکا ہے‘ لہٰذا اس کی ضرورت تھی کہ پیش نظر کام پر کوئی ایسی شخصیت نظرثانی کرسکے جو اس کی مکلف ہو۔ پروفیسر مغنی تبسم اور میں اس بارے میں ہم رائے تھے کہ پروفیسر محمد علی اثر نظر ثانی کا یہ کام بہ احسن وجوہ انجام دے سکتے ہیں ‘چنانچہ میں نے ان سے درخواست کی اور انہوں نے دو سال کی مدت میں یہ کام سر انجام دیا اور اس پر ایک مقدمہ بھی لکھا۔‘‘(۲) پیش لفظ ’’دکن میں اردو شاعری ۔ ولی سے پہلے ‘‘ صفحہ 11 ۔از ۔ محمد ضیاء الدین احمد شکیب۔
ڈاکٹر محمد علی اثر نے اپنے مقدمہ میں یہ وضاحت فرمادی ہے کہ دکنی ادب پر تحقیقات کا کام انجام دینے والے ابتدائی افراد میں مستشرقین شامل رہے ہیں ۔ ایسے ہی پہلے مستشرق کی حیثیت سے انہوں نے چارلس اسٹیورٹ کا نام پیش کیاہے جس نے ٹیپو سلطان شہید کے کتب خانے کی فہرست انگریزی زبان میں مرتب کی‘ جس کی اشاعت 1809ء میں لندن سے عمل میں آئی۔ اس کے بعد انہوں نے ٹیپو سلطان کے ذخیرہ میں دکنی مخطوطات کا حوالہ دیتے ہوئے یہ بتایا ہے کہ دوسرا اہم مستشرق اے۔ اسپرنگر تھا‘ جس نے شاہان اودھ کے کتب خانوں کی عربی‘ فارسی اور ہندوستانی مخطوطات کی وضاحتی فہرست مرتب کی‘ جو کلکتہ سے 1854ء میں شائع ہوئی۔ اسپرنگر کی دوسری فہرست مخطوطات شاہان ادوھ کے کتب خانوں سے متعلق ایک رپورٹ تین حصوں میں شائع کی گئی جو 1848ء اور 1849 کے دوران ہندوستان روانہ کی گئی اور اسے1894ء میں کلکتہ سے شائع کیا گیا۔ اس رپورٹ کا اردو ترجمہ محمد اکرام چغتائی کے ذریعہ مکمل ہوا۔ جسے 1973ء میں انجمن ترقی اردو ہند نے شائع کیا ۔ اسی طرح مشہور فرانسیسی مستشرق گارساں دتاسی کے حوالے کے ساتھ انہوں نے ثابت کیا ہے کہ 1868ء سے لے کر 1899ء تک مختلف دکنی مخطوطات کی فہرستوں کی اشاعت کا سلسلہ جاری رہا۔ جس کے بعد حکیم شمس اللہ قادری‘ عبدالجبار ملکاپوری‘ مولوی عبدالحق ‘ نصیر الدین ہاشمی‘ حافظ محمود شیرانی‘ ڈاکٹر سید محی الدین قادری زور‘ پروفیسر عبدالقادر سروری‘ پروفیسر عبدالمجید صدیقی اور مولوی سید محمد کے نام پیش ہوتے ہیں‘ جنہوں نے دکنی مخطوطات کے مطالعہ اور ان کی فہرستوں سے استفادہ کرکے دکنی ادب کی تاریخ مدون کرنے کا کارنامہ انجام دیا۔ ڈاکٹر محمد علی اثر یہ لکھتے ہیں ۔۔۔
’’دکنی زبان اور شعر و ادب کے سرکردہ ماہرین و محققین کی فہرست میں ایک نمایاں اور معتبر نام پروفیسر نذیر احمد (علی گڑھ مسلم یونیورسٹی) کا ہے جنہوں نے دکنی شہ پاروں کی تحقیق و تحسین کے سلسلے میں متعدد مضامین و مقالات سپرد قلم کئے۔ ان کا سب سے اہم کارنامہ بیجا پور کے چھٹے عادل شاہی فرمانروا ابراہیم عادل شاہ کی تصنیف ’’نورس‘‘ کی تدوین ہے۔ ان ہی کی نگرانی اور رہنمائی میں محمد جمال شریف مرحوم نے اپنا پی ایچ ڈی کا نہایت وقیع اور بلند پایہ مقالہ بہ عنوان ’’دکن میں اردو شاعری کا ارتقاء ۔ ولی سے پہلے‘‘ (800ھ تا 1000ھ مطابق 1297ء تا 1688ء ) پایہ تکمیل کو پہنچایا۔ یہی مقالہ ضروری حک و اضافوں کے بعد پیش نظر کتاب کی صورت میں شائع ہورہا ہے۔ محمد جمال شریف نے اولاً یہ کام پروفیسر رشید احمد صدیقی (صدر شعبہ اردو علی گڑھ) کی نگرانی میں شروع کیا تھا‘انہوں نے تقریباً چھ ماہ تک ان کی ہدایت کے بموجب مقالے کے لئے درکار مواد اکٹھا کیا تھا کہ ان کی معیاد صدارت مکمل ہوگئی اور ان کی جگہ پروفیسر آل احمد سرور صدر شعبہ مقرر ہوئے۔ رشید صاحب نے سرور صاحب سے خواہش کی کہ جمال شریف کے تحقیقی کام کے لئے کسی اور پروفیسر کو نگران مقرر کیا جائے‘ سرور صاحب نے رشید صاحب کی ہدایت کے مطابق جمال شریف کو پروفیسر نذیر احمد کی نگرانی میں دے دیا اور ان کا داخلہ بھی عارضی کے بجائے مستقل کردیا۔ غرض ان کی نگرانی میں جمال شریف نے اپنا مقالہ 1963ء میں داخل کیا‘ جس پر انہیں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری عطا کی۔ ‘‘ (۳) مقدمہ ’’دکن میں اردو شاعری ۔ ولی سے پہلے ‘‘از ۔ڈاکٹر محمد علی اثر۔ صفحہ 17-18۔
دکنی زبان اور ادب پر لکھی جانے والی ادبی تاریخوں اور ان کی اہمیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ڈاکٹر محمد علی اثر نے اپنے مقدمہ میں چند اہم باتوں کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں ۔۔۔
’’راقم نے تقریباً دو سال کے عرصے میں ترمیم و اضافے کا کام مکمل کیا اور اب یہ کہنے کے موقف میں ہے کہ ڈاکٹر جمیل جالبی کی تاریخ ادب اردو (جلد اول) اور پروفیسر سیدہ جعفر اور پروفیسر گیان چند جین کی ’’تاریخ ادب اردو 1700 ء تک‘‘ کے منظرعام پر آنے کے باوجود یہ کتاب ’’دکنی شاعری کی تاریخ میں ایک سنگ میل‘‘ کا درجہ رکھتی ہے۔ پیش نظر مقالہ بنیادی طور پر تین ابواب میں منقسم ہے ۔ پہلا باب : سرزمین دکن سے متعلق ہے جس میں دکن کی وجہ تسمیہ ‘ جغرافیہ ‘ محل وقوع‘ دکن میں اردو کے ابتدائی نقوش‘ شمال اور جنوب کا ارتباط‘ علاؤالدین خلجی کا حملہ‘ محمد تغلق کا دولت آباد کو پایہ تخت بنانا‘ صوفیہ کی خدمات اور دکن سے متعلق بعض مسائل و موضوعات سے بحث کی گئی ہے۔ اس کتاب کا دوسرا باب چونکہ مقالے کے اصل موضوع کا احاطہ کرتا ہے اس لئے سب سے طویل اور سب سے اہم ہے۔ اس باب کو ڈاکٹر جمال شریف نے حسب ذیل تین ابواب میں تقسیم کرکے ہر دور کے شعراء کا مفصل جائزہ لیا ہے۔
دور اول : 800ھ م 1397ء تا 900ھ م 1494ء کے شعراء
دور دوم : 900ھ م 1494ء تا 1000ھ م 1591ء کے شعراء
دور سوم : 1000ھ م 1591ء تا 1100ھ م 1688ء کے شعراء
ڈاکٹر محمد علی اثر نے یہ بھی لکھا ہے کہ اس کتاب کا تیسرا اور آخری باب ’’دکن میں اردو شاعری ‘‘ سے متعلق ہے جس کو مزید چار حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلے حصہ میں ’’اصناف سخن اور اسالیب شعر کا ارتقاء ‘‘کے عنوان سے دکنی شاعری کی اصناف سخن‘ مثنوی ‘ غزل ‘ قصیدہ ‘ مرثیہ اور رباعی کو موضوع بحث بنایا گیا ہے ۔ دوسرے‘ تیسرے اور چوتھے حصے میں بالترتیب ’’موضوعات سخن اور ہندوستانی عناصر‘‘ ، ’’دکن میں اردو شاعری کی زبان ‘‘ اور ’’ولی سے قبل اردو شاعری کے ارتقاء کی اہمیت اور اس پر بازگشت‘‘ کے عنوانات کے تحت اظہار خیال کیا گیا ہے۔ راقم الحروف نے ڈاکٹر جمال شریف کے تحریر کردہ متن کو من و عن برقرار رکھا ہے۔ ‘‘ (۴) مقدمہ : ڈاکٹر محمد علی اثر صفحہ 19، 20 اور 21 ۔
ان حقائق کے ذریعہ ڈاکٹر محمد جمال شریف کے مدون کردہ مقالے ’’دکن میں اردو شاعری ۔ ولی سے پہلے‘‘ کی ترتیب اور اس میں موجود مواد کے بارے میں تفصیلات حاصل ہوتی ہیں۔ لازمی ہے کہ ڈاکٹر محمد جمال شریف کے اس مقالے کی اشاعت کے دوران مؤلفین اور مرتبین ہی نہیں بلکہ مددگاران نے یہ ضروری سمجھا کہ کتاب کے ساتھ ’’صاحب کتاب کا تعارف‘‘ بھی پیش کیا جائے۔ اس تعارف کی تکمیل ان کی صاحبزادی نجمہ جمال نے انجام دی اور سوانحی کوائف کے دوران رشید احمد صدیقی اور آل احمد سرور کے خطوط کے عکس شائع کرکے یہ ثبوت فراہم کیا ہے کہ ڈاکٹر جمال شریف حیدرآباد دکن کے باشندے تھے لیکن انہوں نے اپنا مقالہ دکنی ادب سے متعلق علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پیش کرکے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ ڈاکٹر محمد جمال شریف کے مختصر حالات کا ذکر کرتے ہوئے ان کی صاحبزادی نے لکھا ہے ۔۔۔
’’وہ ماہِ ارد ی بہشت 1331فصلی م مارچ؍1922ء کو پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم پہلے گھر پر ہوئی ‘ پھر چادر گھاٹ اسکول میں داخل ہوئے‘ اس کے بعد انہوں نے چادر گھاٹ ہائی اسکول سے میٹرک کا امتحان پاس کیا ۔ پھر انٹرمیڈیٹ کے لئے سٹی کالج میں داخلہ لیا لیکن باوجوہ خصوصی تعلیم کا سلسلہ چھوٹ گیا‘ تاہم انہوں نے تعلیم کو آگے بڑھانے کی کوشش کی اور علوم مشرقیات کی طرف نکل پڑے۔ پہلے جامعہ نظامیہ سے منشی اور اس کے بعد خورداد 1353ء فصلی م اپریل 1943ء میں منشی فاضل اور اسی سال محاسبی (Accountancy) کے امتحانات کامیاب کئے ‘ اسی زمانے میں ان کے بڑے بھائی محمد تلاوت شریف دفتر صدر محاسبی حیدرآباد میں ملازم تھے اور ظہیر احمد صاحب آڈیٹر اور اکاؤٹنٹ جنرل تھے۔ ان کی توجہات سے محمد جمال شریف بھی اسی دفتر صدر محاسبی میں ملازم ہوئے اور چند برسوں میں یہاں کے سیکشن آفیسر بن گئے۔ ملازمت کے بعد محمد جمال شریف کی شادی محمد محمود الحسن صاحب سیول انجینئر صرف خاص کی دختر عزیز النساء بیگم کے ساتھ ہوئی۔ عزیز النساء بیگم کے بھائیوں میں ڈاکٹر محمد عبدالسلام ( پروفیسر نباتیات عثمانیہ یونیورسٹی )اور محمد معظم علی صاحب(سیلس ٹیکس کمشنر مہاراشٹرا )تھے۔ محاسبی کی ملازمت اور شادی کے بعد محمد جمال شریف نے دوبارہ تعلیمی جدوجہد کا آغاز کیا۔ وہ اردو‘ فارسی ‘ عربی اور انگریزی سے بہت اچھی طرح واقف تھے اور ان زبانوں کے ادبیات کا مطالعہ کرتے تھے‘ لیکن ان کا اصل عشق اردو اور دکنی تہذیب سے تھا۔ ان کی اعلی تعلیم کے لئے ٹیکنیکل دشواریاں تھیں۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں یہ دشواریاں نہیں تھیں‘ لہٰذا جمال شریف نے 1951ء میں علی گڑھ سے معاشیات ‘ شہریت اور اردو میں انٹرمیڈیٹ کا امتحان بدرجہ دوم کامیاب کیا ۔ 1952ء میں علی گڑھ مسلم یونیو رسٹی سے بی اے کا امتحان کامیاب کیا اور 1956ء میں ایم اے اردو کا امتحان کامیاب کیا۔ اسی زمانے میں بار بار علی گڑھ جانا آنا ہوا۔ اس وقت تک وہ 30 پینتیس سال کی عمر کے ہوگئے تھے‘ لیکن ادارۂ ادبیات اردو سے گہری دلچسپی قائم تھی۔ وہ 1958ء میں آل احمد سرور کی نگرانی سے ہٹ کر ڈاکٹر نذیر احمد کی نگرانی میں آگئے ۔ اس طرح 1963ء میں پی ایچ ڈی کا مقالہ پیش کیا۔ کئی مشکلات درپیش ہوئے ‘ وہ ضیق النفس کے مریضتھے‘ ہر وقت آکسیجن لگانی پڑتی تھی۔ غرض 22؍اگست 1972ء کو جمعہ کی اذان سننے کے بعد نماز ادا کی اور داعی اجل کو لبیک کہا۔‘‘ (۵) صاحب کتاب کا تعارف صفحہ 23 ‘ 24‘ 28 اور 29۔
ان کی تواریخ سے پتہ چلتا ہے کہ صرف 50 سال کی عمر میں وہ اس دنیا سے کنارہ کش ہوگئے۔ تاریخ پیدائش کی تاریخ1922ء درج ہے اور تاریخ وفات 1972ء بتائی جاتی ہے‘ جس کے مطابق وہ 50 سال کی عمر تک طبعی زندگی گذارتے رہے۔
ڈاکٹر محمد جمال شریف کا تحقیقی مقالہ 2004ء میں شائع کیا گیا ہے اور اس کا نام ’’دکن میں اردو شاعری ۔ ولی سے پہلے‘‘ تجویز کیا گیاہے۔ اس کتاب کے جملہ حقوق بحق ڈاکٹر نجمہ جمال محفوظ ہیں۔ یہ مقالہ انتہائی ضخیم اور خوبصورت جلد کے ساتھ 926 صفحات کا احاطہ کرتا ہے۔ ایک مقالے کی تمام ضروریات کو اس مقالے میں شامل کیا گیا ہے۔ دکن کے خاندانوں کے شجرے‘ دکن کے بادشاہوں کے حالات اور ان کے ادوار کی تاریخی خصوصیات کے علاوہ ہر عہد میں دکن پر بادشاہوں کی حکومت کے نقشوں کے علاوہ‘ دکن کا خصوصی علاقہ‘ خاندیس‘ احمد نگر اور تلنگانہ کے علاوہ ‘ گولکنڈہ کے نقشوں کے ساتھ ساتھ محقق نے جن دکنی اردو مخطوطات کے مطالعہ کی طرف توجہ دی اور شخصی کتب خانوں سے استفادہ کیا ہے‘ مرہٹی اور ہندی ماخذات کے علاوہ چند اہم رسائل اور قلمی کتابوں کی فہرستوں کو بھی مقالہ میں شامل کیا گیا ہے۔مقالے کے آخر میں اشاریہ کے تحت اشخاص ‘ مقامات‘ موضوعات اور کتب و مضامین کے ذریعہ تمام درکار تحقیقی مواد کو یکجا کردیا گیا ہے۔ اس مقالے کی تدوین کی خاطر ڈاکٹر محمد جمال شریف نے ادارۂ ادبیات اردو کے علاوہ کتب خانہ آصفیہ ‘ سالار جنگ میوزیم کے کتب خانے اور شخصی کتب خانوں کے مخطوطات کے مطالعہ پر بھی توجہ دی۔ ڈاکٹر جمال شریف نے جن قلمی مخطوطات سے استفادہ کیا ‘ان کی تفصیلات درج کی جاتی ہیں۔
’’بحر محیط (بیاض از محمد خلیل اللہ شطاری)‘ چکی نامہ عرفان ‘ (بیاض مراثی‘ مخطوطہ نمبر 829 ‘ گلزار السالکین ‘ مخطوطہ نمبر 801‘ مجذوب السالکین ‘ مخطوطہ نمبر 181‘ میراں جی خدا نما ‘ مخطوطہ نمبر 459‘ نثر نامہ و خود نوشت از میراں جی ‘ مخطوطہ نمبر 862 اس کے علاوہ مخطوطہ نمبر 13‘ 25‘ 98‘120B ‘ 142‘ 261‘ 340‘ 369‘ 370‘ 504‘ 509‘ 652‘ 660‘ 467‘ 669‘ 829‘ 1131‘ 1370 ۔ (۶) دکنی اردو مخطوطات ‘ ادارہ ادبیات اردو حیدرآباد صفحہ 872۔
ادارۂ ادبیات اردو کے ان جملہ 24 قلمی کتابوں کے مطالعہ اور اس کے مواد سے استفادہ کرکے ڈاکٹر جمال شریف نے مقالے کی تکمیل کا کارنامہ انجام دیا ہے۔ اسی طرح کتب خانہ آصفیہ حیدرآباد کے مخطوطات کے مطالعہ کی تفصیل درج کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں ۔۔۔
’’اُم التواریخ‘ تاریخ اردو سید ظہیر الدین حسین گلوٹی بلند شہر ‘ بشارت الانوار ‘ مخطوطہ نمبر 36 ‘ تذکرۃ القادری‘ قلمی جدید‘ مخطوطہ نمبر 1083‘ تصوف ‘ مخطوطہ نمبر 915 ‘ دیوان ہاشمی ‘ مخطوطہ نمبر 1999‘ شمائل الاتقیاء ‘ تصوف مخطوطہ نمبر 663‘ کتاب الاعراس ‘ تاریخ کلام شعراء دکن ‘ مخطوطہ نمبر 1326‘ مثنوی‘ سوانح عمر ‘ مخطوطہ نمبر 250 ‘ مثنوی یوسف زلیخا ‘ مخطوطہ نمبر 467‘ مجموعہ رسائل ‘ مخطوطہ نمبر 4117 (جدید)‘ مخطوطہ جامع نمبر 173 ‘ مشکوۃ النبوہ‘ تذکرہ مخطوطہ نمبر 21 اور 194 ‘ مقصود العاشقین۔ مخطوطہ نمبر 335 ‘ ملفوظات ہاشم علوی ۔ تصوف۔ مخطوطہ نمبر 345 ۔ نظام الانساب ‘ شجرہ خواجہ بندہ نواز ؒ ‘ مخطوطہ نمبر2 (جدید) ‘ فقہ و عقائد حنفی ‘ مخطوطہ نمبر 3‘ 69 ۔ شاملات ۔ مخطوطہ نمبر 224B‘ 280۔ سوانح عمری ‘ مخطوطہ نمبر 292‘ فقہ و عقائد ‘ مخطوطہ نمبر 509‘ 608(جدید) ‘ 979(جدید) ‘ 1077‘ 1125 (جدید) ‘ 2561‘ مشاملات۔ 2938 (جدید) ‘ 3487(جدید) 3492‘ 3884‘ 5275(جدید) ۔ (۷) دکنی اردو مخطوطات ‘ ادارہ ادبیات اردو حیدرآباد صفحہ 873۔
کتب آصفیہ کے جملہ 31 اہم مخطوطات سے استفادہ کرکے ڈاکٹر جمال شریف نے اس مقالہ کی ترتیب و تدوین کا حق ادا کیاہے۔ ادارہ ادبیات کے بعد کتب خانہ آصفیہ اور تیسرا اہم مخطوطات کا ذخیرہ سالار جنگ میوزیم لائبریری کی زینت بنا ہواہے۔ ڈاکٹر محمد جمال شریف نے سالار جنگ میوزیم کے مخطوطات سے بھی استفادہ کیا اور اپنی مستند دکنی شاعری کی تاریخ’’دکن میں اردو شاعری‘ ولی سے پہلے‘‘ کی تدوین کا کارنامہ انجام دیا۔ چنانچہ دکنی اردو مخطوطات کے استفادہ کے پس منظر میں انہوں نے ذیل کے سالار جنگ میوزیم کے مخطوطات سے استفادہ کا حوالہ درج کیا ہے۔
’’بیاض مراسم مخطوطہ نمبر 3 ’’دیوان معظم‘‘ (مخطوطہ نمبر عدم دستیاب ) ۔’’کشکول‘‘ مخطوطہ نمبر 5 معراج نامہ حضرت رسالت پناہ از میاں محمد مختار‘ (مخطوطہ نمبر عدم دستیاب)۔ میراں جی خدا نما ‘ مخطوطہ نمبر 106 تصوف‘ (مخطوطہ نمبر 2 ) فقہ و عقائد ‘ مخطوطہ نمبر 5 ‘ مخطوطہ نمبر 8 پند و نصائح‘ مخطوطہ نمبر 14 اور 15 تصوف و اخلاق (مخطوطہ نمبر 21 ‘ 25 اور 26 ) مخطوطہ نمبر 170 ’’تصوف و اخلاق‘ ‘ مخطوطہ نمبر 171 ’’تصوف و اخلاق‘‘۔ (۹) دکنی اردو مخطوطات ‘ ادارہ ادبیات اردو حیدرآباد صفحہ 873۔
ڈاکٹر محمد جمال شریف نے دکن میں ولی سے قبل کی اردو شاعری کو پورے اہم نکات کے توسط سے پیش کرنے کی خاطر دکن کے کتب خانوں میں موجود تمام مخطوطات کا مطالعہ کیا اور ان مخطوطات کے سلسلہ میں دکن کے تمام قلمی ذخیروں کو تلاش کرکے اپنے مقالے کی تدوین انجام دی۔ اس خصوص میں انہوں نے شخصی کتب خانوں میں موجود قلمی نسخوں پر بھی توجہ دی۔ انہوں نے جن قلمی نسخوں کے حصول پر توجہ دی‘ ان کے نام بھی مقالے کے آخر میں تحریر کئے گئے ہیں۔ جن کی تفصیلات ذیل میں بیان کی جاتی ہیں۔
’’اردو کی ایک قدیم بیاض مخزونہ مبارز الدین رفعت لکچرر گلبرگہ
مخطوطہ مکتوبہ حکیم لےئق احمد صاحب نعمانی
مثنوی بہرام و گل اندام مخطوطہ نمبر 86 شاملات‘ کتب خانہ میر محمد مومنؒ
قلمی بیاض کتب خانہ پروفیسر آغا حیدر حسن
عبدالرزاق عرشی‘ مخطوطہ نمبر 90 درگاہ یوسفین ‘ حیدرآباد
عکس ماہ پیکر مخزونہ جمال شریف
غزل منسوب بہ خواجہ بندہ نواز ؒ ‘ مخزونہ ذاتی کتب خانہ محمد اشرف صاحب
تمہید تنبہ الخلائق‘ مخطوطہ نمبر 43 (تصوف) انجمن ترقی اردو‘ علی گڑھ
مخطوطہ نمبر 17 انجمن ترقی اردو ‘ علی گڑھ
مخطوطہ نمبر (139 ) کتب خانہ جامعہ عثمانیہ
علی نامہ مخطوطہ نمبر (140) 1080ھ سنٹرل ریکارڈس آفس
مخزن نکات قلمی ۔ انڈیا آفس
مخطوطہ نمبر (3) محولہ‘ بلوم ہارٹ ۔ برٹش میوزیم
مخطوطہ نمبر (643) محولہ اسپر نگر برٹش میوزیم
مخطوطہ نمبر (2/10590) برٹش میوزیم‘‘ (۱۰) دکنی اردو مخطوطات ‘ ادارہ ادبیات اردو حیدرآباد صفحہ 874۔
تحقیق کے میدان میں ترتیب و تدوین کو بڑی اہمیت حاصل ہوتی ہے لیکن بیشتر ناقدین نے ترتیب و تدوین کو ذیلی حیثیت دی ہے۔ جبکہ ڈاکٹر محمد جمال شریف نے اپنے دور کی مرتبہ ’’دکنی ادب ‘‘اور’’دکنی شاعری‘‘ کی کتابوں کی تدوین کے طریقے سے اختلاف کرتے ہوئے جدت طبع کے ساتھ ’’تدوینِ متن‘‘ کے فطری طریقے اختیار کئے اور یہ کوشش کی کہ ابھی تک جن دکنی موضوعات ‘ شخصیات اور عنوانات مواد فراہم ہوچکا ہے اس کا ازسرنو جائزہ لیتے ہوئے متنی اختلافات کو بھی منظر عام پر لایا جائے تاکہ دکنی کا صحیح متن قارئین کی دسترس کا ذریعہ ہے۔ اس کتاب کے ہر صفحہ کو پلٹنے سے خود اندازہ ہوتا ہے کہ ڈاکٹر محمد جمال شریف کو اگر کوئی مطبوعہ متن دستیاب ہوا ہے تو مطبوعہ متن کا تقابل مخطوطہ کے متن سے انجام دے کر حقیقی متن کی بازیافت پر توجہ دیہے۔ اس خصوص میں انہوں نے صرف مخطوطات سے استفادہ نہیں کیا بلکہ مختلف رسائل و جرائدمیں دکنی کے مختلف موضوعات پر شائع ہونے والے مضامین اور مقالے جات کے حوالوں سے بھی بھرپور فیض حاصل کیا ہے اور ان کی چھان بین اور تقابل پر توجہ دیتے ہوئے اس کتاب کی تدوین میں حقائق کو جگہ دیہے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر محمد جمال شریف کے مقالے میں شامل تمام تر مواد کو مستند اور قابل اعتماد قرار دیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے دکنی شاعری کی حقیقی نمائندگی کے لئے رسالہ ’’اردو‘‘ کے ابتدائی شمارے اور ’’اردو ادب ‘‘علی گڑھ کے بنیادی شمارے ’’اردو نامہ‘‘ کراچی کے اہم شمارے ’’لسان الملک ‘‘کے ابتدائی شمارے ’’نوائے ادب ‘‘اور ’’جامعہ ‘‘کے ابتدائی شمارے ’’رسالۂ ملت‘‘ اور ’’رسالۃ النساء‘‘ کے علاوہ ’’لسان العصر‘‘ کے 1910ء کے شماروں سے بھی بھرپور فیض حاصل کیاہے۔ ان کی تحقیق کی ندرت یہی ہے کہ تمام شاعروں اور ان کے کلام کا جائزہ اس مقالہ کا وصف ہے۔ آخر میں اصناف سخن اور اسالیب شعر کے ارتقاء کو ظاہر کرتے ہوئے دکنی شاعری کی اصناف جیسے مثنوی‘ مرثیہ ‘ غزل اور رباعی کا تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔ جس کے ساتھ موضوعات سخن میں شامل ہندوستانی عناصر کو بھی زیر بحث لایا گیا ہے۔ دکن میں اردو شاعری کی زبان ہی نہیں بلکہ ولی سے قبل اردو شاعری کے ارتقاء کی اہمیت اور اس پر عمل آوری کا تعین کرکے تمام دکنی شعری اصناف پر محاکمہ کیا گیاہے۔ تاہم اس جائزے کے دوران منظوم سیرت ‘شہادت نامے اور ولادت نامے کے موضوعات پر انجام دی جانے والی دکنی شاعری کا تعارف ادھوراہے۔ دکنی شاعروں نے پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی عقیدت ظاہر کرنے کے لئے مولود نامے ‘ معراج نامے ‘ ولادت نامے‘بعثت نامے اوراس کے علاوہ شہادت حسینؓ کی نمائندگی کی غرض سے مرثیہ لکھنے کے بجائے منظوم ’’شہادت نامے ‘‘پیش کئے اور دکنی شاعری کو ازم نامہ Epic Poetry سے قریب کردیا۔ ڈاکٹر محمد جمال شریف کی تحقیقی کتاب ’’دکن میں اردو شاعری ‘ولی سے پہلے‘‘ جیسے مقالے میں نظم ’’چہار کرسی‘‘ منظوم سیرت‘ شہادت ناموں اور ’’سکھ سہیلا‘‘ کا ذکر تک دکھائی نہیں دیتا۔ البتہ نعت رسول ‘ مناقب‘ معراج کے واقعہ‘ مدحِ خلفائے راشدین اور مدح صحابہؓ کے علاوہ ریختہ اور مقامات ہی نہیں بلکہ محلات کی تاریخ کے لکھے ہوئے مصرعوں کی طرف بھی توجہ دی گئی ہے۔ تاہم ’’ریختی‘‘ کا ذکر نہیں ۔ دکن میں سلطان محمد قلی اور ہاشمی بیجاپوری کے کلام میں ’’ریختی‘‘ موجود ہے۔ غرض دکنی شاعروں کے کلام میں موجود اہم نکات اور شعری اصناف پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ جملہ 68 شعرا کے تجزیے کے علاوہ غیر مسلم دکنی شاعروں میں مراٹھی کے اثر کو قبول کرنے والے سخن ور جیسے نامدیو ‘ ایکناتھ‘ داسو پنتھ‘ بایا بائی بیا اور تکا رام کے علاوہ رام داس ‘شیواجی اور‘کیشو سوامی کے حالات اور ان کے کلام کو بھی مقالے میں شامل کیا گیا ہے کیونکہ ان کی شاعری میں دکنی کے اثر کی جھلکیاں موجود ہیں۔ غرض ڈاکٹر محمد جمال شریف کے تحقیقی مقالے ’’دکن میں اردو شاعری‘ ولی سے پہلے‘‘ کو مخطوطات کے اساس پر جامع و مستند ادبی تاریخ کا درجہ حاصل ہوجاتا ہے‘ جس کے ذریعہ نامور محقق نے ولی سے پہلے دکن میں فروغ پانے والی شاعری اور اس کے مختلف پہلوؤں کے تجزیے پر توجہ مرکوز کی اور دکنی تحریری زبان اور اس کے اظہار کے نکات کو نمایاں کرنے کا کارنامہ انجام دیا ہے۔ غرض ڈاکٹر محمد جمال شریف کے اس مبسوط اور مربوط مقالے کا استقبال کیا جانا چاہئے۔ توقع ہے کہ مستقبل کے دکنی محققین اور ناقدین نہ صرف ایسی اہم کتاب کی اشاعت اس کے تحقیقی مواد سے استفادہ کریں گے بلکہ دکنی کے بنیادی خزانے کو تحقیق کا وسیلہ بنانے پر ضرور مبارکبادی کا مژدہ سنائیں گے۔ غرض دکنی شاعری کے نمائندہ موضوعات جیسے ریختی‘ سکھ سہیلا‘ شہادت نامے‘ نور نامے‘ ولادت نامے‘ بعثت نامے‘ مولود نامے وغیرہ جیسے منظوم سیرت کے گوشوں کی نمائندگی میں اس کتاب کے محقق کے تسایحات کے بارے میں غور کئے بغیر کتاب کا مطالعہ اور اس پر نظرثانی کرنے والے دکنی کے نامور محقق اور نقاد کی توجہ سے دور ہونے والے دکنی شاعری کے موضوعات کے بارے میں ازسر نو غور کرنا پڑے گا-
Prof.Majeed Bedar

Share
Share
Share