نوبل انعام یافتہ
گارشیا مارکیزاورمعاصرلاطینی امریکی فکشن
عبدالعزیز ملک
لیکچرراردو،گورنمنٹ کالج یونی ورسٹی
فیصل آ باد
لا طینی امریکہ ایک ایسا برِاعظم ہے جو اپنے اندرونی خلفشار کے سبب ہمیشہ مفلوج رہا ہے۔اس خطے کی تاریخ ،نوآ بادیات ، آ مریت، بے پناہ تشدد،سیاسی بازی گری، خانہ جنگی اوراستعماری طاقتوں کی خون آ شام حکمتِ عملیوں سے لبریز ہے۔لاطینی امریکی ممالک میں سیلاب ، وبائیں،قحط،قدرتی آ فات اورصدیوں چلنے والی جنگیں اور اس کے نتیجے میں موت کی ارزانی اس کے علاوہ ہیں۔ سولہویں صدی کے اختتام اور سترہویں صدی کے آ غاز میں یورپی ممالک نے اپنے آہنی پنجے ان ممالک پر مضبوط کرلیے اور لاطینی امریکہ کابیشتر حصہ فرانس، سپین ، پرتگال اورنیدرلینڈ کی کالونیوں کی شکل اختیار کرگیا ۔ان نوآبادیوں کے ہمراہ عیسائی مشنریوں نے عیسائیت کی تبلیغ کی خاطر اپنا اثرورسوخ قائم کرنا شروع کردیا ۔
سولہویں اور سترہویں صدی کے بعد ان ممالک میں ایسی تبدیلیاں لائی گئیں جو سامراجی ممالک کے معاشی تقاضوں سے موافقت رکھتی تھیں۔سامراجیوں نے پیداواری قوتوں کی آزادانہ نشوونماکو روک کر کالونیل ریاستی نظام کو مسلط کیا تا کہ یہاں کے ذرائع پیدا وار سے بھر پور استفادہ کیا جا سکے۔آ غاز میں سامراجی ممالک نے یہاں کے ذرائع پیداوار کو لوٹا اور بعد میں جب صنعتی انقلاب رونما ہوا تو ان افلاس زدہ ممالک کو اشیاء کی کھپت کے لیے منڈیوں کے طور پر استعمال کیا جانے لگا۔یہی وہ حالات تھے جن کے تحت کالونیل معاشی نظام کو متعارف کروایا گیا اور کا لونیل پیداواری تعلقات قائم کیے گے ۔
انیسویں صدی میں آ کر ان ممالک میں بیشتر نے آ زادی حاصل کر لی اور ان ملکوں میں امریکی مفادات کی خاطرکالونیل سیاسی نظام کو برقرار رکھا گیا جسے مابعد کالونیل نظام سے موسوم کیا جا سکتا ہے۔۱۸۱۹ء میں کولمبیا سپین سے آزادی حا صل کر چکا تھا ۔آزادی کے بعد یہ خطہ ایک صدی تک اندرونی خانہ جنگی کا شکار رہا ۔۱۸۴۰ء میں یہا ں کی سیاست دو پارٹیوں میں منقسم ہو گئی:ایک کنزرویٹو اور دوسرے لبرل ۔ ان دونوں پارٹیوں میں خانہ جنگیوں کی ایک طویل داستان ہے ۔’’ہزارروزہ جنگ ‘‘ ان پارٹیوں کے مابین وہ خون ریز ترین جنگ ہے جو۱۸۹۹ء سے ۱۹۰۲ء کے درمیان لڑی گئی جس کے باعث ملک دیوالیہ ہوکر تباہی کے دہانے پر جا کھڑا ہوا ۔
سولہویں اور سترہویں صدی سے لے کر بیسویں صدی تک ان ممالک میں سپین ،پرتگال اور فرانس نے مقامی تہذیب کو بدل کر رکھ دیا ۔ یورپی قبضے سے قبل یہاں مایا،انکا اور ایزٹیک تہذیبیں ترقی یافتہ شکل میں موجود تھیں جو سامراجی ممالک کی خود غرضانہ پالیسیوں اور تہذیبی یلغار کے باعث اپنی اصلی حالت برقرار رکھنے میں ظفریاب نہ ہو سکیں۔بیسویں صدی تک آ تے آ تے سرمایہ کاری اور صنعت کاری کے باعث اس قدیم تہذیب وثقافت کے تمام نقوش نو آ باد کاروں کے ہاتھوں مسخ ہو کر رہ گئے۔اس سارے منظر نامے نے لاطینی امریکہ کی تخلیقات پر بھی اپنا اثر ڈالا ۔ ان اثرات کے باعث ایک نیا بیانیہ ابھر کر سامنے آیاجو باہر سے آکر بسنے والوں کے عقائد(جو کیتھولک اثرات کے حامل مشنری تھے۔)اور مقامی روایات و اساطیر سے تشکیل پذیر ہوا ۔اس بیانیہ میں غیر حقیقی اور حقیقی عنا صر کا امتزاج موجود ہے جسے ادبی نقاد ’’ جادوئی حقیقت نگاری ‘‘ (Magical Realism) سے موسوم کرتے ہیں۔ دراصل یہ اس خالص منطقیت و استدلالیت اور سائنسی سوچ کے خلاف ردِ عمل تھا جو یورپی تہذیب کے لاطینی امریکی ممالک پر اثر انداز ہونے کے نتیجے میں سامنے آیا۔اگر جائزہ لیا جائے توعیاں ہوتا ہے کہ اس بیانیے کی تشکیل عام طور پر ان ممالک میں ہوئی جومابعد نو آبادیاتی معیشت میں جکڑے ہوئے تھے۔اس بات کا اظہاریونی ورسٹی آف پورٹ ماؤتھ کی لیکچرار میگی این بورز اپنی کتاب "Magic(al) Realism” میں یوں کرتی ہے۔اقتباس ملاحظہ ہو۔
"This has meant that much magical realism has originated in many of tha postcolonial countries that are battling against the influence of their previous colonial rulers,and consider themselves to be at the margins of imperial power.It has also become a common narrative mode for fictions written from the perspective of the politically or culturally disempowered, for instance indegenous people living under a covert colonial system such as native Americans in the united states………..”
’’اس کا مطلب ہے کہ جا دوئی حقیقت نگاری کا آغاز مابعد نو آ بادیاتی ممالک سے ہوا جو سابقہ نوآبادیاتی حکمرانوں کے اثرات سے جنگ کر رہے تھے،
اور خود کوسامراجی طاقت کے حاشیے پر تصور کرتے تھے۔یہ سیاسی اور ثقافتی طور پر کمزورتناظرکے حامل فکشن کے لیے ایک معروف طریقہ کاربن گیا،مثال
کے طور پرامریکہ کی متحدہ ریاستوں میں بسنے والے مقامی لوگوں کے لیے جوبظاہر نہ نظر آنے والے نوآبادیاتی نظام کے تحت اپنی زندگیاں گزار رہے ہیں
۔۔۔۔‘‘(۱)
جدت اور قدامت کے امتزاج کے نتیجے میں سامنے آ نے والے اس بیانیے نے فکشن کو خا صا متاثر کیا اور یورپ میں ناول کی جو روایت دم توڑتی جارہی تھی وہ لاطینی امریکی فکشن نگاروں میں مقبول ہوئی اور ساٹھ کی دہائی میں کئی شاہکار ناول لاطینی امریکی مصنفین کے قلم سے تخلیق ہوئے جنھوں نے پوری دنیا میں دھوم مچا دی ۔ اس سلسلے میں’’گبریل گارشیا مارکیز ‘‘کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ۔ جس کے ناولوں ’’ تنہائی کے سو سال ‘‘ ،’’ وبا کے دنوں میں محبت‘‘ اور ’’ محبتوں کے آ سیب‘‘ نے اس نئے بیانیے کو تقویت بخشی ۔جادوئی اور حقیقی عناصر کے امتزاج سے تشکیل پذیر ہونے والے اس بیانیے کے بارے میں لوئس بورخیس اپنی رائے دیتے ہوئے کہتا ہے کہ گویا یہ زبان و ادب کی نئی ما بعد الطبعیات کو دریافت کرنے کے مترادف تھا ۔ لاطینی امریکی فکشن نے جس تیزی کے ساتھ پوری دنیا میں اپنا نام اور مقام پیدا کیا وہ اس لیے بھی حیران کن ہے کہ انیسویں صدی میں اس خطے میں فکشن کا مطالعہ ممنوع تھا اور سروانتے کی تخلیق ڈان کہوٹے ایسی کتابیں بھی چوری چھپے مطالعہ کی غرض سے لائی جاتی تھیں ۔ سرِ عام ان کی اشاعت اور فروخت پابندیوں کی زد میں تھی۔فکشن کی کتب عموماً شراب کے بیرلوں میں رکھ کر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کی جاتی تھیں ،جہاں اتنی پابندیاں ہوں وہاں بہترین فکشن کی تخلیق حیران کن نہ ہوتو کیا ہو؟فکشن کی تاریخ کے مطالعے سے یہ عیاں ہوتا ہے کہ آ گے چل کر فکشن کی روایت میں نمایاں تبدیلیاں صورت پذیر ہوئیں ۔نئے بیانیے کی دریافت نے فکشن کے بدلاؤ کو ممکن بنا یا۔اس موضوع پر تبصرہ کرتے ہوئے خالد جاوید اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں ۔
’’مطلب یہ کہ یہ بیانیہ سنائی دینے والے لفظ اور تحریری فکشن کے اچھوتے ملاپ کی ایک شکل تھا ۔ یہ ایک انوکھی حقیقت تھی جس کے ایک حصے میں ہوا اور پسینے کے کڑوے رنگ تھے تو دوسرے حصے میں ایک طلسمی فینٹسی تھی جس کا تعلق انکا اور مایا نسلوں کی لوک کتھاؤں اور اساطیر سے چلا آ تا تھامگر سب سے اہم تو یہ بات ثابت ہوئی بلکہ کار نامہ ہی کہنا چاہیے کہ بدلتے ہوئے سیاسی ، سماجی حالات سے گزرتا ہوا لاطینی امریکہ کا یہ دو رنگا جادوئی بیانیہ اپنے زمانے کی تمام آ مری حکومتوں اور ملٹری کے مظالموں اور انسانی بے چینی کو جذب اور بر داشت کرتے ہوئے عوام کی تمام تر تہذیبی آرزؤں اور خواہشوں کا استعارہ بن گیا۔‘‘ (۲)
گارشیا مارکیز جس دور میں ادب تخلیق کر رہا تھا اس دورمیں لاطینی امریکہ کے بیشتر ممالک پر یا تو مطلق العنان حکمران قابض تھے یا پھرفوجی جرنیل۔وہ ہی بدعنوانیاں، معاشرتی کج رویاں اور افسر شاہانہ رویے عوام کے ساتھ بدستور روا رکھے جارہے تھے۔ اس دور میں کئی لکھاریوں نے ارفع تخلیقات متعارف کروائیں جن کو پوری دنیا میں ادب پڑھنے والوں نے سراہا۔اس بیانیے کو اپنانے والے ادیبوں میں کیوبا کے الیخو کار پین ٹئیر ،گوانتا مالا کے اینجل استوریاس ،چلی کی خاتون ازابیل الینڈے ،لارا ایسکیول ،اینجلا کارٹر ، حوزے ساراما گو،حوان رلفو، حولیو کارتازار ،کارلوس فونتیس ، ماریو برگس یوسااور لوئس بورخیس کے نام نمایاں ہیں ۔اس دور میں فکشن اس تیزی سے اس خطے میں ابھر کر سامنے آیا کہ بعض نقاد اس عہدکو ’’ بوم‘‘ کا نام دیتے ہیں۔مائیکل ووڈ اسے ’ ’ادبی فراوانی‘‘ کا دور بھی کہتا ہے ۔یہ وہ دور ہے جو مارکیز اور معاصر لاطینی امریکی فکشن کا عہدِ زریں کہلائے جانے کا مستحق ہے۔بنیادی طور پر تو ’’ بوم ‘‘ اقتصادی اصطلاح ہے جس کوادیب اور نقاد،ادب میں رواج دینے کے خلاف ہیں ۔مائیکل ووڈ ایسا نقاد بھی اس اصطلاح کو بازاری ، غیر مناسب اور ادب کے لیے توہین آ میز تصور کرتا ہے۔مخصوص وقت میں ایک ہی بیانیہ پر مبنی تحریریں بڑی تعداد میں سامنے آئیں تو اسے ’’بوم‘‘ سے موسوم کر بھی لیا جائے تو آ خر ہرج ہی کیا ہے ؟یہ دور ساٹھ کی دہائی سے ،ستر کی دہائی کے آ غاز تک چلتا ہے ۔ معروف ادیب دونوسو کا ناول "The Obscene Bird Of Night” لاطینی امریکی عہد کے ’’بوم‘‘ کا آخری ناول تصور کیا جاتا ہے۔’’بوم‘‘ کے اس دور کی بڑی وجہ ۱۹۵۹ء میں کیوبا میں ہونے والا انقلاب ہے جس نے لاطینی امریکہ کے دیگر ممالک پر عمیق اثرات مرتب کیے ۔فیڈل کاسترو کی ۱۹۶۱ء میں کی جانے والی تقریر نے بھی یہاں کے لکھاریوں کو خاصا متاثر کیا ۔اسی دور میں ہی دستاویزی ناول کی ایک نئی قسم معرضِ وجود میں آ ئی اس تکنیک کو استعمال کرتے ہوئے متعدد ناول تخلیق کیے گئے جنھوں نے شہرتِ عام کی منزلوں کو عبور کیا ۔اس حوالے سے ’’میگیل بارنیت‘‘ کے ناول "Autobiography of a Runway Slave” کو مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔
گارشیا مارکیز کی تخلیقات سے پہلے کے لاطینی امریکی ادب کا جائزہ لیا جائے تو یورپ جدیدیت کے دور سے گزر رہا تھا اور یورپی ادب میں روز افزوں نئی نئی تحریکیں زور پکڑ رہی تھیں۔ یو رپ بالعموم اورفرانسیسی، جرمن اورانگلستانی ادب بالخصوص بڑی تیزی سے تبدیلیوں کے عمل سے گزر رہاتھا ۔ڈاڈازم ، سر رئیلزم ،کنسٹرکٹوازم،اظہاریت، فیوچرازم ،تمثال نگاری،نیو ہیومنزم، شعور کی رو،علامتیت اور کیوبزم ایسی تحریکیں اپنے عروج پر تھیں ۔ جدیدیت کی یہ لہر سائنس اور ٹیکنالوجی میں ہونے والی ترقی کا لازمی نتیجہ تھی جوادب میں نت نئے رحجانات کا پیش خیمہ ثابت ہورہی تھی۔۔ لاطینی امریکی ادب اس دور میں وہ روایت قائم نہ کر سکا جو یورپ میں پروان چڑھ رہی تھی ۔میکسیکو کے انقلاب پر ماریا نوار سویلا کے ناول”Under Dogs” کو شہرت تو ملی لیکن وہ لاطینی امریکی فکشن میں آ فاقی ادب کی جڑیں مضبوط کرنے میں ناکام رہا ۔وہ رحجانات جو یورپی ادب میں بیسویں صدی کے آغاز میں نمایاں ہو رہے تھے وہ بہت بعد میں نو آ بادیاتی ممالک میں رونما ہوئے اور لاطینی امریکہ میں بہت بعد میں ان رحجانات کا چلن ہوا لیکن ایک بدلی ہوئی شکل میں ۔گارشیا مارکیزکے نالوں کے ساتھ ساتھ بورخیس، الیخو کارپین ٹئیر، اینجل استوریاس ، حوزے سارا ماگو،کارلوس فوینتیس اور ماریو برگس یوسا کے ناولوں میں ان رحجانات کو دریافت کیا جا سکتا ہے۔
گارشیا مارکیز کے معاصر فکشن نگاروں میں بورخیس ایک معتبر نام ہے جس نے لاطینی امریکہ میں قریباً تمام لکھاریوں کو متاثر کیا ۔گارشیا مارکیز نے بھی اس کی تحریروں سے اثر قبول کیا ہے۔خا ص طور پر گارشیا مارکیزکے معروف ناول ’’ تنہائی کے سو سال ‘‘میں بورخیس کی چھاپ کو تلاشا جا سکتا ہے ۔ بورخیس نے شاعری اور مضامین کو تو اپنا تختۂ مشق بنایا ہی بنایا ہے لیکن کہانیاں لکھنے میں اس نے کمال کر دکھایا۔ان کے متعدد افسانوی مجموعے منظر عام پر آ چکے ہیں ۔ ان میں "The book of sand” اور "Labyrinth” بورخیس کے اہم افسانوی مجموعوں میں شمار کیے جا تے ہیں ۔بورخیس کی کہانیاں خواب اور حقیقت کے امتزاج سے وسیع تر حقیقت کی ترجمانی کرتی دکھائی دیتی ہیں ۔وہ انوکھے تصورات، تشبیہیں اور استعارات آرائش اور پیچیدگیوں کے ساتھ ملا کر ایک ایسا اسلوب تیار کرتا ہے جسے ناقدین "Baroque” کا نام دیتے ہیں ۔”Baroque” اور "Fantsy” کے امتزاج سے بورخیس ایک منفرد اسلوب کی بنیاد رکھی جس سے اس کے بعد میں آ نے والے ادیبوں نے پھر پور استفادہ کیا ہے ۔اسی سبب اسے ’’جدیدلاطینی امریکی فکشن کا باپ ‘‘ بھی کہا جاتا ہے ۔جن لوگوں نے بورخیس سے استفادہ کیا ،گارشیا مارکیز بھی ان میں سے ایک ہے جس نے اس کے ا نوکھے اور حیرت زا اُسلوب کو آ گے بڑھایا اور جادوئی حقیقت نگاری کے بیانیے کو پوری دنیا میں متعارف کروانے میں اہم کردار ادا کیا ۔
بورخیس کے بعدمیخائل اینجل استوریاس کا نام لاطینی امریکی فکشن میں خا صا اہم ہے جس کا تعلق گوئٹے مالا سے ہے۔ ایک ڈکٹیٹر کی زندگی پر تحریر کیے ہوئے استوریاس کے ناول "The President” نے یورپی ادب کو لاطینی امریکی فکشن سے متعارف کروانے میں اہم کردار ادا کیا ۔اس ناول پر اسے ۱۹۶۷ء میں ادب کے نوبل انعام سے بھی نوازا گیا ۔ اس کا ایک اور اہم ناول "Man of Maize”(۱۹۴۹) ہے جس نے استوریاس کے موضوعات کی پیش کش کی تکنیک کو پوری دنیا میں متعارف کروانے میں کلیدی کردار انجام دیا ہے۔ استوریاس نے نثر نگاری کے ساتھ ساتھ شاعری میں بھی اپنی تخلیقی صلا حیتوں کا اظہار کیا لیکن ان کی وجۂ شہرت ناول نگاری ہی بنی۔ماورائے حقیقت اسلوب اورما یا نسل کی تہذیب سے کشید کیے ہوئے انوکھے مو ضوعات سے انھوں نے لا طینی امریکی فکشن کے دامن کو زر خیزکیا۔ جو بعد میں آ نے والے ادیبوں کے لیے مشعلِ راہ بنے ۔
جدید لاطینی امریکی فکشن میں کارلوس فیونتیس کا نام بھی کسی تعارف کا محتاج نہیں ۔ ان کا تعلق میکسیکو کی سر زمین سے ہے جو ۱۹۶۷ء میں پاناما سٹی میں پیدا ہوا اور اس نے اپنے بچپن کے دن سنتیاگو، بوئینوس آئرس اورواشنگٹن میں گزارے۔ان کی تحریروں کے مطالعہ سے عیاں ہوتا ہے کہ وہ ادب پر گہری نظر رکھتا ہے جس کا اندازہ ان کے لیکچروں سے لگایا جا سکتا ہے جو اس نے امریکہ کی مختلف یونی ورسٹیوں میں ادبیات اور تاریخ کے مو ضوع پر دیے ہیں ۔فیونتیس نے اپنی تحریروں میں تاریخ کے جبر کے شکار لوگوں کے مصائب کو کچھ اس انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے کہ ان کی تحریروں کا اثر لاطینی امریکی ممالک سے بڑھ کر پوری دنیا میں سراہا گیا ہے۔ان کے نالوں میں ’’ جہاں ہوا صاف شفاف ہے‘‘ ،’’آرتیمیو کروز کی موت‘‘،’’تیرا نوسترا‘‘اور ’’ اورا‘‘ خا صے اہم ہیں ۔عہد حا ضر کے معروف نقاد آ صف فرخی کالوس فیونتیس کی تخلیقات پر تبصرہ کرتے ہو ئے تحریر کرتا ہے۔
’’فیونتیس کے ناولوں کا دوسرا پسندیدہ موضوع لا طینی امریکہ کی تاریخ ہے، کولمبس کے زمانے سے بھی پہلے سے جاری تاریخ جو سرابِ خیال (Phantasmogoria) بن کر بار بار پلٹتی ہے۔’’کھال کی تبدیلی‘‘،’’آرتیموکروز کی موت‘‘ اور’’ تیرا نوسترا‘‘ جیسے ناولوں میں ہر آنے ولا عہد،اور سماجی اعمال کی ہر نئی ترتیب آ خر میں جاکرٹیڑھے آئینوں کا عکس ثابت ہوتی ہے۔جس میں مذہب محبت اور اقتدارکے وہی جرائم دہرائے جاتے ہیں جو اس سے پہلے کے زمانوں میں سامنے آتے رہے ہیں ۔‘‘(۳)
کارلوس فیونتیس اپنی تخلیقات میں اس بات کا اقرار کرتا ہے تاریخ میں ہماری زندگی اس سے پہلے جو تھی وہی رہے گی یعنی ایک ڈرا دینے والا خواب!،وہ یہ بھی تسلیم کرنے سے عار محسوس نہیں کرتا کہ زندگی کا پر اسرار اور مبہم عمل جاری و ساری رہے گا۔یہی وجہ ہے کہ اس کی کہانیوں میں ایسی صورتِ حال سے دوچار ہونا پڑتا ہے جو ہمارے روز مرہ کے اطوار کو الٹا کر رکھ دے اور حقیقت کی پردہ کشائی کر ے ۔فیو نتیس کی اس صلا حیت کی داد اس کے نقادوں نے بار ہا دی ہے۔
لاطینی امریکی فکشن میں ایک اور اہم نام کیوبا سے تعلق رکھنے والے الیخو کارپین ٹئیر کا بھی ہے۔کا رپین ٹئیر نے ۱۹۲۸ سے لے کر ۱۹۳۹ء تک کا وقت فرانس میں گزارا جہاں اسے آواں گارد (Avant Garde)فنکاروں سے استفادہ کرنے کا موقع ملا ۔اس کا معروف ناول The Kingdom Of The World،۱۹۴۹ میں منظرِ عام پر آیا۔یہ دکھانے کے لیے کہ لاطینی امریکہ کی تاریخ اور اس کا جغرافیہ اتنے حیرت انگیز اور پیچیدہ ہیں کہ وہ بادی النظر میں جادوئی دکھائی دیتے ہیں،اس ناول میں اس نے،Real Marvellous کی تکنیک استعمال کی جس کا اظہار وہ اس ناول کے دیباچے میں بھی کرتا ہے۔اس حوالے سے ماریا یوجینیا بی۔ ریو ،رقمطراز ہے۔ اقتباس ملاحظہ ہو۔
"The prologue of his second novel,The kingdom of this world,1949,contains the optimistic introduction of Carpentier’s concept of "lo real marvavilloso” which became the basis of Latin American Magical realism”
’’اس کے دوسرے ناول ’’اس دنیا کی سلطنت ‘‘ کا دیباچہ کارپین ٹئیر کے تصور ’’ Marvellous Realism‘‘کے رجائیت پسندتعارف پر مشتمل ہے جو لاطینی امریکی جادوئی حقیقت نگاری کی بنیاد بنا ‘‘(۴)
بعض ناقدین اس تکنیک کو جادوئی حقیقت نگاری کے مترادف تصور کرتے ہیں ۔گارشیا مارکیز نے جس انداز سے جادوئی حقیقت نگاری کو اپنی تخلیقات کا مو ضوع بنایا ہے ، وہ برملا اور صریح انداز الیخو کار پین ٹئیر کے ہاں موجود نہیں ہے اس نے اگرچہ اس تکنیک کا استعمال کیا ہے لیکن خال خال ۔۱۹۵۳ء میںThe Lost Step کے نام سے اس کا ایک اور اہم ناول شائع ہوا جس نے اس کی شہرت کو نقطۂ عروج تک پہنچایا ۔اس ناول میں Baroque اسلوب کو آسانی سے تلاشا جا سکتا ہے ۔اس کے خیال میں مذکورہ اسلوب فن کی ایسی شکل ہے جو انقلابی ہونے کے باعث اہم ہے ۔یہ اسلوب خود میں ہمیشہ وسعت پیدا کرتے ہوئے مروجہ حدور کو توڑ دینے کا کام کرتا ہے ۔کارپین ٹئیر نے مقامی ادب کو متاثر کرنے والے یورپی اندازِ نگارش اورلاطینی امریکی طر زِ نگارش کے مابین توازن قائم رکھنے کی بھی کوشش کی ہے جویقینی طور پر ایک کٹھن کام ہے۔لاطینی امریکی ثقافت کے بطن سے جنم لینے والے منفرد اسلوب میں بذاتِ خود کئی ثقافتیں ممزوج ہیں ۔ان میں باہر سے آ کربس جانے والے آ باد کار بھی ہیں ، افریقی غلام بھی ، اور مقامی قبائل بھی، جن کے امتزاج سے اس ثقافت نے جنم لیا ہے لیکن الیخوکارپین ٹئیر نے یہ ادق کام بڑی مہارت سے کر دکھایا ہے۔
حوزے سارا ما گو لاطینی امریکی فکشن میں ایک نمایاں لکھاری ہے جوپرتگال کے صوبہ Ribatejo کے مقام آزین ہاگا میں نومبر ۱۹۲۲ء میں پیدا ہوا۔اس نے بچپن کے بیشتر دن ’’جیرونیمومیرینہو‘‘ اور’’جوز یفا کاٹیکزنہا‘‘ایسے گاؤں میں گزارے۔بچپن میں اسے اور اس کے خاندان کو معاشی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جس کے اثرات اس کی شخصیت پر تمام عمرنمایاں ہوتے رہے ہیں ۔ورکشاپ میں مستری کا کام کرتے وہ کتابوں کی دنیا میں جا نکلا اور تخلیق کے ایسے ایسے شاہکار سامنے لے کرآ یا جس نے ادب کے قارئین کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا ۔حوزے سارا ما گو کا پہلا ناول ’’ گناہ کی زمین‘‘ کے نام سے شائع ہوا جو جلد ہی ادبی حلقوں میں مقبول ہوا اور حوزے سارا ما گوکو ادب کی دنیا میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا ۔پیٹ کی مجبوریوں کے کارن ، حوزے کو ترجمہ نگاری سے منسلک ہونا پڑا ۔۱۹۵۵ء سے لے کر ۱۹۸۱ء تک اس نے کئی نامور ادیبوں کو جن میں ژاں کوسو ، آ ندرے بونارڈ ، ٹالسٹائی ،بودلیر،آنری فوسیلوں ،موپساں،ژاکس رومین، روموں بئیرایسے نام شامل ہیں ،ترجمہ کر ڈالا۔اسی دوران میں اس کا رحجان شاعری کی جانب بھی رہا جس کا ثبوت ’’ امکانی نظمیں ‘‘ اور ’’ احتمالاً خوشی ‘‘ ایسے مجموعوں سے دیا جا سکتا ہے۔شاعری کے ساتھ ساتھ اس نے تنقید میں بھی طبع آزمائی کی لیکن فکشن کی جانب رحجان کم نہیں ہوا جس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ’’زمین سے اٹھنا‘‘ ، ’’ اندھے لوگ(Blindness)‘‘اور پھر’’ سارے نام ‘‘ ایسے ناول سامنے آئے جس کے نتیجے میں اسے ۱۹۹۸ء میں ادب کے نوبل انعام سے نوازا گیا ۔اس کے ناولوں میں معاشرتی طنز ، مایوسی ، بے بسی اور تنہائی کے عنا صر ابھر کر سامنے آتے ہیں ۔تنہائی محض حوزے کا مسئلہ نہیں ہے یہ گارشیا مارکیز کے معاصر تمام ادیبوں کی تخلیقات میں نمایا ں ہوئی ہے جو ان ممالک کی سماجی اور اقتصادی صورتِ حال کا منطقی نتیجہ ہے۔تنہائی ہر جگہ موجود ہے لیکن اپنے اپنے انداز میں، اس حوالے سے وہ ’’میگیل مارا‘‘ جو ایک معروف صحافی ہے، سے اپنے ناول ’’ تعطلِ مرگ ‘‘ (Death with interuptions) کے بارے میں گفتگوکرتے ہوئے کہتا ہے ۔
’’ اگر میں ماضی کو یاد کروں تو میرے تمام ناولوں کے ہیرو تنہائی پسند تھے(اس ناول ) میں بھی کچھ ایسا ہے۔وہ بہت شرمیلا ہے جس کا کوئی گھر بار نہیں۔۔۔(جب کہ )میں کبھی تنہا نہیں رہا اور نہ ہی میں نے کبھی ذاتی معاملات کو اپنے ناولوں میں بیان کرنا پسند کیا ہے۔‘‘(۵)
سماجی اور اقتصادی صورت حال، زندگی پر بد اعتمادی ،بے یقینی اور موت بھی اس کے پسندیدہ مو ضوعات ہیں جن کو اس نے اپنے فکشن کاحصہ بنایا ہے ۔ان تما م موضوعات کی پیش کش کے لیے جوانداز اس نے تاریخ اور تخیل کے امتزاج سے اختیار کیا وہ اسے دیگر لا طینی امریکی ادیبوں سے ممیز کرتا ہے ۔ بقول آ صف فرخی وہ دور جب ایک طرف ’’ تاریخ کے خاتمے ‘‘ (The End of History) کا اعلان ہو رہا تھا تودوسری جانب حوزے سارا ما گو جیسا ادیب ایسا ناول تخلیق کر رہا تھاجس میں تاریخ کا سامنا کرنے اور اس کے جبر اور سفاک حقیقت سے نبرد آزما ہونے کے منفرد اور عجب طریقے بیان کیے گئے ہیں۔
حولیو کارتازار ایسے ادیب کو لاطینی امریکی فکشن میں کسی طور خا موش نہیں کیا جا سکتا ۔ اس کا شمار لاطینی امریکی فکشن نگاروں کی صفِ اول میں ہوتا ہے۔ ۱۹۶۳ء میں اس کا معروف ناول Hopscotch شائع ہوا جس سے گارشیا مار کیز ایسے نامور ادیب نے بھی استفادہ کیا ۔ اگر گارشیا مارکیز اور حولیو کارتازار کی تخلیقات کو آ منے سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے گارشیا مارکیز کی نسبت حولیو کارتازار اکو اپنے خطے(ارجنٹینا) کی شناخت اور جڑوں کی تلاش کا احساس زیادہ ہے۔اس کے علاوہ’’پیڈرو پارما‘‘ کا مصنف حوان رلفو، کیوبا سے تعلق رکھنے والے ادیب کابریرا الفانتے جس نے The Trapped Tigers کے ذریعے شہرت پائی،پیرو کے ماریو برگس یوسا جو ’’ّ آنٹی جولیا اینڈاسکرپٹ رائٹر‘‘کے ذریعے مشہور ہوا،اکتاویو پاز، آرمونیا سومرز ،کلیرائس لسپکٹر، السئیو ڈیگو،جوان بوش، آ گستو روابستوس، گیبریلا مسٹرل، خور خے آمادو، را برٹوآرلٹ اور لنیونورس ایسے ادیبوں نے لاطینی امریکی خطے کی ادبی فضا کو اپنی تخلیقات کی دل لبھانے والی خوش بو سے معطر کیا ۔ ان لکھاریوں نے ایسا منظر نامہ تشکیل دیا جس سے پوری دنیا کے ادب نے اثرات قبول کیے ۔ محمود احمد قاضی نے لاطینی امریکی کہانیوں کا ترجمہ اردو میں ’’کتھانگر‘‘ کے عنوان سے کیا ہے جس کے پیش لفظ ’’ قاری سے مکالمہ‘‘ میں وہ ایسی صورتِ حال کا جائزہ لیتے ہوئے تحریر کرتے ہیں ۔
’’اسی جہانِ حیرت، کتھا نگر کے باسی کچھ سر پھرے لوگ لاطینی امریکی لکھاری کہلاتے ہیں جن کی نثر اور بیانیہ اتنا طاقتور ہے کہ اس نے ساری دنیا کے ادب کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اسی پُر زور اور پُراثر نثر پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے ۱۹۷۱ء میں سپینی نقاد، آ ندرے امورس Andres Amoros نے کہا تھا ’’ یہ نثرانگریزی اور فرانسیسی ادب کے لیے اچھی مثال اور نمونے کام دے سکتی ہے۔‘‘(۶)
لاطینی امریکی فکشن کی ارفعیت کا اعتراف اس عہد کے کئی نقادوں نے اپنے اپنے انداز میں کیا ہے۔جن میں وینڈے بی فارس ، لوئی پارکنسن زمورا ، میگی این بووز،اینڈریو جینیفر،ایمرل بیٹرس کینیڈی ، برنڈا کوپر،پیٹریشا ہرٹ اور فریڈرک جیمی سن ایسے نام نمایاں ہیں۔ ان تمام نامورادیبوں کی موجودگی میں جو نام اور مقام گبریل گارشیا مارکیز کو حا صل ہوا وہ کسی اور ادیب کا مقدر نہ بن سکا ۔مار کیز کی تحریروں کا قریباً تمام دنیا کی زبانوں میں ترجمہ ہوا ہے اوراس کا شمار ان ادیبوں میں شمار ہوتاہے جس کی لکھتوں کا لوگ انتظار کرتے ہیں ۔ اس نے اپنے عہد کے نہ صرف ادب کو متاثر کیا،بلکہ اپنے عہد کی سیا سی صورتِ حال کو بھی اپنی تحریروں کاحصہ بنایا ہے۔ سیاست سے زیادہ طاقت کا مظہرگارشیا مارکیز کو کشش کرتا ہے۔ اسی سبب اس کے ناول آدرش پرستوں ، آمروں ، مزاحمت کاروں اور آہنی ارادوں کے حامل افراد سے لبریز ہیں ۔ایڈتھ گراسمین اپنے مضمون ’’ گارشیا مارکیز :سیاست اور نثر‘‘(مترجم پروفیسرخالد سعید) میں ایک جگہ تحریر کرتا ہے کہ وہ طاقتورشخصیات سے بہت جلد متا ثر ہو جاتا ہے ،جیسے پبلواسکوبر، جو منشیات کا دھندا کرنے والی تنظیم کا سرغنہ ہے، امریکی صدرکلنٹن ،سالیناس ،کاسترواور فرانکوئز متراں وغیرہ ۔وہ ایک کشش اور للچاہٹ کے ساتھ طاقت کو اپنی ذات میں مرکوز کرتا ہے ۔وہ دوسروں کے خلاف ہی صف آ را نہیں اپنی ذات سے بھی متصادم ہوتا دکھائی دیتا ہے۔
اس کی تحریروں میں جیمز جوائس ، ولیم فاکنر،فرانز کافکا ، ورجینیا وولف ،ہیمنگوے ،گراہم گرین اور بورخیس کے فکشن کے اثرات آ سانی سے تلاشے جا سکتے ہیں ،لیکن بچپن میں اس کی نانی دوناترا نکیلیناکی مختصر کہانیوں نے جواثرات اس کے قلب و ذہن پر مرتب کیے وہ گارشیا مارکیز کے فکشن کے بیانیہ کی انوکھی روش کو مرتب کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں ۔اس کی خالائیں بھی تخیل پرست عورتیں تھیں جو پرانی یادوں کے درمیان زندہ تھیں ۔ان کی کہانیوں اور پر اسرار اعتقادات نے گارشیا مارکیز کو متا ثر کیا ۔ گارشیا مارکیز کے ہمعصر ادیب’’پلینیوا پولیومیندوزا(Plinio Apuleyo Mendoza) نے ایک طویل دوستانہ گفتگو ’’امرود کی مہک‘‘ (Fragrance Of Guava) میں مارکیز کی خالاؤں کے حوالے سے تحریر کیا ہے ۔اقتباس ملاحظہ ہو۔
’’ان سب میں پیش گوئی کی حیران کن صلاحیت موجود تھی اور اکثر وہ اپنے گواہیر کے انڈین ملازموں کی طرح توہم پرستی کا مظاہرہ کرتی تھیں۔ وہ سب غیر معمولی واقعات کو اس طرح برتتی تھیں گویا وہ انتہائی فطری باتیں ہوں ۔ مثلاً خالہ فرانسسکا سیمونوسیا ، جو ایک مضبوط اور کبھی نہ تھکنے والی عورت تھی، ایک روز اپنا کفن بننے بیٹھ گئی۔جب گابریئل نے پوچھاکہ’’آپ کفن کیوں بنا رہی ہیں ؟‘‘ تو اس نے جواب دیا ،’’ اس لیے بیٹے کہ میں مرنے والی ہوں ،‘‘اور یہ حقیقت ہے کہ جوں ہی اس کا کفن تیار ہوا ، وہ اپنے بستر پر لیٹ گئی اور مر گئی ۔‘‘(۷)
گارشیا کے اس مخصوص اسلوب کو تشکیل دینے میں ڈینیل ڈیفو،بروم اسٹوکر کے ڈریکولااور ایڈگر رائس کے ٹارزن کے سلسلے کو خا صی اہمیت حاصل ہے۔ روسی ادیب میخائل بلگا کوف کے ناول ’’دی ماسٹر اینڈ مارگریٹا‘‘کو بھی اس حوالے سے فراموش نہیں کیا جا سکتا ۔تما م باتوں سے قطع نظر گارشیا مارکیز ایک ایسا ادیب ہے جس کے منفرد اسلوب نے پورے یورپ کو متا ثر کیا ۔ سپین میں تو گارشیا کے انداز میں لکھنے والوں کی ایک نئی نسل سامنے آ گئی۔جادوئی حقیقت نگاری پر مبنی اس اسلوب نے گارشیا مارکیز کے ناولوں کو پوری دنیا میں متعارف کر وا دیا ۔مارکیز کے نمائندہ ناول ’’تنہائی کے سو سال ‘‘ (One Hundred Years of Solitude) کے اب تک ستائیس سے زائد زبانوں میں ترجمے ہو چکے ہیں ۔ لاطینی امریکی فکشن میں ’’بوم‘‘ کے جس دور کا ذکر کیا جاتا ہے اس کو نقطۂ کمال تک پہچانے اور بین الااقوامی ادب میں ناول کے مابعد جدید دورتک کے ارتقاء میں مذکورہ ناول کا اہم کردار ہے۔اس کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سروانتے کے ’’ ڈان کہوٹے ‘‘ کے بعدیہ سپینی زبان کا دوسرا ناول ہے جو اپنے معیار اور شہرت کے اعتبار سے ظفر یاب ہے۔ اس کے علاوہ ’’پتوں کا طوفان‘‘،’’سردار کا زوال ‘‘،’’منحوس وقت‘‘وبا کے دنوں میں محبت‘‘ اور کرنل کوکو ئی خط نہیں لکھتا ‘‘ ایسے ناول بھی مارکیز کی پیچیدہ تخلیقی قوت کا ثبوت ہیں ۔مارکیز کے ناول یک رخے نہیں بلکہ درجنوں مفاہیم کو اپنے اندر چھپائے ہوئے ہیں جو ان کی ارفع تخلیقی صلاحیتوں پر دال ہیں ۔
مارکیز اور معاصر لاطینی امریکی فکشن کا جائزہ لیا جائے تو عیاں ہوتا ہے کہ بر صغیر پاک و ہند میں بھی اس طرح کی صورتِ حال کا چلن عام رہا ہے۔ یہ خطہ لوک کتھاؤں ، قصے کہانیوں ،اساطیر ، ثقافتی توہمات اور داستانوی روایت کا حامل رہا ہے ۔اس خطے نے بھی نو آبادیاتی نظام کی خون آشام حکمتِ عملیوں کا سامنا کیا جس کے نتیجے میں یہاں مفلسی ، ذہنی پسماندگی اور نا خواندگی عام ہوئی ۔ کھلی اور برملا حقیقت کو سات پردوں میں چھپا کر عام آدمی سے اوجھل کر دیا گیا ۔ایک طرف بے نظیر،سونیا گاندھی ،خالدہ ضیا ء اور حسینہ واجد جیسی طاقت ور سیاسی بصیرت کی حامل خواتین موجود ہیں تو ایک ایسی عورتیں بھی ہمارے معاشرے میں موجود ہیں جس کونام نہاد عزت کی خاطر آسانی سے قتل بھی کیا جا سکتا ہے۔ان مشترک عوامل کے باوجود ہمارے تخلیقی ذہنوں نے لاطینی امریکی فکشن نگاروں ایسی مہارت کا اظہار نہیں کیا ۔ہمارا تخلیقی ذہن داستانوں کی روایت کو جدید حسیت سے ہم آہنگ کرنے سے قا صر رہاہے۔ہماری داستانیں محض تفننِ طبع کا ذریعہ بن کر رہ گئیں جنھیں سیاسی اور معاشی زبوں حالی کے تبصرے کے طور پر پڑھا جانا ممکن نہیں رہا جس کارن وہ آج کے عہد میں دم توڑتی نظر آتی ہیں ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اس بیانیے سے منہ مو ڑنے کی بجائے اسے مابعد جدید دور کے بیانیے سے ہم آہنگ کر کے پیش کیا جائے۔
حوالہ جات و حواشی
۱۔Maggi Ann Bowers, Magical Realism ,Routledge, Abingdon.2004,pp31
۲۔خالد جاوید ، گابرےئل گارشیا مارکیز فن اورشخصیت، شہر زاد،کراچی،جولائی ۲۰۱۰ء،ص ۹۰
۳۔کارلوس فیونتیس، ہالہ، مترجم آ صف فرخی،شہرزاد ، کراچی، ستمبر۲۰۰۱ء ، ص۱۴
۴۔Maria Eugenia B Rave, Magical Realism and Latin America, a master Project of M.A,The university of Maine,may ,2003,pp 26
۵۔مذہب کا موت پر انحصار،میگیل مارا/مبشر احمدمیر، مشمولہ کتابی سلسلہ’’ تناظر‘‘گجرات ،جنوری تا جون ۲۰۱۲ء ،ص۱۴۶
۶۔کتھا نگر۔لاطینی امریکی کہانیاں، مترجم محمود احمد قاضی،جمہوری پبیکیشنز ،لاہور، جون ۲۰۱۱ء ص۸
۷۔پلینیو اپولیو میندوزا،گابرئیل،مترجم اجمل کمال، مشمولہ ، آج ،کراچی ،مارچ، ۲۰۱۱ء ، ص۱۳
– – – – – – –
Abdul Aziz Malik