شعرالہند ۔ میری اردو شاعری کی بیاض ۔ قسط 2
(شعراء کے دواوین اور سوانح سے کشید کیا ہواآب حیات )
دکنی شعرا ٔ
پروفیسرمحسن عثمانی ندوی
ای میل :
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
شعرالہند ۔ میری اردو شاعری کی بیاض ۔ قسط 1 کے لیے کلک کریں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
محمد قلی قطب شاہ (۱۵۸۰۔۱۱۱۶ء)
اردو شاعر کی تاریخ میں امیر خسرو کے بعد جو بلند قامت شاعر سامنے آتا ہے اور جسے قدیم اردو شاعری کاقطب قرار دیا جاسکتا ہے، محمد قلی قطب شاہ ہے جو دکن میں سلطنت گولکنڈا کا پانچواں فرماں رواں تھا، یہ عہد امن وخوشحالی کا عہد تھا یہی بادشاہ حیدرآباد جیسے خوبصورت شہر کو بنانے والا اور آباد کرنے والا تھا، بادشاہ کو حضرت علی سے بیحد عقیدت تھی ، چونکہ حضرت علی کانام حیدر بھی مشہور ہے ، اس لئے شہر کا نام اس نے حیدر آباد رکھا، یہ ایک انسان دوست اور منصف مزاج حکمراں تھا، بادشاہ ہونے کی حیثیت سے صاحب علم اور شاعر ہونے کی حیثیت سے صاحب قلم تھا، اس نے ملی جلی مشترکہ تہذیب کو ترقی دینے کے لئے دکنی زبان میں شاعری کی ،
اس نے ایک پور ا دیوان مرتب کیا، جو حمد اور منقبت ، غزل اور نظم اور رباعیات پر مشتمل ہے، اس کی شاعری ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے، اس سے پہلے شاعری مذہبی جذبات کی تسکین کا ذریعہ تھی، محمد قلی قطب شاہ نے واردات قلبی ، فکری جذبات ، عشق ومحبت اور مناظر قدرت کو بھی اپنی شاعری کا عنوان بنایا، دکن میں یہ زبان دکنی کہلاتی تھی، جس میں تلنگی یعنی تیلگو اور مراٹھی زبان کے الفاظ کا بھی استعمال ہوا ہے، بعد میں بہت سے الفاظ متروک ہوگئے، حیدرآبا د شہر کی آباد کاری اور ترقی کے لئے اس نے ایک منظوم دعا مانگی تھی، جس کا ایک مصرع یہ ہے’’مرا شہر لوگاں سوں معمور کر ‘‘۔ محمد علی قطب شاہ نے محبت اور ہجروفراق کے جذبات کی بھی اپنی غزل میں منظر کشی کی ہے، اس کی غزل کے چند اشعار یہ ہیں
پیا باج پیالہ پیا جائے نا
پیا باج یک تل جیا جائے نا
کہیتے پیا بن صبوری کروں
کہیا جائے اماں کیا جائے نا
قطب شہ نہ دے مجھ دوانے کوں پند
دوانے کوں کچھ پند دیا جائے نا
جنوبی ہندوستان میں دکنی زبان برہمنی سلطنت کے بعد گولکنڈا اور بیجا پور کی سلطنتوں میں ترقی کرتی رہی ، شمالی ہند سے آبادی جنوب کی طرف منتقل ہورہی تھی ، تو علاء الدین خلجی نے ۱۲۹۴ء میں مہارشٹرا ، آندھرا اور کرناٹک کو اپنی عمل داری میں شامل کرلیا، تو آباد ی کا ایک بڑا حصہ بھی جنوب کی طرف منتقل ہوگیا، اور جب ۱۳۲۷ء میں محمد بن تغلق نے اپنا دار السلطنت دلی سے دولت آباد منتقل کیا، تو اس کے بھی واضح اثرات دکنی اردو پر پڑے، اس دکنی اردو سے محمد علی قطب شاہ کی شاعری وجود میں آئی جو حسیاتی لذت سے معمور ہے، یہ اردو کا پہلا صاحب دیوان شاعر تھا ، اس کی کلیات میں نظمیں ، غزلیات، قصائد ، رباعیات، اور مرثیہ اور نوحے بھی شامل ہیں۔
ولی دکنی(۱۶۶۷۔۱۷۰۷ء)
اردو زبان اور علم ادب کا قافلہ شمال سے جنوب کی طرف منتقل ہوگیا تھا، یہاں اردو زبان نے دوسری مقامی زبانوں سے ملکر ایک نیا رنگ اور آہنگ اختیار کرلیا تھا، اور یہ زبان اپنا خاص مزاج رکھتی تھی، اور اس کا اپنا لہجہ تھا، اس زبان اور اس لہجہ کی شاعری میں بہت نمایاں اورممتاز نام ولیؔ دکنی کا ہے، ولی دکنی کا نام اس اعتبار سے بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے، کہ جب اس کا دیوان دہلی اور شمالی ہند میں اہل شعر وادب کے ہاتھ میں پہونچا تو اسے مقبولیت کا شرف حاصل ہوا، بلکہ اس سے آگے بڑھ کر اس دیوان نے شمالی ہند کی غزل خوانی کو اوج اور عروج بھی عطا کیا، ولی دکنی کے اشعار میں اخلاق وحکمت اور تصوف کے مضامین بھی ملتے ہیں، ان کی اپنی زندگی درویشانہ زندگی تھی لیکن ان کی غزلوں میں تغزل کی کیفیت بہت زیادہ نمایاں ہے، اس اعتبار سے اردو ادب میں ولی دکنی کی تاریخی اہمیت ناقابل انکار ہے، وہ اصل رہنے والے تو احمد آباد (گجرات)کے تھے، اور پھرانھوں نے اہل خاندان کے ساتھ اورنگ آباد کی طرف کوچ کیا، اورآخرعمر میں وہ پھر احمدآباد گئے تھے، اورپھر ۱۷۰۷ ء میں وہیں ان کا انتقال ہوا۔ان کے اشعارآج بھی مغنیوں کی زبان سے سننے میں آتے ہیں، ان کے وہ اشعارجو بیحد مقبول ہوئے ہیں ان میں سے چند یہ ہیں:
جسے عشق کا تیر کاری لگے
اسے زندگی کیوں نہ بھاری لگے
نہ ہووے اسے جگ میں ہرگزقرار
جسے عشق کی بے قراری لگے
دیکھنا ہر صبح اس رخسار کا
ہے مطالعہ مطلع انوار کا
صبح تیرا درس پایا تھا صنم
شوق دل محتاج ہے تکرارکا
چاہتا ہے اس جہاں میں گربہشت
جا تماشا دیکھ اس رخسار کا
تجھ لب کی صفت لعل بدخشاں سے کہوں گا
جادو ہیں ترے نین غزل خواں سے کہوں گا
سراجؔ اورنگ آبادی(۱۷۱۱۔۱۷۶۳ء)
سراج اورنگ آبادی کا پورا نا م سید سراج الدین تھا، اور ان کا سلسلہ نسب خاندان مشائخ حسینی سادات سے جا ملتا ہے، اورنگ آباد میں ان کے آبا ء واجداد سکونت پزیرتھے، وہیں سراج اورنگ آبادی پیدا ہوئے، سارا ماحول صوفیانہ تھا، حال وقال کی مجلسوں کی گرما گرمی میں سراج نے پرورش پائی، کچھ بڑے ہوئے تو دولت آباد کے ایک صوفی شاہ برہان الدین غریب کے آستانے پراکثر جانے لگے، اورعجیب عالم بے خودی میں آستانہ کا طواف کیا کرتے تھے، اور مستی کی حالت میں کبھی فارسی اشعار بھی موزوں ہو جایا کرتے تھے، اور بعد میں حضرت خواجہ سید شاہ عبد الرحمن چشتی (متوفی۱۷۴۷ء)کے حلقہ ارادت میں داخل ہوگئے ، اور شعری ذوق بھی پروان چڑھتا رہا، انھوں نے چار سال کے عرصے میں مختلف اصناف سخن میں پانچ ہزار اشعار کہے، جو ا ن کی دیوان میں موجود ہے، طرز کلا م میں ان کو ولی دکنی کا وارث اور قائم مقام سمجھا جاتا ہے، سراج اورنگ آبادی کے کلام میں سادگی اور صفائی ہے، اسی لئے وہ عوام میں بیحد مقبول ہوئے اوران کے اشعار خواص اورعوام دونوں حلقوں میں پسند کئے جانے لگے، ان کے یہاں ہرہفتہ محفل سماع منعقد ہوتی تھی، سازوآہنگ کے ساتھ جب قوال اورسازندے ان کی غزلوں کو گاتے تو ایک وجد کا عالم طاری ہوجاتا، ان کی یہ مجالس سماع اہل دل اور تصوف کا ذوق رکھنے والوں کے لئے بہت اہم سمجھی جاتی تھی۔
سراجؔ اورنگ آبادی کی غزلوں میں حسن کی شوخیاں اورعشق کی حرارتیں ہیں لیکن اسی کے ساتھ ساتھ توحید اور معرفت الہی اورعشق حقیقی کے موضوعات بھی موجود ہیں، لیکن کلام کی شگفتگی میں کوئی فرق نہیں آیا ہے، ان کا کلام عام طورپرفن کے اعتبار سے اس قدر بلند اورخوبصورت رہا ہے کہ سر زمین دکن میں ان کو استادی کا درجہ دیدیا گیا ہے۔
سراجؔ اورنگ آبادی کی ایک خوبصورت اور مقبول ترین غزل ہے، جو ان کے شعری سرمایہ کا گراں بہا رتن ہے، غزل کے چند اشعار اس طرح ہیں:
خبر تحیر عشق سن ، نہ جنوں رہا نہ پری رہی
نہ تو تو رہا ، نہ تو میں رہا جو رہی سو بے خبری رہی
شہ بے خودی نے عطا کیا مجھے اب لباس برہنگی
نہ خرد کی بخیہ گری رہی نہ جنوں کی پردہ دری رہی
نظر تغافل یار کا گلہ کس زباں سے ادا کروں
کہ شراب حسرت وآرزو خم دل میں تھی سو بھری رہی
چلی سمت غیب سے اک ہوا، کہ چمن سرور کا جل گیا
مگر ایک شاخ نہال غم ، جسے دل کہیں سو ہری رہی
وہ عجب گھڑی تھی کہ جس گھڑی لیا درس نسخہ عشق کا
کہ کتاب عقل کی طاق پر جو دھری تھی سو وہ دھری رہی
کیا خاک آتش عشق نے دل بے نوائے سراجؔ کو
نہ خطر رہا نہ حذر رہا مگر ایک بے خطری رہی
سراج اورنگ آبادی کا زمانہ افراتفری کا زمانہ تھا ، دہلی کی حکومت کے خلاف بغاوتوں نے سر اٹھا یا تھا، ۱۷۳۸ء میں نادرشاہ نے ہندوستان پر حملہ کیا، اور خون کی ندیاں بہا دیں اور سترہ کروڑ کا سامان اور ہندوستان کا بے مثال تخت طاؤس لیکر ایران واپس ہوگیا، مغلیہ سلطنت زوال پزیر تھی، اورنگ زیب عالمگیر کے بعد اس کے تینوں بیٹے، معظم ، اعظم اور کام بخش نے تخت کے لئے خانہ جنگی شروع کردی، آخر میں معظم نے شاہ عالم بہادرشاہ کے لقب سے حکومت شروع کی، احمد شاہ کے زمانے میں ۱۷۴۹ء میں احمد شاہ ابدالی نے حملہ کیا، ملک کے کئی صوبے آزاد ہوگئے، اور کچھ علاقے مرھٹوں کے قبضہ میں گئے ، کچھ حصے پر کمپنی کا قبضہ تھا، پھر وہ زمانہ آیا کہ انگریزوں کی حکومت رفتہ رفتہ مستحکم ہوتی گئی، اور اردو زبان کی شاعری اسی انتشار اور افراتفری اور زوال وانحطاط کے زمانے میں کہیں نوابوں کے زیر سایہ اور کہیں زوال آمادہ مغلیہ سلطنت کے سایہ میں پروان چڑھ رہی تھی۔
One thought on “میری اردو شاعری کی بیاض ۔ قسط ۔ 2 ۔ ۔ ۔ پروفیسرمحسن عثمانی ندوی”
آسلام علیکُم ۔ پروفیسر محسن عثمانی کی بیاض سے مضمون دیکھا حیدآباد کا نام بادشاہ کی عقیدت سے نہیں رکھا گیا بلکہ اصل واقعہیہ ہے کہ قلی قطب شاہ نے بھاگ متی سے نکاح کیا تھا۔ بعد میں اسے حیدر محل کاخطب دیا گیا تھا اسی مناسبت سے حیدرآباد نام رکھا گیا۔
ڈاکٹرعطا اللہ
شکاگو