ماہردکنیات پروفیسرمحمود قادری ۔ ۔ ۔ ۔ ڈاکٹرمحمدعطااللہ خان

Share

ataullaماہردکنیات پروفیسرمحمود قادری

ڈاکٹرمحمدعطااللہ خان
شکاگو ۔ امریکہ
ای میل :

حیدرآباد دکن میں کیسے کیسے گوہر نایاب پیدا ہوئے اور زمانہ کتنی جلدی گزرجاتا ہے۔ ابھی کل کی بات ہے کہ اردو والوں کے نزدیک دکنی کے بغیر محمود قادری اور محمود قادری کے بغیر دکنی ادب ادھوری سچائی تھی۔ اردو اور دکنیات محمود قادری صاحب کا چولی دامن کا ساتھ تھا، ان کی ایک ایک سانس دکنی ادب کی بازیافت کے لئے وقف تھی، قادری صاحب پوری زندگی دکنی ادب کی چھان بین میں میں گزاردی، طالب علمی کے زمانے میں جب وہ بمبئی میں تحقیقی کام کررہے تھے۔

رسالہ نواے ادب میں ۱۹۵۲ء سے ۱۹۵۶ء تک ان کے تحقیقی مضامین اوراق پارینہ کے نام سے شائع ہوتے رہے۔ حیدرآباد میں ملازمت ملنے کے بعد جامعہ عثمانیہ کے شعبہ سے منسلک ہوکر یہ کام کچھ مدھم ہوگیا۔ جب زندگی کے تحقیقی تجربات سے گزرنے لگے۔ ۱۰ سال تک خاموشی درست تدرس کے پیشہ سے منسلک رہے بعد میں ساتوں دہائی سے پھر تحقیق کام شروع کیا اور ملازمت سے سبک دوش ہونے تک تقریباً بیس سال اپنا زیادہ سے زیادہ وقت دکنی ادب کی تحقیق میں کھاپاتے رہے اور بیس سال پر محیط ان کی زندگی کا یہ قیمتی اثاثہ جو گذشتہ ۱۰سال سے راقم کے پاس محفوظ تھا زیورطبع سے آراستہ ہوکر منظر عام پر آیا ہے۔
دکنیات پر باقاعدہ کام کی ابتدا بیسوی صدی کی دوسری دہائی کے شروع میں مولوی شمس اللہ قادری کی کتاب ’’ اردوئے قدیم ‘‘ سے شروع ہوتا ہے، اس کے بعد مولوی عبدالحق رسالہ اردو (اورنگ آباد) کے ذریعہ ۱۹۲۲ میں کلیات محمد قلی قطب شاہ کے دیوان پر ایک وقع مصمون شائع کیا یہ زمانہ ڈاکٹر زور صاحب کی طالب علمی کا تھا، ۱۹۲۵ء میں زور صاحب بی۔اے کے طالب علم تھے، اس طرح دکنیات کی تحقیق میں زور صاحب کا اہم رول رہا، جب زور صاحب شعبہ اردوجامعہ عثمانیہ میں لکچرار ہوگئے، ان کے شاگردوں میں پروفیسرمحمود قادری بھی خاص مقام رکھتے ہیں۔ ان کے ہم جماعت میں پروفیسر مغنی تبسم کے علاوہ دیگر ماہر دکنیات بھی تھے۔ یہ الگ بحث ہے لیکن دکنی ادب کا بڑا حصہ ان کی اور ان کے ساتھیوں کی کوششوں سے شائع ہونا شروع ہوگیا۔ شعبہ اردو میں محمود قادری صاحب ، قادری صاحب کے نام سے زیادہ مشہور تھے۔ شعبہ اردو میں ان کی اہمیت اور تحقیقی کام بہت اہمیت رکھتا ہے انھوں نے وجدی کرنولی کی مثنوی ’’ مخزن عشق کی تنقیدی تدوین ‘‘ کے موضوع پر مقالہ لکھا اور ۱۹۷۸ء میں پی۔ایچ۔ڈی کی سند حاصل کی ، یہ مقالہ پروفیسرغلام عمرخاں صاحب صدرشعبہ اردوکی نگرانی میں تحریرکیا گیا تھا۔ اس مقالے میں وجدی کرنولی کے سن تصنیف حالات زندگی سراپانگاری منظر نگاری اور کلام کا تنقیدی جائزہ بہت مفصل لکھا۔ اب جامعات میں ایسے قابل اساتذہ ڈھنڈنے سے بھی نہیں ملتے۔
استاد محترم ابوالفضل سید محمود قادری المعروف پروفیسر قادری صاحب ( پیدائش: ۱۵ نومبر ۱۹۳۰ ۔ انتقال : ۲۰ جون ۲۰۰۰ عیسوی) کی شخصیت جازب نظر تھی دیکھنے میں وہ ایک مہذب مولوی دکھائی دیتے لیکن ان کی شخصیت میں بلا کی شوخی تھی۔ شعبہ اردو عثمانیہ یونیورسٹی میں ۳۰ نومبر ۱۹۹۰ تک بحیثیت پروفیسر وہ خدمات انجام دیتے رہے لیکن انہوں نے اپنی پوری سروس عثمانیہ یونیورسٹی پی جی کالج میں گزاری اور وہیں کہ وہ صدر شعبہ اردو بھی رہے ۔ بڑی دھان پان شخصیت تھی ۔ ہمیشہ پان کا بٹوا کرتے کی جیب میں ہوتا۔ دوران گفتگو کھچ اس انداز سے مزے لے لے کر پان کھاتے کہ دیکھنے والے کے منہ میں پانی آجاتا ۔ طالب علم سے اولاد کی طرح محبت کرتے جب کسی سے ان بن ہوجاتی تو پھر اُس کی برائی میں کوئی کثرنہ چھوڑتے۔ ان کے مزاج کی وجہ سے شعبہ اردو میں انھیں وہ مقام نہیں ملا جس کے وہ حق دار تھے۔ سوائے پروفیسرغلام عمر خاں صاحب کے وہ ہر ایک سے کچھ نا کچھ چشمک ضرور رکھتے تھے ۔ کیا وجہہ تھی وہ کسی بھی ادیب یا شاعر کو خاطر میں نہیں لاتے ، ہاں البتہ جگر مرادآبادی کے دیوانے تھے ۔ جوش ملیح آبادی ، فانی بدایونی کی قدر کرتے تھے ۔ لیکن انھیں جگرمرادآبادی کے بعد کا درجہ دے رکھا تھا ۔ قادری صاحب کا اپنا ایک انداز تھا وہ کبھی بھی دوسرے محقق سے مرعوب نہیں ہوتے ۔ ہاں پروفیسر خواجہ احمد فاروقی صاحب کی بہت عزت کرتے ۔ کلاس روم میں خواجہ صاحب کی صلاحیت اور قابلیت کا قصیدہ ہمیں سناتے ۔ قادری صاحب مجھے محبت سے ’’ پٹھان ‘‘ کہتے ۔ مجھے اچھی طرح یا دہے۔ ایم۔اے کی جماعتمیں ایک فارسی حکایت سعدی شیرازی کی تھی اور علامہ اقبال کی ایک نظم ’’ کرم خوردہ ‘‘ تھی قادری صاحب کے ۔جی کے بچوں کی طرح کلاس روم میں سعدی کی حکایت زبانی یاد کرواتے ۔ یعنی خود بھی قرات کرتے اور طالب علموں کو بھی بہ آواز بلند پڑھاتے وہ حکایت آج بھی مجھے یاد ہے۔ اس فارسی حکایت کا ترجمہ سناتے ۔ اپنے اوقات تعلیم کے سخت پابند تھے ۔ ڈسپلین کے استاد تھے ۔ بڑھوں سے ادب کرنا انھوں نے ہمیں سکھایا۔ قادری صاحب کا آبائی مکان تعلقہ پرگی میں تھا ۔
ربیع الاول کی ۱۴؍ تاریخ کو آثار مبارک برآمد کرتے تھے۔ اس مبارک محفل میں جامعہ عثمانیہ سے بہت سے اساتذہ اور طلبا کو پرگی آنے کی دعوت دیتے ۔ رقعہ تقسیم ہوتے پرگی میں حیدرآبادی مہمانوں کی بہت عزت افزائی کرتے وہ ناصرف اپنا گھر مہمانوں کے لیے سجاتے بلکہ محلے دوست احباب کے گھر بھی انگیج کرتے تھے ۔ مہمانوں کی خوب خاطر مدارت کرتے ۔ قادری صاحب باغ و بہار انسان تھے۔ باتیں کرنے پر آتے تو محفل کو زعفران زار بنا دیتے ان میں ایک خوبی یہ تھی کہ نہ بے جا طور پر کسی سے مرعوب ہوتے نہ مرعوب کرنے کی کوشش کرتے۔ تکبر غرور اور خودپسندی انھیں اچھی نہیں لگتی تھی ۔ ہرکسی سے برابر کا سلوک کرکے خوش ہوتے۔ محفل میں لطیفے سناتے خود ہنستے دوسروں کو ہنساتے ۔
قادری صاحب کے کام کو دیکھا جائے تو حیرت ہوتی ہے وہ اپنی زندگی کیسے بسر کرلیتے تھے ۔ حیدرآباد کی ادبی محفل میں ایک خاص مقام تھا ۔ طلبا کے جلسے مقرر کرنا مشاعرے ، عرس ، سمینار ریڈیو میں تقریر کرنا ، تحقیقی کام کرنا شعبہ امتحانات میں کا م کرنا ۔ یہ سب کام حسن خوبی سے انجام دیتے تھے۔
پروفیسرقادری صاحب کے انتقال کے موقع پر ماہر دکنیات پروفیسرغلام عمر خان نے کہا تھا کہ پروفیسر قادری حیدرآباد کی واحد شخصیت تھے جنہیں دکنی متون کی قرأت پر زبردست عبور حاصل تھا ۔اس قدر روانی سے دکنی مخطوطات کی قرأت کرنا کسی اور کے بس کا کام نہیں تھا۔

Share
Share
Share