اسم ’’اللہ‘‘ ۔ ۔ کیا ترجمہ کیا جاسکتا ہے!؟ ۔ ۔ ۔ ۔ ڈاکٹرمحی الدین حبیبی

Share
mohiuddin habibi اسم
ڈاکٹرمحی الدین حبیبی

اسم ’’اللہ‘‘ ۔ کیا ترجمہ کیا جاسکتا ہے!؟

ڈاکٹرمحی الدین حبیبی
حیدرآباد ۔ دکن
موبائل : 08978155985

لفظ ’’اللہ‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے اور بہ اعتبارِ لغت ’’اسمِ ذات‘‘ ہے۔ یہ لفظ پچھلی زبانوں جیسے سامی، عبرانی وغیرہ میں بھی مختلف ملتی جلتی شکلوں جیسے ’’الٰہ‘‘ ، ’’اللہم‘‘ کی حیثیت سے بھی مستعمل رہا ہے، جس کے معنی یہی ’’ذاتِ واحد‘‘ کے رہے ہیں۔ گویا اس مقدس لفظ کے تحفظ اور اختصاص کا یہ عالم ہے کہ یہ پرانے صحیفوں توریت اور انجیل میں بھی آیا ہے، چنانچہ ’’عہدِ عتیق‘‘ اور ’’عہدِ جدید‘‘ دونوں یعنی عبرانی زبان میں ۲۵۲۶ مرتبہ اور آرامی زبان میں ۱۳۲۰ مرتبہ جب کہ قرآن مجید میں ۹۸۰ مرتبہ لفظ ’’اللہ کا ذکر آیا ہے۔

( بحوالہ کتاب The Beautiful Names of Allah in the Bible)
(By Syed Ahsan Habibi , 2006 , Malaysia)
لفظ ’’اللہ‘‘ کی خصوصیت اور عظمت دیکھئے کہ عبرانی اور آرامی زبانوں میں آج بھی ’’اللہ‘‘ کے لیے بنیادی حروف ’’الف، لام، و ہا‘‘ استعمال ہوتے ہیں، لیکن Eloh , Allah اور Elohim کے تلفظ سے رائج ہیں۔
’’اللہ‘‘ ایک اُلوہی اسم ہے، جس کو وحی کی سند حاصل ہے اور جس کی ’’توحید و تفرید‘‘ کا لغوی اعتبار سے لفظ ’’خدا‘‘ میں مکمل اظہار نہیں ہوتا۔ جہاں تک قرآن حکیم کا تعلق ہے اس میں ہر جگہ ہر موقع پر لفظ ’’اللہ‘‘ ہی آیا ہے اور سورۂ طہٰ میں اللہ جل شانہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں میں نے تم کو نبوت کے لیے منتخب کرلیا ہے اور جو کچھ وحی کی جارہی اس کو سن لو اور یہ کہ میں ہی ’’اللہ‘‘ ہوں۔ خود اللہ تعالیٰ اپنا تعارف اپنے عالی مرتبت اسم گرامی یعنی اللہ کے ساتھ کروارہے ہیں۔
اِنَّنِیْ اَنَا اللّٰہُ لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنَا فَاْعْبُدُوْنِیْ (۱۴)
یعنی ’’میں ہی ’’اللہ‘‘ ہوں، میرے سوا کوئی معبودِ حقیقی نہیں، پس مری ہی عبادت کرو۔ کس شان و عظمت کا ’’اعلانِ اُلوہیت‘‘ ہے اور کس علویت و رفعت کا تعارف و عرفان ہے۔ اللہ خود اپنا اسمِ ذات ’’اللہ‘‘ بتلا رہا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں اور مانتے ہیں کہ ہر کسی کا اسم ذات ، اسم خاص ہوا کرتا ہے، اس لیے اسمِ ذات کا ’’ترجمہ‘‘ نہیں ہوتا، مثلاً میرا نام ’’محی الدین‘‘ ہے، اگر کوئی صاحب میرے غریب خانہ پر تشریف لاکر دستک دیں اور آواز دیں کہ ’’کیا دین کو زندہ کرنے والے صاحب موجود ہیں!؟‘‘ تو ظاہر ہے انہیں مایوسی ہوگی کہ ان معنی و مفہوم میں کوئی شخص گھر سے برآمد نہ ہوگا۔ اگر وہ ’’محی الدین‘‘ نام لیں تو شاید میں اُن سے ملاقات کرلوں ۔ یہی فرق ہے اور مشکل پیدا ہوتی ہے جب ’’اسمِ ذات‘‘ کا ترجمہ ہوتا ہے کہ یہ پورے مفہوم کو ادا نہیں کرسکتا اور بات کدھر سے کدھر چلی جاتی ہے۔ یہیں کچھ لفظ ’’اللہ‘‘ کے ترجمہ کرنے سے ہوا، جس کا ترجمہ ہم نے ’’خدا‘‘ کردیا۔ لفظِ ’’ خدا‘‘ دو لفظوں کا مرکب ہے اور زبان فارسی کا لفظ ہے۔ ’’خود + آ‘‘ سے مل کر بنا ہے۔ (فیروز اللغات) اور یہ بحیثیتِ ’’خدایان‘‘ اور ’’خداؤں‘‘ کی طرح بھی مستعمل ہے، جب کہ لفظ ’’اللہ‘‘ خالص توحید اسمِ ذات کا مظہر ہے۔ عام طور پر ہم قرآن حکیم کے اردو ترجموں میں بھی لفظ ’’اللہ‘‘ کی بجائے ’’خدا‘‘ دیکھتے ہیں۔ یہ بڑے تعجب و تاسف کی بات ہے کہ علمائے کرام نے ’’اللہ‘‘ اسمِ ذات کا ترجمہ بھی ’’خدا‘‘ کرڈالا۔ ہندوستان میں حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے فارسی ترجمہ کی ابتداء کی، جس کا مقصد قرآن کے پیام کو غیرعربی داں حضرات تک پہنچانا تھا۔ جب فارسی کا چلن کم ہوا تھا اُن ہی کے صاحبزادے حضرت شاہ عبدالقادر رحمۃ اللہ علیہ نے پہلا اردو ترجمہ قرآن کا آغاز کیا۔ اس کا بھی منشاء وہی تھا، لیکن اسمِ ذات جیسے اللہ ، محمد، ابراہیم ، موسیٰ یا عیسیٰ کا ترجمہ تو نہ ہونا چاہیے۔ افسوس کی بات ہے کہ ایسا تو نہ ہوا، لیکن ’’اللہ‘‘ کا ترجمہ ’’خدا‘‘ کردیا گیا، حالانکہ لفظ اللہ زبان زدِ خاص و عام ہے،اس کے کہنے سننے میں کوئی تکلیف نہیں اور نہ مخارج کچھ مشکل ہیں، بس ایک نامِ الٰہی ہے ’’اللہ ہی اللہ‘‘! ، جو کہ ’’الوہی تلفیظ‘‘ سے متصف ہے اور قدیم صحیفوں اور قرآن کریم کے مطابق ازل ہی سے ’’اللہ‘‘ کو ’’اللہ‘‘ ہی پکارا جارہا ہے، جس میں ’’انائے مطلق ’’اننی انا اللہ‘‘ کی یکتائی و یگانگی بدرجہ اولیٰ عیاں ہوتی ہے، جو کسی ’’متبادل‘‘ یا مترادف‘‘ کی رہین منت نہیں ہوسکتی، اس لیے جہاں تک ممکن ہوسکے لفظ ’’اللہ‘‘ کے استعمال کو ہی ترجیح دیں، البتہ جو اردو یا فارسی تراکیب ہیں جیسے ’’بادلِ ناخواستہ‘‘ کے بروزن ’’خداناخواستہ‘‘ تو ظاہر ہے آپ ’’اللہ نہ خواستہ‘‘ نہ کہیں گے کہ یہاں عربی کے ساتھ فارسی کا مرکب بے جوڑ ہوکر زبان کے ’’قوام‘‘ کو بگاڑ رہا ہے، لیکن اگر کوئی مترجم ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ کا یوں ترجمہ کرے کہ ’’خدا کے نام کے ساتھ (شروع کرتا ہوں) جو رحمن اور رحیم ہے، تو یقیناًوہ اپنے آپ پر اور ہم پر بڑا ستم کررہا ہے۔ اس کے برخلاف ترجمہ اس طرح ہونا چاہیے:
’’اللہ کے نام کے ساتھ (شروع کرتا ہوں) جو رحمن اور رحیم ہے‘‘۔
ویسے ’’رحمن‘‘ اور ’’رحیم‘‘ بھی اسمائے الٰہی ہیں، جس کا ترجمہ بڑا مہربان اور نہایت رحم والا کیا جاتا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو اس کی توضیح و تشریح اس قدر ہوچکی ہے کہ اب اس کے ترجمہ کی ضرورت بھی باقی نہیں رہتی۔ مقصد اس مضمون کا یہ ہے کہ جہاں تک ممکن ہوسکے ’’اصلیت‘‘ کو ترجمہ میں باقی رکھا جائے اور خصوصاً اسمِ ذات کے معاملہ تو قطعاً اس کو تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔

Share

One thought on “اسم ’’اللہ‘‘ ۔ ۔ کیا ترجمہ کیا جاسکتا ہے!؟ ۔ ۔ ۔ ۔ ڈاکٹرمحی الدین حبیبی”

Comments are closed.

Share
Share