افسانہ : پنچھی ؛جہازکا
حنیف سیّد ۔ آگرہ
موبائل: 09319529720
آج کی تازہ خبر،آج کی تازہ خبر، آؤ کاکا جی اِدھر..! آؤ ماما جی اِدھر..! سنو دنیا کی خبر..!۔
اِک بوڑھے نے جواں لڑکی سے شادی کرلی؛اِک پگلی اُڑی اِک سَنْت کابٹوالے کر۔
آج کی تازہ خبر،آج کی تازہ خبر۔
اُس روزکی خبرتوتھی ہی، یہ۔بھلے کوئی پگلی کسی سَنْت کا بٹوالے کراُڑی ہو،یانہ اُڑی ہو؛مگرایک جواں لڑکی نے ایک بوڑھے سے شادی ضرورکرلی تھی اورایم۔اے ۔ پاس چمپو؛ فلم ’’سن آف انڈیا‘‘ کے نغمے کی دھُن پرلوگوں کے گھروں میں اَخبارپھینکتاچلاجارہاتھا۔
’’اوئے چمپو….!‘‘ایک نِسوانی آوازنے ،چمپوکے نغمے پربریک لگایا۔
’’کیاہے میم صاحب …؟‘‘چمپونے اپنی بیٹھی ہوئی آوازمیں پورا زورلگا دیا۔
’’جھوٹی خبریں کیوں چھاپتاہے…؟تمھارا اخبار۔‘‘
’’وہ کیامیم صاحب…..؟‘‘
’’ارے چمپو….!بوڑھے نے جواں لڑکی سے شادی نہیں کی، بل کہ جواں لڑکی نے بوڑھے سے شادی کی ہے۔وہ بھی اسّی سال کے اور لڑکی صرف بائیس کی۔‘‘
’’ہے توایساہی ،میم صاحب…!‘‘
’’توپھراُلٹا کیوں چھاپاہے…؟تمھارے اخبارنے۔‘‘
’’کیابتاؤں میم صاحب…..!یہ زمانہ ہی اُلٹاہوگیا ہے، اَب۔‘‘
’’تمھارے اخباروالے سیدھانہیں کرسکتے،زمانے کوکیا ….؟‘‘
’’کرسکتے ہیں ،میم صاحب…!وہ جب چاہیں سیدھا کردیں۔‘‘
’’توکرتے کیوں نہیں…؟ چمپو….!‘‘
’’ارے میم صاحب …!دیش کے نیتاسیدھا کرنے دیں، تب نا….!‘‘
’’نیتا؛ کون سی ٹانگ اَڑائے ہیں،اِس میں….؟‘‘
’’تم نہیں جانتیں میم صاحب….!رات ایک بجے تک یہی جھنجٹ پڑارہا،کوتوالی میں۔‘‘
’’وہ کیا…..؟‘‘
’’رانی چیخ چیخ کرکہتی رہی :’’جمناپرساد؛بھگاکرنہیں لے گئے ،مجھ کو ۔ میں لے گئی تھی، اُن کو۔میں نے کی ہے کورٹ میرج اُن سے،کچہری میں۔یہ رہے کاغذات ۔‘‘
’’پھرہواکیا ….؟‘‘
’’ہوتاکیا….؟ نیتانہیں مانے۔‘‘
’’ایسا کیوں …..؟‘‘
’’جمناپرساد؛اپوزٹ پارٹی کے جوہیں ،میم صاحب..!‘‘چمپونے قریب آکر سرگوشی کی۔
ٍ ’’اچھا…. !‘‘
’’ہاں میم صاحب…!‘‘
’’توپولِس نے دودھ کا دودھ اورپانی کا پانی، کیوں نہیں کیا…. ؟‘‘
’’پولِس کیاکرے بے چاری… ؟ جب بھینسیں ہی دودھ کے بجاے پانی دینے لگیں ۔‘‘
’’ایسا بھی ہے …..؟‘‘
’’ہاں ہے، میم صاحب…!‘‘
’’وہ کیسے …..؟‘‘
’’اِنجکشن ؛توپہلے ہی ٹھونس دیاجاتاہے،اُن بے چاریوں کے۔ اوردود ھ پتلا ہو کر خودبہ خوداُترآتاہے،پھرتوایک ایک بوند نچوڑ لیاجاتاہے۔ اوربچّے بے چارے مر جاتے ہیں بنادودھ کے،تڑپ تڑپ کر۔‘‘
’’ تم پھرجھوٹ بولے،چمپو۔‘‘
’’وہ کیا….؟‘‘
’’میں نے توکوئی بچّہ تڑپ کرمرتے نہیں دیکھا،سامنے کی ڈیری میں ۔اُ ن بے چاروں میں تڑپنے کی سکت ہی کہاں ر ہتی ہے، اتنی …..؟‘‘
’’سچ کہتی ہو،میم صاحب…!‘‘
’’توپھرچُپ کیوں ہیں،تمھارے اخباروالے ….؟‘‘
’’نیتاکچھ کرنے دیں، تب نا…. !‘‘
’’نیتاکیاہاتھ لگائے ہیں…؟اِس میں۔‘‘
’’آپ نہیں جانتیں میم صاحب،اخباروالے ،پولِس والے، یہاں تک کہ جنتابھی سرکارکی ہوتی ہے ۔‘‘
’’اچھا…. !‘‘
’’ہاں میم صاحب….!جب کبھی سرکارگرتی ہے ،تب کہیں بھانڈا پھوٹتاہے، جا کر۔بتایانا…!آپ کو،کہ کل ہی رانی نے چیخ چیخ کر کہاتھا،کوتوالی میں: میں لے گئی تھی جمنا کو، بہلاپھسلاکر۔پولِس پھربھی نہیں مانی اورکیس لاددیاجمناپر،ستّاکے نیتاؤں کے دَباؤسے۔‘‘
’’ایسا کیوں….؟‘‘
’’کیوں کہ جمنا؛اپنی برادری کاہردل عزیزلیڈرہے اورستّا کے نیتاؤں کویقین ہے کہ اگلے الیکشن میں جمنا؛بھاری متوں سے جِتواکر سرکاربنواسکتاہے ،اپوزیشن کی۔اِسی لیے ستّا کے نیتاؤں نے مٹّی خراب کردی، جمنا کی۔‘‘
’’اچھا …. !‘‘
’’ہاں ،میم صاحب ….!‘‘
’’مگریہ ،تم کیسے جانتے ہو…. ؟‘‘
’’میں سب جانتاہوں میم صاحب…!میرے جاننے کی وجہ ہے۔‘‘
’’وہ کیا ….؟‘‘
’’پھربتاؤں گاکبھی؛اِس وقت توپیپرز ڈالنے ہیں، مجھ کو۔‘‘چمپو کہہ کر آوازلگاتا ہوانکل گیا۔
جمنا پرساد؛کبھی او۔سی ۔ایف ۔میں ملازم تھے؛ڈیوٹی کے پابند،ایمان داراورمحنتی بھی۔ڈیوٹی سے گھرآئے ۔کھاناکھایا،اُلٹا سیدھا۔دواؤں کا تھیلا سائکل میں لٹکایا اور سیدھے ہولیے میڈیکل اسٹورزپر۔نہ کاہوسے دوستی،نہ کاہوسے بیر۔محنت سے اچھا خاصا بینک بیلنس بنا لیا تھا،اُنھوں نے۔بیوی خوش تھی اورخودبھی مست۔ ایک دن بیوی ایک بچّے کی ڈِلیوری میں چل بسی،اچانک۔تین لڑکے اورایک لڑکی چھوڑکر، بے چاری۔تینوں لڑکے بڑے تھے اورلڑکی چھوٹی ۔ گھرسنبھالنے کے لیے ،جمنا نے چٹ لڑکے کی شادی کر دی۔ لڑکا ایم۔ بی۔ بی۔ ایس۔ اور لڑکی بھی ایم۔ بی۔ بی۔ ایس۔اُنھیں تو پریکٹس کرنی تھی اپنی۔ لڑکے کی سسرال لکھنؤ میں تھی۔ وہیں کھول لیا ہسپتال اورسرک گئے، چپکے سے۔ دوسرا لڑکا مدرّس تھا، کسی گانومیں ۔ وہاں کے پردھان کی نظرایسی جمی اُس پرکہ ٹس سے مس نہ ہوسکے، جمناپرسادبے چارے۔ کرتے بھی توکیا …؟لڑکے کو پسندتھی ،لڑکی۔اوپرسے جاے داد کی ریل پیل۔سونے پرسُہاگا یہ بھی کہ لڑکی اکلوتی ۔جمناپرسادنے بھی عافیت سمجھی ۔لڑکے کے سُکھ کی خاطر خود کو قربان کربیٹھے، بے چارے۔شادی ہوئی اورلڑکا سرک گیاسسرال میں ۔ صاف ستھری سروس گزار کر رِٹائر ہوگئے، جمناپرساد۔ شریف،ایمان داراورانصاف پسندتوتھے ہی ،وہ۔محلّے والوں نے کھینچ کھانچ کر وارڈ ممبربھی بنادیا، اُن کو۔لڑکی جوان ہوئی توکانٹے سی کھٹکنے لگی ،ذہن میں۔رشتے داری کے کھاتے پیتے گھرانے کا لڑکا دیکھ کر،اُس کوبھی اچھے خاصے جہیزکے ساتھ چلتا کر دیا۔تیسرالڑکا،تھاتو نہیں اِس لائق ۔مگر ضرورت کے تحت بہوبیاہ لائے ۔ کچھ دنوں تک توگھررہا،ہاتھ میں۔پھراُن کی کمزوری کے ساتھ ساتھ اُن کی حکمرانی بھی سرک گئی، مکان سے ۔ایک کے بعدایک ، دو پوتے بھی کھیلنے لگے، آنگن میں۔
’’پاپا…..!اپنی چپلیں؛اپنے ہی کمرے میں رکھاکرو ….!کسی اونچے استھان پر۔ پِنٹو؛موقع پاکراپنے مُن59ہ میں داب لیتاہے۔‘‘ بہو نے جیسے ہی کہا ،جمنا؛ سمٹ گئے اپنے کمرے میں،پوری طرح۔
جمناپرساد؛لیڈرکے ساتھ ساتھ اپنی برادری کی ناک بھی تھے۔ سیاسی پارٹی میں اُن کی اہمیت بھی اِس لیے تھی کہ ساری برادری کے ووٹ اُن کے ہی اِشارے پریک طرفہ پڑتے تھے۔ممبری کا الیکشن بھی برادری کے بل پرہی جیتتے رہے ،وہ۔عمرکے لحاظ سے کمزوری نے اِس قدرنڈھال کردیاتھا،اُن کوکہ اب پارٹی کی میٹنگ میں جانابھی دشوار ہو گیا تھا،ان کے لیے ۔ لیکن اُن کے ووٹ بینک کے باعث ،پارٹی کے لوگ نظرانداز کرنے کوتیارنہ تھے، اُن کو۔اُن کی قربانیوں سے برادری؛ توجان چھڑکتی تھی ،اُن پر ،لیکن گھرکی مرغی ؛ دال برابربھی نہ تھی ۔بیماری اورکمزوری نے اتنا نڈھال کردیاتھاکہ بہو بیٹے پربوجھ بن گئے تھے وہ، پوری طرح۔اُن کے بینک بیلنس پربھی لڑکوں نے اب روک لگا دی تھی۔ کاشت کی آمدنی، تینوں لڑکوں میں تقسیم ہوجاتی تھی۔وہ اَب اپنے ہی گھرمیں ایسی زندگی گزار رہے تھے،جیسے: دیش کے شہیدوں کامزار۔جہاں کوئی جاتابھی ہے، تو مجبوری میں، فارملٹی کے تحت۔
ایک صبح جمنا پرسادسوکراُٹھے، تواُن کے بیٹے کاسامان ٹھیلوں پر لادا جارہا تھا۔ پتاچلاکہ بیٹے نے اپنی سہولت کے مطابق کہیں اورفلیٹ خرید لیا ہے۔بس کیاتھا؛بیٹے کو زور زور سے کئی آوازیں دے ڈالیں۔
’’کیاہے….؟ باؤجی ….!‘‘بیٹے کے بجاے بہوآگئی۔
’’ کہاں ہے …؟وہ…!!!‘‘
’’باؤجی …!وہ توکام میں لگے ہیں ۔‘‘
’’مکان چھوڑکرجارہی ہو ….؟‘‘
’’ہاں باؤجی..!یہاں دقت تھی کچھ۔‘‘
’’تم لوگ چاہتے ہو مرجائے، یہ بڈّھا۔یہ بتاؤ….!:اتنے بڑے مکان میں کیسے رہوں گا….؟میں۔کون کرے گا صفائی، اِس کی …. ؟ اورکھاؤں گاکیا…. .؟‘‘بارباریہی دہراتے رہے۔مقصدتھاکہ بہوکہہ دے : ’’ساتھ چلناہے باؤجی…!آپ کوبھی۔‘‘لیکن وہ ،ٹس سے مس نہ ہوئی۔زیادہ بولے توبہویہ کہہ کرسرک گئی :’’باؤجی..! بہت کام پڑا ہے، گھر میں۔‘‘ یہ تووہ بھی جانتے تھے کہ جوکچھ کہوں گا؛بے اثررہے گا۔پھربھی دِل کی بھڑاس نکالنے کے لیے چیخ چیخ کربیٹے کوکئی آوازیں دے ڈالیں۔محلّے والے جمع ہونے لگے ،تو لاج کوچُپ ہو گئے،بے چارے۔ آخری ٹھیلا بھی لدکرچلاگیا۔بہوبیٹے؛ کے دوسرے راستے سے گزرنے کا یقین ہو گیا، تو چادرتان کرلُڑھک گئے۔بچّوں کوکس طرح پالاپوسا،کسی کا نُک دُکھا،توراتیں کس طرح جاگ جاگ کرکاٹیں،کس کس اَرمان سے شادیاں کیں،اُن سب کی۔ساری کہانیاں؛ فلم کے پردے کی طرح ،باربارذہن میں گھومتی رہیں۔ آنکھیں کھلی تھیں، مگرکچھ دکھائی نہ دے رہاتھا۔ زبان تھی ،مگر بے قابو۔نہ جانے کیاکیابڑبڑاتے رہے۔کان تھے، مگرکچھ سُنائی نہ دے رہا تھا۔ اُن کے سامنے جیسے بیٹے کا بچپن ؛گھوم گیاہو:’’ دیکھ کرچلو…!بیٹے۔اُٹھ جاؤ…. ! کہیں چوٹ تو نہیں آئی…؟‘‘دوراتیں آنکھوں آنکھوں میں گزرگئیں۔فلم چلتی رہی۔نہ بھوک ،نہ پیاس ، نہ کوئی آیا،نہ گیا۔چڑیاں اُڑ گئیں۔ گھررہا وہی؛ ڈھاک کے تین پات۔
’’مکان کہاں لیاہے، بیٹے نے….؟‘‘پڑوسی نے تیسرے دِن آکردریافت کیا۔ اُن کولگا جیسے: نمک چھڑک دیاہو،اُس نے۔ حالاں کہ وہ جانتے تھے کہ پڑوسی ؛اِس کا جواب اچھی طرح جانتا ہے،لیکن آگ لگانے آیاہے، کم بخت۔ اِس لیے کوئی جواب نہ دیا۔
’’کچھ کھایاپیابھی…. ؟‘‘اَگلا سوال،لیکن جواب کچھ نہیں۔
’’کیسے رہو گے اتنے بڑے مکان میں، اکیلے…. .؟‘‘جواب کوئی نہیں۔
’’کھانابھیج دیاکروں،اپنے بیٹے کے ہاتھ .؟‘‘جواب کوئی نہیں۔
’’مکان کی صفائی میں کردوں…. ؟‘‘جواب کوئی نہیں۔
’’تینوں بیٹوں سے آدھی آدھی تنخواہ لیاکرو …!دیں گے کیوں نہیں….؟ کہوتوبات کروں ،میں….؟‘‘جواب کچھ نہیں۔
’’تمھارے پاس بھی کیاکمی ہے….؟بھگوان کی کرپاسے، چار چارنوکررکھو….! ٹناٹن رہو ….!‘‘جواب کچھ نہیں۔
’’بولوتوکچھ…!‘ ‘تیروں پر تیربرستے رہے ،مگرجواب کچھ نہیں ۔
’’سوگئے کیا …. ؟‘‘جواب کچھ نہیں ۔
’’مرگئے کیا….؟‘‘پھر بھی کوئی جواب نہ ملا،توجل کراُس نے آگے کہا۔’’ارے…!تم توواقعی مرگئے، جمنا…!محلّے والو..!!!آؤ…! دیکھو..!جمنامر گئے۔‘‘ پڑوسی نے جم کرطنزکیا۔
’’میں مرانہیں، سالے….! مروں گا،تجھ کومارکر۔‘‘جمنانے چادر پھینکی اورکھڑے ہوگئے۔
’’تم زندہ نہیں ہو،جمنا…!تم تومرچکے ہو۔جیتے جی مرچکے ہو۔بالکل سے مرگئے ہو،تم۔‘‘پڑوسی نے طنزکیا۔
’’ دیکھ..! سالے دیکھ…!!!میں زندہ ہوں ،بہت جان ہے ابھی، مجھ میں۔‘‘جمنا پرساد تھرتھراتے ہوئے کھڑے ہوگئے۔
’’جھوٹ مت بولو …!تم مرچکے ہو،جمنا..!!..تم کھڑے ضرور ہو،لیکن تمھارے اپنے پیرنہیں ہیں ،یہ۔ تمھارے پیرتوکٹ کر دوسری جگہ پہنچ چکے ہیں ۔تم میں کچھ بھی نہیں رہاہے، جمنا….!اپناکچھ بھی نہیں، اَب۔‘‘
’’ٹھہرسالے…!!!‘‘طنزکی ٹیسوں سے بوکھلاکرجمنانے بندوق اُٹھائی اورلڑکھڑا گئے۔محلّے والے جمع ہونے لگے، توپڑوسی سرک گیا،چپکے سے۔
ٍ ’’سالاکہیں کا،نمک چھڑک رہاتھا،اور مجھ پر۔‘‘جمنانے کہتے ہوئے بندوق چارپائی سے ٹکادی اورتھرتھراتے ہوئے لُڑھک گئے، بسترپر۔ذہن میں طوفان ٹھا ٹیں مار تا رہا۔ رات آئی توڈھنڈار، کاٹے نہ کٹی۔صبح ہوئی، توسائل کی آوازٹکرائی اُن کے کانوں سے۔
’’اے …. !‘‘بڑی مشکل سے اُٹھ کرسائل کوآوازدی ،پراُس نے
نظرنہ اُٹھائی۔
’’اے ..!اے …!اے بھائی….!!‘‘آوازپربھرپورزورلگادیا۔
’’کیا مجھ سے کہہ رہے ہو کچھ…..؟‘‘سائل نے پلٹ کردریافت کیا۔
’’ہاں ہاں …..!تم کوہی بلا رہاہوں،بھائی….!‘‘
’’کیاہے …. ؟بولو ….!‘‘سائل نے قریب آکرپوچھا۔
’’یہ لو ….!دس تم لے لینا،اوردس کے چا ے بسکٹ لادو…!‘‘ پہلے سے نکالاہوابیس کانوٹ، سائل کی جانب بڑھادیا۔
اب ہرصبح سائل کاانتظارکرتے ،جیسے ہی آوازلگاتا،وہ۔ فوراً بلاکر،بیس روپے تھماکر،اپناکام چلاتے، جمناپرساد۔
رانی کے پاپا،نوکھے لال؛ بچپن میں ہی ایک پیڑسے گرکراپنی
ایک ٹانگ گن59واں چکے تھے۔اُن کی امّی نے سلائی کاکام سکھلادیا تھا،نوکھے لال کو۔جواں ہوئے تو شادی میں ٹان59گ آڑے آگئی ۔ او۔سی۔ایف ۔میں بھرتی کی باڑھ آئی،تو اُن کی بھی لاٹری نکل آئی ۔ دولت کی ریل پیل نے شراب کی لت ڈال دی ۔قدرت نے نوازاتوچھپّر پھاڑ کے۔ نوکری ملی توشادی بھی ہوگئی ۔بیوی خوب صورت تھی اورکم عمر بھی۔سال پورانہ ہوپایاکہ چاندجیسی بیٹی رانی؛ آنگن میں اُترآئی۔شراب کی لت نے جسم لاغرکردیا۔جیسے تیسے سروس پوری کرکے ریٹائر ہوگئے۔پنشن صرف تین ماہ لینے کے بعدچل بسے، نوکھے لال۔رانی کی ماں نے توجیسے تیسے نندبھاوجوں میں کاٹ لیے،بیس سال ۔لیکن رانی سے گوارانہ ہوا۔ ماں کوجب دیورانی نے مارا،توماں کولے کررانی کِرایے کا مکان تلاشنے نکل پڑی۔
ایک ہی جگہ ملازمت کرنے کے سبب جمنا پرساد:نوکھے لال میں ملاقات تو تھی ہی؛برادری کے ناتے بھی ،وہ نوکھے لال کے یہاں،
ووٹوں کے لیے، کئی بار جا بھی چکے تھے۔
ایک صبح جمناپرساد؛سائل کے انتظارمیں تھے کہ رانی کی امّی نے آکرمکان کِرایے پرلینے کی خواہش ظاہرکی۔پہلے توجمنا نے انکار کردیا،لیکن جب رانی کی امّی نے اُن کو پہچانتے ہوئے خودکونوکھے لال کی پتنی بتاکر پریشانیوں کا پٹارا کھولا، تو ترس کھاگئے،جمنا ۔اور شام تک ماں بیٹی نے ،اُن کے ایک کمرے میں پناہ لے کر،مکان کا سارا کوڑا کرکٹ جھاڑ کرباہرنکال پھینکا۔اِن کوکِرایے پررکھنے میں جمنا پرسادکومسرت تب ہوئی ،جب رانی نے شام کو عمدہ کھانابناکراُن کے سامنے رکھا۔دوسری صبح سائل کئی صدائیں لگانے کے با وجو د دس روپے سے محروم ہوکرچلاگیا۔
دونوں کومکان میں رکھ کر،جمناپرسادکولگاکہ جیسے :لاٹری نکل آئی ہو،اُ ن کی۔مکان بھی صاف ستھرا،اُن کااکیلاپن بھی دور۔اور کھانے پینے کا انتظام بھی معقول ۔رانی اور اُس کی امّی دونوں مل کر جمنا پرساد کی خوب خدمت کرتیں۔اُن کے کپڑے دھونا ،صبح شام پیردبانا، نہلانا،دُھلانااوروقت پرکھانادینا۔جمناپرسادکولگاکہ جیسے: سُوَر58گ مل گیا ہو، اُن کو۔ہرماہ رانی کی امّی اُن کورکشے پرلادکربینک لے جاتیں اوردونوں اپنی اپنی پنشنیں لیے گھرلوٹ آتے۔ آہستہ آہستہ دونوں کے اِخراجات بھی مشترک ہوگئے ۔کبھی وہ خرچ کر دیتے، تو کبھی رانی کی امّی۔جہاز سے پنچھی کاناتااور گہرا ہوگیا۔
ایک روزرانی نہا دھوکرچھت پر دھوپ میں بیٹھی اپنی الہڑجوانی سے لبریز حسن کی سنہری جھیل پھیلائے بال سکھا رہی تھی،جس کودیکھ کردوچھتیں پارپردیپ کے من کا پیاسا پنچھی سنہری جھیل کے عکس سے تلملا کر اُڑا،اور لبریز جھیل میں ٹوٹ کربے ساختہ پنکھ بھگوبیٹھا۔ پیاسے پنچھی کے گرنے سے لبریز جھیل ؛لاکھ کوششوں کے باوجود اپنے اندر کی طغیانیوں سے بچا نہ سکی،خود کو ۔بات اِشاروں سے شروع ہو کرپرچوں اورراستوں کی ملاقاتوں تک پہنچ گئی۔ رانی نے اُس کا موبائل نمبرلے کر،ماں کے بٹوے کی رقم سرکانا شروع کر دی۔ سوداسلف سے کاٹی گئی رقم سے ،اُس نے پردیپ سے بات کرنے کے لیے موبائل بھی خرید لیا۔پردیپ ؛اکثرجھیل میں مِس کال کاکنکرپھینک کرمارکرسوئی لہریں جگادیتااوروہ فوراً پردیپ کوکال لگا کر باتوں میں کھو ہوجاتی۔
’’نگوڑی…! جانتی ہے کہ پنشن کی رقم سے گھر نہیں چل پا رہا ہے ، پھر بھی پیسے چُراچُراکرفون میں خرچ کرڈالتی ہے، یہ نہیں سمجھتی ؛ دہیز کہاں سے آئے گا….؟ حرام زادی کواتنا سمجھایا کہ کسی کے ساتھ نکل کر گھر بسا لے ،جیسا محلّے کی اورغریب لڑکیوں نے کیا،ہوا کیااُن کا….؟دوروز کی بدنامی ہی تو ہوئی خاندان کی، بس…..!گھر تو بس گئے،اُن بے چاریوں کے ۔مگر سنتی کہاں ہے، کلموئی …..!‘‘ماں کو جب بٹوے سے رقم سرک جانے کا علم ہوا، تو رانی کو لہاڑیا ں سُنا ڈالیں۔
اگلے دِن رانی نے فلم دیکھنے کے لیے پردیپ کوٹاکیزمیں بلالیا اورسودے کے لیے لائی ہوئی رقم ،اُس کی نازبرداری میں اُڑادی۔ باتوں باتوں میں گھرسے نکل جانے کے ساتھ؛ اگروہ نہ ملا، توزہر کھالینے کی بات بھی کہہ ڈالی،رانی نے۔جس پرپردیپ نے سرکاری نوکری کے ساتھ اپنی چاربہنوں کی شادی کی ذِمّے داری کی بات کہہ کردامن چھُڑا لیا،اپنا۔ گھرلوٹنے پررانی نے اُداس مُن59ہ بناکررقم گر جانے کی بات بنائی ،توماں نے پٹائی کر کے ،رانی سے اُس کی عاشقی کا ساراپٹاراکھلوالیا۔جس پرماں نے رورو کراپنی زندگی کی داستاں سناتے ہوئے کہا: ’’یہ پنشن نہ ہوتی تومیں اپنی زندگی کس طرح گزارتی.؟تٗو بھی، جیسے بھی ہو، پردیپ کو پٹا کرنکل لے..!اُس کے ساتھ۔سرکاری نوکری والا ہے۔ پنشن بھی ملے گی۔‘‘ جب رانی نے بتایا کہ وہ راضی نہیں ،تو ماں نے رانی سے پردیپ کانمبر لے کردو چار بار بات کر کے اپنے کہنہ مشق ہتکنڈوں سے ،جمنا پرساد کی آنکھ بچاکر، اُس کوگھربلا لیا اور رانی کو مورکھ بتاتے ہوئے،پردیپ کوایک رات کے لیے اپنے یہاں روک کر،کسی اہم پلان کے تحت ہر طرح کی چھوٹ دیتے ہوئے؛رانی کواُس کے سپرد کر دیا۔لیکن رانی ، پردیپ کی نظر میں فریب پہلے ہی کھنگال چکی تھی ؛لہٰذا جب پردیپ ؛اُنگلی سے پہنچے پربے اختیارلپکا،تورانی: چورچورکہہ کرچیخ پڑی۔جمنا پرساد گرتے پڑتے پہنچے گئے۔ محّلے کے لوگ بھی اِکٹّھے ہوگئے۔رانی کی امّی نے پردیپ کو چھُپا کر،رانی کویہ کہتے ہوئے پیٹ ڈالا: ’’ حرام زادی…! خواب میں چلّاتی ہے۔‘‘صبح ہوئی تومحلے والوں کی مشکوک نگاہوں نے رانی سے سوالات کرناشروع کر دِیے۔اُس کے بعد پردیپ نے کبھی پلٹ کر نہیں دیکھا۔
وقت گزرتاگیا۔جمناکمزورہوتے گئے۔اُن کوصرف دوروٹیوں کے علاوہ کوئی اورتمنّانہ رہی۔وہ جب اپنی پنشن،رانی کی امّی کے سپردکردیتے ،تورانی کولگتاکہ امّی کی پنشن دوگنی ہوگئی۔رانی کی امّی نے ڈبل پنشن سے ،رانی کے ہاتھ پیلے کرنے کی فکرمیں کچھ رقم بچانی شروع کر دی۔
ایک روزجمنا کواچانک ہارٹ اَٹیک کادورہ پڑا۔رانی اوراُس کی امّی کولگا کہ اُن کی ایک ہی پنشن رہ گئی، لہٰذارانی اور امّی نے بچائی ہوئی رقم پھونک کرجمناکو بچا کر ڈبل پنشن برقرار کرلی۔
وقت کا پہیّااپنی رفتارسے گھومتارہا۔ایک صبح رانی کو پتاچلا؛ امّی رات ہمیشہ کے لیے سو گئیں۔رانی؛ روپیٹ کربیٹھ رہی۔جمناکی کمزوری کی وجہ سے گھر کی ساری ذِمّے داریاں رانی کوسنبھالنی پڑیں ۔ماں کی موت کاخرچ طوفان کی مانندساری رقم اُڑالے گیا۔ گھرکے اِخراجات نے کئی باررانی کوجمناپرسادکے سامنے ہاتھ پھیلانے پر مجبور کر دیا ۔
رانی،؛جمنا پرسادکے ساتھ جا کرپنشن لے آتی۔وہ اکثرسوچتی: اُس کے پاس نہ جہیزہے اورنہ کوئی جاے داد۔اُس کی گاڑی جمنا پرسادکی پنشن تک چلے گی ۔جمنابھی تو پکے آم ہیں۔پتا نہیں کب ٹپک پڑیں…؟اُن کی زندگی بھی چٹخے گھڑے سے پانی کی طرح رِستی جا رہی ہے۔ امّی کی زندگی توپاپا کی پنشن سے کٹ گئی۔جمناکے بعد پاپا کی معمولی سی پنشن سے اَس من59ہگائی کے دور میں کیاہوسکے گا….؟ جمناپرسادکی کم زوری دیکھ کررانی کوپہاڑجیسی زندگی کاٹنے کی فکر ستانے لگی۔اِسی سوچ میں،ایک رات جمناپرسادکے پیردابتے دابتے کچھ سو چ کر اُس کی سانسیں تیزہو گئیں، دِل دھڑکنے لگا،پسینا آگیا ، اور ہاتھ اُوپر کو بڑھ کر حد پارکر گیا۔بیل سے دیوار کارشتہ گہرا دیکھ کر جمنا پرساد کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔وہ سوکھے پتّے کی طرح سمندرکی تندلہروں پربے جان سے بہتے چلے گئے۔کچھ دیربعداُن کاجسم لرزا، زبان گنگ ہوئی اوراِنبساط کے ساتوں سمندروں سے سرشار ہوگئے۔ چراغِ حظ تھرتھرایا، لرز ہ اوربھڑک کرخاموش ہو گیا۔ رانی کولگاکہ اگلی بارمنزل خود بہ خود اُس کے قدموں تلے ہو گی،اورہوابھی یہی۔ اگلی رات اُس نے جیسے ہی سیڑھی کے اگلے ڈنڈے پرقدم رکھا؛ جمناپرسادکے ہلکے سے اِشارے پراُس کاجسم ڈھیلا پڑکراُن کے پہلومیں لُڑھک گیا، جمنا کے جسم میں شعلے بھڑکے اور دودھ میں اُپھان آکرساری حدیں پارکر گیااورمچھلی کو ریت پر زندگی مل گئی ۔
اگلی صبح رانی نے جمنا پرسادکوکچہری لے جا کرجھٹ سے کورٹ میرج کے کاغذات بنوائے اور مجسٹریٹ کے سامنے دست خط کر کے پنشن پکّی کرلی۔
آج چمپواخبارکی سرخی کچھ اِس طرح پڑھ کر لوگوں کے گھروں میں اخبارپھینکتا چلاجارہاتھا۔
’’جمنا کا انتم سنسکار ، رانی پنشن کی حق دار۔
تھی یہ ضرورت..؟یاتھاپیار…؟جانے ہے ،ساراسنسار۔‘‘
*****
حنیف سیّد ،۳۴ ؍ ۱۲۔سوئی کٹرہ۔ آگرہ ۲۸۲۰۰۳۔(یو،پی) .HANIF SYED, 12\ 34,SUI KATRA, AGRA 282003 (U
Cell : 09319529720, 07520762058, ,. http://hanifsyed.weebly.com
ََََََََََََََََََََََََ