افسانہ : گھوم رے سورج
سید ماجد شاہ
مکان نمبر ۱۸۸،سٹریٹ نمبر ۲۴
آئی نائن ون ،اسلام آباد
’’جب سورج تمہاری آنکھوں کی پُتلیوں میں جذب ہو جائے گا۔۔۔ جب اس کی تیز روشنی تمہاری بینائی کے سامنے دم توڑ دے گی۔۔۔ جب وہ تمہاری جرأت کے سامنے اپنی ہستی مٹا دے گا۔۔۔تب۔۔۔اریش! تب تم اسے جو حکم دو گی،وہ مانے گا۔۔۔ وہ مجبور کر دیا جائے گا۔۔۔ اس روز وقت لپیٹ لیا جائے گا۔۔۔ماضی،مستقبل بن کر پھرتمہاری دسترس میں ہو گا۔۔۔ یہ تپ بہت کڑی ہے۔۔۔جان جائے گی یامراد بر آئے گی۔۔۔اریش!’’ یاآنکھیں نہیں ہیں۔۔۔ یا ماضی‘‘۔۔۔اس نے ان آنکھوں کا کیا کرنا تھا۔
۔۔۔دن کا ایک بج رہا تھا۔۔۔
سفید کپڑوں میں ملبوس اریش صحرا کے اونچے ٹیلے پر رُک گئی۔تیز لُو کے تھپیڑے جسم جلا رہے تھے لیکن وہ روز کی طرح بڑے اعتمادسے سورج کو دیکھنے لگی۔۔۔بغیر پلک جھپکے۔۔۔ اسے لُو کا احساس تھانہ نظر پر دھوپ کی شدت کا بوجھ۔۔۔
اریش ایک نقطے پر نظریں جمائے۔۔۔ریت پر بیٹھ گئی۔۔۔بیٹھی رہی۔۔۔ بالآخر ایک مدّت کی ریاضت رنگ لائی۔۔۔ سورج رنگ بدلنے لگا۔۔۔ زرد ہوا۔۔۔ تانبے کا تھال بنا۔۔۔سیاہ ہوا۔۔۔اوردھبہ بن کر غائب ہو گیا۔۔۔اس نے جادوگرکا سکھایا منتر پڑھنا بند کر دیا۔۔۔ اور حکم چلانے کے لیے تیار ہو گئی۔۔۔ ’’میں! اریش بنتِ سعادت، عمراکیاون سال،جو پچھلے اکتیس سال سے رحمت وَلدکرامت کے نکاح میں ہوں۔۔۔ تجھے حکم دیتی ہوں کہ تو میرے اشارے پر اُلٹا گھوم جا۔‘‘
اس نے سانس روک لی۔۔۔جھریوں بھرے غلاف آنکھوں پر گرا دیے۔۔۔ سلوٹیں پڑی انگلی سے سورج کو اشارہ کیا اور زیرِ لب کہنے لگی۔
’’گھوم رے سورج، اُلٹاگھوم۔‘‘
’’گھووووم رے سورج، اُلٹا گھوووم۔‘‘
اس کی آواز میں تیزی آنے لگی۔۔۔وقت کا پہیہ رُک گیا۔۔۔سورج واپسی پرآمادہ ہو گیا۔۔۔مشرق کی طرف سرکنے لگا۔۔۔وہ دہرا تی رہی۔۔۔ ’’گھوووووم رے سورج،اُلٹا گھووووم‘‘۔۔۔ایک ’’دن‘‘ ماضی کے دھندلکے سے باہر آگیا۔۔۔اریش نے سورج کو رکنے کا اشارہ کیا۔۔۔وہ رک گیا۔۔۔اس نے دماغ کے خلیوں میں جھانکا۔۔۔ وہ کل،جو ماضی تھا۔۔۔ اب مستقبل بناپوری آب وتاب کے ساتھ سانسیں لے رہا تھا۔۔۔ ’’یہ ہوئی نا بات‘‘۔۔۔ایک بار پھر دماغ کے کٹورے سے خیال انڈیل کراسے خالی کر دیا گیا اور کہنا شروع کیا۔۔۔’’ گھوووم رے سورج، اُلٹا گھوم۔‘‘
سورج مغرب سے طلوع ہو کر مشرق میں غروب ہو نے لگا۔۔۔تین سو پینسٹھویں چکر پر سورج ،اریش کے حکم پر رک گیا۔۔۔
دماغ خیالوں سے بھر گیا۔۔۔پورا ایک سال۔۔۔جو،اب ماضی بھی تھااور مستقبل بھی۔۔۔ہر بات اسے یاد تھی۔پورے کرب اور دکھ کے ساتھ۔۔۔وہ خوش ہوئی۔۔۔توجہ۔۔۔یکسوئی۔۔۔’’گھوم رے سورج، اُلٹا گھوم‘‘۔۔۔شامیں،صبح ہوئی جاتی تھیں۔۔۔پیلے سوکھے پتے، سبز ہو کرتازہ کونپلیں بن کر گم ہو ئے جاتے تھے۔مرجھائے پھول،نوخیز کلیوں میں تبدیل ہو ئے جاتے تھے۔۔۔وہ۔۔۔ وہ بیس سال کی لڑکی بن گئی۔
اس نے خوبصورت، شہتوت کی ٹہنی سی لچکدار لانبی انگلی سے اشارہ کیا اور آگ کا گولا رک گیا۔ مہرِدرخشاں اپنی آب و تاب پر آگیا۔اس کی غلامی ختم ہوئی۔۔۔اریش کا امتحان شروع ہو گیا۔
وہ اپنے کمرے میں تھی۔ڈھولک کی آواز،وہ لرز گئی۔۔۔اکتیس سال۔۔۔ جو اَب ماضی بھی تھے اور مستقبل بھی، دماغ کے ننھے ننھے خلیوں کے آبگینوں میں چمک رہے تھے۔
اب وہ بیس سال کی لڑکی تھی۔۔۔قدِآدم آئینہ کے سامنے آئی تو خود آئینہ ہو گئی۔سب غم واَلم بھول گئی۔ماضی، حال اور مستقبل سے بے نیاز ہو کرخود میں محو ہو گئی۔ بے سا ختہ اپنے چہرے اور جسم کو چھوا تو شرما گئی۔۔۔ ڈھولک کی تھاپ نے اسے چونکا دیا۔۔۔ وہ فکر مند ہو گئی۔۔۔ماضی کی ایک غلطی اور اتنی سخت سزا۔۔۔اکتیس سال۔۔۔عمر قیدکی سزا پانے والے بھی چودہ سال بند رکھے جاتے ہیں۔
اکتیس سال کا سوچ کر اس نے جھر جھری لی۔۔۔اب حیرت سے اس کا دل پسلیاں توڑنے لگا۔۔۔اس کی ساری ریاضت، اس کا سارا تپ،اس غلطی کو درست کرنے کے لیے تھا۔۔۔وہ کامیاب ہوئی۔۔۔ڈھولک کی تھاپ۔۔۔اپنے کمرے کو دوبارہ دیکھ کر اس کی آنکھوں میں نمی آگئی۔اس نے مختلف چیزوں کو چھو کر دیکھا۔
جب ذرا بحال ہوئی تو دھوپ کے ریزے تاریکی کے جاروب کی زَد میں آئے ہوئے تھے۔۔۔ڈھولک کی مدھم تھاپ سے اس کا دل دہل رہا تھا۔اس نے فوراً الماری کھولی۔چراغ کے تیل باتی دیکھے۔سب ٹھیک تھا۔اس نے چراغ اٹھایا اور دیوانوں کی طرح کھڑ کی کے پٹ کھول کرچراغ عین اس جگہ رکھا جہاں سے وہ دور درختوں کی اَوٹ سے نظر آتا تھا۔جہاں سے، شہزاد چاندنی پر قدم رکھتا، اَوس کی رِم ِ جھم میں بھیگا،کمرے میں آتا تھا۔اس نے شہزاد کا لمس اور خوشبو محسوس کی تو۔۔۔اچانک ذہن کے ننھے آبگینوں میں اکتیس سال کی تلخی گھوم گئی۔وہ بے چینی سے ٹہلنے لگی۔۔۔ اس نے خود کو پھر سے اکٹھا کیا۔ وہ بہت ریاضت کے بعد آئی تھی۔ پوری کائنات میں صرف اسے قدرت نے یہ موقع دیا تھا۔ورنہ ایسا کہیں ہوتا ہے ؟کبھی سورج بھی اُلٹا گھومتا ہے؟وہ کیسے کمزور پڑ سکتی ہے؟
وہ فیصلہ بدلنے آئی تھی۔ پہلے بھی اس نے چراغ روشن نہیں کیا تھا۔۔۔اور زندگی اندھیر کر لی تھی۔۔۔اب وہ بیس سال کی بچی نہیں تھی۔جو عشق اور عیاشی کا فرق نہ جانتی ہو۔ اس پروہ حقیقت منکشف ہوئی تھی جوکبھی کسی پرنہ ہوئی تھی۔اس بار وہ چکی میں نہیں پسے گی۔ و ہ پھر الماری کی طرف پلٹی اور دیا سلائی لا کر چراغ کے ساتھ رکھ دی۔
اسے خیال آیا کے اس رات شہزاد، کس امید سے،کتنی دیر تک بے نور دریچے کو تکتا رہا ہو گا۔
اچانک دروازہ کھلا اور خالہ بلقیس تیزی سے اندر داخل ہوئیں۔اریش کی تو جان ہی نکل گئی۔ ’’ اری لڑکی! تو ِ کدھر ہے؟چل نیچے لڑکیاں تیرا انتظار کر رہی ہیں۔‘‘
وہ اس طرح بات کر رہی تھیں، جیسے ابھی دس منٹ پہلے ملی ہوں جبکہ یہ انھیں ایک مدت کے بعد دیکھ رہی تھی۔’’چل میری لاڈو ! نیچے لڑکیاں انتظار کر رہی ہیں۔ چل!‘‘ وہ تیزی سے بول رہی تھیں۔ وہ اسے نیچے لے گئیں۔اریش رکنے کی کوشش کے باوجود اس بھروسے پر چل دی کہ اسے کوئی واقعہ کمزور نہیں کر سکے گا۔وہ بہت ریاضت کر کے آئی تھی۔اس نے وہ کیا جو کہیں نہیں ہوتا، اس نے وہ کیاجو پھرکبھی نہ ہو گا۔
گھر میں وہی گہما گہمی تھی۔ بھائی بھاگ بھاگ کے کام کر رہے ہیں۔ بہنیں نئے کپڑے سنبھالتیں اِدھر سے اُدھر دوڑتی جاتی ہیں۔ کام کاج والیاں، امّاں کے اشاروں پر روبوٹ بنی ہوئی ہیں۔پورے منظر پر رعب اور دبدبہ اس وقت طاری ہو جاتاتھا جب ابّا اپنی اَنا سے اونچا کلاہ پہنے، اس منظر سے گزر جاتے تھے۔ اَبّا کے سفید اجلے کپڑوں کی بھڑک اسے جان سے عزیز تھی۔آج روشنی بہت تیز تھی۔ باپ کے کپڑوں سے اٹھتی کرنوں نے اس کی آنکھوں کو خیرہ کر دیا۔مرے ہوئے باپ کو جیتا جاگتا دیکھ کر۔۔۔وہ نظریں چرانے لگی۔۔۔ احساسِ جرم ماتھے پر ننھی ننھی بوندوں میں چمکنے لگا۔وہ ویسے بھی آج کچھ نہیں دیکھنا چاہتی تھی ورنہ چشمِ تخیل اسے رہ رہ کر شادی پر ناچتی خوشیاں اور ڈھولک پر بیٹی کی پاک دامنی اور عزت کا ڈھنڈورا برباد ہوتا دکھا رہی تھی۔وہ کچھ سوچنا نہیں چاہتی تھی۔ پاس سے گزرتی چھوٹی بہن،تحریم نے پوچھا،’’ آپی ! برتنوں والی الماری کی چابیاں کہاں ہیں ؟‘‘اس نے بے دھیا نی میں جواب دیا۔’’امی کے بیڈ والے دراز میں‘‘۔۔۔ بھائی پیار سے سر پر ہاتھ پھیر کر گزرگیا۔۔۔وہ چونک گئی۔۔۔یہ سب تو وہی ہو رہا تھا۔۔۔ جیسا اکتیس سال پہلے ہوا تھا۔۔۔ وہ غش کھا کر گرنے لگی تھی۔۔۔بہن کی عزت،بھائی کی غیرت، آخر وہ کیوں تھی؟باپ کی پگڑی کا کلف وہ کیوں بنے؟وہ پرائی اَنا کی سولی پر اکتیس سال گزار چکی تھی۔۔۔ اکتیس سال۔۔۔یعنی ایک پوری زندگی۔۔۔وہ چکرا گئی۔۔۔خالہ بلقیس سے ہاتھ چھڑا کر کمرے کی طرف چل دی۔۔۔ سیڑھیاں چڑھنے لگی۔اماں سے نظریں چار ہوئیں۔۔۔ ان کی آنکھوں سے پیار کی آبشاریں پھوٹ رہی تھیں۔۔۔موت گھوم گئی اس کے سامنے۔۔۔وہ جانتی تھی۔۔۔آج کے بعد۔۔۔یہ آبشاریں خشک ہو جائیں گی۔۔۔اور ان پیاری آنکھوں سے،قطرہ قطرہ بد نصیبی عمر بھر ٹپکتی رہے گی۔۔۔ مستقبل۔۔۔بھیانک مستقبل۔۔۔ جو ماضی بھی رہ چکا تھا۔۔۔وہ بہت ریاضت کر کے آئی تھی جو کام آئی۔۔۔ ورنہ وہ اپنے قدموں پر کمرے تک نہ پہنچ سکتی۔۔۔ کمرا بند کر لیا اس نے۔۔۔ننھے آبگینوں میں اکتیس سالوں کی یادیں وہ اسی لیے لائی تھی کہ فیصلہ نہ بدل سکے۔ چراغ روشن ہو گا۔آج دریچے سے نور کی کرنیں دشمنوں کے لڑکے کی آنکھیں روشن کریں گی۔۔۔ باپ کا شملہ جلتا ہے تو جلے۔۔۔بھائیوں کی گردن میں وہ اپنی حسرتوں کا سریا نہیں ڈال سکتی تھی۔۔۔وہ یہ جملے منتر کی طرح ورد کیے جا رہی تھی۔۔۔لیکن خاندان کی محبت کچھ اور تصویریں دکھانے لگی تھی۔۔۔اُس نے باپ کو ننگے سر کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اونچے کلاہ کے بغیر باپ کیساکمی کمین لگے گا۔۔۔ماں۔۔۔بھائی۔۔۔ بہن۔۔۔ چھوٹی۔۔۔ اس کا سر چکرا رہا تھا۔۔۔ وہ ورد تیزی سے کرنے لگی تھی۔۔۔وہ عزت، غیرت کی بھینٹ چڑھ چکی تھی۔۔۔درجنوں لوگوں کے قاتل کوایک بارسزائے موت ہوتی ہے۔ اسے دو بار کیوں؟؟ قدرت صرف اس پر مہربان ہوئی تھی۔۔۔سورج کہاں کسی کے کہنے پر گھوما تھا۔۔۔نہیں۔۔۔اب فیصلہ۔۔۔ وہ نہیں ہو گا۔۔ اس نے کچھ اچھا سوچنے کی کوشش کی۔۔۔شہزاد کا چہرہ۔۔۔جس کی ریاضت وقت اُلٹا چکی تھی۔۔۔اس کے سامنے تصویر گھومنے لگی۔۔۔چاند میں اس کے چہرے کی روشنی تھی۔۔۔ستاروں میں اس کی آنکھوں کی چمک تھی۔۔۔پھولوں میں اس کے رنگ۔۔۔ پھلوں میں اس کی مٹھاس۔۔۔ کانٹوں میں اس کا تیکھا پن۔۔۔اندھیروں میں اس کی آنکھوں کی کالک۔۔۔کھیتوں میں اسی کی لہک۔۔۔نہروں میں اسی کی روانی۔۔۔پہاڑوں میں اسی
کے ارادے۔۔۔وہ۔۔۔ وہ لڑکا نہیں تھا۔۔۔ پوری کائنات سمٹ کر آگئی تھی اس میں یا بکھر کر،وہ خود کائنات ہو گیا تھا۔۔۔ چراغ جلنے پر آتا تھا۔۔۔دریچے کی چرمراہٹ کے بغیر۔۔۔ اندھیرے کی چادر اوڑھے،چراغ کی کرنوں پر قدم رکھتا۔۔۔وہ کیسا وقت کا شہسوار تھا۔۔۔ایک چابک لگاتا اور ہم لمحوں میں صبح کی دہلیز پر پہنچ جاتے۔۔۔اس کے جاتے ہی گھڑیاں پولیو زدہ ہو جاتی تھیں۔
اس نے سوچا اکتیس سال پہلے وہ درختوں کی اَوٹ سے دیکھتا رہا ہو گا۔۔۔ تڑپتا۔۔۔ کسمساتا۔۔۔گالیاں بکتا رہا ہو گا۔۔۔ کمینہ کیسی ننگی گالیاں بکتا تھا۔۔۔وہ خود سے شرماگئی۔۔۔وہ رات اس پر کتنی بھاری گزری ہو گی۔۔۔وہ کہا کرتا تھا’’میری سانسوں کی ڈوری،تیرے دریچے کی کرنوں سے بندھی ہے ‘‘۔۔۔ وہ زندہ رہا ؟مرگیا تھا؟۔۔۔وہ تو دریچے کی تاریکی اوڑھ کرمیرے اکتیس سال اپنی بُکل میں لپیٹ کر کہیں لے گیا تھا۔۔۔ اس رات دریچہ روشن نہ کر کے اس نے اپنی زندگی تیل باتی سے محروم کر لی تھی۔۔۔وہ کہاں چلا گی تھا۔۔۔ دشمنوں کے لڑکے کی خبر تو بادِ صبا بھی نہیں لایا کرتی۔۔۔اس نے سوچا بن خوشبو لگائے۔۔۔ اس سے کیسی خوشگوار،تیزاورگرم خوشبو آتی تھی۔۔۔خوشبو کے جھونکے۔۔۔اچانک اسے تلخ ماضی کی طرف لے گئے جو اَب مستقبل بھی تھا۔۔۔ شوہر ۔۔۔جلاد۔۔۔ بدشکل۔۔۔بد شکل شوہر برداشت کر لیا جاتا ہے۔۔۔ پراس کے شوہر میں کرختگی اور بدصورتی ہڈیوں کے گودے سے روح کی پنہائیوں تک شامل تھی۔۔۔بعض لوگوں کو شاید مٹی سے نہیں بنایا جاتا۔۔۔ساس،نندیں۔۔۔پھر۔۔۔رکھیلیں۔۔۔ سوکنیں ۔۔۔اس کی آنکھوں میں چھلک آئیں۔۔۔اس نے آنسو اِس بے دردی سے صاف کر کے جھٹکے۔۔۔جیسے سب کو زمین پر پٹخ دیا ہو۔۔۔وہ آئی بھی سب کو پٹخنے اور نیچا دکھانے تھی۔
ُ حسن،پجاری سے ہوتا ہے۔وہاں وہ داسیوں سے بد تر تھی۔اس کا پجاری سامنے درختوں کی اَوٹ میں تھا۔۔۔اکتیس سال کی آگ میں جل کر اس پر انکشاف ہوا تھا۔۔۔ ہر انسان خودُ حسن کا خداہوتا ہے۔۔۔لیکن صرف کسی ایک پجاری کے لیے۔۔۔ پرستار، جزوقتی جنونی اورٹشوپیپرکی ذہنیت والے لاکھوں تلوے چاٹتے پھرتے ہیں۔مصیبت یہی ہے کہ اس واحد عبادت گزار کو تلاش کرنا پڑتا ہے۔۔۔وہ نہ ملے۔۔۔مر جائے۔۔۔ شک کی چادر اوڑھ لے،تو بد نصیبوں کو جنگلوں،صحراؤں میں کھپنا پڑتا ہے۔۔۔آگ میں جلنا پڑتاہے۔۔۔وہم باہر ُ بت تراشتا ہے۔۔۔سجدے کرواتا ہے۔۔۔سنگلاخ زمینوں پرماتھے گھسواتا ہے۔۔۔سیاہی ملتا ہے۔۔۔ پر کچھ ہاتھ نہیں آتا۔۔۔کتنی عجیب بات تھی۔۔۔پجاری کی وحدت۔۔۔نہ کہیں سنی نہ دیکھی۔۔۔اپنے اندر، کاملُ حسن کے دیوتاکی تسکین کے لیے۔۔۔یہ باتیں لوگوں کے لیے عجیب تھیں۔ اریش پر یہ عقدہ کھل چکا تھا۔وہ توحیدکی قائل ہو کر آئی تھی اور یہ توحید پجاری کی توحید تھی۔ وہ فیصلہ کیسے بدل سکتی تھی؟؟؟۔۔۔ منتر ویسے تو کار گر نہیں ہوا تھا۔۔۔’’گھوم رے سورج اُلٹا گھوم‘‘ ۔۔۔اور وہ گھوما تھا۔۔۔وہ ریاضت کر کے آئی تھی۔۔۔اکتیس سال۔۔۔ جہاں ایک پَل، سوئی بن کرخلیہ خلیہ اس میں پروتا تھا۔۔۔اب نہیں۔۔۔ وہ جلدی سے کھڑکی کی طرف لپکی۔۔۔اس نے کانپتے ہاتھوں سے دیا سلائی جلائی۔۔۔وہ نہیں جلی۔۔۔تیزی سے دوسری جلائی، جلتی تیلی ہاتھ سے گر گئی۔۔۔ ماں باپ بہن بھائی۔۔۔اندر حُسنِ کامل کی طلب۔۔۔وہ کیوں آئی تھی واپس؟؟؟ اس کا جی چاہ رہا تھا کہ اتنا روئے، اتنا روئے کہ اپنی آنکھوں کے پانی میں ڈوب کر مر جائے۔۔۔خود پر جبر کر کے اس نے چراغ روشن کر دیا۔۔۔کرنیں دریچے سے درختوں کی اَوٹ میں جاتی
رہیں۔۔۔ جاتی رہیں۔۔۔وہ کھڑکی سے سر ٹیک کر بیٹھ گئی۔۔۔ پتوں میں سر سراہٹ ہوئی تو اس نے خوشی آمیزبے چینی سے دیکھا۔۔۔ ہوا چل پڑی تھی۔ تیز ہوا میں چراغ جل رہا تھا۔۔۔ہوا اس کے گھنیرے بالوں سے اَٹکھیلیاں کرنے لگی۔ ہونٹوں،گالوں اور کانوں سے بال مَس ہونے لگے۔۔۔ اسے خوشگوار احساس ہوا۔۔۔شہزاد۔۔۔؟ہوا تیز تھی، چراغ جل رہا تھا۔۔۔ چراغ کی کرنوں پر آج تیرگی کے ناگ کمرے میں داخل ہو تے رہے۔۔۔پر اس کا عزم آ ہنی تھا۔
اکتیس سال کے عذاب جتنا بوجھ اُٹھائے۔۔۔رات گزر گئی۔۔۔جب صبح اسے، اسی بدصورت کی ڈولی میں بٹھایا جارہا تھاتو اس نے سورج کو اِس حقارت سے دیکھا، جیسے وہ ایک بار پھر اسے گھمانے کی جرأت رکھتی ہو۔