عید الفطراور گلدستہ عید
محمد رضی الدین معظم
مکان نمبر 20-3-866 ’’رحیم منزل ‘‘ ، شاہ گنج ، حیدرآباد ۔2
سیل: +914069990266, 09848615340
نوٹ : احبابِ جہانِ اردو کی خدمت میں عیدالفطر کی رحمتیں ‘ سعادتیں اور برکتیں بہت بہت مبارک ہوں ۔ اس مناسبت سے ہمارے معزز قلمکار محترم رضی الدین معظم صاحب کا ایک مضمون پیشِ خدمت ہے ۔
ماہ معظم و مکرم رمضان المبارک کا چاند جب طلوع ہوا تھا ‘ تو اپنے ساتھ اللہ کی رحمت و مغفرت فیوض و برکات کے تحفے دامن عالم کے لئے بھر کر لایا تھا اور اس نے یہ سارے کے سارے تحفے اللہ کے چاہنے والے ممتاز معظم بندوں تک جنہوں نے بحالت روزہ ٹی وی‘ ریڈیو کی حرام کاریوں‘ کرکٹ کامنٹری وغیرہ کی لعنتوں‘ فضول‘ بکواس‘ لڑائی جھگڑے‘ فحش کلامی‘ دل آزاری شکوہ و شکایت سے دور بہت دور اپنے جسم و جاں کو ان تمام برائیوں سے محفوظ رکھ کر خاموشی‘ ذکر کرنا‘ سونا عبادت اور عبادات و تلاوت قرآن بے پناہ کے فیض سے مشرف رکھا تھا۔ نام بنام پہنچادے اور اپنی ساری جھولیاں ان پر نچھاور کردیں‘ مگر وہ مہینہ بھر کے شب و روز کو لپٹ کر رخصت ہوا تو انتہائی گراں بار بھی تھا‘ جتنا کہ آتے وقت تھا۔ جاتے وقت اللہ کے ممتاز معظم بندوں کی عبادات نیکیاں‘ زکوٰۃ ‘ صدقات‘ خیرات اور بھلائیوں کو ذرہ ذرہ سمیٹ کر لے گیا کہ انہیں اللہ جل شانہ کے سامنے ان کو پیش کرے گا اور ایک ایک روزہ دار کی سفارش و شفاعت کے لئے کہے گا۔
’’اے رب کریم میری شفاعت قبول فرما‘‘۔ اس کی تائید میں قرآن مکرم بھی بارگاہ رب العزت میں عرض کرے گا میں نے انہیں رات کے آرام سے روکے رکھا ‘ تو میری شفاعت ان کے حق میں قبول فرما۔ روزہ کہے گا کہ میں نے اسے بھوک پیاس جائز مباشرت سے روک کر جسمانی روحانی اذیت دی اور اس نے میری خاطر بخوشی ان کو برداشت کرلیا۔ میری شفاعت ان کے حق میں قبول فرما اور ان کی منہ مانگی مرادیں پوری فرما۔ اللہ رب العزت رمضان المبارک کے روزہ اور قرآن معظم کی شفاعتوں کو قبول کرکے روزہ دار کی مغفرت فرمادیتے ہیں اور مرادیں بھی پوری کردیتے ہیں ۔ ماشاء اللہ سبحان اللہ اللھم زد فزد۔
اب جبکہ ہلال عید الفطر نمودار ہوچکا ہے ۔ بقول شاعر
آمیرے چاند عید کا روزہ حرام ہے
کس طرح تری شکل کا بھوکا منائے عید
عید الفطر ‘ فطرہ اور نماز دوگانہ پر مشتمل ہے۔ فطرہ حقوق العباد اور نماز دوگانہ حقوق اللہ ہے۔ حضور نبی ممتاز معظم المرسلین رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز و فطرہ میں فطرہ کو نماز پر ترجیح دی اور تاکید فرمائی کہ لوگو نماز عید سے قبل فطرہ ادا کردو اجر عظیم ہے۔
صدقہ فطر واجب ہے: صدقہ فطر واجب ہے ۔ لہٰذا واجب ہونے کی تین شرائط ہیں۔ آزاد ‘ مسلمان اور تیسرے کسی ایسے نصاب کا مالک ہونا جو حاجت اصلی سے زائد اور قرض دار نہ ہو ۔ ہاں البتہ مال کا نامی (بڑھنے والا) ہونا یا اس پر ایک سال کا گزر جانا شرط نہیں اور نہ مال کا تجارتی ہونا یا صاحب مال کا بالغ و عاقل ہونا بھی ضروری نہیں‘ بلکہ نابالغ اولاد اور مجنون و ماؤف الذہن پر بھی صدقہ فطر واجب ہے ۔ ان کے اولیاء و والدین کو ان کی طرف سے بلا لحاظ عمر ادا کرنا واجب ہے۔ صدقہ فطر اپنی ذات کی طرف سے نیز اپنی نابالغ اولاد کی طرف سے ادا کرنا واجب ہے‘ لیکن اگر خود نابالغوں کا مال ہو ‘ تو ان کے مال میں سے ادا کریں۔ بالغ اولاد اور بیوی کی طرف سے صدقہ فطر ادا کرنا واجب نہیں۔ البتہ مجنون ہوں تو ان کی طرف سے ادا کرنا واجب ہے۔ والدہ پر اپنے چھوٹے بچوں کی طرف سے صدقہ فطر واجب نہیں‘ البتہ جو اولاد یوم عیدالفطر کو صبح صادق سے پہلے پیدا ہوجائے تو اس کی طرف سے بھی صدقہ فطر واجب ہے‘ البتہ ایسا شخص جو صبح صادق سے قبل انتقال کرجائے‘ تو اسی کے مال سے ادا کرنا واجب ہے۔ شوہر پربیوی کا صدقہ فطر واجب نہیں ‘ بیوی خود اپنے مال سے ادا کرے۔
صاحب نصاب: صاحب نصاب پر صدقہ فطر واجب ہے‘ صاحب نصاب یعنی جس کے پاس سونا چاندی کسی حال میں ہو( سونا‘ چاندی‘ زیور‘ برتن وغیرہ) موجود ہو۔ سونے کا نصاب ۲۰ مثقال یعنی ۵ تولے ڈھائی ماشے اور چاندی کا نصاب (۲۰۰) درہم یعنی ۳۶ تولے ساڑھے ۵ ماشے ہو صدقہ فطر اداکرنا واجب ہے۔ ہاں زکوٰۃ کی طرح سال کا گزرنا شرط نہیں‘ جس پر زکوٰۃ واجب ہے‘ اس پر صدقہ فطر واجب ہے۔ صدقہ فطر کے صحیح ہونے میں وہی سب شرائط ہیں‘ جو زکوٰۃ کے صحیح ہونے میں ہیں۔ چالیس روپئے حاجت اصلی سے زائد ہو تو بھی ان پر فطر واجب ہے۔
صدقہ فطر کے مستحقین: صدقہ فطر کے مستحقین میں سب سے پہلے اپنے عزیز و اقارب پھر پڑوسی ‘ پھر محلہ والے‘ پھر شہر قصبہ گاؤں وغیرہ‘ ریاست ملک وغیرہ‘ صحت مند پیشہ ور بھکاریوں کو دینا ثواب نہیں ہے۔ جہاں تک ممکن ہوسکے پوشیدہ شریف حاجت مند بیواؤں‘ یتیموں‘ یسیروں کو جو مارے شرم و حیا کے کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے ہچکچاتے ہیں‘ ان کی ہر طرح خدمت افضل ہے۔ ماں باپ‘ دادا دادی‘ نانا نانی‘ بیٹا بیٹی‘ پوتا پوتی‘ نواسہ نواسی کو زکوٰۃ و صدقہ فطر دینا جائز نہیں ۔ کسی غیر مسلم کو بھی دینا جائز نہیں۔ جن چیزوں میں کسی شخص کو مالک نہ بنایا جائے ‘ ان میں سے مصارف فطرہ خرچ کرنا جائز نہیں۔ مثلاً میت کی تجہیز و تکفین‘ مسجد کی تعمیر و مرمت ‘ اسی طرح کے نیک کام وغیرہ۔ صدقہ فطر کے مستحقین صرف حاجت مند افراد ہی ہیں۔ صدقہ فطر کے مستحقین میں سب سے پہلے اپنے حقیقی و رشتہ کے بھائی بہن اور ان کی اولاد‘ تایا‘ چچا‘ پھوپھا‘ خالو‘ ماموں‘ ان کی بیویاں اولاد وغیرہ۔ ساس‘ سسر‘ بہو‘ داماد کی اولاد وغیرہ ‘ پھر پڑوسی محلے والے وغیرہ شامل ہیں۔ ایک فطرہ ایک ‘ ہی فرد کو دیں یا پھر ایک ہی حاجت مند کو کئی فطرے بھی دے سکتے ہیں۔ ہاں اکثر لوگ اپنے ملازمین‘ گھریلوں کام کاج کے صلہ میں دیتے ہیں۔ ایسا عمل درست نہیں‘ ان کو دیں تو اس کو ان کی تنخواہ میں محسوب نہ کریں۔ اسی طرح مسجد میں امام خطیب ‘ مؤذن کو بھی ان کے معاوضہ میں محسوب کرنا درست نہیں۔ علیحدہ دے سکتے ہیں۔ حدیث شریف میں ہے ‘ حضور نبی ممتاز معظم المرسلین نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔ صدقہ فطر مستحقین کے بعد سب سے زیادہ مستحق علم دین کے طلباء ہیں اور شہر حیدرآباد کی ممتاز معظم دینی درسگاہوں میں جامعہ نظامیہ شبلی گنج‘ حیدرآباد ‘ مدرسہ دارالعلوم النعمانیہ شاہ علی بنڈہ روڈ حیدرآباد ، دارالعلوم ابوالحسنات ، ریاست نگر ، حیدرآباد اور دوسری تمام دینی درسگاہیں شامل ہیں۔ ہاں یہ اچھی طرح ذہن نشین رہے کہ منتظمین مساجد بھی صدقہ فطر جمع کرتے ہیں ‘ لیکن مستحقین کو مالک نہیں بناتیبلکہ مسجد کے کاموں میں لگادیتے ہیں۔ ایسا کرنا سخت ناجائز ہے۔فلاحی کام کرنے والے ادارے مجالس وغیرہ اگر وہ مستحقین کو مالک بنادیں تو جائز ہے۔ متاثرین فسادات کو دینا بھی جائز ہے۔
صدقہ فطر کی مقدار: احادیث شریف میں صدقہ فطر کی ادائی کے لئے صرف چار چیزوں گیہوں‘ جو ‘ کھجور‘ منقیٰ کا ذکر ملتا ہے اور ان کے اوزان بھی ان ہی کی مقدار سے مقرر ہے۔ حنفی مذہب میں صاع کو وزن قرار دیا گیا ہے جو عراقی صاع کہلاتا ہے۔ یعنی ایک صاع بشمول کسرات ڈھائی سیر اور ساڑھے تین سیر تک کا ذکر ہے۔ اب صاع کے لحاظ سے ان چیزوں کی مقدار مقرر ہے۔ یعنی گیہوں ہو تو نصف صاع اور جو‘ کھجور‘ منقیٰ ہو تو ایک صاع مقرر ہے۔ گیہوں اور جو کے دینے سے ان کا آٹا دینا افضل ہے اور اس سے افضل یہ ہے کہ ان کی قیمت دی جائے کہ اس میں حاجت مند کی ضرورت کا زیادہ لحاظ رہتا ہے۔ اسی طرح کھجور اور منقیٰ کی بھی قیمت دینی افضل ہے۔ قیمت کے لحاظ سے دینے کا مطلب یہ ہے کہ گیہوں کے لئے نصف صاع یا اس کی قیمت (سو اسیر تا پونے دو سیر) ایک کلو گرام ۱۶۶ گرام یا ایک کلو گرام ۶۳۲ گرام ) اور جو‘ کھجور‘ منقیٰ کے لئے ایک صاع یا اس کی قیمت‘ (ڈھائی سیر یا ساڑھے تین سیر ۔ ۲ کلو ۳۳۷ یا ۳ کلو ۲۶۵ گرام) دیں۔ حاجت مند کی ضروریات کا لحاظ رکھتے ہوئے زیادہ وزن والے صاع کو تسلیم کرنا اجر عظیم عطا کرتا ہے اور تقویٰ و پرہیزگاری کا مظہر ہے۔ واللہ اعلم ‘ بالصواب۔
گلدستۂ عید
(شعری انتخاب)
ہلال عید
ہلال عید نظر آگیا افق پر آج
گلاب کھلنے لگے جھولتی شفق پر آج
غرّۂ شوال! اے نور نگاہ روزہ دار
آیا کہ تیرے لئے مسلم سراپا انتظار
عید کے چاند تجھے اپنے چمک کی ہے قسم
مسکرا ایسے کہ گھر گھر میں اجالا کردے
جھکایا‘ سر تو نکلا عید کا چاند
ماہ نو ہے خم گردن کسی کا
آ میرے چاند عید کا روزہ حرام ہے
کس طرح تری شکل کا بھوکا منائے عید
انتیسویں کو رخ کی ترے دید ہوگئی
اب چاہے چاند ہو کے نہ ہو عید ہوگئی
عید کا چاند جسے کہتا ہے سارا عالم
میں یہ سمجھا مرے محبوب کی انگڑائی ہے
ہلال عید تجھ کو عید پر تنہا نہ آنا تھا
مری دنیا میں میرے چاند کو بھی ساتھ لانا تھا
ماہ نو دیکھنے تم چھت نہ جانا ہرگز
شہر میں عید کی تاریخ بدل جائے گی
تم تو کوٹھے پر چڑھے تھے دیکھنے کو ماہ نو
تم کو کیوں سارا زمانہ چاند سمجھا عید کا
دیکھا ہلال عید تو محسوس یہ ہوا
شاید کسی حسین کی ابر و الٹ گئی
یہ تو اللہ نے دکھایا ہے
عید کا چاند نظر آیا ہے
تیرے دیددار سے بڑھ کر نہیں کوئی خوشی ہم کو
ہلال عید بھی ہم نے ترا منہ دیکھ کر دیکھا
عید کے چاند غریبوں کو پریشان نہ کر
تجھ کو معلوم نہیں زیست گراں ہے کتنی
ہلال عید نے کچھ ایسا کردیا جادو
ہجوم غم میں بھی مسرور اپنے بیگانے
روزِ عید
وہ بن سنور کے ہیں موقعہ ہے دید کا
دن حشر کا نہیں ہے یہ ہے روز عید کا
عید اس کی ہے جس کی عید کے ساتھ
سو غریبوں کی عید ہوتی ہے
جب وہ نہ ہوں تو عید سے کیا واسطہ مجھے
آئے تو ان کے ساتھ نہیں تو نہ آئے عید
اللہ اللہ یہ قیامت کا نظارہ کیسا
کتنے سنسان کھنڈر سے ہیں یہ گھر عید کے دن
ہر اک مایوس کو بھی کچھ نہ کچھ امید ہوتی ہے
برس دن ہے برس دن عید توپھر عید ہوتی ہے
خوش پھر رہی ہے خلق خدا صبح عید ہے
ہر سمت زیب و زینت ہے دنیا کی دید ہے
یوں برس دن کو کبھی خوشیاں مناتے ہیں مگر
درحقیقت تم جسے مل جاؤ اس کی عید ہے
دل سے دعائیں دیتا ہوں میں روز عید کو
آنکھیں ترس رہی تھیں برس بھر سے دید کو
کھانا بھی کھلانا بھی پہننا بھی ہے نیکی
دیکھے تو کوئی آج جہاں میں اثر عید
مسرور مسلماں نہ ہوں کیوں عید کے دن
ایک ماہ کے روزوں کا اجر ملتا ہے
عید ایک مژدۂ جاں بخش ہے ملت کیلئے
عید انسانی مساوات کا پیغام بھی ہے
یتیم و مفلس و بے کس کا بھی خیال رہے
خوشی میں بھول نہ جاؤ کہ عید کا دن ہے
عید کا پڑھ کر دوگانہ اہل ایماں ہر طرف
ملتے ہیں باہم گلے شور مبارکباد ہے
ملک عدم میں یا رب کیا عید ہورہی ہے
جاتے ہیں مرنے والے کپڑے بدل بدل کر
مناؤ سادگی سے عید یا ماتم کرو رضواں
کہ ایسے غم سے مرحومین کو کیا ہونے والا ہے
اے دوست روز عید شب غم سے کم نہیں
تیرے جب تیری دید ہوتی ہے
ہم غریبوں کی عید ہوتی ہے
حشر تک یاد رہے گی وہ قیامت مجھ کو
عید کے دن وہ تیرا عید مبارک کہنا
خوش ہیں مسکین و غربا ونادار سب
نصرت بے کساں عید رمضان ہے
ہر کسی کو خوشی باٹتی جاتی ہے
مادر مہرباں عید رمضان ہے
شیر خرمے سیویوں کی بہتات ہے
لذت ہر زباں عید رمضان ہے
اللہ اللہ یہ قیامت کا نظارہ کیسے
کتنے سنسان کھنڈر سے ہیں یہ گھر عید کے دن
ہر طرف ہے زکوٰۃ اور فطرے کی بات
دعوتِ نیکیاں عید رمضان ہے
بغیر ساغر مئے سم سے کم نہیں
عید ملاپ
غیر بھی آج آکر گلے ملتے ہیں
کیا پیارا سماں عید رمضان ہے
کرتا ہے مصافحہ تو گلے ملتا ہے کوئی
جذبات مسرت میں ہے ڈوبا اثر عید
ہمیں ملنا ہے مسلم سے ہمیں ملنا ہے ہندو سے
ہماری عید ہے ہم کو سبھی سے عید ملنا ہے
آج ہے وہ روز عشرت آج وہ دن عید کا
ہوتے ہیں آکر بغلگیر آشنا سے آشنا
داغؔ سے عید کے دن بھی نہ ملے وہ آکر
یہ گیا وقت پھر آئے گا بھلا کون سے دن
عید ایک عالم سے مل کر مجھ سے ملنے آئے ہو
آج ایک عالم سے ملنے کا مزہ آیا مجھے
تمیز اپنے پرائے میں کیا ضرور ہے آج
ہر اک سے ہاتھ ملاؤ کہ عید کا دن ہے
کہنے کو مل رہے ہیں گلے آج سب مگر
احباب دل سے دل بھی ملائیں تو عید ہو
عید کا دن ہے گلے آج تو مل لے ظالم
رسم دنیا بھی ہے موقع بھی ہے دستور بھی ہے
عید کے دن تو شوق سے ملئے
سال بھر ہوچکا گلے مل کر
لگا لیا انہیں سینے سے جوش الفت میں
غرض کہ آہی گیا مجھ کو پیار عید کے دن
کم سے کم آج تو اے دوست گلے مل ہم سے
عید کے روز تو دشمن بھی گلے ملتے ہیں
ختم کرلیجے گلے مل کر گِلے
ہر کدورت قلب سے دھوتی ہے عید
عید اور پردیس
رہ گیا اپنے گلے میں ڈال کر باہیں غریب
عید کے دن جس کو غربت میں وطن یاد آگیا
دشتِ غربت میں گلے کس سے ملیں عید کے دن
تری تصویر ہی سینے سے لگا لیتے ہیں
عید کے دن سب ملیں گے اپنے اپنے یار سے
ہم گلے مل مل کے روئیں گئے درو دیوار سے
اپنی آغوش تصور میں بٹھا کر تجھ کو
عید صحرا میں منائی ترے دیوانے سے
ہماری عید تو وابستہ تیری دید سے تھی
جو تو نہیں تو بھلا عید کی خوشی کیسی
عید کی سچی خوشی تو دوستوں کی دید ہے
جو وطن سے دور ہیں کیا خاک ان کی عید ہے
تہنیت عید
خلوص دل سے بہرحال پیش کرتی ہوں
ہزار بار تجھے عید کی مبارک ہو
لوگ کہتے ہیں عید کارڈ جسے یہ روایت ہے اس زمانہ کی
ایک دستک ہے ان کے ذہنوں پر جن کو عادت ہے بھول جانے کی
میرا سلام عید بہرحال کر قبول
اے جان دوست تجھ کو مبارک ہزار عید
دیکھا ہلال عید تو تم یاد آگئے
اس محویت میں عید ہماری گزر گئی
عید کا چاند دیکھ کر ہم نے
ترے دیدار کی دعا مانگی
عید کیسے مناؤں میں لوگو
چاند میرا نظر نہیں آتا
عید آرہی ہے اس کو بھلا خط میں کیا لکھوں
لکھوں سلام عید کا یا کہ دعا لکھوں
مانگنا بھول نہ جانا ہم کو
چاند کو دیکھ کر گر ہاتھ اٹھیں
گل نہ ہوگا تو جشن خوشبو کیا
تم نہ ہوں گے تو عید کیا ہوگی
میری طرف سے عید مبارک ہو آپ کو
بس میرے پاس ہے یہی تحفہ برائے عید
تحفہ مسرتوں کا نہ جب کوئی مل سکا
اشکوں کے ہار لائی پروکر ہماری عید
دیکھا ہلال عید تو آیا ترا خیال
وہ آسماں کا چاند ہے تو میرا چاند ہے
تمہارے چاند سے رخسار کی گردید ہوجاتی
قسم ہے اپنی آنکھوں کی ہماری عید ہوجاتی
کیا لطف عید آپ اگر مجھ سے دور ہیں
گزرے گا روز عید تصور میں آپ کے
ہو مبارک عید کے ایسے ہزاروں دن تمہیں
جب کسی سے عید ملنا یاد کرلینا ہمیں
عید کا دن بھی شب ماتم ہے میرے واسطے
جس خوشی میں وہ نہ آئے وہ خوشی اچھی نہیں
سنو الفاظ کم ہیں اور تمنائیں ہزاروں ہیں
مبارک ہو مری جانب سے تم کو عید کی خوشیاں
دستور ہے دنیا کا مگر یہ تو بتاؤ
ہم کس سے ملیں کس کو کہیں عید مبارک
عید ایک تہوار ہے جس میں گلے ملتے ہیں لوگ
اس ملن سے ختم ہوجاتا ہے آپس کا نفاق