ڈاکٹراسلم فرخی اورمزین تحریری اردو نثر
ڈاکٹرتہمینہ عباس
نوٹ : یہ تبصرہ ڈاکٹر رؤف پاریکھ نے روزنامہ ’’ڈان‘‘ کے لیے تحریر کیا تھا اس کا ترجمہ بطور خاص ’’جہان ارود‘‘ کے لیے کیا گیا ہے ۔ ڈاکٹر تہمینہ عباس
جنوری 2010میں اورینٹل کالج لاہور پنجاب یونیورسٹی میں محمد حسین آزاد کی صدی منائی گئی اس وقت شعبۂ اردو کے صدر تحسین فراقی تھے انھوں نے پروفیسر ڈاکٹر اسلم فرخی سے تقریب کے افتتاحی دن اہم کلیدی تقریر پیش کرنے کی درخواست کی۔ڈاکٹر اسلم فرخی نے اس موقع پر محمد حسین آزاد کی حیات و خدمات کو اس طرح بیان کیا کہ انڈیا پاکستان سے آئے ہوئے تمام اسکالرز اور سامعین ان کا خطاب سننے میں محو ہوگئے ،یقین جانیے، ایسی خاموشی چھا گئی کہ سوئی تک گرنے کی آواز سنائی دے۔یہ مصنفین اب بھی یاد کرتے ہیں کہ اس محفل میں ایک نوجوان نے اپنے برابر میں بیٹھے ہوئے نوجوان سے سرگوشی کی تو ناصر زیدی جو مشہور اردو شاعر ہیں وہ ان طالب علموں سے اگلی قطار میں بیٹھے ہوئے تھے انھوں نے سرگوشی کرنے والے طالب علم کو سخت نظروں سے گھورا اورتنبیہی لہجے میں کہا تمھیں یہ موقع دوبارہ حاصل نہیں ہوگا کہ تم فخر سے بتا سکو کہ تم نے ڈاکٹر اسلم فرخی کو دیکھا تھا اور ان کی تقریر سنی تھی۔
ڈاکٹر اسلم فرخی کے لیے اپنے معاصر ادیب کی جانب سے یہ ایک خراج تحسین تھاانھوں نے بہت اچھے الفاظ میں اظہار عقیدت پیش کیا۔ڈاکٹر اسلم فرخی وہ محقق ہیں جنھوں نے محمد حسین آزاد پر تحقیق کی ، وہ آزاد جیسی نثر لکھنے میں مہارت رکھتے ہیں۔
یہ بہت حوصلہ افزا اور قابل غور بات ہے کہ اسلم فرخی 92 برس کے ہونے کے باوجود دانشورانہ سرگرمیوں میں مصروف ہیں اور ایسی مزین نثر لکھنے میں مصروف ہیں جو ابتدائی دور میں لکھی جاتی تھی آج کل کوئی اس بکھیڑے میں نہیں پڑتا۔ڈاکٹر اسلم فرخی کی نثر یہ بتاتی ہے کہ اب بھی کچھ ادیب ایسے ہیں جو بامحاورہ، نکھری، ستھری نثر لکھ رہے ہیں۔جب کہ دوسری جانب کچھ اخبارات کے مدیر اورکالم نگار بدترین اردو نثر لکھنے کا ایوارڈ جیتنے کی سالانہ دوڑ میں شامل ہیں۔(مجھے یقین ہے کہ یہ دعوی درجنوں لوگوں پہ کیا جاسکتا ہے) ۔ڈاکٹر اسلم فرخی کی نثر قارئین کو غیر معمولی ،حیرت انگیز اور بامحاورہ نثر لکھنے والوں مثلا، میر امن، مرزا غالب،محمد حسین آزاد، خواجہ حسن نظامی،مختار مسعود،جمیل جالبی اور مشتاق یوسفی کی نثر کی یاد دلاتی ہے۔وہ طالب علم جو بہترین اردو نثر لکھنے کا راز جاننا چاہتے ہیں اور ان کے اساتذہ اور کچھ پرانے ادیب(میں ان کا نام لینے میں خوفزدہ ہوں)کو ان نثر نگاروں کی نثر ضرور پڑھنی چاہیے اور یہ غور کرنا چاہیے کہ ڈاکٹر فرخی نے اس روایت کو کس طرح برقرار رکھاہے ۔
90سالہ اسکالر ،ڈاکٹر اسلم فرخی کے خاکوں کا مجموعہ ’’رونق بزم جہاں‘‘ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ وہ بہترین خاکہ نگار ہیں۔ان کی یہ کتاب ’’شہرزاد ‘‘ کراچی سے شائع ہوئی ،اس میں دس خاکے ہیں جو عام بول چال اور مزین اردو نثر میں لکھے گئے ہیں۔جن شخصیات کے خاکے اس کتاب میں شامل ہیں وہ ڈاکٹر فرخی کی تحریر کے ذریعے زندہ نظر آتی ہیں۔ان شخصیات کے حوالے سے خاکوں میں دی گئی تفصیلات ماضی کی سماجی اخلاقیات کی تبدیلی کی تفصیل ہیں۔بامحاورہ زبان، ضرب المثل، عام بول چال،روز مرہ اور کچھ نایاب لفظیات کی وجہ سے کوئی بھی لغت نویس اسلم فرخی کے خاکوں کو نظر انداز نہیں کر سکتا جبکہ ایک عام قاری بھی یہ نثر پڑھ کر خوشی محسوس کرتا ہے۔ان کے دوسرے خاکوں کے مجموعوں کے نام یہ ہیں۔گلدستہ احباب، آنگن میں ستارے، لال کبوتروں کی چھتری،موسم بہار جیسے لوگ،سات آسمان،یہ کتابیں ان کا نام اردو خاکہ نگاروں میں ہمیشہ زندہ رکھیں گی۔محمد حسین آزاد کے علاوہ فرحت اللہ بیگ،مولوی عبدالحق ، رشید احمد صدیقی، شاہد احمد دہلوی،محمد طفیل اور بعض دوسرے خاکہ نگاروں کی طرح ان کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا۔
اسلم فرخی ایک شاعر ، محقق، ماہر تعلیم، نقاد، خاکہ نگار، مصنف، ڈرامہ نگاراور براڈ کاسٹر ہیں۔انھوں نے بچوں کے لیے بے شمار کتابیں تحریر کیں۔23اکتوبر 1923کو لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ان کے خاندان میں ادبی ماحول تھا ادب سے محبت انھیں ورثے میں ملی ان کے والد ،دادا اور بہنیں بھی شعر کہا کرتی تھیں۔ان کا آبائی شہر فتح پور ضلع فرخ آباد (یوپی) ہے۔1947میں فرخی صاحب ہجرت کرکے پاکستان آگئے اور اپنی تعلیم اردو کالج سے (جو اب اردو یونیورسٹی ہے) اور کراچی یونیورسٹی سے مکمل کی۔انھوں نے ریڈیو پاکستان (کراچی) میں بطور اسکرپٹ رائٹر کام کیا ۔اس کے بعد ایم اے اور پی ایچ ڈی مکمل کیا ۔ فرخی صاحب نے ایس ایم کالج ،سینٹرل گورنمنٹ کالج اورجامعہ کراچی میں اردو پڑھائی۔وہ جامعہ کراچی میں پروفیسر،ڈیپارٹمنٹ کے چیئر مین،جامعہ کراچی کے رجسٹرار اور شعبۂ تصنیف و تالیف کے ڈائریکٹر بھی رہے۔ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد انجمن ترقی اردو میں ایڈوائزر رہے اور اردو یونیورسٹی میں اعزازی منتظم اعلی اور پبلی کیشنز کے ڈائریکٹر بھی رہے۔فرخی صاحب کی دوسری کتابیں یہ ہیں۔،محمد حسین آزاد (۲ جلد)، تذکرہ گلشن ہمیشہ بہار(ترتیب و تدوین)اردو کی پہلی کتاب (آزاد کی لکھی گئی ٹیکسٹ بک تصیح شدہ ایڈیشن)فریدو فرد فرید،دبستان نظام،فرمایا سلطان جی نے۔
۔اصلی آرٹیکل دیکھنے کی لیے لنک ملاحظہ ہو
http://www.dawn.com/news/1194055
بحوالہ:ڈاکٹر رؤف پاریکھ،ڈان،13جولائی ، 2015
One thought on “ڈاکٹراسلم فرخی اورمزین تحریری اردو نثر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ڈاکٹرتہمینہ عباس”
بہت عمدہ ۔۔۔۔۔۔ خوب ترجمہ کیا ہے