افسانہ : میٹھا نیم،کڑوانیم؛ کڑوانیم،میٹھا نیم ۔ ۔ ۔ ۔ حنیف سیّد

Share

افسانہ ۔ حنیف سیدافسانہ
میٹھا نیم،کڑوانیم؛ کڑوانیم،میٹھا نیم

حنیف سیّد ۔ آگرہ
موبائل : 09319529720
ای میل :

اُس کو لگا: آنگن میں کسی نے میٹھے نیم کاپیڑلگا کر کوئی غلطی نہیں کی۔رُوزانہ جھاڑے گئے صاف آنگن میں نیم کا پتّاپہلے ایک گرتا،پھردو،دس،بیس ،پچاس ۔پھرجھڑی لگ جاتی۔گھرمیں پلی بکری، دن بھرپتّوں پرمُنہ مارتی پھرتی۔بچے ہوئے پتّوں کودوپہرکی تپتی دھوپ سُکھاکرکھُرکھُراکردیتی اورپھرماں اُن کوسنبھال سنبھال کرجھاڑتے ہوئے لے جاکرایک کونے میں جمع کرکے بوری میں ٹھونس ٹھونس کرذخیرہ کرلیتی۔باقی کوڑے کوکنویں کی منڈیرپرپڑے ٹین کے ڈھکّن کواُٹھاکرکنویں میں جھونک دیتی۔پڑوس کے اسکول سے ’’بھارت ماتاکی؛ جے‘‘کی آوازیں جب تب گونجتی رہتیں۔

ماں کے کہنے کے مطابق:سات سمندروں پارسے آئی ہوئی شہ زادی تھی، ماں۔ یعنی کہ ایک زمین دار کی اکلوتی بیٹی؛اُن کوکالج لے جانے لانے والے ،محلّے کے ایک ڈرائیور ،یعنی کہ اُس کے ابّوسے عشق ہو گیا تھا۔امّی بھی دِل سے مجبور ہو کرگھر کی ساری دولت لے کرابّوکے ہم راہ اَن جانے گانو،کرایے کے مکان میںآگئی تھی۔کئی ماہ تک ابّو عشق میں ڈوبے رہے،لیکن جب دولت گھٹتے دیکھی، تو چاچو کے ٹرک پر نوکری کرلی۔کچھ دِنوں بعدٹرک حادثے میں ابّو چلے گئے توچاچو نے گھر کی ساری ذِمّے داریاں سنبھال لیں ۔ ابّو کی موت کے دو ماہ بعدوہ پیدا ہوئی۔مرتا،کیانہ کرتا…؟ماں نے بھی جہاز کے پنچھی کی طرح چاچو، اور اُس کے سہارے زندگی گزارنے کا عہد کر لیا۔چاچو بہت دوراَندیش تھے۔ اُنھوں نے اُس کی ماں کی دولت سے ؛پہلے تواُن کے لیے اپنے ہی محلّے میں میٹھے نیم اور اَندھے کنویں والا مکان خرید کر؛ نل لگوایا۔گھر چلانے کے لیے مُرغیا ں ،بکریاں اورایک گاے خرید ی ۔ باقی رقم؛ پوسٹ آفس میں جمع کر وادی۔بڑے گھر کی بیٹی کو مُرغیوں،بکریوں اور گاے کی گندگی سے گھِن آئی تو چاچو نے گھر کے کام کے لیے محلّے کی آٹھ سا لہ لڑکی شبنم کا انتظام کر دیا۔گوبر کا کام نبٹانے کی وجہ سے ماں،شبنم کو کسی اور کام میں ہاتھ نہ لگانے دیتی۔ بچّی کو بھی گود میں لینے کی اجازت نہ تھی، شبنم کو۔یہاں تک کہ شبنم کا بستر اور برتن تک الگ کر دِیے تھے، ماں نے۔
صبح صبح گوالاگاے کادودھ دوہنے کے لیے دروازے کی کنڈی مارتا۔شبنم اُٹھ کر پہلے پہل دروازہ کھوتی،پھرمُر غیوں کاڈرباکھول کرانھیں باہر نکالتی ،اَنڈے جھولی میں بھر کرماں کودکھلا کر الماری میں رکھتی اورفراغت کے بعدمکان کی صفائی میں لگ جاتی۔ماں ہانڈی ،چولھاسنبھالتی۔گوالا؛دودھ دوہ لے جاتا۔شبنم؛ گاے کا گوبراُٹھاتی۔کنڈے تھوپتے وقت پڑوس کے اسکول سے’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا،اوربھارت ماتا کی ؛جے‘‘کی آوازیں گونجتیں۔شبنم ؛سوکھے کنڈے بازار میں فروخت کرکے لکڑیاں لاتی۔
کام کرتے وقت کبھی کبھی ماں کا ذہن بدبو سے بھر جاتا،ماں پلٹ کر دیکھتی ۔ اُس کے دونوں ہاتھ چھی میں اَٹے ہوتے ۔ماں کام چھوڑ کر دوڑتی، دونوں ہاتھ تھام کرچھی نہ چھونے کی تاکید کے ساتھ دُھلا کرصاف ستھراکردیتی۔
رات دن گزرتے گئے۔وہ گھٹنوں چل کر شبنم کے پاس جانے لگی۔ماں نے شبنم کو صابن سے ہاتھ دھونے کے بعد گود میں لینے کی اِجازت دے دی۔گھر کے کام سے فارغ ہو کر،شبنم اُس کو لیے لیے محّلے میں گھومتی پھرتی۔اَب اُس کا ذہن آہستہ آہستہ پُختہ ہونے لگاتھا۔اُس کو آنگن میں پُٹ پُٹ کرکے چلناآنے لگا تھا۔وہ چلتے چلتے اکثر گرتی، اُٹھتی، پھر گرتی؛کبھی ایسی بھی گرتی کہ گوبرمیں ہاتھ اَٹ جاتے۔وہ چھی چھی کر کے چیخ پڑتی اورماں دوڑ کر صاف سُتھرا کر دیتی۔
چاچو گھرمیں کب اورکس طرح آتے جاتے ہیں….؟اور کیاکیا ہوتا ہے….؟ محلّے والوں کو علم ہو گیا۔شبنم کی ماں نے بھی شبنم کو گھر بِٹھا لیا۔مجبوری نے راستے بنا لیے۔ بڑے گھر کی بیٹی یعنی کہ اس کی ماں کے اُصولوں کومجبوری نے خُردبُردکرڈالا۔ ماں، ناک پر کپڑا لگا کرشبنم کے سارے کام خود نبٹانے لگی ۔ماں جب ناک پر کپڑا لگا کرگوبر میں ہاتھ لگاتی،تووہ ’’چھی‘‘ کی آواز کے ساتھ گوبر کی جانب اُنگلی اُٹھا دیتی۔
دروازے کی کنڈی اکثرچڑھی رہتی۔ نہ کوئی آتا ، نہ کوئی جاتا۔کبھی کبھی ماں، نیم کی ڈال میں جھولا ڈال کر ایک چھوٹا کھٹولا ڈال دیتی ۔وہ جھولتے جھولتے سو جاتی۔سو کر اُٹھتی،تواُس کی نظر اکثردروازے کی کنڈی کی جانب ہوتی۔شام کا دھندلکا چھانے لگتا؛ماں گھر کے کام کاج سے فارغ ہو کر بڑے چاوسے اپنی مانگ چوٹی کرتی،کریم پاؤڈر سے سجتی، سنور تی ۔ایک ٹھیکرے میں اَنگارے بھرتی ،لوبان ڈالتی؛ نیم کے میٹھے پتّوں کادُھواں اپنا سینہ تانے اِٹھلاتا ،بل کھاتا ہوا اُٹھتا؛ماں ،پورے مکان میں ٹھیکرا لیے لیے پھر تی ،دھویں سے سارا مکان اَٹ جاتا۔اُس کو نیم کے پتّوں کادُھواں زہر لگتا۔سانس رُندھ جاتی اوروہ چیخ کر رو پڑتی۔ماں اُس سے دورچلی جاتی اوردُھواں آہستہ آہستہ دم توڑنے لگتا۔ جب اَندھیراگہرا جاتا،وہ جاگنے کی کوشش میں اکثر سو جاتی، کبھی کبھی جاگتی رہتی۔ دروازے پر کھٹاکا ہوتااوروہ دروازے کی جانب ہاتھ اُٹھا دیتی۔ماں لپک کر پہلے اُس کا منہ چومتی ،پھر ننگے پانو دوڑ کردروازہ کھولتی۔صاف سُتھرے، موٹے تگڑے چاچو اندر آتے۔ اُن کو دیکھ کر وہ خوب خوب ہمکتی۔ چاچو مسکراتے آتے،اور اُ س کے سامنے کھانے کے لیے کچھ نہ کچھ رکھ کر ،پردہ پڑے کمرے میں سرک جاتے ۔ماں اندر باہرچکّر لگاتی۔کبھی اُس کو دیکھتی، توکبھی چاچو کو۔وہ چاچوکالایاکچھ نہ کچھ کھاتے کھاتے اکثرسوجاتی۔ میٹھے نیم کے پتّوں کادُھواں؛ مچھروں سے اُس کو محفوظ رکھتا۔کبھی کبھی دیر رات گئے مچھروں کے یلغارسے اُس کا جِسم آگ اُگلنے لگتا، وہ ہڑبڑا کرسوتے سے اُٹھ جاتی۔ ماں پردہ پڑے کمرے سے نکل کر جلدی سے اُس کوگود میں اُٹھا کردبی آواز میں تھپ تھپا کرچُپانے ، اورسُلانے کی کوشش کرتی،وہ اپنا جِسم رگڑرگڑکرچیختی۔ماں اُس کوگود میں لیے لیے ٹھیکرے میں آگ جلاتی، نیم کے پتّے ڈال کرسارے مکان میں دُھواں کرتی اور بڑی کوشش سے اُس کو نیند کی آغوش میں دھکیل کرکمرے میں پھر سرک جاتی۔
ایک دِن وہ پُٹ پُٹ کرتے ہوئے ،چاچوکی کھوج میں پردہ پڑے کمرے میں چلی گئی۔خوش بو اور بدبو سے اَٹا کمرا عجیب سالگا،اُس کو۔چاچو، وہاں نہ تھے۔وہ وہاں پڑی بدبوداربوتل باہر اُٹھا لائی اورماں چھین کر اُسی کمرے کی الماری میں سجا آئی۔کبھی کبھی اُس کو لگتاکہ چاچو آکرکمرے میں چپ چاپ چلے گئے اورکمرے نے اپنے جادو سے چاچو کوبدبو دار بوتل بنا دیا۔چاچو آتے رہے،بوتلیں بڑھتی رہیں۔
دروازے کی کنڈی دِن میں بھی کھٹکتی۔دس بارہ کے سِن کاچاچو کا نوکردیپو،تھیلا لٹکائے آتا ،اُس کی نظردیپوسے پھسل کرتھیلے پرجم جاتی۔ تھیلا طرح طرح کی چیزیں اُگلتا، سبزیاں، کپڑے،پان ،چھالی اورمیک اَپ کا سامان بھی۔اُس میں اُس کے کھانے کے لیے بھی کچھ نہ کچھ ضرور ہوتا۔اپنے کھانے کی چیزدیکھتے ہی ،وہ قریب آجاتی ۔ماں سب سے پہلے اُسی کی چیز،اُس کو تھما دیتی۔نیم پر کووّں کی آوازیں بڑھ جاتیں ۔ ماں آواز کے ساتھ دوپٹّے کا کونا ہوا میں اُچھالتی اوراُس کودبوچ کرپہلومیں بٹھالیتی۔
دِن گزر تے گئے۔چاچو آتے رہے۔ماں اُس کو بھوتوں، چڑیلوں،جنّاتوں، خبیثوں،دیووں اور پریوں کی کہانیاں سُنا سُنا کرسُلاتی رہی۔کمرا، چاچو کو بدبو دار بوتلوں میں تبدیل کرتا رہا۔چاچو کے آنے جانے کے اَ وقات بدل گئے۔کبھی اُس کو لگتاکہ رات چاچو نہیں آئے،مگر پردہ پڑے کمرے نے جادو سے بوتل کو پھر چاچو بنا دیا۔ چاچو کمرے سے نکل آئے۔چاچو جب بھی کمرے سے نکلتے ،اُس کے ہاتھ پر سکّے رکھ جاتے۔ماں، چاچوکے پیچھے پیچھے مسکراتی ہوئی لپکتی ،چاچوکوباہرنکال کر کنڈی چڑھا آتی اور پھر لپک کر اُس کے ہاتھ سے چاچوکے دِیے سکّے لے کر ڈبّے میں ذخیرہ کرلیتی۔
اَندھے کنویں میں بھی بدبو داربوتلو ں اورکوڑے کا ذخیرہ بڑھتا گیا۔اُس نے بھی سِنِ شعورمیں قدم جمالیا۔
ایک رات مچھروں نے جب اُس کوجم کر بھنبوڑا،تووہ سوتے سے ہڑبڑا کر اُٹھی،ماں اِدھراُدھر نظر نہ آئی،چراغ کی مدھّم روشنی نے چغلی کی اوروہ پلنگ سے اُتر کر پردے والے کمرے میں داخل ہوگئی۔دوجسم سہم گئے۔اُس پرایک عجیب قِسم کی دہشت وحشت، اُکتاہٹ اورگھبراہٹ طاری ہوگئی۔کل ملاکرچاچو کا کمرے میں ہونا پسند نہ آ یااُس کو۔اُس کے بعد سے پردے والے کمرے کی کنڈی اندرسے چڑھائی جانے لگی۔اُس کے ذریعے دروازہ کھٹکانے پر دوبار توماں باہر آگئی،پھر ماں نے دروازہ نہ کھٹکانے کی تاکید کر دی ۔وہ اکثر رات میں جاگ کر چُپ چاپ پڑی رہتی۔اُس کے ذہن کا تِل چٹّا بے چین کیے رہتا،اُس کو۔وقت گزرا،موسم بدلااورمیٹھے نیم کے پتّے کڑوے ہو نے لگے اور پھر زہر ہوگئے۔ پتّوں کا گرنا، ماں کا سنبھال سنبھال کررکھنا،اُس کو بے چین کرنے لگا۔ دروازے کی کنڈی کھٹک کرذہن پر ہتوڑے برسانے لگی۔چاچو کی لائی ہوئی مٹھائی کڑوی ہو گئی ۔ سکّوں کا ذخیرہ ڈسنے لگا۔نیم کے پتوں کو پیروں تلے مسل کرچلنا اچھا لگنے لگا،اُس کو۔ایک رُوز اُس نے نیم کے پتوں کو کوڑے کے ساتھ اَندھے کنویں میں جھونک کرجھانکا، کنویں کا اَندھیرا کھینچنے لگا،اُس کو۔وہ کھنچتی گئی۔پہلے دھیرے دھیرے ،پھر تیز،پھر اُس سے تیزاور پھر ایک دم، تیز۔کنویں کے بھوتوں اور خبیثوں کی چمک دار آنکھیں ڈرانے لگیں۔اُس کو لگا :کالے ناگوں کی شعلے اُگلتی آنکھیں اورزبانیں اُس کو کھا جانے کے لیے بڑھ رہی ہیں۔وہ چیخ کر پیچھے گری۔کنویں کی مُنڈیر کا ڈھکّن دھڑام سے مُنڈیر پرآگِرا۔ ماں چیخ کے ساتھ اِزاربند تھامے بیت الخلا سے باہر آکر جائزہ لیتے ہی اُس پربرس کرکنویں میں کبھی نہ جھانکنے کی تاکید کر کے:بیت الخلاپھرلوٹ گئی۔پھروہ بستر پر چُپ چاپ لیٹ کرنہ جانے کیا کیاسوچتے سوچتے سو گئی۔لمبے لمبے ناخنوں والے ،ڈراؤنے ڈراؤنے بھوتوں نے اُس کو گھیر لیا۔بڑے بڑے دانتوں والے خبّیث،اُلٹے پیروں والی چڑیلیں، آنکھوں سے آگ اُگلنے والے جنّات اورسُرخ زبان نکال کر پھنکارنے والے اژدہے:ساتوں آسمانوں سے پرے تک اُس کاپیچھا کرنے لگے۔کبھی کوئی بد شکلاخوف ناک جانوراپنے سینگ ،پیٹ میں اُڑس دیتا،اُس کے۔ کبھی مگر مچھ، اُس کے پیر پکڑ کرآگ کے دریا میں کھینچ لے جاتا،کبھی ڈائنا سور، مرغی کے انڈے کی طرح اُس کو دبوچ کربیٹھ جاتا ۔ کبھی پہاڑوں کے اژدہے، پہاڑوں کی گپھاؤں میں کھوجتے پھرتے، اُس کو۔ وہ ڈری، سہمی، بھاگی بھاگی پھرتی۔پھر سون پری مل جاتی،بہلاتی،پُھسلاتی ،خوب پیار کرتی، پھل اورمٹھائیاں دیتی،پرستان کی سیر کراتی، باغوں میں جھولا جُھلاتی،نہلاتی ،دُھلاتی اور سولہ سنگار کر کے دُلھن بناکر،کسی خوف ناک خبیث کے سپرد کردیتی ،خبیث ؛ایک کمرے میں بند کرلیتا۔اُس کو۔اُس کا حامی و مدد گار کوئی نہ ہوتا۔وہ چیخ مار کر بیٹھ جاتی۔ ماں دوڑ کر چھاتی سے لگا لیتی،ماں کا چھاتی سے لگا لینا ایک پل نہ بھاتا،اُس کو۔
ماں کے کاموں میں ہاتھ بٹانا اُس کو آگیا۔نیم کی شاخ پر جھولا خودڈالنے لگی۔ پینگ ،لمبے ہونے لگے۔دِل چاہتا؛ آسمان چھولے۔ایک روزدیوارکے طاقوں کے سہارے چھت پر گئی، تو اِحساس ہواکہ بستی میں اور لوگ بھی رہتے ہیں۔پیچھے اسکول میں پڑھتے ہوئے بچوں کو دیکھ کر دِل چاہا ؛ اسکول میں اُتر جائے اوربچّوں کے ساتھ خوب پڑھے لکھے،کھیلے کودے۔اُس کو یہ سمجھنے میں دیر نہ لگی کہ صبح کو ’’سارے جہاں سے اچھا ہندستاں ہمارااوربھارت ماتا کی؛ جے‘‘ والی آوازیںیہیں سے آتی تھیں۔کچھ دیر چھت پر رہنے کے بعد احساس ہوا کہ اُس کو دیکھنے کے لیے لوگ اپنے اپنے کمروں سے باہرنکل آئے ہیں۔ماں کو جب اُس کے چھت پر جانے کا اِحساس ہواتو ماں کی خوف ناک آوازیں بلند ہونے لگیں۔وہ اسکول میں اُترنے کے بجاے اپنے کڑوے نیم اور اَندھے کنویں والے مکان میں اُتر آئی۔ماں نے ڈانٹ کر دوبارہ چھت پر نہ جانے کی تاکید کردی۔
دِن ،ماہ اورسال گزرتے گئے۔کنویں میں کوڑا بڑھتا گیا۔ اندر کے سارے بھوت ، خبیث اورجنّات وغیرہ کانچ کی بوتلوں میں بدل گئے۔موٹے تگڑے چاچو،دُبلے ہو گئے۔ماں کے بالوں میں چاندی اترآئی۔چاچو کا آنا کم ہو گیا۔پوسٹ آفس کی رقم کو دیمک چٹ کر گئی۔ ماں کے چہرے پر فکروں کی لکیریں بڑھنے لگیں۔حالات اور بگڑنے لگے۔ پہلے گاے بکی،پھرایک ایک کرکے بکریاں۔اُس کی جوانی نے اپنے سارے نقوش اُبھار لیے ۔دیپو کی آنکھوں میں چمک اُبھر آ ئی ۔دیپو کے آنے اور دیرتک بیٹھنے میں اضافہ ہو گیا۔ ماں بھی اُس کو گھنٹوں بِٹھائے رکھتی۔ دیپو کا آنااور دیر تک بیٹھنا ،اچھانہ لگتا،اُس کو۔وہ جب اُس کو دیکھ کر مسکراتا،توایک آنکھ کا کالا کلوٹا دیپو ایک پل نہ بھاتا۔ دل چاہتا کہ شعلہ بن کر اُس کی آنکھوں میں اُتر جائے اور دھڑام سے اُس پر ایسی گرے کہ دیپو ،زمین کی ساتوں تہوں کے نیچے پہنچ کر نیست نابود ہو جائے۔وہ جب بھی آتا،تو وہ اُس کو دیکھ کر یہ ضرور دیکھتی کہ اُس کے دیکھنے کا انداز ہے کیسا.؟اُس کے غلط انداز پر آنکھیں نکال کر ناراضگی کا اظہار کرتی ۔ دیپو کے دیکھنے کا انداز نہ بدلتا،بل کہ ماں کی شہ پراُس کادیکھنے کاانداز دن بہ دن پیارا اور نیارا ہوتا گیا۔دیپو کے باربار آنے پرماں بہت خوش ہوتی ، اُس کو بٹھا کر چاچو کے بارے میں طرح طرح کے سوالات پوچھتی:’’ شوق سے کیا کھاتے ہیں.؟ بی بی جی کے لیے کیا کیا لاتے ہیں…؟ کہاں کہاں گھماتے ہیں…؟‘‘وغیرہ وغیرہ۔دیپو بھی اُس کی جانب دیکھتے ہوئے مزے لے لے کربتا تے ہوئے مسکراتا جاتا، وہ جل جاتی۔ ماں چاہتی کہ وہ یوں ہی باتیں کرتا رہے ۔دیپو کی حرکتیں اُس کوایک پل نہ بھاتیں۔ کسی نہ کسی بہانے وہاں سے اُٹھ جاتی، وہ۔
ایک روز کنڈی کچھ اِس طرح کھٹکی کہ دروازے کے ساتھ دِل بھی دہل گیا۔ماں کانپ گئی۔سمجھی کہ کچھ نہ کچھ اَن ہونی ضرور ہوئی ہے۔لپک کر در وازہ کھولا۔دیپو نے بتایا، ’’چاچو چلے گئے۔‘‘ماں چکرا کر گر پڑی۔اُس نے دیپو کے سہارے ماں کوکھینچ کر پلنگ پر ڈالا،آنکھوں سے دھکّادے کر دیپو کو باہر نکالااورلپک کردروازے کی کنڈی چڑھا لی۔ ماں کے چہرے پرپانی چھڑکا،آوازیں دیں، ہلایا ،ڈُلایاپھرجیسے تیسے ماں کو ہوش آیا۔ماں کی آنکھوں سے خاموش دریا اُبل کر بہنے لگے اور لگاتار بہتے ہی گئے؛دو چار دنوں میں خزانہ خالی ہو گیا ۔آنکھیں خشک جھیل کی طرح اندر کو دھنس گئیں ۔چہرہ پیلا پڑگیا ۔کبھی کبھی یادوں کی لہر آ جاتی۔ آنکھوں سے چشمے اُبل پڑتے۔ رقم کے ذخیرے نے بھی ساتھ چھوڑدیا۔ماں جیسے تیسے دیپو سے سامان منگوالیتی اور کبھی کبھی مجبو ری میں خود بھی اُس کو ساتھ لے کر بازارنکل جاتی۔ ماں کا باہر نکلنامجبوری بن گیا۔جب کبھی وہ ماں کے ساتھ بازار جاتی،تو محلے والے ایک الگ انداز سے گھورتے۔ وہ دِل ودماغ سے لہو لُہان ہو جاتی۔زخم ،ناسور بن جاتے۔ ٹیسیں اُٹھتیں۔وہ گھرلوٹ کرخوب روتی۔ماں سبب پوچھتی ،وہ کچھ نہ بولتی، بس روتی جاتی۔ماں بہلاتی، مگر وہ چُپ نہ ہوتی۔ماں غصے میں خوب پیٹتی ،اُس کو۔وہ اورروتی۔ روتے روتے سوجاتی۔ اُٹھتی،پھر روتی، پھرسو جاتی ۔ یہ سلسلہ کئی روزچلا۔اُس کا دِل چاہتا کہ کڑوا نیم کاٹ ڈالے۔ دروازے کی کنڈی توڑ دے۔کمرے کے پردے کو آگ لگا دے۔گھرکی گرہستی اور ماں کو کمر میں باندھ کراَندھے کنویں میں چھلانگ لگادے۔دیپو تھیلا لے کر آتا،توایک پل نہ بھاتا۔تھیلے کی ساری چیزیں سانپ بچھو کی طرح اُس کو چمٹ جاتیں۔دِل چاہتاکہ ساری چیزیں کنویں میں جھونک دے۔اُس نے گھرسے باہر نکلنا بند کر دیا۔اب یاتو دیپو بازار جاتا،یاپھر ماں۔
رات دِن ڈھلتے گئے۔دِن ،رات ۔پھردِن۔وقت کاخاموش پنچھی ؛جہاز کے گرداپنے بازو چلاتارہا،چلاتارہا۔نقاہت ،بازوؤں کوشَل کرنے لگی۔گھر میں کھانے پینے کا سامان تو پہلے ہی ختم ہوچکا تھا۔چاچو کے دِیے سکّوں نے بھی ساتھ چھوڑ دیا۔ماں کی فکریں حدیں پار کر گئیں۔ گھر کاچھوٹاموٹاسامان بکنے لگا۔پہلے انڈے نہ دینے والی مُرغیاں بکیں ، پھرانڈے دینے والی بھی بِک گئیں۔ ایک روزماں کی بے چینیاں حد پار گئیں، توماں ٹہلتے ٹہلتے اَندھے کنویں میں اُتر گئی اور دوپٹّے میں بدبوداربوتلیں بھرلائی۔پھردیپو کے کان میں چپکے سے کچھ کہا۔اور دیپو،بوتلوں کا تھیلا لے کرباہر سرک گیا۔بازار سے داغی امرود بھر لایا۔ ماں نے کام چلایا۔اگلے دِن ماں دوچار گھنٹے آنگن میں ٹہل ٹہل کر اپنی اُداس بٹیا کا مُنہ تاکتی رہی،پھر آہستہ سے اندر جاکر کمرا بند کیااور دوپٹّے کومنہ میں ٹھونس کر اپنے کیے پر پچھتاکر خوب روئی،چپکے چپکے۔ جب ٹھاٹیں مارتا سیلاب اُترا، اور شام نے بہ مشکل تمام دستک دی؛ تو ماں، نقاب اُوڑھ کر رات کے اندھیرے میں گھر سے نکل گئی۔تقریباً دوگھنٹے بعد سامان سے بھرا تھیلا لیے لوٹی،تواُس نے ماں کو کھا جانے والی نظر سے گھورا۔ماں کی لاکھ ضِدکے باوجود کھانے کی کسی شے میں ہاتھ نہ لگایا،اُس نے ۔ماں نے چراغ گل کیااور بنا کچھ کھائے کمرے میں جا کر لیٹ گئی۔اُس نے بھی چارپائی سیدھی کی اور پیر پھیلا دِیے۔ پرنیند نہ آئی، اُس کو ۔ کئی بار اُٹھ اُٹھ کرپانی پیا ۔ بے چینیاں بڑھیں ،تو وہ چپکے سے اُٹھی۔ ماں کی نیند کا جائزہ لیا۔ماں کے خرّاٹے اوربلندہو گئے۔ اُس نے چپکے سے سامان کا تھیلا ٹٹول کر ایک بڑا سیب نکالااورآکرچپکے سے لیٹ رہی۔پیٹ کی آگ نے سیب کے وجود کولپک کر اپنی آغوش میں لینا چاہا؛لیکن اُس کے ضمیر کی بارش نے پھر ٹھنڈا کر دیا۔وہ ایک جذبے کے ساتھ اُٹھی ؛سیب ،تھیلے میں واپس رکھااورپانی کے دو گلاس چڑھا کرپھرلیٹ گئی۔ اُس کے باوجودنیند نہ آئی۔بھوک سے مجبور ہو کرجیسے ہی اُٹھ کردوبارہ جھولے سے سیب نکالا،اُس کے ضمیر کا شیر بڑی بھیانک آواز میں دہاڑا،گھنگورگھٹائیں بھی چھائیں، بارشیں بھی ہوئیں، طوفان بھی آئے،سارے جہاں کے پانی نے مل کر زور لگایالیکن پیٹ کی آگ کچھ ایسی بھڑکی کہ ضمیربھسم ہو گیا،اُس کا۔ اُس نے کئی سیب نکال کر کھائے اور جیسے ہی بستر پر پہنچی:ماں اطمینان سے باہر نکلی اور سامان کا جھولا لے کر اندر چلی گئی۔اگلی صبح ماں دن چڑھے اُٹھی اور جھاڑو دینے کے بعدماں نے اُس کو جگایا۔وہ جھلّاکر چادر پھینکتے ہوئے اُٹھی؛مکان کا جائزہ لیا۔سارا آنگن ،کڑوے نیم کے پتّوں سے صاف تھا۔برتن، پچھلے روز کے جیوں کے تیوں سجے تھے ۔اُس نے چادر کھینچ کر پیر پھر پھیلا دِیے۔
ماں کے اِس طرح باہر جانے کامعمول بن گیااور اُس کے اِس طرح پیر پھیلانے کا بھی۔ماں ،ایک شام گھر سے ایسی نکلی کہ واپس نہ آئی،اور آئی بھی تو چار کاندھوں پر۔اُس کی چیخ نے ساتوں طبق لرزادِیے۔اُس کے بعد کیا ہوا ،اُس کا ذہن محفوظ نہ رکھ سکا۔ رات آئی ،توبھوتوں اورچڑیلوں کو ساتھ لیے۔دِن آیا، توپہاڑ جیساڈھنڈار، اپنی نا ہم واریوں کے ساتھ۔رات ،پھر دِن۔وہ مقابلہ کرتی بھی تو کب تک…؟آخر وقت کے بھوکے پنچھی نے اپنے بازو ڈھیلے چھوڑ دِیے۔اُس کے اَنگ اَنگ میں کیڑے مکوڑے کلبلانے لگے۔پہلے وہ کچھ سوچتی رہی۔آخر کڑوے نیم کی پتیاں ، میٹھی ہو گئیں۔اُس نے اَندھے کنویں کی مُنڈیر سے ٹین کا ڈھکّن اُٹھایااورکنوِیں میں اُترگئی۔کوڑے کرکٹ میں جہاں تہاں ہیرے جواہرات چمک رہے تھے۔وہ جھولی میں ٹوٹی پھوٹی بوتلیں لیے جیسے ہی باہرآ ئی، اُس کو باہرسڑک پرایک ہنگامہ سنائی دیا۔اُس نے ذراسا دروازہ کھول کر جھانکا،یومِ نسواں کی ریلی میں شہر کے بڑے بڑے لیڈر شامل تھے۔’’سارے جہاں سے اچھاہندستاں ہمارا اور بھارت ماتا کی؛ جے ‘‘کی جے جے کارسے ساتوں آسمان گونج رہے تھے۔ لیکن اُس کو نہ تو کسی کی کوئی آواز سنائی دے رہی تھی اور نہ ہی کوئی شکل دکھائی دے رہی تھی۔اُس نے آسمان کی طرف دیکھ کر لمباسانس لیااورآہستہ سے دروازہ بند کرکے ایک آنکھ والے کالے کلوٹے دیپو کا بے صبری سے انتظار کرنے لگی۔
آج پورے تین سال بعددروازہ کی کنڈی کھٹکنے پردیپو ڈیڑھ سال کی بچّی کو گود میں لیے باہر نکلا،تو محلّے کے بہ رسوخ لوگوں کے ہم راہ، ووٹ کے لیے سابق ایم۔ پی ۔ ہاتھ جوڑے کھڑے تھے۔
*****
HANIF SYED
AGRA INDIA
09319529720

Share
Share
Share