رمضان اور ہماری ذمہ داری ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دستگیرنواز

Share

ramadan
رمضان اور ہماری ذمہ داری

دستگیر نواز
ای میل :

رمضان کی آمد سے تقریباًایک ماہ قبل ہی جابجا کچھ اس طرح کے پوسٹرس بلکے بڑے بڑے ہورڈنگس اور اشتہارات کا ایک سلسلہ سا شروع ہو جاتا ہے۔کپڑوں کا نیا اسٹاک آچکا ہے۔برتنوں کے نت نئے سیٹس۔ڈیزانئر کی ساڑیاں ہمہ اقسام کی چوڑیاں، سیٹس وغیرہ ۔۔یعنی کتنے ہی تدبیروں سے یہ باور کروایا جاتا ہے کہ شہر کے تمام شورومس اور رمضانی شاپنگ مال جو کہ صرف اس ماہِ مقدس ہی میں لگائے جاتے ہیں۔سبھی جگاہوں پر یہ سب چیزیں دستیاب ہیں۔چند سال سے تو شہر کے ایک حلیم بیوپاری نے تو انتہا کردی،اپنی ہوٹل کے سامنے ایک مہنے سے دن گنوانا شروع کر دیتے ہیں کہ اتنے دن باقی ،اب اتنے دن رہ گئے ہیں۔بس اسی طرح سے ہر کوئی اپنے کاروبار کی تشہیر میں لگا ہوتا ہے۔افسوس ان تمام اشتہارات میں مدرسوں اور حفاظ کے بھی نئے انداز کے مختلف قسم کے اشتہارات مل جاتے ہیں اور یہ سب باتیں آہستہ آہستہ حیدرآباد کی روایت بنتی جارہی ہیں۔جو آج سے پندرہ بیس سال قبل اپنا وجود تک نہیں رکھتی تھیں۔

دورانِ رمضان جب ہم کسی کام سے شہر کے مختلف مقامات سے گزرتے ہیں تو یہ اندازہ لگاتے ہوئے دیر نہیں لگتی کہ ان تمام حربوں یعنی تشہیر کے خاطر خواہ نتائج بھی بر آمد ہورہے ہیں۔بازاروں میں صبح،شام،دوپہر حد تو یہ ہے کہ رات دیر گئے اور صبح فجر ہونے ہونے تک بھی ہماری مائیں،بہنیں اور بیٹیاں بازاروں میں جابجا تکڑیوں کی شکل میں آزادانہ طور پر گھومتی ہوئی نظر آجاتی ہیں۔اب تو یہ عالم ہوگیا ہے کہ سحر اور افطار بھی ہوٹلوں کی نظر ہوگئے ہیں۔
اس طرح کی ریل پیل یہ رونقیں،یہ شور شرابے آج سے پہلے کبھی حیدرآبادیوں کا شیوانہیں رہا ہے۔ایسی مصروفیات چند سال ہی قبل سے رونما ہونے لگی ہیں۔اسکی وجہ ہمیں تو دوسرے اسٹیٹس سے آئے ہوئے مختلف مقامات کے لوگوں کی ہی دین نظر آتی ہے اور غیر مقیم ہند حیدرآبادیوں کا بھی عمل ہے۔اس کو پروان چڑھانے میں ہم حیدرآبادیوں نے بھی بھر پور تعاون کیا ہے ۔ کیوں کہ ہم کوئی بھی عمل کو اپنے آپ پر مسلط کرنے میں کبھی پیچھے نہیں رہے ہیں۔کچھ اس طرح کا ماحول ہو گیا ہے ہمارے شہر کا کہ ایسا لگتا ہے ،بس بازاروں کو سجانے،مساجد کو چمکانے،جلسے منعقد کرنے،اپنے زنانہ کو بازاروں میں آزاد گھومنے چھوڑ دینے،حلیم کھانے اور شاپنگ میں پورا مہینہ صرف کردینے سے ہی رمضان کا اہتمام ہو تا ہے ،سمجھ بیٹھے ہیں۔کیا ایسا محسوس نہیں ہوتا ؟دراصل ہم کو اپنے محاسبہ کی سخت ضرورت ہے۔
رمضان کے اہتمام میں عبادت،ریاضت،صدقہ،خیرات،روزہ،زکوٰۃ،تراویح اور تلاوت وہ بھی ریاکاری سے پاک، نیک نیت سے عملی طور پر کاربند ہوجاتے ہیں، تو ان تمام عمل کی قبولیت کے لئے ہم اللہ تعالیٰ سے امید بھی رکھ سکتے ہیں،گر ایسا کرنے میں ہم کوتاہی کر رہے ہیں تو،یہ عملیات ہمارے لئے اجر کا سبب بنے گے ورنہ ؟ ہمارے بزرگوں سے ہم نے جو سُنا ہے اور کمسنی کی یادوں میں بہت ساری باتیں اور منظر ہمارے ذہن میں محفوظ ہیں۔جو بار ہا رہ رہکر موقعہ محل کے مطابق ہمیں یہ محسوس کرواتی رہتی ہیں۔
کیا روزے ہمارے ایسے ہی گزرتے تھے ؟
عیدوں پر یہ ریا کاری کی جنگ تو نہیں ہوتی تھیں ؟
ایک دوسرے پر سبقت لیجانے کی کمیٹیوں کی دوڑ بھی نہیں تھیں؟اس طرح تو جائز و ناجائز اور حرام و حلال کی سدھ بدھ تو ہم کبھی نہیں کھو بیٹھے تھے؟
نہ ہی بازاروں کی یہ رونق تھی۔نہ ہی مساجد ایسی عالی شان ہوتی تھی ۔نہ ہی انکی یہ چمک دمک ہوا کرتی تھی۔نہ ہی کسی غیر مزدور سے مساجد کو رنگ و روغن کرایا جاتا تھا۔ بلکہ موذن،امام اور مخصوص مسلیانِ مسجد ملکر صاف صفائی،رنگ روغن ،فرش کرنا ،جھاڑو لگانا وغیرہ ۔سب کام بڑے ہی پُر جوش و پُر خلوص انداز سے انجام دیتے تھے اور رمضان اور عام دنوں میں ہم روحانی لذتوں سے اپنے آپ کو سیراب کر تے رہتے تھے۔نہ ہی حکومتوں سے رمضان،شب برات اور بقر عید پر اسپیشل بجٹ کی اجرا ئی ہوتی تھی،پھر بھی سب کام بڑی خوش اسلوبی سے پائے تکمیل کو پہنچ جاتے تھے۔ افسوس کہ آج سال تمام چندہ ،رمضان میں اسپیشل چندہ،حکومت کا بجٹ اور کمیٹیوں کی رسہ کشی ایسا لگتا ہے یہ سب چیزیں مسلمان نہ صرف اپنے اوپر مسلط کرلیا ہے بلکہ فرائض کی طر ح اس پر عمل بھی کرنے لگا ہے خدا خیر کریں!
اب ہم اپنے معاشرہ پر نظر ڈالیں تو یہ دکھائی دیتا ہے،کسی موذن سے کسی مفتی تک۔کسی امام سے شیخ الجامعہ تک، سیاست اور سیاست داں اسلامی احکام سے بالاتر ہیں۔ مذہبی رہنما اپنی کسی نہ کسی حرکت سے لوگوں پر عیاں کرتے رہتے ہیں۔ایک ایسا واقعہ بھی ان نگا ہوں نے دیکھا کہ شیخ الجامعہ نے کسی مسلم سیاست داں کی پیشانی کو بوسہ لے رہے ہیں۔ وہ بھی کسی جلسے میں جہانں ہزاروں کی تعداد میں لوگ موجودہیں۔ اس منظر کو دیکھ کر اس دل و دماغ نے ایک سوال کیا ! کیا شیخ الجامعہ اپنے کسی یتیم و یسیرشاگردوں کی بھی پیشانی کو اسی طرح اپنی جامعہ میں چوما کرتے ہیں ؟ایسے طالب علم کی تعداد جامعہ میں کئی سو کی تو با آسانی ہوگی۔بہر حال یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ آج رمضان کا جو حال ہم نے بنا رکھا ہے،ایسے رمضان کا تصور نہ ہی پڑھا،نہ ہی سُنا اور نہ ہی ہم نے آج سے قبل کبھی دیکھا ہے۔ نہ ہی ہمارے بزرگوں نے اس طرح کی تعلیمات دی ہیں۔
ہمارے بزرگوں نے ہمیں حقیقی اسلامی تعلیمات سے سرفراز کیا تھا۔
پھر کیا وجہ ہے ؟
کونسی مجبوری ہے ؟
کیوں ہم اپنی روایات سے اور تعلیمات سے کنارہ کشی اختیار کر تے ہوئے ،شیطانی روش اپناتے جارہے ہیں ؟
اپنے بزرگوں کی تربیت اور اسلامی احکام سے کیوں کر منکر ہوئے چلے جا رہے ہیں؟
ایک غور طلب بات جو ہم نے شدت سے محسوس کی ہے کہ جو لوگ گیارویں شریف کے کرنے اور بارویں شریف کے منانے پر ظالمانہ انداز اپناتے ہوئے غیر غلط دلائل سے اپنے آپکو حقیقی مسلمان اور دوسروں کو مشرک،کفار کا فتوٰی دینے سے بھی گریز نہیں کرتے ۔حد تو یہ ہے کہ مارنے مرنے کے لئے بھی تیار ہو جاتے ہیں۔دوسروں کے اس عمل میں خلل پیدا کرتے ہوئے یہ حکم صادر کرنے لگتے ہیں کہ یہ نہیں کرو، وہ نہیں مناؤ!
چاند رات کو ہونے والی بازاروں کی بے ہودگی،تمام رمضان دن رات بازاروں میں مسلمان مرد عورت،جواں و بوڑھے سب کے سب ہی بازاروں کی نظر ہوئے نظر آتے ہیں ،جہاں اور بھی اقوام کے مرد ونوجوان لڑکے بھی ہوتے ہیں۔اسی طرح کا ماحول 45 دن تک ہر سال نمایش کے نام پر شہر حیدرآباد میں برپا ہوتا ہے۔ اس طرح کی مصروفیات کو روکنے کے لئے یہ لوگ کیوں آگے نہیں آتے ؟
اس تعلق سے کیوں اپنی خدمات پیش نہیں کرتے ؟
بازاروں کی بے ہودگی، دن بدن بڑھتی ہوئی بے حیائی پر آواز کیوں نہیں اُٹھاتے ؟
صرف گیارویں شریف کے کرنے اور بارویں شریف کے منانے پر ہی واویلا کیوں ؟
آج ہی ہمیں اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کرتے ہوئے،اپنے آپکواپنے گھروں خاص طور پر اپنے زنانہ کو سختی سے اسلامی تعلیمات سے مالامال کریں تو کسی بڑی تبدیلی کی اُمید کی جاسکتی ہے۔کم سے کم اپنی لاڈلیوں کو سورۃ نساء کا حفظ کرائے اور اسکا مفہوم انھیں نصیحت کے طور پر ہمیشہ اپنی سوچ میں رکھنے کی تاکید کردیں تو بھی ،بہت بڑے انقلاب کی توقع کی جا سکتی ہے۔ورنہ میدانِ حشر میں ایک عورت چار مرد یعنی باپ،بھائی،شوہر اور بیٹے کو عذاب کا مستحق بنائیگی،اسکے گناہوں کے لئے۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حشر کی سختیوں اور رسوایوں سے اپنے محبوب ﷺ کے صدقہ اپنے رحم وکرم سے محفوظ رکھیں،آمیں۔
ہمیں غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم کیا کر رہے ہیں اور کیوں کررہے ہیں؟اللہ تعالیٰ کا جتنا شکر کیا جائے کم ہے کہ ہمیں ایمان جیسی بیش بہا دولت سے مالامال کیا، یہی کرم کیا کم تھا کے اپنے محبوبﷺ کا امتی بناڈالا،باوجود اسکے ہم ابلیس کو اپنی گرفت ہم پر مضبوط سے مضبوط کرنے کے لئے آسانیاں فراہم کررہے ہیں۔گیارہ مہینوں ویسے بھی ہم شیطانی چنگل میں بسر کرنے کے عادی ہو چکے ہیں۔خواہشوں کی غلامی میں،ماں باپ کی نافرمانی میں،دوست احباب کی نادانی میں،دماغ کی حکمر انی میں اور دولت و طاقت کی جھوٹی شاں دکھانی میں۔اپنے آپکو اس قدر مصروف رکھتے ہیں کہ پتا ہی نہیں چلتا گیارہ ماہ کب نو دو گیارہ ہوگئے۔۔! ہماری بدبختی میں بھی خوش قسمتی سے رمضان کا ماہ میسر آجاتا ہے۔
دراصل ہمیں رمضانی مسلمان نہیں۔ بلکہ زندگی حقیقی مسلمان کی طرح بتانی چاہئے،لیکن ایمانداری سے اب اپنے آپکا جائزہ لینا ہوگا،اپنے آپ سے یہ سوال کرنا ہوگا ۔کیا رمضان کا ماہ بھی اسی طرح گزر جانے دیں جسطرح گیارہ ماہ لاحاصل مصروفیات میں صرف ہوئے؟
نہیں نا،تو پھر ہمیں کیا کرنا چاہئے ؟ ہم کیا کررہے ہیں ؟ یہ ایسے سوالات ہیں جس کے جوابات ہمارا آج۔آنے والا کل اور دنیا و آخرت کے لئے راہِ نجات ،اجرِثواب اور ثوابِ جاریہ بن سکتے ہیں۔
تمام اہل اسلام سے اپنا فریضہ سمجھ کر میں یہ التماس کرتا ہوں کہ ہم اپنے وجود کی ،اپنے مذہب کی اہمیت کو سمجھیں اور اپنی نسلوں کو بھی سمجھائیں۔نہ صرف رمضان بلکہ عمر تمام اپنے دن رات ،شام وسحر اسلامی احکام پر بسر کریں اور خاص طور پر رمضان کی فضیلت کو پامال نہ ہونے دیں۔ آو عہد کریں اسے بندگی میں صرف کریں۔ہماری آج کی غفلت سے کہیں آنے والی نسلیں اسے حلیم کھانے اور شاپنگ کرنے کا مہینہ نہ بنالیں۔
********
دستگیر نواز (حیدرآباد ، ا لھند)
موبائل: 09849075958

Share
Share
Share