چلتے ہو تو بازار کو چلیئے
سید عارف مصطفیٰ
فون : 8261098 -0313
ای میل :
بازار جانا ہمارے تابش بھائی کو ہمیشہ سے بہت مرغوب رہا ہے، پہلے کبھی کبھی ہم بھی ساتھ لگ لیتے تھے ،لیکن وہ تو چونکہ بہت پہنچے ہوئے ہیں اس لیئے اکثر ہی وہاں پہنچے رہتے ہیں اور جب کبھی ہم اکیلے بھی گئے تو وہ وہیں کہیں رکھے ہوئے سے سے ہی ملے – انکی اس مصروفیت کی نسبت سے ہمارے گھر میں انکا تذکرہ "بازاری” کے لقب سے ہوتا ہے یہ لقب ہمیں بھی کئی بار ملتے ملتے رہ گیا حالانکہ ہم تو کبھی ہفتے یا مہینے کی خریداری کیلیئے ہی بازار کا رخ کرپاتے ہیں- پہلے پہلے تو ہماری بازار نوردی اسی زیل میں آتی تھی کہ جو آبیل مجھے مار والے محاورے کی تشریح کی ہے –
ہم واپسی پہ سودا کیا گھر لاتے تھے، گویا خود اپنے لیئے ندامت کا سامان بھر لاتے تھے جو کہ بیگم کے ہمارے بارے میں قائم کیئے گئے دل شکن اندازوں کو مکمل درست ثابت کرنے کیلیئے کافی رہتا تھا- ۔۔۔ تا دیر بہت گھروں تک ہماری بعد از خریداری کی گھریلو تفتیش کی گونج جاتی تھی اور اس کے بعد چند دن ہم احتیاطا” باہر بھی نہیں نکلتے تھے- گو کہ ہم ہربارپہلے سے بڑھ چڑھ کر خود اپنے آپ سے اور بیگم سے بھی ان سنگین اقبالی غلطیوں سے اجتناب کا پکا وعدہ کیا کرتے تھے،، لیکن ہر مرتبہ آخر میں ہمارا لایا سامان خود ہمارے لیئے سامان رسوائی ہی ٹہرتا تھا ، اورپھر ہربار بیگم بپھر بپھر کے باسکٹ نوچتی اور الیچتی تھیں اور یہاں وہاں ہماری لائی سوغاتوں کی برکھا برساتیں تھیں تو تھوڑی ہی دیر میں یہ صورت بنتی تھی کہ گویا” چمن میں ہرطرف بکھری ہوئی ہے داستاں میری”۔۔۔۔۔ ایسے میں اپنے بچے بھی کمبخت اجنبی سے ہوجاتے تھے اور ماں کی ہمنوائی میں پیچھے نہ رہتے تھے،،،
یہ بھی عرض کردوں کہ مشرقی روایات کی پاسداری کرتے ہوئے ہر کسی کی بیگم کی طرح ہماری بیگم بھی کسی بھی وقت اور کسی بھی طرح کی تنقید کرنے اور اعتراض اٹھانے کے وصف سے اٹا اٹ لبریز ہیں اور یہ قطعی ضروری بھی نہیں کہ انکی تنقید کا ہمیشہ ہی کوئی معقول سبب بھی ہو تاہم اسکا خاص ہدف عام طور پہ بھی اور خاص طور پہ بھی بیچارہ شوہر یعنی میری ہی ذات شریف ہوتی ہے،،،لیکن رنگ برنگے شوہروں سے بھری اس دنیا میں یہ خاصہ بھی بس ہمارا ہی ہے اور یقینی طور پہ بس ایک ہم ہی وہ صاحب ولولہ ہیں کہ جواپنی بیگم کےاس ذوق دشنام طرازی کو یوں مسلسل اتنے وافر مواقع ہائے تسکین بہم پہنچاتے ہیں۔۔۔ بیگم کا اک دیرینہ اور سچا الزام یہ ہے کہ سستے کے چکر میں ہم بازار سے اتنی وافر سبزیاں اٹھالاتے ہیں کہ اہلخانہ کم اور بعد میں آس پاس کی بکرے بکریاں زیادہ مستفید ہوتے ہیں۔۔۔ نوبت یہ ہے کہ کبھی جو ہم چند روز بازار نہ جاسکیں تو پاس پڑوس کے بکری یافتہ بچے بھی پوچھ ہی لیتے ہیں
"،،، انکل آپ بازار نہیں گئے۔۔۔ کب جائینگے۔۔ جائیے نا،،،! ”
دیکھیئے یہاں بڑی دیانتداری سے ہم نے بیگم کے فالتو سبزی لانے کے الزام کو تو مان لیا ہے لیکن ہم ہر جگہ تو غلط نہیں ہوسکتے ۔۔۔ عالم یہ ہے کہ ہم سے اک بار اپنی قمیض کیلیئے بیگم نے مضبوط کپڑا منگوالیا تو ہمارے مستحکم و توانا انتخاب پہ ہرگز داد نہ دی اور لائے گئے مضبوط کپڑے کو صوفے کا کپڑا ٹہرا دیا گیا،،، حالانکہ جب انہوں نے خود ہی مضبوط کپڑے کی فرمائش کی تھی تو بھلا بتائیئے کہ ہم کمزور کپڑا بھکا کیسے لاسکتے تھے؟؟ ستم ظریفی یہ کہ اسے صوفے پہ سی کر چڑھا بھی دیا گیا اور پھر ہم سے مصلحت کی مجبوری سے داد بھی لی گئی ،،اسے ہماری وسعت قلبی ہی سمجھیئے کہ یہ حرکت ہمیں کسی حد تک بیجا بھی نہیں لگی،،، یہ الگ بات کہ وہ پائیدار کپڑا دو چار روز بعد تو واقعی ہمیں بھی صوفے کے لیئے ہی موزوں لگنے لگا ۔۔۔ خریداریوں کے اس طرح کے متعدد ‘نزاعی’ واقعات کے تسلسل نے گھر میں ہماری صلاحیتوں کےگراف کو بالآخر پاتال تک گرا دیا اور ہم نے تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق خود کو ہمیشہ تابش کے ساتھ ہی خریداری کا پابند کرلیا تاکہ انکے بازاری پن کا کچھ تو فائدہ ہمیں بھی ہو۔۔۔ خواجہ کو اس "ڈیل” کی بھنک ملی تو بہت اتاؤلے ہوئے۔۔ گو ہم سے عمر میں کافی بڑے ہیں مگرقائم بشاشت کے واسطے سے جسے ہماری بیگم انکا اور ہمارا دائم ٹہرا ہوا بچپن بتاتی ہیں وہ ہم سے رشتہء دوستی سے پیہم جڑے ہوئے ہیں۔۔
بھئی آئندہ ہم بھی جایا کرینگے آپکے ساتھ ۔۔۔! ” خواجہ نے بڑی لجاجت سے کہا
جس پہ ہم نے انہیں باور کرایا کہ بازار میں بڑا ہجوم ہوتا ہے ۔۔ بہت دھکے لگتے ہیں جس سے آپ کی پہلے سے سرکی ہوئی ہڈیاں مزید سرک سکتی ہیں ،،، ”
‘تو کیا ہوا ہمیں اسکی تاب ہے۔۔۔ آخر ہمارا ابھی بگڑا بھی کیا ہے ” خواجہ سینہ پھلا کے بولے
لیکن جب ہم نے صراحتاً بیان کیا کہ "بڑے ہجوم میں بہت خواتین بھی ہوتی ہیں جو کہ آپکی عمر کو دیکھتے ہوئے برسرعام یہی کہیں گی کہ انکل رستہ دیں،،، زیادہ رش میں تو یہ بھی امکان ہے کہ پکار اٹھیں "بڑے میاں رستہ چھوڑو” اور یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی نوجوان الٹی سیدھی حرکت کرکے سٹک لے اور اسکے عین پیچھے آپ ہوں اور بلاوجہ دھرلیئے جائیں اور”بڈھا ٹھرکی” کہ کر آپکی معتبر گُدی پہ ادھر ادھر سے 2-4 دھر دیئے جائیں ۔۔۔۔ تو یہ سن کر وہ مطلق سناٹے میں آگئے اور کچھ دیر بعد نجانے کیا سوچ کر یا جانے کیا یاد آگیا کہ ایکدم جھرجھری سی لی اور خود سے بول پڑے”نہیں بھئی تم ہی جاؤ بازار ،،، ہمیں نہیں پجتا یہ بازار وازار کے چکر وکر لگانا ،،، مزید وضاحت یہ کی کہ اس سے آدمی بہت بازاری بازاری سا دکھائی دینے لگتا ہے۔۔۔
تابش کی معیت میں ہم جب پہلی بار بازار پہنچے تو بازارکے رنگ الگ سے ہی دکھائی دیئے اور تابش کے رنگ ان سے بھی زیاد،، وہ ایمان کی حد تک یقین رکھتے ہیں کہ جہاں چار خواتین ہونگی بہتر خریداری کے سارے امکانات بھی وہیں ہونگے۔۔۔ انہی کی نقل میں قیمت بھی کم کرائی جاسکتی ہے اور معیاری اشیاء تک رسائی بھی ہوسکتی ہے۔۔۔ اسلیئے وہ سب سے پہلے بازار کے بحر مسمات میں نظری گھڑے دوڑانے پہ توجہ مرکوز کرتے ہیں،،، لیکن ایک آدھ بار ایسا بھی ہوا کہ انہیں کسی گرگ باراں دیدہ سی خاتون نے پہلے تو میٹھی نظروں سے تاکا اور جب "کچے دھاگے” سے سرکار بندھے چلے آئے تو بڑے سبھاؤ سے اپنے سامان کے بھاری تھیلے تھامنے کو دیدیئے اور ساتھ ہی مزید "اپنا پن” دکھاتے ہوئے رکشہ کرانے کی ڈیوٹی بھی سونپ دی تو پھر حضرت بہت بدحواس ہوئے اور کئی دن تک ایسی "زنان بازاری” سے اجتناب کرنے لگتے تھے،،، لیکن چند ہی دن میں مضطرب دل کے ہاتھوں یہ گریز پھر ہوا ہو جاتا تھا،،، لیکن ‘لدو گھوڑا’ بنانے کے لیئے انکی ہم پہ مفت کی چوڑان تھی ۔۔۔ ہم چونکہ فرمانبردارپخ کے کردارپہ مامور تھے سو چند بھاری تھیلے ہم پہ بھی لاد دیئے جاتے تھے۔۔۔ اور ہم دور سے پھوہڑ قلی دکھائی پڑتےتھےکہ کبھی خود گرتے تھے تو کبھی سامان ، اک ہم ہی نہیں اس قسم کے لداوے بھلا کسے مرغوب ہوں گے کہ جس میں کاٹھی پہ کوئی چڑھا ہو اور شکریہ بھی دوسرے کے ہاتھ لگے یہانتک کے دلنشین مسکرا ہٹ بھی اسی رخ پہ ہو،،، گویا چپڑی اور دو دو،،
اس مستقل حسد پرور فضا میں اور کیا ہوسکتا تھا سوائے اسکے کہ ہم آئے دن انکی خوشامد سے باز آئیں اور یوں نے تہیہ کرلیا کہ تابش سے جلد سے جلد "آداب خریداری” کا گیان حاصل کرینگے اور ان سے جان چھڑائیںگے اور ضمنی فائدہ یہ ہوگا کہ ان پہ پڑجانے کی انکی تہمت سے بھی نجات پائینگے،چنانچہ اگلے چند دوروں میں ہم نے کتابِ خریداری کے باقی کے اسباق بہت تیزی سے مکمل کیئے،، تابش اس شتابی پہ حیران تو بہت ہوئے لیکن ہمارے پاس بھی تاویلات کی کمی نا تھی،،، سو آداب خریداری سیکھنے کا یہ برخوردارانہ مرحلہ بھی بخوبی تمام ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے ہم پورے اعتماد کے ساتھ تن تنہا بازار میں خریداری کرتے پائے جانے لگے اور ہماری چال میں اب تو چلن ہی کچھ اور ہے اور عالم یہ ہے کہ ہم اس باب میں بہت درک رکھتے ہیں اور ہرکسی کو سکھانے کی بڑی پھڑک رکھتے ہیں – یہ اسی ‘پھڑک’ کی ہی دین ہے کہ ہم نے آج آپ کو بھی خریداری کے گر سکھانے کا تہیہ کرلیا ہے تاکہ اس کے پابند نہ رہیں کہ جس پہ آپنے اس مد میں تکیہ کرلیا ہے
آداب خریداری کے سلسلے مین پہلے تو یہ جان لیجیے کہ بازار جانے کے بھی کچھ قاعدے قانون ہیں،، پہلا قائدہ تو وہی ہے کہ جو گھر سے باہر نکلنے کے آدب کی ضمن میں ہم اپنے اک مضمون میں پہلے بھی بتا چکے ہیں کر باہر کہیں بھی جانے سے پہلے اطمینان سے ہلکے ہو لیجیئے ،، یاد رکھیئے بازار میں معدہ جتنا ہلکا اور جیب جتنی بھاری ہوگی خریداری اتنے میں اتنا ہی اطمینان پایا جائیگا ورنہ آپکے مسلسل چوکنے رہنے سے دکاندار آپ کی بابت بہت چوکنے ہوسکتے ہیں اور اچھی خریداری کے لیئے یہ ہرگز کوئی اچھا شگون نہیں اور یہ نہ ہو تب بھی محض یہی ایک قباحت تھوڑی ہی دیر میں آپکو خریداری سے فارغ کرسکتی ہے اور خالی ہاتھ اوربھرے پیٹ منہ لٹکائے گھر پلٹنے پہ مجبور کرسکتی ہے- فن خریداری کا دوسرا اہم پہلو قطعی احتیاطی ہے اور وہ یہ کہ آپ چمکتی دمکتی باسکٹ کا استعمال مکروہات کے درجے میں لے آئیں کیونکہ خدشہ ہے کہ اسکی قیمتی چھب آپکی اقتصادی حیثیت کو دکاندار کی نظر میں بہت بلند و بالا کردے گی اور آپکے کفایتی اقدامات کو تہ و بالا کردے گی ، بازاری ماہرین کے نزدیک اس ضمن میں کپڑے کے تھیلے کا استعمال مجرب اور نہایت پسندیدہ ہے، کہ جس کے ہر دھاگے سے خاص مطلوبہ ترس انگیز مقدار میں مسکینی جھلکتی ہے اور دوچار بار کے استعمال پرنمودار ہوجانے والے پھونسڑے تواسکی لاچارگی کو درجہ کمال تک پہنچادیتے ہیں۔۔۔ اور دکاندار کے جذبہ ترحم کو چوکسی سے ابھارنے میں مددگار ہوتے ہیں۔۔
یہ بھی ہے کہ تھیلا اگر زیادہ بڑا ہو تو صاحب تھیلا کی مستحکم قوت خرید کو منعکس کرتا ہےاور خواہ مخواہ دکانداروں کی صلاحیت فروخت کو للکارتا ہے لیکن اگر زیادہ چھوٹا ہو تو کوئی کوئی دکاندار اس میں پلے سے چار سکے ڈال کر باہر کا اشارہ کردیتا ہے لہٰذا یہ دونوں ہی کام خوا مخواہ اپنے لیئے بدگمانی مدعو کرنے کے ہیں سو اعتدال کی راہ مناسب ہے،،، بہتر ہے کہ حسب خریداری ایک درمیانی سائز کا تھیلا یا زیادہ سے زیادہ ایسے دو تھیلے لے جائیں لیکن انہیں اتنا نا بھرلیں کہ بعد میں چند اشیا تھیلے سے اچک جائیں۔۔ ایسی صورت میں آپکو انہیں ڈھونڈھنے انہی راہوں پہ واپس چل کر جانا پڑسکتا ہے کہ جہاں سے آپ گھر پہنچے تھے ،،، سڑک پہ پڑے ہوئے سامان کوڈھونڈھنا بھوسےمیں سے سوئی کو کھوجنے کے برابر ہے،، عموماً ایسا سفر 4 گنا وقت لیتا ہے اور خصوصاً 10 گنا عزت خطرے میں ڈال دیتا ہے،، گویا سامان بھی گیا اور عزت بھی، اس سے مہنگا سودا اور بھلا کیا ہوسکتا ہے،،،پھر یہ بھی تو ہے کہ اس کھوجی مہم جوئی کے دوران آس پاس سے گزرتے لوگ دور تک مڑمڑ کر آپکو دیکھتے رہتے ہیں اور آپ آنکھیں میچ کے زیرلب انہیں اور خود کو ان القاب سے نوازتے رہتے ہیں کہ جنہیں عام طور پہ ادا کرنے کا آپ کبھی سوچ بھی نہیں سکتےتھے، اور اگر وہ سن پائیں تو آپکو کسی بھی مہم کے قابل نہ چھوڑیں –
بھائی تابش کا کی ماہرانہ رائے کے مطابق اچھی کفایتی خریداری کے لیئے یہ بھی لازم ہے کہ بازار میں داخل ہونے سے قبل خریدار اپنے چہرے پہ خاطر خواہ مسکینی لائے لیکن مناسب مقدار میں کیونکہ اگر یہ مقدار مقررہ معیار سے بڑھ گئی تو وہ دیرینہ بیروزگار یا دائم ُنفقتا معلوم ہوگا اور ہر دکانداراپنے تھڑے کی طرف آنے سے پہلے ہی بے تابانہ ہشکار دے گا،،، بس اتنی ہی عاجزی کافی رہے گی جو مہینے کی آخری تاریخوں میں ہر تنخواہ دار کے برتاؤ اور لہجے میں خود بخود شامل ہوجاتی ہے،،، یہ بھی ضروری ہے کہ اپنی پتلون کو بیلٹ سے کس لیجئے پھر بھی مزید احتیاط کی غرض سے اشیاء کی قیمتیں پوچھتے وقت پتلون کو ذرا ایک طرف سے تو پکڑ ہی لیجیئے،، نفخ معدہ کے مریض یہ رسک نا ہی لیں تو بہتر ہے ورنہ بہت زحمت اٹھانی پڑ سکتی ہےانکو بھی اور تاب نظارا نا لاسکنے والوں کوبھی۔۔۔
کامیاب خریداری کا یہ آخری گر بھی مضبوطی سے پلے سے باندھ لیجیئے کہ دکاندار مطلوبہ شے کی جو بھی قیمت بتائے اسکے بارے میں پورا بھروسہ رکھیں کہ وہ غلط ہے،،اس لیئے اس سے فوری اور اندھا دھند جرح کا آغاز کردیں ۔۔۔ اکثر یہ نسخہ کامیاب رہتا ہے کیونکہ عاقل دکاندار اپنے اعصاب چٹخنے سے پہلےپہلے قیمتیں کم کردیا کرتے ہیں کیونکہ انہوں نے بحثیئے گاہکوں کی وجہ سے انہیں پہلے ہی خوب بڑھا چڑھا کر بتایا ہوتا ہے۔۔۔اب اگر کوئی غافل گاہگ خود ہی ان سے جرح نا کرے تو یہ عین اسکی بدقسمتی ہے،، دکاندار سے ایسی بحث کرنا کہ اسکے پسینے اور چھکے ساتھ چھوٹ جائیں جلد نتائج برآمد کرتا ہے اور صیح یا غلط دونوں صورتوں میں گاہک آدھے گھنٹے ہی میں اس دکان سے باہر کھڑا ہوتا ہے– تاہم قیمت کم نہ کرنے پہ دکاندار کے سامنے عاقبت اور سزاؤں کا بیان بھی ہماری تاریخی بازاری روایات کا حصہ ہے جسے ہرگز نہ بھلانا چاہیئے – اور یہ بھی یاد رکھنا لازمی ہے کہ ایسے ڈھیٹ دکاندار کو دکان سے واپس جاتے جاتے بار بار خدا کا خوف دلانا مگر پھر بھی مطلوبہ نتائج نہ نکلنے پہ ہزار طعنے مارتے ہوئے مطلوبہ شے میں سو سو نقص نکالتے ہوئے اس کی قیمت چکانا بھی مشرقی آداب خریداری کا لازمی حصہ ہے ۔ ورنہ آمدو رفت کے خرچ کا نقصان لمبے عرصے کے لیئے جی کا زیاں بن جاتا ہے ۔۔
ہاں چلتے چلتے ایک بات اور، بھائی تابش کے بقول ہم میں سے کئیوں کو جن بیشمار وجوہات کے سبب اہل مغرب سے چڑ ہے ان میں ایک یہ بھی ہے کہ یہ بد بخت اکثر اپنی دکانوں ‘فکسڈ ریٹ’ کے پھٹے لٹکائے رکھتے ہیں اور انکی اندھی تقلید کرنے والے ہمارے چند دیسی دکاندار بھی انہی کی راہ پہ چل پڑے ہیں – یہ ناہنجار فرنگی ہمیں تنگ کرنے کا کوئی ہتھکنڈہ نہیں چھوڑتے اور انکی بےتحاشا نقل کرنے والے یہ مقامی لوگ بھی یہ ذرا خیال نہیں کرتے کہ بھاؤ تاؤ پہ اس گھناؤنی بندش سے ، ہمیشہ بحث کرنے کا عادی دیسی گاہگ آخر اپنے جذبات و صلاحیت کی نکاسی بھلا کیسے اور کیونکر کر پائے گا ، خصوصاً خواتین ،، جو بس یو نہی تڑپ کے بے نیل و مرام اپنے گھر واپس نہ لوٹ جائیں گی۔۔! شاید اسی لیئے چند فرنگی دشمن ذہن کے لوگ فکسڈ ریٹ کے بورڈ کو بھی خاطر میں نہیں لاتے اور ایسے ناخلف مغرب پرستوں کو سر میں شدید درد کی سزا لازمی دے کے آتے ہیں –