تفہیمِ کلامِ اقبالؔ : آج اہم اوراشد ضروری کیوں؟ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خان حسنین عاقبؔ

Share

حسنین ثاقبتفہیمِ کلامِ اقبالؔ : آج اہم اوراشد ضروری کیوں؟

خان حسنین عاقبؔ
پوسد ۔ مہاراشٹرا
موبائل : 09423541874
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اقبالؔ کی فکر ،اس کے نظریات اور اس کی فکر کے سوتوں کی بازیافتگی ایک ایسا عمل ہے جس میں تہہ در تہہ معنویت کے نئے ابواب کی کُشاد ہوتی رہتی ہے۔ کلامِ اقبال کی تفہیم اقبالؔ کی فکر، اس کے تخیل، اس کے نظریات کے سوتوں جنہیں ہم منابع اور ماخذات کہہ سکتے ہیں، کے باضابطہ مطالعے کے بغیر ناممکن ہے۔ اگر ہم تفہیمِ کلامِ اقبال ؔ کی بات کریں اور اس میں زمانے بھر کے فلسفوں، افکار، نظریات اور پھر آخرِ کار، قرآن اور احادیث کی بات نہ ہو، اس امر کے امکانات صفر ہیں۔ کیوں کہ اقبالؔ کا کلام بھی آنے والے حالات کی پیش بینی اور انہی حالات کا عکاس اور غماز ٹہرتا ہے۔

اس عنوان کے تحت جو سب سے پہلا سوال میرے یا آپ کے ذہن میں آنا لازمی ہے، وہ یہ ہے کہ اقبالؔ کے کلام کی تفہیم کی ضرورت کیوں محسوس کی جارہی ہے۔ آئیے، ہم کچھ ایسے نکات پر بات کریں جو میرے اس مقالے کے عنوان کو واضح کرنے میں ممد و معاون ثابت ہوں گے۔
۱۔مادری زبان کے نئی نسل کا تغافل:
اس ضمن میں جو پہلا مسئلہ میری فکر کا موضوع بنا ہے وہ ہے ہماری نئی نسل کا اپنی مادری زبان کے تئیں تغافل۔ اگر یہ تغافل عارفانہ ہوتاتو شائد میرے اندر کا شاعر اس کی کوئی توجیہہ بھی پیش کردیتا لیکن یہ تغافل عارفانہ نہیں ہے بلکہ مجرمانہ ہے۔ کسی فلسفی نے کہا تھا کہ اگر کسی قوم کو اپنی وراثت کے احساس سے بے نیاز کرنا ہوتو اسے اس کی مادری زبان سے بے نیاز کردو۔ ہمارے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ہے اور ہو رہا ہے۔ ہم اپنی نئی نسل کو اپنی مادری زبان سے بے نیاز کرچکے ہیں اسی لئے نتیجتاً ہماری نئی نسل اپنی وراثت سے بے نیاز ہوچکی ہے۔ اور اگر اس بے نیازی میں ذرہ برابر بھی احساسِ گم گشتگی ہوتا تو اس کی شدت میں تھوڑی تو کمی ہوتی لیکن یہ بے نیازی مکمل طور پراپنے اندر تفاخر کا جذبہ رکھتی ہے۔ یعنی اب ہماری نئی نسل فخر کرتی ہے کہ ہمیں اردو نہیں آتی اور پرانی نسل بھی اس زعم کا شکار دکھائی دیتی ہے کہ صاحب، ہم نے تو اپنی نئی نسل کو انگریزی سے پڑھایا ہے۔ لیجئے، بقول اقبالؔ ؂
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
نقصان ہونا اتنی بڑی بات نہیں جتنی افسوسناک بات نقصان کا احساس نہ ہونا ہے اور ہمارے ساتھ یہی معاملہ ہے۔
۲۔ادبیات سے نئی نسل کی لاتعلقی:
اب دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ نئی نسل کا ادبیات سے کوئی رشتہ نظر نہیں آتا۔ پہلے یہ ہوتا تھا کہ شام ہوتے ہیں بزرگ مرد و خواتین اپنے اپنے گھروں کے آنگن میں اپنی نئی نسل کو اپنے سامنے بٹھاکر ان سے بیت بازی کے مقابلے کرواتے تھے۔ زبان دانی کے مقابلے ہوتے تھے جس میں زبان کی صحت ، زبان کا املا، زبان کا روزمرہ، محاوروں کا استعمال وغیرہ سکھایا جاتاتھا۔ ان ساری لسانی سرگرمیوں کی وجہ سے نسلِ رفتہ کی لسانی اور ادبی تربیت نہایت سلیقے اور اہتمام کے ساتھ ہوا کرتی تھی ۔ لیکن اب یہ سب کچھ نہیں ہوتا۔ اب تو ہر گھر میں ٹی۔ وی نامی دجّال نے اپنا ڈیرا جمالیا ہے۔ کیا بزرگ، کیا جوان اور کیا خورد، کیا خواتین اور کیا مرد، تمام اس دجال کی زلفِ گرہ گیر کے اسیر ہیں۔ ایسے میں کس کو وقت ملتا ہے کہ وہ نئی نسل کی بہتری اور ان کی ادبی و لسانی ترقی کی فکر کرے۔ اس مسئلے نے نہ صرف نئی نسل کو ادبیات سے دور کردیا ہے بلکہ ادبیات کے ذریعے جو اخلاقی تربیت ہوا کرتی تھی، نئی نسل کو اس سے بھی دور کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اپنی انہی کھُلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ نئی نسل اخلاقی انحطاط کی منازل کس تیزی سے پار کر رہی ہے۔ نئی نسل نہ اپنے والدین، بزرگوں اور اساتذہ کے تئیں با ادب ہے اور نہ ہی اپنے بعد کی نسل کے تئیں اس میں احساسِ ذمہ داری پایا جاتا ہے۔
۳۔ ادب کے نام پر مشاعروں کی نوٹنکیوں کا اثر:
اگر ہم یہ مان بھی لیں کہ کسی نہ کسی طور پر نئی نسل اپنی زبان اور اپنی ادبیات سے جُڑی ہوئی ہے تو چلئے، لگے ہاتھوں یہ منظر نامہ بھی ملاحظہ کرلیتے ہیں۔ آج کل جو مشاعرے دھڑلّے سے ہماری نئی نسل کوادبیات کے ایک شعبے یعنی شاعری کے نام پر جو کچھ پروس رہے ہیں، الاماں ، الحفیظ!
مشاعروں کے ڈائس سے بہت سے ایسے لوگ شاعری پیش کرتے ہیں جو نہ ہی اپنی مادری زبان پر دسترس رکھتے ہیں اور نہ فنِ شاعری پر۔ نہ ہی ان کی گفتار میں سلیقہ ہوتا ہے اور نہ ہی ان کے اخلاق ان کے ذریعے پیش کردہ ’شاعری‘ کے مواد سے میل کھاتے ہیں۔ یعنی بقول اقبال ؔ ؂
اقبال ؔ بڑا اُپدیشک ہے، من باتوں میں موہ لیتا ہے
گفتار کا غازی بن تو گیا، کردار کا غازی بن نہ سکا
اس پس منظر کے ساتھ اگر ہم غور کریں تو بات سمجھ میں آجائے گی کہ آج کے دور میں اقبالؔ کی فکر کی تفہیم کی ضرورت ہمیشہ سے زیادہ کیوں ہے۔ اقبالؔ کی شاعری در اصل اس کی شاعری نہیں، اس کے درونِ دل کی آواز ہے، اس کی شاعری اس کی صالح فکر کی ترجمان ہے ۔
اقبال نے خود کہا تھا ،’میں نے کبھی اپنے آپ کو شاعر نہیں سمجھا۔ فنِ شاعری سے مجھے کوئی دلچسپی نہیں رہی۔ہاں، بعض مقاصدِ خاص رکھتا ہوں جن کے بیان کے لئے حالات و روایات کی روُ سے میں نے نظم کا طریقہ اختیار کر لیا ہے ورنہ ؂
نہ بینی خیر از مردِ فرودست
کہ بر من تہمتِ شعر و سخن بست‘
مندرجہ بالا جملوں میں اقبال نے جو کہا ہے وہ تو واضح ہے لیکن آخرمیں فارسی شعر کی شکل میں جو بات کہی ہے وہ اس سے کہیں آگے کی بات ہے ۔ شعر کا مفہوم ہے کہ تو اُس مردِ فرودست سے کچھ خیر نہیں دیکھے گا جس نے مجھ پر شعر و سخن کی تہمت باندھی ہے۔بس، یہیں سے اقبال، اقبال بن جاتا ہے۔ اس لئے اگر اقبالؔ کو صرف ایک شاعر کی حیثیت سے پڑھنے والا اقبالؔ کے مقام کے تعین میں کامیاب نہیں ہوسکتا جب تک وہ اقبال کی فکر کی تہہ تک نہیں پہنچ جاتا۔ نئی نسل کو اقبال کی اسی فکر سے متعارف کروانا ہمارا مقصد ہے۔ اقبال ہی واحد ایسا شاعر ہے جس نے اپنی ساری شعوری زندگی اجتماعیت، حرارتِ زندگی، فعالیت، احساسِ گم گشتگی ،کوششِ بازیافتگی، حکمت و مصلحت ، سود و زیاں کی ستیزہ کاری، عقل و خِرد کی عیاری اور جنون و عشق کی باہمی کش مکش کی تفہیم کی نذر کردی۔ اور ایک مومنانہ زندگی کے یہی وہ عناصر ہیں جن کے تحمل کے بعد ہی انسان ایک بشر میں تبدیل ہوجاتا ہے ورنہ و ہ محض ایک حیوانِ ناطق ہی رہتا ہے۔
میرا یہ سوال پھر ایک مرتبہ اپنا اعادہ خود کرتا ہے کہ فکرِ اقبالؔ کی تفہیم کی ضرورت کیوں ہے؟
اب کی دفعہ اس سوال کا جواب مجھے محمد علی جناح کے اس بیان سے ملا جب انہوں نے کہا،’مرحوم دورِ حاضر میں اسلام کے بہترین شارح تھے۔ کیونکہ اس زمانے میں اقبال سے بہتر اسلام کو کسی نے نہیں سمجھا۔میں نے ان سے زیادہ وفادار رفیق اور اسلام کا شیدائی کوئی نہیں دیکھا۔‘
ادھر ایک اور صاحب اقبال کو شعر و سخن کے شعبے سے باہر نکال کر اس کی فکر کی تفہیم پر زور دیتے ہوئے کہہ رہے ہیں،’وہ با وجود اتنا بڑا مشہور شاعر ہونے کے شاعر نہیں ہے بلکہ اپنے پیام سے مقامِ نبوت کی جانشینی کا حق ادا کر رہا ہے۔مبارک ہیں وہ ہستیاں جو اقبال شناس ہوجائیں۔‘ یہ الفاظ ہیں عبد الماجد دریابادی کے جو میری اس گفتگو پر دال ہیں۔مولانا عبد الماجد دریاآبادی کے الفاظ میں اقبال ؔ مقامِ نبوت کی جانشینی کا حق یوں ادا کر رہا ہے کہ وہ اُس فلفسہ اور اس ضابطۂ حیات کے غلبہ کی فکر میں لوگوں سے کلام کر رہا ہے جس ضابطۂ حیات کو محمدِ عربیﷺ کی ذات پر منکشف کیا گیا تھا اور اس کے نزول کی بابت کہہ دیا گیا کہ اگر اس کو پہاڑوں پر نازل کیا جاتا تو پہاڑ اللہ کے خوف سے لرز جاتے ۔ یعنی ؂
سب پہ جس بار نے گرانی کی
اس کو یہ نا تواں اُٹھالایا
اقبالؔ کی پوری شاعری اسی فکرِ لاہوتی کی غماز ہے۔اسی لئے اقبال کی شاعری، اس کی فکر کی تفہیم دورِ حاضر کی اہم ضرورت ہے۔ یوں بھی آج کے اس دورِ پُر فتن میں جتنی ضرورت اقبال کی فکر کی تفہیم کی ہے، شائد اس سے پہلے کبھی نہیں تھی۔
اقبال ؔ کی فکر ایک ایسی فکر ہے جس کا آمیزہ بنیادی طور پر دو چیزوں سے کشید ہوتا ہے۔ اولاً قرآنِ حکیم جس کے بارے میں اقبال کا کہنا ہے کہ ؂ گر تو می خواہی مسلماں زیستن
نیست ممکن جُز بہ قرآں زیستن
اور ثانیاً اس کی فکر کا منبع ہے رسولِ اکرمﷺ کی تعلیمات جن کے بارے میں اس کا ایقان ہے کہ ؂
بہ مصطفی بہ رساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ او نہ رسیدی ، تمام بو لہبی است
اقبالؔ نسلِ انسانی کی کامرانی کے فلسفہ کو سمجھ چکا تھا اور ہماری فکر بھی یہی ہے کہ نئی نسل اقبال کی اس فکر کو سمجھنے والی بن جائے۔ اسی لئے اقبال اس نئی نسل سے مخاطب ہوکر کہتا ہے۔
ترا جوہر ہے نوری ، پاک ہے تو
فروغِ دیدۂ افلاک ہے تو
ترے صیدِ زبوں افرشتہ و حور
کہ شاہینِ شَہِ لولاک ﷺہے تو
لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ اقبال کی فکرِ رسانے اُس انہونی کو دیکھ لیا تھا جو ہونے والی تھی۔ اس کے ذوقِ پیش بینی نے اسے وہ نظارہ دکھا دیا تھا جس کے تحت آنے والے وقت نے ’ناخوب‘ کو ’خوب‘ کا تصدیق نامہ دے کر اسے ہر گھر میں قابلِ قبول بنانا تھا۔ اور یہ تب ہونا تھا جب مسلمانوں کا ذہن غلامی کی زنجیروں میں جکڑا جانا تھا۔ اور آج کا وقت، وہی بُرا ترین وقت ہے جب ہم اپنی زندگی میں ان اشیاء اور اقدارکو خوب ماننے لگے ہیں جو ہمارے اسلاف کی نگاہوں میں نا خوب تھیں۔ اسی لئے اقبالؔ کی فکر کو سمجھنے کی ضرورت بہت شدید ہوچکی ہے۔ یعنی بقول اقبالؔ ؂
تھا جو ’ناخوب ‘ بتدریج وہی ’خوب‘ ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
یہ ایک ایسی نفسیاتی بیماری اور اخلاقی مرض کا منظر نامہ ہے جن نے ملت اسلامیہ کی نسلوں میں اخلاقی سڑاند پیداکردی ہے اور اس میں ایسے جراثیم پیدا کردئے ہیں جن سے نئی نسل کور چشم، کور بیں، کور عقل، کور ذہن اور کور شعور ہوچکی ہے جس کی وجہ سے بنی نوع انسان کی یہ حالت اقبال کو اللہ سے فریاد کرنے پر مجبو ر کرتی ہے۔وہ اس عالمِ رنگ و بو کے سلطان، حضرتِ انسان پر نوحہ کُناں ہے۔
یہی آدم ہے سلطاں بحر و بر کا
کہوں کیا ماجرا اس بے بصر کا
نہ خود بیں، نے خدابیں ، نے جہاں بیں
یہی شہکار ہے تیرے ہُنر کا
ہم آج تاریخِ انسانی کے اسی نازک مقام سے گزر رہے ہیں جہاں ہماری نئی نسل اپنے اسلاف کی روایات اور ان کی تعلیمات سے مکمل طور پر کندھے جھٹک چکی ہے۔ اسے احساس دلانا ہوگا کہ تم جن تعلیمات کو زندگی سے نکال چکے ہو، وہ تعلیمات تمہاری زندگی کی ضمانت ہیں۔ ان اقوام اور ان افراد کو دیکھو جنہوں نے ان تعلیمات کو اپنا اور دوجہاں کی کامیابی و کامرانی حاصل کی اور ایک تم ہو کہ تم کو پیدائشی طور پر یہ ان تعلیمات کے حصول کا حق حاصل ہے اور تم ان سے پیچھا چھڑاچکے ہو۔ اقبال اس کیفیت کی تصویر کشی ان الفاظ میں کر تا ہے ۔
تری دنیا ، جہانِ مرغ و ماہی
مری دنیا ، فغانِ صبحگاہی
تری دنیا میں ، میں محکوم و مجبور
مری دنیا میں تیری پادشاہی
مگر یہ صرف تشخیصِ مرض ہے جس کے بعد کی منزل معالجہ ہے۔ اقبال اس کا علاج بھی تجویز کر تا ہے اور یہ علاج، یہ دوائی ایسی ہے جس کا کوئی توڑ دنیا میں کہیں ممکن نہیں ہے ۔یہی دوا انسانی تاریخ کی سارے خبائث کا واحد علاج ہے۔
نگہ الجھی ہوئی ہے رنگ و بو میں
خِرد کھوئی گئی ہے چار سو میں
نہ چھو ڑ اے دِل فُغانِ صبحگاہی
اماں شائد مِلے اللہ ھو میں
وہ سمجھتا ہے کہ اس کے فکر کی تفہیم کم از کم اتنا کام تو کردے گی کہ جسارت اور غیرت کے حامل نوجوانوں میں بیداری پیدا کردے گی ۔
اگر جواں ہوں مری قوم کے جسور و غیور
قلندری مری کچھ کم سکندری سے نہیں
اور پھر اس کی فکر ان تمام سلفائے رشد و اکابرین کے افکارِ صالحہ کو اپنا منبع اور ماخذ بناتی ہے جن کی اپنی فکر دینِ قیّم کی بنیادوں پر ایستادہ ہے۔
نئی نسل کو اگر ہم اس صالح فکر ، درویش صفت اور قلندر مزاج شاعر ، جسے میں شاعر سے زیادہ صوفی سمجھتا ہوں، کی فکری جہتوں سے واقف اور متعارف نہ کروائیں تو یقیناًیہ ایک تسامح اور تساہل ہوگا جس کی تلافی صرف ہمیں ہی نہیں بلکہ اگلی کئی نسلوں کو کرنی ہوگی۔میں اقبال ہی کی اس دعا پر اپنی اس گفتگو کا اختتام کرنا مناسب سمجھتا ہوں۔
عطا اسلاف کا جذبِ دروں کر
شریکِ زُمرۂ لا تحزنوں کر
خِرد کی گتھیاں سُلجھا چکا میں
مرے مولا، مجھے صاحِب جنوں کر
*۔*
علامہ اقبال ٹیچرس کالونی، مومن پورہ، واشم روڈ ۔ پوسد۔ 445215 ضلع ایوت محل ، مہاراشٹرا
Email:

Share
Share
Share