عبداللہ حسین کاایک استعاراتی ناول ’’قید‘‘ ۔ ۔ ۔ ۔ عبدالعزیز ملک

Share

aziz  ’’قید‘‘

عبداللہ حسین کاایک استعاراتی ناول ’’قید‘‘

عبدالعزیز ملک،لیکچراراردو
گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد ۰۳۴۴۷۵۷۵۴۸۷

اردو فکشن نویسی میں جتنی داستان نگاری کی تاریخ قدیم ہے ناول نگاری کی تاریخ اتنی قدیم نہیں ، اس کے باوجود اس صنفِ ادب نے اپنا معیار مقرر کرنے میں طویل مدت صرف نہیں کی۔اس صنف کو پروان چڑھانے میں اُن فنکاروں کا بڑا حصہ ہے جنھوں نے ناول کے ذریعے زندگی کی جیتی جاگتی تصویریں پیش کیں ،حسن و عشق کے قصے بیان کیے اورتاریخی اور سیاسی پس منظر میں انسانی تہذیب کی دستاویزات مرتب کیں۔ناول انسانی زندگی کی ترجمانی کر تے ہوئے ہمیں یقین دلاتا ہے کہ اس کی فکری اور تخیلی کائنات حقیقی حیثیت رکھتی ہے ،اور ناول کی کہانی حقیقی اور ٹھوس بنیادوں پر قائم ہوتی ہے۔بالزاک ،ٹالسٹائی ،وکٹرہیو گو،،چارلس ڈکنز اورٹامس مان ایسے ناول نگاروں کے ہاں حقیقت نگاری کا یہی نظریہ رائج ہے۔

بعض ناقدین ناول کو تاثر حیات بھی گردانتے ہیں ان میں ہنری جیمس کا نام سرِ فہرست ہے۔اس نے اپنے مشہور مضمون ’’ ناول کا فن ‘‘(The Art of The Novel)میں لکھا ہے کہ ’’ناول زندگی کا ذاتی اور براہِ راست تاثر ہے۔‘‘اگر دیکھا جائے تو فنکار زندگی کو خاص نقطۂ نظر سے دیکھتا ہے اور اپنے مزاج اور فطرت کے مطابق زندگی کے متنوع پہلوؤں کو تخلیقیت کی بھٹی میں تپا کر فن کے سانچے میں ڈھال دیتا ہے۔دوسرے الفاظ میں فن کی تخلیق میں فنکار کے ذاتی تاثر کا ایک بڑا حصہ موجود ہوتا ہے۔معروف ناول نگار ٹامس ہارڈی نے یہی بات اپنے ناول ’’ٹیس‘‘ کے مقدمے میں بھی کہی ہے کہ ’’ ناول تاثر ہے، مباحثہ یا دلیل نہیں‘‘بیسویں صدی کے نامور ناول نگاروں جیمس جوائس،ڈی ایچ لارنس،آلڈس ہکسلے اور جارج آرویل ایسے ناول نگاروں نے بھی اپنوں ناولوں میں ایسے نظام حیات کو پیش کیا ،جو محض خواب و خیال نہیں بلکہ حیات کے مطالعہ و مشاہدہ ،محسوسات ،جذبات اور تاثرات پر مشتمل حقیقت ہے۔وہ ناول جو سماج اور معاشرہ کی سطحی ترجمانی کرتے ہیں، وقت کا منہ زور گھوڑا انہیں اپنے پاؤں تلے روند کر آگے گزر جاتا ہے،لیکن وہ ناول جوزندگی کا گہرا شعور پیش کرتے ہیں ،آئندہ نسلوں کے لیے ورثہ بن جاتے ہیں۔
اردو ناول نگاری میں کئی ایسے نام لیے جا سکتے ہیں جو گہرا سیاسی ، سماجی اور معاشرتی شعوراپنے ناولوں کے ذریعے پیش کرتے ہیں اور اسی خصوصیت کی بنیاد پر وہ اردو فکشن میں امر ہو گئے ہیں ۔ان میں پریم چند، کرشن چندر، فضل کریم فضلی، جمیلہ ہاشمی ،حسن منظر،قرۃ العین حیدر،مرزا اطہر بیگ، شمس الر حمان فاروقی اور مستنصر حسین تارڑکے نام قابلِ ذکر ہیں۔ عبداللہ حسین کا نام بھی اسی قبیل کے ناول نگاروں میں شامل ہوتا ہے،جنھوں نے اپنے ناولوں میں مافوق الفطرت کا ئنات سجانے کی بجائے حقیقی زندگی کی تصویر پیش کی۔ان کے متعدد ناول (اداس نسلیں ،نادار لوگ،قید اور رات )منظرِ عام پر آئے۔انھیں جس ناول سے شہرت نصیب ہوئی وہ’ اداس نسلیں ‘ہے۔اس ناول میں ایک ایسی نسل کا قصہ بیان کیا گیا ہے جس نے ایک ملک کو ٹوٹتے دیکھا ،ایک معاشرے کو بکھرتے دیکھا، جاگیر داری سماج کی اخلاقیات کی شکست و ریخت دیکھی اورہجرت کے کرب کو محسوس کیا۔عبداللہ حسین نے اس ناول میں قیام پاکستان سے پہلے الجھی ہوئی سیاسی ، سماجی اور معاشرتی صورتِ حال کو گرفت میں لینے کی کامیاب کوشش کی ہے۔اداس نسلیں اپنے عہد کا سیاسی اور معاشرتی مرقع ہے لیکن بقول رضی عابدی (تین ناول نگار)’’اس میں صرف ایک جہت ایسی ہے جسے یہاں نظر انداز کیا گیا ہے اور وہ ہندوستانی سیاست و معاشرت میں مذہب کا عمل دخل اور ملا کا کردار ہے جو اس دور کا اہم ترین عنصر ہے اور جسے اس دور کے کسی لکھنے والے نے نظر انداز نہیں کیا۔ ‘‘لیکن اس کمی کو انھوں نے اپنے ایک اور ناول ’’ قید‘‘ میں پورا کر دکھایا ہے۔
’’قید‘‘ عبداللہ حسین کا ۱۹۸۹ میں چھپنے والا ایک اہم ناول ہے۔جس میں قید کو استعارے کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔اس ناول میں قیدنفسانی خواہشات کی قید ہے ،جو پورے ناول کو اپنے حصار میں لیے ہوئے ہے۔ ناول کے آغاز میں ایک نو سالہ بچہ جب عریاں جسموں کو دیکھتا ہے تو اس کی نفسیات میں ہلچل مچ جاتی ہے۔یہ ہلچل آگے چل کرننگے جسموں پر ہاتھ پھیر کر تسکین حاصل کرنے کی عادی ہو جاتی ہے۔مذکورہ ناول میںیہ قید نفسیاتی اورجسمانی کمزوری کی شکل اختیار کر جاتی ہے۔عمر کے ابتدائی دور میں انسان جب بلوغت کی منزل پر ہوتا ہے تواس کے جذبات میں ہر وقت ہیجان بپا رہتا ہے، وہ چھوٹی سی بات پر خوشی سے اچھلنے لگتا ہے اور معمولی سی بات پر خفا بھی ہو جاتا ہے۔یہ رقیق جذبات اسے چین سے نہیں بیٹھنے دیتے۔بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ اس ہیجان خیزی کے عمل میں نوعمر لڑکے اپنے سے بڑی عمر کی عورتوں سے جنسی تلذذ کے حصول میں مائل ہو جاتے ہیں اور بعض لڑکیاں ادھیڑ عمر کے مردوں میں دلچسپی لینا شروع کر دیتی ہیں۔ناول کے ابتدا میں یہی کیفیت عبداللہ حسین نے قید میں دکھانے کی کوشش کی ہے، جہاں نو سالہ بچہ مائی سروری کے چوتڑوں سے لذت کشید کرتا ہے۔ اس حوالے سے ناول کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو۔
’’صحن کے دوسرے کونے میں دھریک کی گھنی چھاؤں کے نیچے مائی سروری کی چارپائی پڑی ہوتی۔صحن دھوپ میں تپ رہا ہوتا۔بچہ جلتے پاؤں پر ٹاپتاچارپائی کے پاس کھڑا ہو جاتا۔تھوڑی دیر چھاؤں میں تلوے سہلانے کے بعد وہ زمین پر سیدھا لیٹ جاتا۔پھر وہ پیٹھ کے بل کھسکتا ہواچارپائی کے نیچے داخل ہو تا اور ایسے مقام پر جا پہنچتا جہاں چارپائی کے سوراخ اس کے چہرے کے عین اوپر واقع ہوتے ۔ وہاں یہ آرام سے لیٹا ہوا دیر تک ان سوراخوں کو دیکھا کرتا۔وہ سوراخ تو تھے نہیں کہ ان کے پار کُچھ نظر آتا، بلکہ بان کے بیچ مائی کے کالے تہمد کے دو گول چٹاخ ہی دکھائی دیتے۔ مگر بچے کے لیے نہ وہ سوراخ تھے نہ کالے کپڑوں کے چٹاخ،بلکہ دو روشن آنکھیں تھیں جن کے ذریعے وہ وہاں پہ لیٹا پڑامائی کی ان دیکھی دنیا کا تصور کرتا رہتا۔‘‘
(عبداللہ حسین،قید ، سنگِ میل پیلی کیشنز، لاہور،۲۰۰۸،ص ۱۱)
ناول’’قید‘‘ کے تقریباً تمام کردار جنسی ہیجانات کا شکار ہیں ۔ کرامت علی ،فیروز شاہ،رضیہ سلطانہ،سلامت علی،مراد،علی محمداور چودھری اکرم سب کے سب نفسیا تی اور جنسی ہیجانات کے مارے ہوئے ہیں۔اس ناول کو محبت کی قید بھی کہا جا سکتا ہے۔ مائی سروری جو اپنے دور کی حسین عورت تھی محبت میں رُل گئی ۔ ناول کے آخر میں وہ ہم جنس پرستی کی جانب مائل ہو کر جوانی کی منزل پر دوبارہ قدم رکھ لیتی ہے۔رضیہ سلطانہ فیروز شاہ کی محبت کا شکار ہوتی ہے جس کے نتیجے میں وہ ایک حرامی بچے کو جنم دیتی ہے اور مامتا کے جذبات سے مغلوب ہو کر مراد ،علی محمد اور چودھری اکرم کو قتل کر دیتی ہے۔مراد ، علی محمد اور چودھری اکرم رضیہ کے ہاتھوں قتل ہونے سے پہلے جنسی ہیجان کا شکار ہوتے ہیں جس کا بھر پور فائدہ رضیہ سلطانہ اٹھاتی ہے اور ان کو آسانی سے قتل کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے۔کرامت علی اور فیروز شاہ دونوں رضیہ سلطانہ کی جانب مائل ہیں ۔ کرامت علی بارہا خواہش کرتا ہے کہ وہ اس کو نقاب کے بغیر دیکھے لیکن اسے کامیابی نصیب نہیں ہوتی۔بالآ خروہ فیروز شاہ کی دوستی میں اپنی محبت سے دست بردار ہو جاتا ہے اور تساہل پسندی کا شکار ہو کر دوسرے سال کے سہ ماہی امتحان میں فیل ہو جاتا ہے۔وہ اپنی محبت ترک چکا ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود اُس کے دل میں خواہش پیدا ہوتی رہتی ہے کہ کاش وہ ایک بار اس عورت کا چہرہ ہی دیکھ سکتا۔ یہی خواہش بعض دفعہ فیروز شاہ کے لیے حسد کا ایک نا معلوم سا جذبہ رکھنے کا باعث بھی بنتی تھی۔ جنسیات کے ماہرین کا خیال ہے کہ حسد جنسی ایذا طلبی کی ایک شکل ہے جس کا شکار کرامت علی کا کردار ہے۔اس حوالے ناول کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
’’کبھی کبھار جب وہ گمان میں ہوتا تو اپنے آپ کوفیروز شاہ کی جگہ پہ پاتا اور پھر اس حالت میں وہ رضیہ سلطانہ کے پردوں کے زیر زیر رینگتا ہوااس کے اسرار معلوم کرنے کی کوشش کرتا۔ اس عالم میں وہ دیر تک کبھی اندھیرے اور کبھی روشن پردوں کے بیچ بیچ گھومتا رہتا اور جب نکلتا تو نیم سیر ہو چکا ہوتا۔‘‘
(قید:ص۳۵)
وہ اس بات سے پوری طرح آگاہ ہے کہ دل کی باتوں کا تعلق ظاہر کی دنیا سے بہت کم ہوتا ہے۔اس کا دوست فیروز شاہ محبت کے اس سفر میں کامیابی تو حا صل کرتا ہے لیکن رضیہ سے شادی نہیں کر پاتا۔ناول کے اس حصے میں رضیہ سلطانہ کا برقعہ پردے کا نہیں عریانی کا استعارہ بن کر سامنے آتا ہے۔بظاہر وہ اپنا چہرہ ڈھانپ کے رکھتی ہے لیکن وہ ایسے کام کر جاتی ہے جو عام عورت کے بس کے نہیں ہوتے، وہ سیاست کرتی ہے، مردوں سے اپنے سماجی تعلقات قائم کرتی ہے حتیٰ کہ فیروز شاہ سے جنسی تعلقات بھی قائم کرلیتی ہے۔تین قتل کرتی ہے، پھانسی سے خوف زدہ نہیں ہوتی اور محبت کی نشانی کو ایسی جگہ سنبھال کے رکھتی ہے جہاں کسی کی سوچ بھی نہیں پہنچ سکتی۔
ناول ’’قید‘‘ استحصال کی قید کا استعارہ بن کر بھی سامنے آتا ہے۔جاگیر دار اور سرمایہ دار عوام کو اپنی قید میں رکھ کر ان کا بے جا استحصال کرتے ہیں ۔ جاگیردار اور وڈیرے جس طرح چاہیں اور جب چاہیں مجبور اور غریب عوام کی قسمت کے فیصلے کرتے رہتے رہیں ۔ناول میں جاگیرداری اور فوجی آمریت کے ہمرکاب فروغ پانے والی پیری مریدی میں عام آدمی کی قیدکو خا ص طور پر موضوع بنایا گیا ہے۔ڈاکٹر خالد اشرف(برِ صغیر میں اردو ناول)کا کہنا ہے کہ ’’ہوس زراور ہوسِ اقتدار کے زیرِ اثریہ نام نہاد سائیں ،پیر اور مرشد کس طرح طریقت اور کس طرح مذہبی ٹونے ٹوٹکوں کی آڑ میں سارے معاشرے کو اپنے حلقۂ اثر میں قید کیے ہوئے ہیں۔‘‘آ ج کے اس دور میں پیر صاحب مذہب اور تصوف دونوں کی نمائندگی کر رہے ہیں۔سماع کے وقت تن سے جان نکلنے والی کیفیت کی لذت سے آشناحضرات دنیا سے اُٹھ گئے لیکن مزاروں پہ قوالی پھر بھی جاری ہے۔جس مذہب نے انسان کو صرف ایک خدا کے سامنے جھکنے کی تلقین کی، اس کے پیرو کارزندہ پیر کے پاؤں کو بوسے دیتے ہیں اور مردہ پیر کی قبروں کو سجدے کرتے ہیں۔ جس خدا نے شرک کو ناقابلِ معافی گناہ قرار دیا،اس کے بندے اپنی مرادیں مانگنے کے لیے زندہ مردہ پیروں کے سہارے تلاش کرتے نظر آتے ہیں۔تقویٰ جو ذاتی نجات کاوسیلہ تھا ،اس کا ڈھونگ رچا کرکاغذ کے پرزوں پر اعداد و الفاظ لکھ کرلوگوں کو مقدمات جتوائے جاتے ہیں، عورتوں کو اولا ملتی ہے، محبت میں کامیابی نصیب ہوتی ہے اورطلبا امتحان میں کامیاب ہوتے ہیں۔اس ساری صورتِ حال کو ناول میں عبداللہ حسین نے ماہرانہ انداز میں بے نقاب کیا ہے۔
ناول کے مطالعے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ نو آبادیاتی اور مابعد نو آبادیاتی عہد میں جاگیر داری اور خانقاہی نظام نے عوام کو اپنی قید میں رکھااور ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے ۔عبداللہ حسین نے اس ناول میں اس جاگیر داری اور خانقاہی نظام کے بے رحم سلسلے کو بے نقاب کرنے کا جتن کیا ہے۔جاگیر دار اور پیر کا سیاست میں حصہ لینا ،انتخاب جیتنا اور اقتدار میں آنا اس لیے ضروری ہے کہ اس طرح وہ اپنے اختیارات کو وسیع کرتے ہیں اور انتظامی اداروں کا استعمال کر کے اپنے مفا دات کا تحفظ کرتے ہیں۔یہی وہ اختیارات ہوتے ہیں جن کی بدولت وہ اپنے علاقے میں سر پرست کا کردار ادا کرتے ہیں۔جن میں لوگو ں کو ملازمتیں دلوانا، پولیس کے چنگل سے لوگوں کو آزاد کروانااور اپنے مخالفین کو سزائیں دلوانا وغیرہ ،شامل ہوتی ہیں۔ملک میں اس سرپرستانہ نظام کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ لوگوں کے دلوں میں حکومت اور اس کے اداروں کا احترام ختم ہو گیا ہے اوراس کی جگہ پیروں اور وزیروں کا احترام عوام کے دلوں میں بیٹھ گیا ہے۔اس صورتِ حال کی بدولت عوام کا ہر شخص مجبور ہے کہ وہ ان کی سرپرستی میں رہے۔اب جو اس استحصالی طبقے کی سر پرستی سے باہرہوتا ہے اس کے لیے سر کاری اداروں سے کام کروانا انتہائی کٹھن ہے۔اس بورژوا جمہوریت میں جمہوری ادارے سیاست دانوں ، بیورو کریٹس ،جاگیر داروں اور پیروں کے لیے مؤثر ہتھیار ہیں جن کو وہ اپنی ذات کے لیے استعمال کرتے ہیں۔مجلسِ قانون ساز میں بھی ایسے قوانین پاس ہوتے ہیں جو ان کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔پاکستان میں مارشل لا اور فوجی آمریت کے دور میں بھی جاگیرداری اور خانقاہی نظام میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور ان کی مراعات جوں کی توں قائم رہیں۔فوج اور افسر شاہی سے ان کے روابط نے اُن کو ہمیشہ محفوظ رکھا ہے۔ اس حوالے سے عبداللہ حسین ’’ قید‘‘ میں تحریر کرتے ہیں ،اقتباس ملاحظہ ہو۔
’’ایک زمانہ پھر آیا کہ جرنیلوں کی حکومت قائم ہوگئی۔جس طرح سیاست دانوں نے اسلام اور توحیدکے مبارک نام پر قوم کو یکجا رکھنے کی کوشش کی تھی، جب جرنیل سیاست پر قابض ہوئے تو انھوں نے بھی یہ بنا بنایا حربہ مستعار لے لیا۔ ملک کی مسلح افواج نے ایک ایسا پلٹا کھایا کہ ان کی انگریزیت دیکھتے ہی دیکھتے غائب ہو گئی۔ جہاں وہ پہلے صرف انگریزی بولتے اور کلبوں میں پی پلا کر ناچ کرتے تھے، اب یکایک انھی افسروں نے نمازیں پڑھنی اور حج و عمرہ کرنے کے فریضے ادا کرنے شروع کر دیے،جیسے کہ چند ہی روز میں انھوں نے اللہ کے دین کو دریافت کر لیا ہو۔صدرِ مملکت پیر پرست جرنیل تھے ان کی دیکھا دیکھی فوج کے سینئیر افسران نے بھی مرشد پکڑنا شروع کر دیے۔اس زمانے میں کرامت علی شاہ کی مرشدی خوب چمکی‘‘
(قید:۵۷)
درج بالا اقتباس فوج ، خانقاہی نظام اور سیاسی نظام کی مثلث کو زیر بحث لا یا جارہا ہے جہاں فوج کو اپنا اقتدار بچانے کے لیے پیروں اور وڈیروں کی ضرورت تھی اور پیروں اور وڈیروں کو انتظامی اداروں کی ،تاکہ وہ اپنے حلقے میں اپناسر پرستانہ کردار ادا کر سکیں ۔اعلیٰ افسران اور فوجی جرنیلوں کی بیعت سے پیر کرامت علی کی گدی کو بھی ایسی تقویت ملی کہ اب سات پشتوں تک اسے ہلانا خواب و خیال سے بھی باہر تھا۔کرامت علی کاکردارپہلے سیاست میں طالع آزمائی کرتا ہے جب فیروز شاہ کی موجودگی میں اس کی بات نہیں بن پاتی تو وہ افسر شاہی کی طرف متوجہ ہوتا ہے لیکن وہاں جب کوئی بہت بڑا افسر نہیں بن پاتا توپیری مریدی کی جانب ملتفت ہو جاتا ہے۔سلامت علی صحیح معنوں میں خانقاہی نظام کا استعارہ بن کر سامنے آتا ہے جسے اس کے باپ نے اس انداز پر تربیت دی ہے کہ جو وہ اپنی زندگی میں نہیں کر پایا اب وہ اُس کا بیٹا کر دکھائے گا۔ تمام نا آ سودہ خواہشات کی تکمیل کا استعارہ، جنسی کشش کا استعارہ ، مذہبی استحصال کا استعارہ اور سیاسی قوت کا استعارہ سلامت علی کا کردار ہے جو سر پہ خانقاہی کا تاج پہن کر خود کو عہد وسطیٰ کا باد شاہ سمجھتا ہے۔
ناول ذات پات کی قید کا استعارہ بھی ہے ۔سلامت علی کا کردار اپنی نوجوانی میں موضع رکھوال کی نسرین نامی لڑکی سے محبت کا شکار ہوتا ہے ۔نسرین رکھوال کے ایک درمیانے درجے کے زمیندار کی بیٹی تھی۔اس کا باپ بھی کوئی اتنا پڑھا لکھا نہیں تھا۔ ایک روز دونوں کی محبت کی خبر پورے گاؤں میں پھیل گئی جو اس کے والد کے لیے انتہائی تشویش ناک تھی، اس کے بیٹے کی یہ حرکت کرامتیہ سلسلے کے زوال کا باعث بن سکتی تھی۔پیر کرامت علی اپنے بیٹے سے پہلی بار درشتی سے پیش آیا۔اور اسے سمجھانے کی کوشش کی۔
انہوں نے بیٹے کو بتایا کہ نسرین کا گھرانہ ارائیں قوم سے تعلق رکھنے کے علاوہ ،کسی طور بھی اس قابل نہ تھا کہ ان کی ٹکر کا گھرانہ سمجھا جائے،اور دھمکی دی کہ اگر سلامت علی نے اس حرکت کو جاری رکھا تووہ اسے حیدر آباد سندھ اپنی پھوپھی کے ہاں بھیج دیں گے اور کبھی اس کی شکل نہ دیکھیں گے۔‘‘
(قید:۶۳)
وہ نسرین کے ساتھ بیٹے کی محبت کو برداشت نہیں کر سکتا حالاں کہ اپنی جوانی میں وہ خود رضیہ سلطانہ کے خواب دیکھتا رہا تھا ۔لیکن اس وقت نہ تو وہ کسی روحانی سلسلے کا راہنما تھا اور نہ ہی بڑی اراضی کا مالک ۔ اب اس کی سماجی حیثیت بدل چکی ہے اس لیے چھوٹے زمین دار کی بیٹی سے اس کے بیٹے کی محبت نا قابلِ برداشت ہے۔ اس کا بیٹا سلامت علی بھی اپنی محبت کو بھول بھال کر شہر کی رنگین فضا میں گم ہو جاتا ہے اور دوسری جانب نسرین بھی فوج کے لیفٹیننٹ سے شادی کر کے گر ہستن بن جاتی ہے۔ اس کے لیے بھی شائد اپنے سے اونچے سیاسی ، سماجی اور رو حانی حیثیت والے سے تعلقات بحال رکھنا ممکن نہ تھا ۔ اس کی محبت ذات پات اور سماجی رتبے کی قید کی سلاخوں میں دم گھٹ کر مر جاتی ہے۔سلامت علی کو جب نسرین کی شادی کا علم ہوتا ہے تو اسے انگلی میں کانٹا چبھنے کی تکلیف سے زیادہ کُچھ محسوس نہیں ہوتا۔
ناول میں مردانہ معاشرے کی اقدار کو موضوعِ بحث بنایا گیا جہاں عورت مرد کی قید میں ہے ۔ناول میں ایک بار پھر’’ قید‘‘ ایک استعارہ بن کر ظاہر ہوتی ہے۔ناول پڑھتے ہوئے ذہن میں بارہا سوال اٹھتا ہے کہ کیا مرد اور عورت سماج میں برابری کا درجہ رکھتے ہیں۔؟ کیا دونوں خاندانی، قبائلی اورقومی زندگی ایک ہی طرز پہ گزارتے ہیں؟ سیدھا سا جواب ہے کہ ۔۔۔۔ نہیں !پدر سری معاشرے میں مرد وں نے اپنی ملکیتی اشیا کی حفاظت کے لیے جو قوانین بنائے ،وہ عورت پر بھی لاگو ہوتے ہیں۔ سماج کی نام نہاد اخلاقیات اور روایتیں جب تک دنیا میں برقرار رہیں گی عورت براہِ راست مرد کی گرفت میں رہے گی۔اس کی جبلی خواہشات، حسن ،نزاکت،جذبات و خیالات مرودوں کے تصرف میں رہیں گے۔کیوں کہ مرد ایک بے جان شے کی طرح اس سے سلوک کرتا آیا ہے۔ وہ مرد کی ذاتی ملکیت میں ہے اور اپنی مرضی سے اپنے جنسی جذبات،اپنے جسم اور اپنی خواہشات کو استعمال نہیں کر سکتی۔جاگیرداری سماج میں اسے پاؤں کی جوتی سمجھا جاتا ہے۔
ناول کے بیشتر نسائی کردار روایتی ہیں اور مرد کی حکمرانی کے سامنے ہار مان جاتے ہیں۔وہ مائی سروری کا کردار ہو یا نسرین کا کردار سب وقت کے ساتھ اپنے جذبات و احساسات کو دبا کر سماجی اقدار کے ساتھ سمجھوتہ کر لیتے ہیں۔ناول میں ایک کردار ایساہے جو ان تمام حد بندیوں کو توڑتا ہے۔اس کردار کے ذریعے عبداللہ حسین نے زندگی کو ایک منفرد زاویے سے دکھایا ہے۔وہ ایک درمیانے درجے کے روایتی گھرانے سے تعلق رکھتی ہے،لیکن مردانہ معاشرے کی قائم کردہ اقدار سے بغاوت کرتی ہے۔وہ عورت کے مرتبے اور اس کی معاشرتی حیثیت کا شعور رکھتی ہے اور عورت کے ساتھ ہونے والے ظلم پر سراپا احتجاج ہے۔وہ جانتی ہے کہ مرد نے عورت کو معاشی اور سماجی میدانوں سے باہر رکھ کراسے گھر کی چار دیواری تک محدود کر دیا ہے جب کہ مرد سماجی ،معاشی اور معاشرتی میدانوں میں سر گرمی کے عملی کردار کی وجہ سے علم و دانش ،سائنسی خیالات اورمعاشرتی علوم سے واقف ہو گیا ہے۔ اس کے برعکس عورت کو ان تمام میدانوں سے فارغ کر کے ان کو جاہل ،ان پڑھ اور لکیر کا فقیر بنا دیا گیا ہے۔رضیہ سلطانہ اپنی صلاحیتوں اور محنت کے بل بوتے پرخود کو مرد کے برابر لانا چاہتی ہے۔ وہ کم سن ہونے کے باجودمضبوط ارادوں کی مالک ہے۔ وہ عورت کو کسی بھی صورت میں مرد سے کم تر نہیں سمجھتی:
’’۔۔۔آپ لوگ صفیں باندھ کر ایک جسدِ خاکی کو خدا کے سپرد کرتے ہیں ۔ ہم جو جان کنی سے گزر کر زندگی کو پیدا کرتی ہیں ، تماشائیوں کی طرح ایک طرف کو کھڑی ہوتی ہیں،اور بین کرتی ہیں۔‘‘
(قید:۱۰۱)
اسی سلسلے میں رضیہ کا ایک اور بیان ملاحظہ ہو۔
’’ہم لوگ احساسِ کمتری لے کر پیدا ہوتی ہیں۔ کوئی ہاتھ لگا جائے تو دوسروں کے منہ کی طرف دیکھتی ہیں۔مردوں کے منہ پہ بال نکلتے ہیں تو فخر سے دنیا کو دکھاتے ہیں۔ ہمارے منہ پر ایک بال اُگ آئے توشرم سے سر جھکا لیتی ہیں، ہماریاں چھاتیاں نکلتی ہیں تو شرم سے سر جھکا لیتی ہیں۔ خون جاری ہوتا ہے توشرم سے جھک جاتی ہیں۔شادی کی رات گزرتی ہے تو شرم سے باہر نہیں نکلتیں۔ اس سے بڑی غربت کیا ہوتی ہے؟‘‘
(قید:۱۰۱)
رضیہ ایک پر جمال لڑکی تھی ،اس کا حسن اور نزاکت مردوں کے لیے کشش کا سبب تھا۔ جوانی کی دہلیز پہ قدم رکھتے ہی ہر عورت کی طرح اسے بھی چاہے جانے کی آرزو ہے۔آخر کار اسے فیروز شاہ کی شکل میں اپنا محبوب مل جاتا ہے،اوروہ رومانی عشق کا شکار ہو جاتی ہے۔ یہ عشق اسی معاشرے میں ہوسکتا ہے جہاں عورت اور مرد کو آزادانہ ملاپ کا موقع نہیں ملتا۔مرد اور عورت میں تفریق کے باعث پابندیاں موجود ہوتی ہیں۔مرد عورت کو غیر فطری مخلوق سمجھنے لگتا ہے اور عورت مردمیں ایسے عناصر تلاش کرتی ہے جو حقیقت میں مفقود ہوتے ہیں۔ ان معاشروں میں جہاں مرد اور عورتوں کو بلا تکلف ایک دوسرے سے ملنے کی اجازت ہوتی ہے وہاں رومانی عشق کا کھوج نہیں ملتا۔ رضیہ نے اپنے ذہن میں محبوب کی جو تصویر بنائی ہوئی ہے وہ مثالی ہے لیکن اس سارے معاملے میں وہ اپنی ذات کے شعور کو نہیں بھولتی۔وہ اپنا وجود تو فیروز شاہ کے حوالے کر دیتی ہے لیکن شعوری طور پر اپنا امتیاز برقرار رکھتی ہے ۔رضیہ اس کی ذہنی غلام نہیں بنتی بلکہ اپنی شناخت برقرار رکھتی ہے۔
’’تم نے فیروز شاہ سے شادی کیوں نہ کی؟میں نے پوچھا۔
’’کیوں کرتی وہ پھٹ سے بولی۔’’ ساری دنیا کا درد دل میں لیے پھرتا تھا ، جب میرے پاس آتا دومنٹ میں لڑھک جاتا اور منہ پرے کر کے خراٹے لینے لگتاتھا،جیسے میں کوئی حیوان ہوں،یاکوئی پتھر کی سل ہوں جس پر رگڑ کر چٹنی بنائی ،کھائی،اور پرے کھڑی کر دی۔ میں آدم زاد ہوں،حیوان نہیں ہوں ۔‘‘
(قید:۱۰۰)
رضیہ سلطانہ عام لڑکیوں کی مانندکوئی خوف زدہ لڑکی نہیں ہے۔ اس میں وہ تمام صفات موجود ہیں جو عبداللہ حسین آج کی عورت میں دیکھنا چاہتے ہیں۔اس میں ایک طرح کی نسوانی غیرت اور وقار کا احساس ہے۔ اس میں سوجھ بوجھ اور وقت شناسی کی صلاحیت موجود ہے ۔ وہ معاشرے کی گھسی پٹی اقدار سے بغاوت کرتی اور اسی سے اس کا المیہ جنم لیتا ہے۔وہ موت سے بھی خوفزدہ نہیں ہوتی اور تین لوگوں کو قتل کرنے کے بعد نہ صرف اعترافِ جرم کرتی ہے بلکہ سزائے موت سے بری ہونے کے لیے رحم کی اپیل بھی نہیں کرتی۔ وہ پھانسی کا پھندا قبول کر لیتی ہے اور کسی کے سامنے سر نہیں جھکاتی۔ناول ’’قید ‘‘کا یہ ایک متحرک اور زندہ کردار ہے جو تمام آزمائشوں کو اکیلا برداشت کرتی ہے لیکن کسی کا سہارا قبول نہیں کرتی۔
رضیہ کا کردار ان تمام ناول نگاروں کے کرداروں سے مختلف اور منفرد کردار ہے جنھوں نے عورت کو مخصوص انداز میں پینٹ کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ ڈپٹی نذیر احمد کی’اکبری‘ ،مرزا ہادی رسوا کی ’امراؤجان ادا‘ ،قدرت اللہ شہاب کی ’دلشاد‘راجندر سنگھ بیدی کی ’رانی‘،شوکت صدیقی کی ’سلطانہ ‘،ممتاز مفتی کی ’شہزاد‘اورقراۃالعین کی ’دیپالی سرکار‘ سے ہٹ کر تخلیق کیا گیا کردار ہے جو اپنی تمام تر توانائیوں اور جذبہ ہمت سے مملو آج کے معاشرے کی عورت کے لیے ایک نمونہ ہے۔
عبداللہ حسین کا ناول ’’قید‘‘ مختلف معاشرتی اور سماجی پہلوؤں کواستعاراتی انداز میں قارئین کے سامنے لاتا ہے۔انسان جب پیدا ہوتا ہے تو جہاں اس کے پاس اختیارات ہیں وہیں وہ کُچھ مجبوریوں میں بھی گھرا ہوا ہوتاہے۔ ان مجبوریوں کی قید اس ناول کا موضوع بنی ہے جسے متنوع استعاروں کے ذریعے ناول نگار نے منظرِ عام پر لانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔جنسی ہیجان کی قید ، محبت کی قید ،سماجی اقدار کی قید ، عورت کا مرد کی قید میں ہونا اور سیاسی اور سماجی مجبوریوں میں پسے عوام کی قید، عوام کی پیروں کی غیر ضروری تقدیس کی قید ۔۔۔۔۔۔،یہ ایسے استعارات ہیں جو ’’قید‘‘ کو ایک استعاراتی ناول کے طور پر سامنے لاتے ہیں۔ قید پورے ناول میں آغاز سے انجام تک ان کہے Unsaidبیانیے کے طور پر موجود ہے۔

Share
Share
Share