وہ جاندار جس کا وزن گلاب کی دو پنکھڑیوں کے برابر ہوتا ہے
تتلی ۔ Butterfly
ڈاکٹرعزیزاحمد عرسی
ورنگل ۔ تلنگانہ
موبائل :09866971375
و قل الحمد للہ سیریکم آیاتہ فتعرفونھا (النمل ۲۷)
اور کہہ دو تعریف اللہ ہی کے لئے ہے وہ عنقریب تم کو اپنی نشانیاں دکھائے گا اور تم ان کو پہچان لوگے ۔
جو تتلیوں کے پروں پر بھی پھول کاڑھتا ہے یہ لوگ کہتے ہیں اس کی کوئی نشانی نہیں
تتلی کا لفظ قرآن میں راست طور پر نہیں آیا لیکن پتنگوں کا لفظ استعمال ہوا ہے یوم یکون الناس کالفراش المبثوث (القارعہ۴) ’’وہ یوم جب لوگ بکھرے ہوئے پتنگوں کی طرح ہونگے‘‘ یعنی روز محشر لوگ پروانوں کے مانند پریشان حال ہونگے۔
تتلی(Butterfly) ایک خوبصورت پتنگا ہے۔جن کا وزن گلاب کی دو پنکھڑیوں کے برابر ہوتا ہے اس کی خوبصورتی کی وجہہ اس کے ’’پر‘‘ ہیں جوخدا کی تخلیق کا حسین ترین نمونہ ہیں، اس کے پروں میں رنگوں کا امتزاج اور تشاکل انسان کو حیران کردیتا ہے جس میں کوئی نقص موجود نہیں ہوتا، نہ صرف تتلی کے پر بلکہ اس کے پورے وجود پر نگاہ ڈالی جائے تو پتہ چلے گا کہ تتلی کی ہر شئے مکمل ہے اور اس کے ہر عضو میں اللہ نے حسن رکھا ہے۔علاوہ اس کے نہ صرف تتلی بلکہ ہم دنیا میں موجود تمام ہی مخلوقات پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ دنیا کی سبھی مخلوقات خدا کی ایسی تخلیق ہیں جن کا نہ کوئی بدل اور نہ ہی کوئی ثانی ہے، اللہ نے ہر مخلوق کو اس کی ضرورت کے مطابق صفات عطا کئے ہیں اور اس کو تکمیلیت کی معراج پر پہنچایا ہے اور وہ اللہ ہی ہے جس نے کائنات کی ہر چیز کوپیدا کیا اور جملہ تقاضوں کی تکمیل کے ساتھ اس کو درست توازن دیا (سورۃ الاعلی ۔۲)اسی لئے دیکھنے کے زاویہ کو بدل کر دنیا کا مشاہدہ کریں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ خدا نے دنیا میں صرف حسن ہی کی تخلیق فرمائی ہے جو ساری دنیا کو اپنے گھیرے میں لئے ہوئے ہے، خدا حسین ہے ، اسی لئے اس کی ساری تخلیقات حسین ہیں۔اس کے باوجود بزرگوں کا خیال ہے کہ قدرت نے ساری مخلوقات میں سب سے زیادہ حسین خود انسان کو بنایا ہے،سورہ انفطار میں انسان کو متناسب یعنی حسین انداز میں بنانے کا تذکرہ موجود ہے، ہم اپنی ناقص عقل اور محدود نظر کے مطابق خدا کی تمام تخلیقات میں انسان کو حسن کی معراج کہہ سکتے ہیں،ویسے خدا ، خدا ہے اس کی قدرت لامحدود ہے ،ہم مجبور محض اس کی ذات اور قدرت کو ناپنے کا کوئی پیمانہ نہیں رکھتے سوائے اس کے کہ شکر و بندگی کے مرکب پر سوار اس کو راضی کرنے کی کوشش کریں۔اللہ نے آسمانوں کو پیدا کیا اور اس کو تاروں سے سجا کر اس کی خوبصورتی میں چار چاند لگا دئے۔ حدیث میں آتا ہے کہ اللہ خود حسین ہے اور حسن کو پسند کرتا ہے ، یعنی اللہ نے اس دنیا میں ساری چیزوں کو حسین بنایا ہے اور ا3ن ہی حسین چیزوں میں ایک تتلی ہے جس کا خوبصورت رنگ انسان کو کچھ دیر کے لئے اپنے آپ میں گم کردیتا ہے اورانسان کو خدا کے وجود کو ماننے کے لئے مجبور کر دیتا ہے۔اس طرح تتلی میری نظر میں ایک قدرتی عجوبہ ہے، ویسے اس کائنات کی ہر شئے، جس کو انسان حسین مانے یا نہ مانے وہ ایک عجوبہ ہی ہے کیونکہ خدا کی تخلیقات کا نہ کوئی بدل ہے اور نہ ہی اس کی کوئی مثل ہے، خدا کی تمام تخلیقات حسن سے بھرپور ہیں لیکن انسان نے اس دنیا میں خوبصورت اور بد صورت کا معیار الگ قائم کر رکھا ہے اسی لئے ممکن ہے انسان کو بعض تخلیقات بد صورت نظر آئیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا کی ہر شئے حسین ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اس دنیا کی ہر بدصورت شئے بھی اللہ کی تخلیقات میں حسن کے کسی نہ کسی درجے پر فائز ہوتی ہیں، کیونکہ خود اللہ حسین و جمیل ہے اور خود حسن کو پسند کرتا ہے تو پھر اس کی کوئی بھی تخلیق بدصورت کیسے ہو سکتی ہے ، سوائے اس کے کہ قدرت نے کسی شئے کو مصلحتاً دنیا کی نظر میں غیر حسین پیدا کیا ہو لیکن حقیقتاً وہ حسین ہیں جس کو ہماری نہ آنکھ دیکھ سکتی ہے اور نہ ہی دماغ سمجھ سکتا ہے کیونکہ خدا کے حسن کو سمجھنے اور اس کی تہہ تک پہنچنے کے لئے نہ ہمارے پاس صلاحیت ہے اور نہ ہی آنکھ میں وہ قدرت ہے-ہندوستانی فلسفے میں مراقبہ کی اہمیت کو تتلی کی دور حیات سے سمجھایا جاتا ہے۔
تتلی ایک کیڑا(Insect) ہے جو کیڑوں کے ایک بڑے گروپ Insecta سے تعلق رکھتی ہے یہ گروپ سوائے انتارتیکا کے ساری دنیا میں پایا جاتا ہے۔لیکن Arctic علاقے جہاں 24 گھنٹے دن کی روشنی پھیلی رہتی ہے وہاں ان کی تعداد زیادہ ہوتی ہے اسی لئے وہاں تتلیاں ہمیشہ اڑتی ہوئی دیکھی جاسکتی ہیں،دنیا میں تتلی کی ہزاروں انواع ہیں، ایک اندازے کے مطابق آج تک ان کی 1,55,000 سے زائد انواع کو بیان کیا جاچکا ہے۔ صرف جنوبی امریکہ میں ان کی 2000سے زائد انواع دکھائی دیتی ہیں۔یہ دنیا میں ہر جگہ پائی جاتی ہیں، انگریزی میں اس کا نام Butterfly ہے اس کا یہ نام یورپ میں میں ایک مخصوص زمانے میں اڑنے والی تتلیوں کی وجہہ سے پڑ گیا کیونکہ یورپ میں یہ بہار کے ابتدائی زمانے میں دکھائی دیتے ہیں اور بہار کا ابتدائی زمانہ Butter کہلاتا ہے۔اسی مناسبت سے اس کا نام Butterfly پڑ گیا۔تتلی جب انڈے سے نکلتی ہے تو تقریباًبے وزن ہوتی ہے اگر ہم اس کو دوسرے انداز میں بیان کریں تو ان کا وزن صرف گلاب کی دو پنکھڑیوں کے برابر ہوتا ہے لیکن بالغ ہوتے ہوتے اس کے وزن میں تقریباً2700 گنا اضافہ ہوتا ہے جب کہ وہ کارٹر پلر کے مرحلے میں داخل ہوتی ہے۔ عام طور پر کارٹر پلر اپنے آپ کو Chrysalis میں بند کر لیتا ہے،کارٹر پلر کے اس خول میں بند ہونے کا ذمہ دار Juvenileہارمون ہوتا ہے ، جب کارٹر پلر سے مختلف قسم کے کیمیائی مادے خارج ہوتے ہیں تو خلیوں کی تنظیم جدیدانجام پاتی ہے اور اس کے بعد دو’’ پر‘‘ والی تتلی پیدا ہوتی ہے، مادہ(Female) تتلی ایک خاص خوشبو خارج کرتی ہے جس کو نر تتلی (Male) تقریباً ایک میل دور سے سونگھ لیتی ہے۔تتلیوں کا دور حیات چار مرحلوں پر مشتمل ہوتا ہے پہلا مرحلہ انڈوں کا ہے جوکسی بھی درخت یا پودوں کے پتوں پر دئے جاتے ہیں، دوسرا مرحلہ انڈوں سے لاروں کے نکلنے کا ہوتا ہے تیسرا مرحلہ پیوپا (Pupa) اور چوتھا بالغ تتلی کے بننے کا ہوتا ہے، یہاں ہم صرف قارئین کی دلچسپی کے لئے بتادیں کہ اگر اسی رفتار سے انسان کا وزن بڑھنے لگے تو انسان بالغ ہوتے ہوتے ایک لاکھ کلو سے زائد ہوجائے گا۔ تتلی آرتھروپوڈا کی جماعت Insecta سے تعلق رکھتی ہے، سب سے بڑی تتلی Atlas mothیا Attacus atlas کہلاتی ہے جو ایک فٹ لمبی ہوتی ہے ۔اس سے قدرے چھوٹی تتلی کا نام رانی الکزینڈرا ہے جس کو Omithoptera alexandrae کہا جاتا ہے۔ سب سے چھوٹی تتلی صرف .3 سنٹی میٹر کی ہوتی ہے جس کو Phyllocnistisکہا جاتا ہے اس سے قدرے بڑی تتلی بھی صرف ایک سنٹی میٹر کی ہوتی ہے جو Brephidium exilis کہلاتی ہے۔چھوٹی تتلی کا وزن صرف .003گرام ہوتا ہے جب کہ بڑی سے بڑی تتلی کا وزن ایک تا تین گرام ہوتا ہے۔ عام طور پر ان کی زندگی صرف دو ہفتوں سے دو مہینوں کے درمیان ہوتی ہے سب سے زیادہ عمر رکھنے والی تتلی Monarchیا Danaus plexippus کہا جاتا ہے جس کی عمر ایک سال ہوتی ہے، یہ تتلی 17کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے اڑنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور تقریباً 2000میل تک ہجرت کر سکتی ہے۔ عام طور پر تمام تتلیاں اس وقت تک پرواز کر سکتی ہیں جب تک کہ ان کے جسم کی حرارت 86 ڈگری یا اس سے زائد برقرار ہو،عام طور پر تتلیاں بے ضرر ہوتی ہیں لیکن بعض تتلیاں ایسی بھی دیکھی گئی ہیں جو زہریلی ہوتی ہیں اور انسان کو نقصان پہنچاتی ہیں۔ تتلیوں میں آواز پیدا کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی لیکن فلوریڈا کی متوطن کچھ تتلیاں اپنے پیروں کو مرتعش کرکے آواز پیدا کرتی ہیں۔تتلیاں کبھی کبھی انسان کے جسم پر بھی آ بیٹھتی ہیں کیونکہ اکثر اوقات فعلیاتی ضروریات کے تحت انہیں سوڈیم درکار ہوتا ہے جو انسانی پسینے سے انہیں مل جاتا ہے۔
تتلی کو چھ جوڑ پیر ایک جوڑ انٹنے (محاس) پائے جاتے ہیں اس کے محاس اور جسم کے دوسرے حصوں پر موجود حسی اعضاء کی وجہہ سے وہ غذا کو بہترین انداز میں پرکھ لیتی ہیں اور ان کا ذائقہ معلوم کر لیتی ہیں۔ اس میں کان نہین پائے جاتے بلکہ یہ اپنے پروں کے ذریعے آواز کی لہروں کو محسوس کرتی ہیں۔تتلی میں چھ ہزار عدسوں سے بنی مرکب آنکھیں پائی جاتی ہیں جن میں الٹرا وائلٹ شعاعوں کو دیکھنے کی صلاحیت پائی جاتی ہے جو ان کے ’’پروں‘‘ کے ذریعہ منعکس ہوتی ہیں، جبکہ ان شعاعوں کو انسان نہیں دیکھ سکتا۔تتلی اپنے سر کو حرکت دئے بغیر اپنی آنکھوں کی مدد سے اطراف و اکناف کا جائزہ لے سکتی ہے۔ تتلی میں منہ(Mouth) نہیں پایا جاتابلکہ ان میں ایک سونڈ پائی جاتی ہے جو غذا کو جسم کے اندر پہنچاتی ہیں۔بعض تتلیاں جیسے Luna mothمیں سونڈ بھی نہیں پائی جاتی کیونکہ ان کی زندگی اتنی مختصر ہوتی ہے کہ انہیں کھانے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی۔تتلی کی عمر مختلف ہوتی ہے اکثر تتلیاں مہینہ دو مہینے تک زندہ رہتی ہیں لیکن بعض تتلیاں اس دنیا میں صرف 24 گھنٹوں کی مہمان ہوتی ہیں۔ان کے جسم کو تین حصوں میں تمیز کیا جاسکتا ہے ،ان کا سارا جسم حساس بالوں سے ڈھکا رہتا ہے ۔ تتلی
کے جسم پر دو ’’پر‘‘ پائے جاتے ہیں، تتلی جب پیدا ہوتی ہے تب اس کو پر نہیں ہوتے۔
تتلی کے پنکھ یا’’ پر‘‘ایک پیچیدہ ساخت ہیں جو خدا کی قدرت کا بین نشان ہیں یہ درحقیقت پرتوں کی شکل میں پائے جاتے ہیں جو شفاف اور بغیر کسی رنگ کے ہوتے ہیں ، ان میں خون کی نالیاں بھی پائی جاتی ہیں جو ان پروں کی نگہداشت کرتی ہیں،اس کے پنکھ Chitin سے بنے رہتے ہیں۔ تتلی میں پنکھ کے دو جوڑ پائے جاتے ہیں جو دو اگلی جانب اور دو پچھلی جانب موجود رہتے ہیںیہ پنکھ ایک سکنڈ میں 5تا 20مرتبہ حرکت کرتے ہیں، تتلی سے ہٹ کر عائلہ آرٹھرو پوڈا میں بعض ایسے پتنگے یا Flies بھی پائے جاتے ہیں جن کے’’ پر ‘‘(Wings) ایک سکنڈ میں ایک ہزار سے زائد مرتبہ حرکت کرتے ہیں ،تتلیوں کے ’’پروں‘‘ کو خوبصورت رنگ ان کے پنکھ پر موجود لکیروں جیسی ساختوں میں جمے چھلکوں سے ملتا ہے۔اسی لئے تتلیاں درجہ بندی کے جس قبیلے سے تعلق رکھتی ہیں وہ Lepidoptera کہلاتاہے جو ایک یونانی لفظ ہے جس کے معنی ’’ایسے ’’پر‘‘ کے ہیں جن پر چھلکے پائے جاتے ہیں‘‘ ،یہ کافی وسیع قبیلہ ہے جس کو سائنسدانوں نے124شاخوں میں تقسیم کیا ہے۔ تتلی کے پنکھکا اگر مشاہدہ کیا جائے تو ہمیں دونوں پنکھ کے درمیان غیر معمولی مشابہت نظر آتی ہے جو انسان کوحیران کردیتی ہے،علاوہ ازیں اس پنکھ پر موجود رنگ اپنی خوبصورتی اور تکمیلیت کی انتہا کے باوجود انتہائی ناپائیدار ہوتے ہیں،خدا کی اس قدرت کو دیکھ کر انسان کے ہوش اڑ جاتے ہیں کہ تتلی کے پنکھ کے تمام رنگ کچے ہوتے ہیں لیکن کوئی بھی رنگ ایک دوسرے سے ملا ہوا نہیں ہوتا اور ایک پنکھ کا ڈیزائن دوسرے کے بالکل مشابہہ ہوتا ہے ،اس کی ہلکی سے ہلکی ساخت میں بھی اختلاف نہیں پایا جاتا۔تتلی کے ان پنکھوں میں پیدا ہونے والے رنگ دراصل اس پر موجود نہایت چھوٹے چھلکوں کے ایک دوسرے کے ساتھ پیوست رہنے کی وجہہ سے پیدا ہوتے ہیں یہ چھلکے بہت چھوٹے اور نہایت نازک ہوتے ہیں۔اگر ایک چھلکے میں بھی اختلاف پیدا ہوجاتے تو ان پنکھوں کا تشاکل بگڑ جائے ۔ یہی وہ مہین اور ناپائیدار چھلکے ہیں جو اگر ہمارے ہاتھ سے مس ہوجائیں تو ہمارے ہاتھ سے لگ جاتے ہیں اور اسی قدر جگہ تتلی کے پر داغدار ہوجاتے ہیں اس قدر ناپائیداری کے باوجود دونوں پنکھ کا ایک جیسا ہونا قدرت کی اعلیٰ کاریگری اور اس کی عظمت والی خلاقیت کو ثابت کرتا ہے۔یہ بات بھی قارئین کی دلچسپی کا باعث ہوگی کہ اس کے پنکھ کا رنگ کسی Pigment کا نہیں بلکہ روشنی کے انعکاس کا نتیجہ ہے۔یہ اپنے گہرے اور رنگین پروں کے ذریعہ سورج کی روشنی کو جذب کرتی ہے اور مختلف رنگوں کی شکل میں ظاہر کرتی ہے۔ تتلیوں کے پر اپنے اندر کئی خصوصیات رکھتے ہیں ، خصوصاً فطرت میں پیدا ہونے والے شکلی تغیرات کو اس کے ’’پر ‘‘ بہتر انداز میں سمجھتے ہیں اور اپنے طریقے سے اس کا اظہار بھی کرتے ہیں،لیکن عمر کے ساتھ ساتھ ان کے ’’پروں‘‘ کی رعنائی ماند پڑنے لگتی ہے اور حوادثات زمانہ کی سختیاں جھیل کر ان کی خوبصورتی متاثر ہوجاتی ہے۔تتلیاں زیادہ تر لال یا گلابی یا پیلے پھولوں کو پسند کرتی ہیں حالانکہ وہ ان رنگوں کو نہیں دیکھ سکتیں،(بعض سائنسدانوں کا خیال ہے کہ وہ ان رنگوں کو دیکھ سکتی ہیں اور تمیز کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں، تتلیاں ارنڈی کے خاندان سے تعلق رکھنے والے پودوں سے رس نہیں چوستی کیونکہ اس میں ایک زہریلا مادہ پایا جاتا ہے،جبکہ Umbelliferae سے تعلق رکھنے والے پودوں سے رس چوستی ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ اس میں کوئی زہریلا مادہ نہیں ہوتا۔اس موڑ پر کیا ہم یہ نہیں سونچ سکتے کہ آخر وہ کونسی قوت ہے جو انہیں ان پودوں کے مابین فرق کرنا سکھا رہی ہے اور ان کے زہریلے یا غیر زہریلے ہونے سے متعلق معلومات فراہم کررہی ہے۔ تتلیاں عام طور پر دن میں ہی اڑتی ہیں لیکن بعض تتلیاں رات کے وقت بھی اپنی غذا کی تلاش میں سرگرداں نظر آتی ہیں ، تتلیوں کو قدرت نے ’’کانوں‘‘ (Ears) سے بھی نوازا ہے جو اس کے پنکھ میں پائے جاتے ہیں اور آواز کی لہروں کو محسوس کرتے ہوئے چمگاڈر کا شکار ہونے سے بچنے کے لئے تدابیر ڈھونڈتے ہیں۔ اسی لئے ہم تتلی کے پنکھ کو قدرت کاایک انمول تحفہ یا انسان کویقین کی منزل تک لانے کی ایک عمدہ مثال قرار دے سکتے ہیں۔ تاکہ انسان خدا کے وجود کا نہ صرف اقرار کرے بلکہ اس کی عظمت کے گن بھی گانے لگے۔