پروفیسرغلام رسول شوق : ایک تعارف ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ڈاکٹراظہاراحمد گلزار

Share
prof ghulam شوق
پروفیسرغلام رسول شوق

پروفیسرغلام رسول شوق
اِس کاروان شوق کا سالار اُٹھ گیا
(1938ء۔2005ء)

تحریر: ڈاکٹراظہاراحمد گلزار ۔ فیصل آباد
Email:
Cell: 0092 300 7632419

عالمی شہرت کے حامل مایہ ناز پاکستانی ادیب ، شاعر، ناول نگار، افسانہ نگار، دانشور ، محقق، ماہرِ لسانیات، ماہرِ تعلیم، سیرت نگار، ہجرت نامہ نگار اور پنجابی زبان و ادب کے عظیم رجحان ساز تخلیق کار پروفیسر غلام رسول شوق ، علم و ادب اور فنونِ لطیفہ کا وہ آفتابِ جہاں تاب جو 21نومبر 1938ء کو موضع کوٹ رام چند، تحصیل بٹالہ ضلع گورداسپور (ہندوستان) میں چودھری عزیز الدین سوڈھی کے گھر طلوع ہوا اور پوری دُنیا کو اپنی ضیا پاشیوں سے منور کرنے کے بعد 6فروری 2005اتوار کے روز فجر کی نماز کے وقت بٹالہ کالونی، فیصل آباد (پاکستان) میں حرکتِ قلب بند ہو جانے کے باعث ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا۔ محلہ شریف پورہ فیصل آباد کی زمین نے عالمی ادبیات کے اس آسمان کو اپنے دامن میں چھپا لیا ۔ اتنے بڑے ادیب کا دُنیا سے اُٹھ جانا ایک بہت بڑا سانحہ ہے۔ ان کی رحلت پر بزمِ ادب برسوں تک سوگوار رہے گی۔

زمیں لوگوں سے خالی ہو رہی ہے
یہ رنگ آسماں دیکھا نہ جائے
ان کی وفات سے پنجابی زبان و ادب کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ انھوں نے گزشتہ پانچ عشروں میں پنجابی زبان و ادب کے فروغ کے لیے جو گراں قدر خدمات انجام دیں وہ تاریخ کے اوراق میں آبِ زر سے لکھی جائیں گی۔
پروفیسر غلام رسول شوق ایک رجحان ساز تخلیق کار تھے جنھوں نے اپنے انفرادی اسلوب کے اعجاز سے اپنی تخلیقات کو قلب و روح کی گہرائیوں میں اُتر جانے والی اثر آفرینی سے مزین کیا۔ ادب اور فنونِ لطیفہ کے فروغ کے لیے اُن کی خدمات کو دُنیا بھر میں قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا۔
پروفیسر غلام رسول شوق کی وفات سے شعر و ادب کا ایک باب بند ہو گیا۔ پنجابی شاعری کا ایک عہد ختم ہو گیا ۔ سیرت و کالم نگاری کا ایک سلسلہ اپنے اختتام کو پہنچ گیا۔
پروفیسر غلام رسول شوق دس کتابوں کے مصنف تھے جن میں ’’گھر دا بوہا‘‘(شاعری)، ’’چھلتراں‘‘ (کہانیاں)، ’’دیس دا پاندھی‘‘(ہجرت نامہ)، ’’بریتے‘‘ (کہانیاں)، ’’مشال‘‘(شاعری)، ’’دُھواں دُھخے‘‘ (شاعری)، ’’سٹنٹد سولز‘‘(دیس کا پاندھی کا انگریزی ترجمہ)، ’’آدابِ رسولؐ‘‘(سیرتِ رسولؐ، سوانح حیات)، ’’حرفِ شوق‘‘(کالم نگاری) شامل ہیں۔ ان کی ان کتابوں میں سے اکثر کو انعامات مل چکے ہیں۔ ان کی پانچ کتابیں زیرِ طبع تھیں جن میں ’’فقر‘‘، ’’حبیبی یا رسول اللہؐ‘‘(پنجابی نعتیں)، ’’دوپہرے شاماں‘‘ (افسانے)، ’’سانجھی بُکل‘‘ (تنقیدی مضامین) شامل تھیں۔
مختلف کالجز کے ’’المعاش‘‘، ’’روشنی‘‘، ’’القمر ‘‘ میگزین کے پنجابی حصوں کے انچارج بھی رہے ہیں۔ ’’کنٹھا‘‘ ان کا ڈرامہ پی ٹی وی پر نشر ہو چکا ہے۔ ڈرامہ’’ علامہ اقبال عدالت کے کٹہرے میں‘‘ تحریر کر کے سٹیج کر چکے ہیں۔ پروفیسر غلام رسول شوق مختلف النوع ہمہ جہت موصوف شخصیت تھے۔ وہ اردو اور پنجابی شاعری کالم، مضمون اور سیرت نگاری میں نابغۂ روزگار عصر کی حیثیت رکھتے تھے۔ ان کے افسانے ، ڈرامے ، ناول جی سی یونی ورسٹی فیصل آباد (پاکستان) کے ایم اے پنجابی کے نصاب میں شامل کیے گئے ہیں۔
پروفیسرغلام رسول شوق بی ایس سی کے بعد ایم اے پنجابی کا امتحان پاس کر کے گورنمنٹ کالج سمن آباد ، فیصل آباد اور گورنمنٹ کالج یونی ورسٹی فیصل آباد پاکستان میں پنجابی زبان و ادبیات کے طویل عرصہ تک پروفیسر رہے۔ اس سے پہلے فزیکل ایجوکیشن کے ڈائریکٹر رہے ہیں۔
6فروری 2005ء کی فجر کی نماز کے بعد وہ اپنے حجرہ میں حسبِ عادت درود و وظیفہ اور یادِ الٰہی میں مشغول تھے کہ مصلیٰ پر ہی رُوح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔
کوئی لمحہ بھی کبھی لوٹ کر نہیں آیا
وہ شخص ایسا گیا پھر نظر نہیں آیا
پروفیسر غلام رسول شوق انتہائی مرنجاں مرنج ، ملنسار ، پُرخلوص ، شفیق اور مخلص انسان تھے ۔ ہمیشہ فروغ ادب میں کوشاں رہے ۔ نعتیہ مشاعروں میں پڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ اکثر پنجابی مباحثوں کے منصفِ اعلیٰ بنائے جاتے رہے۔ وہ بیس سال تک ڈسٹرکٹ باکسنگ ایسوسی ایشنزکے سیکرٹری رہے۔ پنجاب باکسنگ کا جج ریفری، ایمپائر، صفی پبلی کیشنز کے سرپرست اعلیٰ، انجمن مغلیہ کے صدر، پاکستان رائٹرز گلڈ، حلقہ ارباب ذوق کے ممبر اور ریڈیو پاکستان فیصل آباد کے کمپیئر بھی رہے ہیں۔
پروفیسر غلام رسول شوق نے ایف ایس سی میں سرٹیفکیٹ آف میرٹ حاصل کیا تھا۔ بعد ازاں بی ایس سی میں سپورٹس رول آف آنر جیتا۔باکسنگ میں ڈپلومہ ، ایچ پی ای میں پنجاب میں دوسری پوزیشن حاصل کی تھی۔ انھوں نے پنجابی زبان و ادبیات میں ایم اے میں گولڈ میڈل حاصل کیا اور پنجاب بھر میں اول پوزیشن حاصل کی تھی۔
پروفیسر غلام رسول شوق اپنے والدین کے اکلوتے بیٹے تھے۔ ان کے والدین زمیندارہ کرتے تھے اور وہ اپنے علاقے کے سرپنچ مانے جاتے تھے۔ گھر میں بہت ساری سہولتیں میسر تھیں۔ ان کی چار کنال کی حویلی تھی ۔شوق صاحب ساری ساری رات داستانِ یوسف زلیخا، ہیر رانجھا، سوہنی مہینوال پڑھا کرتے تھے ۔ اس وقت یہ شاعر نہیں بنے تھے۔ انھیں وہیں سے شاعری کا شوق پیدا ہوا تھا۔(۱)
پروفیسر غلام رسول شوق کی شادی 1968ء میں ہوئی تھی۔ ان کے تین بیٹے اور ایک بیٹی ہے ۔ ایک بیٹا ایم ایس سی سوشیالوجی ، دوسرے دونوں ایم اے کر کے اپنا کاروبار کر رہے ہیں ۔
پروفیسر غلام رسول شوق نے 1979ء میں محمد یوسف زاہد علیم اللہ صفی کے ہاتھ پر سلسلہ چشتیہ نظامیہ میں بیعت کی تھی۔(۲)
انھی سے وہ اردو ، پنجابی اور فارسی شاعری میں اصلاح لیا کرتے تھے ۔ غلام رسول شوق ادیبوں میں پنجابی شاعری کے میدان میں شریف کنجاہی ، انشائیہ میں ارشد میر، افسانہ میں انور علی ، نعت میں حفیظ تائب، اردو نظم میں ڈاکٹر وحیدقریشی اور فلسفہ میں واصف علی واصف کو بہت پسند کرتے تھے۔ واصف علی واصف کی محافل میں انھیں بیٹھنے کے متعدد مواقع میسر ہوئے پہلی بار واصف علی واصف سے ان کی ملاقات 1972ء میں ہوئی تھی۔
پروفیسر غلام رسول شوق نے تخلیق فن کے لمحوں میں اپنے خیالات، احساسات اور جذبات کو نہایت مؤثر انداز میں پیرائیہ اظہارمیں بیان کیا ہے۔ وہ اپنے تجربات اور مشاہدات کو اپنے فکر و فن کی اساس بناتے تھے اور اس آب و گل کی وسعت میں وہ اپنی دور بین نگاہوں سے آنے والے دور کی ہلکی سی تصویر دیکھ لیتے تھے۔پروفیسر غلام رسول شوق کی زندگی قناعت ، صبر ورضا، استقامت، توکل ، ایثار، انسانی ہمدردی اور خلوص و دردمندی کی اعلیٰ مثال تھی۔ وہ بڑے ہی ملنسار ، شفیق ، پُرخلوص ، پیکر عجزو انکسار اور درویش صفت ولئ کامل تھے۔ وہ چار سلاسل طریقت سے بیعت یافتہ اور خلعت خلافت یافتہ تھے۔وہ ہر حال میں راضی بہ رضا نظر آتے تھے اورنامساعد حالا ت میں بھی کبھی صرف شکایت لب پر نہ لاتے تھے۔ وہ اپنی ذہنی تسکین اور روحانی مسرت کے لیے نفس پر توجہ دیتے تھے اور وہ لائحہ عمل اختیار کرتے جو عملی زندگی میں قابلِ عمل ہو اور اس کی راحت و سکون کی توقع بھی ہو۔ کالم نگاری کے میدان میں انھوں نے بہت تعداد میں کالم لکھے جو شہر کی متعدد اخبارات کی زینت بنتے رہے۔ ان کے کالم بڑی دل چسپی سے پڑھے جاتے تھے۔ ان کے کالم معاشرتی زندگی کے جملہ معاملات اور مسائل کا بھرپور احاطہ کرتے تھے۔ ان کی دور بین نگاہ سماجی زندگی تک پہنچ جاتی تھی جو عام آدمی کی نگاہوں سے اوجھل رہتے ہیں۔
پروفیسرغلام رسول شوق کی ایک پنجابی نظم ’’بدلیاں رُتاں‘‘ جس میں بدلتی قدروں کا نوحہ بیان کیا گیا ہے۔ وہ جس مشاعرے میں بھی جاتے، لوگ فرمائش کر کے بار بار سنتے اور واہ واہ کی صدائیں اُس وقت تک آتی رہتی جب تک شوق صاحب اپنی مسند پر آ کر نہ بیٹھ جاتے ۔نہ اوہ رہے زمانے منج دے
نہ گاٹی نہ ہوٹے رہے
پروفیسرغلام رسول شوق ایک وسیع المطالعہ ادیب تھے ، تدریسِ ادب میں انھوں نے اس قدر مہارت حاصل کی کہ ہزاروں تشنگانِ علم اس سرچشمہ علم سے سیراب ہوئے۔ دُنیا بھر میں اُن کے شاگردان موجود ہیں جن کو اس نابغۂ روزگار معلم کی رہنمائی میں ذرے سے آفتاب بننے کے مواقع نصیب ہوئے اور ان شاہین بچوں نے کُندن بن کر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ 1998ء میں اپنی مدت ملازمت پوری ہونے کے بعد ریٹائر ہو گئے تھے۔ اس کے بعد بھی انھوں نے درس و تدریس سے ناطہ ختم نہ کیا بلکہ چند نجی تعلیمی اداروں میں اپنی پیشہ ورانہ مہارت کا لوہا منواتے رہے۔ وہ جس بھی نجی کالج میں پڑھانا شروع کرتے تو راقم (اظہار احمد گلزار) کو اُس کالج میں اپنی آمد کا بتانا نہ بھولتے اور رابطے کی تاکید کرتے اور مسلسل اپنے احباب سے رابطہ میں رہتے۔
پروفیسر غلام رسول شوق کو اُن کی بے مثال ادبی خدمات کے اعتراف میں ساندل بار ایوارڈ ، شاہ لطیف ایوارڈ ، شاہ حسین کلچرل ایوارڈ، بابا فرید گنج شکر ایوارڈ، بری نظامی ایوارڈ، صائم چشتی ایوارڈ، فیصل آباد بورڈ ایوارڈز کے علاوہ بے شمار تعریفی اسناد اور کیش پرائز شامل ہیں۔
پروفیسر غلام رسول شوق کا اولین پنجابی شعری مجموعہ ہے جو 15دسمبر1979ء کو منصہ شہود پر آیا۔ ’’مڈھلی گل‘‘ میں شوق صاحب رقم طراز ہیں:
’’گھر دا بوہا‘‘ میرا پہلا شعری مجموعہ ہے۔ جس میں پچھلے پندراں سالوں کی منتخب غزلیں شامل ہیں۔‘‘
’’گھر دا بوہا‘‘ میں اپنی شاعری کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’میری شاعری میں سے کوئی ایک منظر کسی ایک سوچ پر پڑھنے والے غور کر لیں تو میں سمجھوں گا کہ میری سوچ کارگر ثابت ہوئی۔ میری محنت بار آور ہوئی۔‘‘
’’گھر دا بوہا‘‘ ایک علامتی نظم ہے جس کی تشبیہ انھوں نے باپ سے دی ہے۔ اپنے باپ سے ، کسی بھی باپ سے ، کسی بھی سرپرست سے، ہر اس باپ پر یہ نظم صادق آتی ہے جو ساری حیاتی زمانے کی تند و تیز تلخیوں اور دُھوپ بھری زندگی میں محنت اور مشقت کر کے اپنے بچوں کو پالتا ہے ۔ ان کی نگہداشت کرتا ہے۔ اُن کو پروان چڑھاتا ہے۔ ان کے دُکھ سُکھ کا خیال اپنی جان سے زیادہ کرتاہے۔ جیسے دروازہ ساری زندگی گھر کی حفاظت ، چوکیداری اور نگہداشت کرتا کرتا آخر ایک دن تمام قبضے، کیل ڈھیلے اور لکڑی میں تریڑیں پڑ جانے سے اپنی طاقت کھو بیٹھتا ہے اور پھر کسی روز اچانک دھڑام سے زمین پر آ گرتا ہے ۔۔۔۔بعین ہی گھر کا سرپرست ، گھر کا نگہبان باپ بھی حالات کی تلخ اور سخت دوپہروں اور سرد راتوں کا مقابلہ کرتے کرتے تھک کر زندگی سے ایک دن ہار مان جاتا ہے۔ یہ نظم غلام رسول شوق کی شہکار نظموں میں شمار ہوتی ہے۔
پروفیسر غلام رسول شوق 1985ء میں جب اُستاد کی حیثیت سے جی سی یونیورسٹی پہلی بار ہماری کلاس میں آئے تھے تو اُن کے ساتھ پروفیسر ڈاکٹر شوکت علی قمر بھی تھے جو ان کا تعارف کروانے کے لیے ہماری کلاس میں تشریف لائے تھے۔ رسمی تعارف کے بعد شوق صاحب سے اُن کا کلام سننے کی فرمائش کی گئی تو محترم غلام رسول شوق صاحب نے یہ نظم بڑے خوب صورت انداز میں ترجمہ اور شرح کے ساتھ سنائی تھی۔۔۔۔پھر اگرچہ ہم کالج سے فارغ التحصیل ہو کر اپنی پیشہ ورانہ مصروفیات میں اُلجھ گئے۔پروفیسر غلام رسول شوق سے جب بھی اور جہاں بھی ملاقات ہوتی تو میرے کئی دوست فرمائش کر کے اسی نظم کو سننا پسند کرتے ۔ موصوف کا اندازِ بیان بڑا مؤثر اور دل کش ہوتا تھا۔ بسا اوقات وہ یہی نظم پڑھتے پڑھتے آبدیدہ ہو جاتے اور آنسو ان کی آنکھوں میں چمکنے لگتے ۔ یہ نظم ہر اس نیک طینت فرمانبردار اولاد کے لیے ہے جو اپنے والد سے ٹوٹ کر پیار کرتا ہے۔ ان کے مقام اور مرتبے کو پہچانتا اور سمجھتا ہے۔
راقم (اظہار احمد گلزار) نے ریڈیو پر بطور براڈ کاسٹر اپنے متعدد پروگراموں میں یہ نظم متعدد بار پوری پوری پڑھ کر سنائی ہے۔ میں جب بھی یہ نظم سناتا تو سامعین بذریعہ فیس بک پیچ SMSکر کے دوبارہ سننے کی فرمائش کرتے۔ کبھی کبھار ان کا کوئی شاگرد بھی Onlineآ کر بتاتا کہ میں بھی شوق صاحب کے حلقہ تلامذہ میں شامل ہوں ۔
پروفیسر غلام رسول شوق کی نظموں کے الفاظ ، صرف الفاط نہیں بلکہ ہر اُس دل کی آواز ہے جو دکھوں، دردوں کے گھیرے میں مقید ہو۔ الفاظ مُنہ سے بولتے نظر آ رہے ہیں۔ دُنیا جہان میں حوصلہ دینے والے تو بہت مل جاتے ہیں لیکن کسی کے دُکھ پر رویا نہیں جاتا۔ رونے والی آنکھ ایک ہی ہوتی ہے جس نے ان دکھوں ، پریشانیوں سے تاحیات نبرد آزما ہونا ہوتا ہے ۔ اُن کی ایک مختصر نظم ’’آخری سفر‘‘ میں اِسی نفسا نفسی کی نشاندہی کی گئی ہے:
کچے ڈھیر تے پت جھڑ وانگوں
خلقت دا اِک ٹھٹھ سی
ہنجواں دے پرنالے سن
پر روندی ’’اِکو‘‘ اکھ سی
زندگی ، سوچ اور فکر کے انداز بدلنے سے انسانی زندگی اور خود انسان کے بارے میں معیار بدل جاتے ہیں اور اسی انداز سے انسانوں کے اپنے جیسے انسانوں کے ساتھ تعلقات، روابط اور طرزِ عمل میں بھی تبدیلی آ جاتی ہے۔ ایک زمانہ تھا جب انسان کی عظمت ، اُس کی بڑائی اور عزت و احترام کا معیار اُس کا علم و فضل ، اُس کا نیک سیرتی کردار، اُس کا برتاؤ اور عمل خیال کیا جاتا تھا۔ آدمی جس قدر پڑھا لکھا ، سلجھا ہوا، شائستہ اور مہذب ہوتا ، اُسی قدر وہ قابلِ عزت سمجھا جاتا تھاکہ لوگ اُس کے علم و فضل اور عزت و احترام کی بنا پر عقیدت اور محبت کے جذبات کا اظہار کرتے ہیں۔یہ روحانی اقدار کا دور تھا مگر جب مادی قدروں کو پذیرائی ملی تو آدمی کی عزت و عظمت ، بزرگی اور بڑائی کا معیار اُس کی دولت اور مادی آسائشات ٹھہریں۔ پروفیسر غلام رسول شوق کو اس بات کا بڑا قلق رہتا تھا کہ انسان کی قدریں بدل گئیں ہیں، خُون کے رشتے خونی ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ شوق صاحب اس بات کا اکثر اظہار کرتے رہتے تھے کہ لوگ مادی پیمانوں سے عزت کا تعین کرتے ہیں۔ کئی بار تو شوق صاحب بات کرتے کرتے آبدیدہ ہو جاتے تھے کہ پیار محبت اور عقیدت و احترام کے رشتے قصۂ پارینہ ہو کر رہ گئے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ آبادی کی اِس بھیڑ میں صحیح معنوں میں انسان کی تلاش بڑا مشکل ہو گیا ہے۔ ہر کوئی اپنے مزاج اور مذاق کا مالک ہے۔بقول اقبال:
مری زبانِ قلم سے کسی کا دل نہ دُکھے
کسی سے شکوہ نہ ہو زیرِ آسماں مجھ کو
زندگی کی بنیادی قدروں میں تغیر آ چکا ہے۔ جینے کا معیار اس قدر بلند کر دیا گیا ہے کہ زندگی کہیں پاتال میں منہ دیکھتی رہ گئی ہے۔ آج کا انسان جس طرزِ زندگی کا عادی ہو چکا ہے۔ آج سے پہلے انسان سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔نظم ’’سپ دی اکھ‘‘ میں اسی کرب کو محسوس کیا جا سکتا ہے:
ساری عمر گزاری بھلیا سوچاں دے نال متھا لا کے
سجنا متراں نوں ازمایا سدھے گھل گھل آپوں جا کے
کوئی وی ساڈے نال نہ ٹریا ، موڈھا جوڑ کے موڈھے نال
چیتے ورگیاں جسماں اوڑک سپ دی اکھ دکھائی آ کے
پروفیسر غلام رسول شوق ۔۔۔۔بلاشبہ اسم بامسمٰی تھے۔ ساری زندگی غلامِ ۔۔۔۔رسول بن کر گزاری۔ عاجزی و انکساری اور سراپا خلوص و وفا کا یہ پیکر جب بھی ملتا تو حضورعلیہ الصلوۃ والسلام کے ایک ادنیٰ غلام کی طرح ۔۔۔۔غلامئ رسول کی مہک ان کے پورے وجود سے فضا میں رچ بس جاتی۔بلاشبہ کسی بھی صاحبِ ایمان کے لیے اس سے بڑا اعزاز اور کوئی نہیں کہ اُسے غلامانِ رسول صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم اور ثنا خوان محمد صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم میں شامل کر لیا جائے۔۔۔۔خوش بخت ہیں وہ لوگ جن کے دلوں کے آنگن میں غلامئ رسول صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم اور عشقِ رسول صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے پھول کھلے ہیں اور ان کی خوشبو ان کے رگ و پے میں بس گئی ہے وہ بڑے نصیبوں والے لوگ ہیں۔ اس سے بڑی دولت پوری کائنات میں نہیں۔ بقول شاعر:
سرکارِ دو عالم کی محبت ہے جو دل میں
اس زینے سے ہر دل میں اُتر جائیں گے ہم لوگ
– – – – – –
Dr.Izhar Ahmed Gulzar
izhar ahmed

Share
Share
Share