اردوادب و صحافت۔ سوشیل میڈیا کے تناظر میں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ڈاکٹرسید فاضل حسین پرویز

Share

social سوشیل
اردوادب و صحافت۔ سوشیل میڈیا کے تناظر میں

ڈاکٹرسید فاضل حسین پرویز
چیف ایڈیٹر گواہ اردو ویکلی‘ حیدرآباد۔
فون:09395381226

ہم اکیسویں صدی کی دوسری دہائی میں ہیں۔ یہ صدی انٹرنیٹ انفارمیشن ٹکنالوجی اور سوشیل میڈیا کی صدی ہے جو انفارمیشن ٹکنالوجی کے رفتار سے ہم آہنگ ہیں وہی آگے بڑھتے جائیں گے جو ہم قدم نہ بن سکیں گے وہ پیچھے رہ جائیں گے اور وقت انہیں چھوڑ کر آگے بڑھ جائے گا۔ خدا کا شکر ہے کہ اردو والوں نے وقت کی رفتار کے ساتھ چلنا سیکھ لیا ہے۔ انفارمیشن ٹکنالوجی کو سینے سے لگایا اور اگر یہ کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا کہ اردو دنیا انفارمیشن ٹکنالوجی کے شعبے میں کسی سے پیچھے نہیں ہے۔

انٹرنیٹ انفارمیشن ٹکنالوجی کی بنیاد ہے اور کمپیوٹر کی ایجاد اس کا نقطہ آغاز ہے۔ کئی کمپیوٹرس کے درمیان رابطہ یا نیٹ ورک ہی انٹرنیٹ ہے۔ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کن کن ارتقائی مراحل سے گذرتا ہوا آج کے دور تک پہنچا‘ نہ تو اس کی تفصیلات بیان کرنے کی ضرورت ہے نہ ہی اس میں آپ کو کوئی دلچسپی ہوسکتی ہے کیوں کہ اس کی تاریخ سے آپ واقف ہیں۔انٹرنیٹ کے ذریعہ اٹکٹرانک میل سے ای میل کی اصطلاح کی گئی ہے۔ اس کا آغاز انفارمیشن ٹکنالوجی کے ارتقائی دور کا آغاز ہے۔29؍اکتوبر 1971 ء کی شب ساڑھے دس بجے یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے کمپیوٹر لیاب سے جب لیونارڈ کلین راک نے اپنے شاگرد چارلی کلین کو پہلا پیغام OK بھیجنا چاہا تو صرف O کی ترسیل ہوسکی K کی ٹائپنگ سے پہلے سسٹم کراش ہوا مگر انفارمیشن ٹکنالوجی میں ایک نئے انقلابی دور کا آغاز ہوچکا تھا اس وقت کسی کے تصور میں بھی نہ تھا کہ 47برس کے اندر انٹرنیٹ کے ذریعہ پیغام رسانی نہ صرف عام ہوگی بلکہ انٹرنیٹ انسان کی روز مرہ زندگی کا لازمی جز بن جائے گا۔ اور اس کے بغیر وہ خود کو ادھورا محسوس کرے گا۔ آج انٹرنیٹ کے ہم اس قدر عادی ہوچکے ہیں کہ وکی پیڈیا کے مطابق انٹرنیٹ پرصرف ایک منٹ میں
l 438,801 وکی پیڈیا کے صفحات دنیا بھر میں دیکھے جاتے ہیں۔
l 34.7ملین میسجس یا پیغامات کا تبادلہ ہوتا ہے۔
l 10بلین چیاٹنگ میسیجس یا پیغامات گپ شپ کا تبادلہ ہوتا ہے۔
l 194064 اپلیکیشنس ڈاؤن لوڈ کئے جاتے ہیں۔
l 31773 گھنٹوں کی موسیقی سنی جاتی ہے۔
l 133436 ڈالرس کی مالیت کی اشیاء انٹرنیٹ کے ذریعہ فروخت ہوتے ہیں۔
l گوگل پر 4.1بلین سرچ کئے جاتے ہیں۔
l 13889 گھنٹوں کے مساوی یو ٹیوب ویڈیو دیکھے جاسکتے ہیں اور
l 23148گھنٹوں کے مختلف و یڈیوز دیکھے جاتے ہیں۔
دیکھا آپ نے! انٹرنیٹ ہماری سانسوں میں سماگیا ہے۔ خون بن کر ہماری رگوں میں سرایت کرچکا ہے۔ آج کی دنیا کے لئے یہ آکسیجن کی طرح ہے۔ ایک منٹ کے لئے اگر انٹرنیٹ رک جائے تو دنیا بھر میں 20کروڑ 40لاکھ پیغامات کی ترسیل رک جائے گی۔ 23,300 گھنٹوں کے مساوی کال کنکشن منقطع ہوجائیں گے۔ امیزون کو 83ہزار ڈالر کا نقصان ہوگا۔ زمینی، سمندری، فضائی سفر پر اس کا اثر پڑے گا۔ ہر شعبہ حیات مفلوج ہوکر رہ جائے گا۔ گویا انٹرنیٹ دل کی دھڑکن کی طرح ہے۔اِدھر دھڑکن رکی اُدھر لگے گا گویا زمین کی گردش تھم گئی‘ وقت کی سوئی نے گھومنا چھوڑ دیا۔دنیا اپنے آپ کو ایک ہزار سال پہلے کے دور میں محسوس کرے گی۔
آج اردو دنیا کا بھی یہی حال ہے۔ وہ انٹرنیٹ کے بغیر خود کو ادھوری محسوس کرتی ہے یہی وجہ ہے کہ اس نے اپنے آپ کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کیا۔جہاں تک اردو زبان و ادب، تحفظ اور فروغ میں انٹرنیٹ کا تعلق ہے یہ ایک حقیقت ہے کہ جب سے اردو دنیا نے کمپیوٹر کو اپنایا‘ کمپیوٹر کیلی گرافی کو روشناس کروایا۔ اِن پیج سافٹ ویئر کی ایجاد یکے بعد دیگر کئی ورژن کے منظر عام پر آجانے سے اردو کو ایک نئی زندگی ملی۔ تب سے اردو کو نئی زندگی ملی۔ اردو دنیا میں یوں تو کمپیوٹر۔ کمپیوٹر کیلی گرافی اور پھر انٹرنیٹ کا استعمال سب سے پہلے اردو صحافت نے کیا۔ بعد میں اردو سے متعلق تمام اداروں اور شعبے جات نے اس کی تقلید کی۔ کمپیوٹر کیلی گرافی کی بدولت طباعت میں خوبصورتی، دلکشی، جاذبیت پیدا ہوئی۔ ہزاروں اقسام کے فونٹس چونکہ سرچ انجنوں میں محفوظ ہیں اور اس میں سے بیشتر مفت دستیاب ہیں۔ مختلف اقسام کے فونٹس کے استعمال سے اردو اخبارات اور ان کے مختلف موضوعات پر شائع ہونے والے ایڈیشنس کی خوبصورتی میں اضافہ ہوا ہے۔ جبکہ فوٹوشاپ، کورل ڈرا، پیج میکر جیسے سافٹ ویئرس کی بدولت گرافک ڈیزائننگ، تصاویر کی صفحہ کی مناسبت سے تزئین و ترتیب کی جارہی ہے۔ یہی طریقہ کار میقاتی جرائد اور کتابوں کی اشاعت کے لئے بھی اختیار کیا جارہا ہے۔ ای۔میل کی بدولت پیغام رسانی، خبروں اور تصاویر کی ترسیل اور وصولی بہت آسان ہوگئی ہے۔ جبکہ حالیہ عرصہ کے دوران واٹس ایپ نے تو صحافت کے ساتھ ساتھ ہر شعبہ حیات میں ایک انقلاب رونما کیا ہے۔ پلک جھپکتے خبر، اطلاع، تصاویر، ویڈیو کلیپنگ مل رہی ہے۔ اب ہر وہ فرد جس کے پاس موبائل فون ہے وہ سٹیزن جرنلسٹ ہے۔ اخبارات کے ساتھ ساتھ ٹیلی ویژن چیانلس کیلئے بھی یہ سٹیزن جرنلسٹ بڑا اہم رول ادا کررہے ہیں۔ آفات سماوی ہوں یا انسانی، حادثات ہوں یا واقعات عام آدمی اپنے موبائل کے ذریعہ نہ صرف تمام تفصیلات مہیا کررہا ہے بلکہ سوشیل میڈیا پر اَپ لوڈ کرکے ساری دنیا میں عام کررہا ہے۔ یمن کا انقلاب محض موبائل پر ترسیل کئے گئے گروپ ایس ایم ایس کی بدولت رونما ہوا۔ اسٹنگ آپریشن صحافیوں سے زیادہ عام آدمی کررہے ہیں۔ جب یہ کلیپنگ قانون اور عدالت تک پہنچ جاتی ہیں تو خاطیوں کے گردن میں شکنجہ کسنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں رہ جاتا۔ انٹرنیٹ کی بدولت آج اردو اخبارات ملٹی ایڈیشن شائع کرنے کے موقف میں ہیں اور بیشتر ہندوستانی اردو اخبارات انٹرنیٹ کا استعمال کرتے ہوئے پڑوسی ممالک کے ادبی اور مختلف ایڈیشنس کو من و عن شائع کردیتے ہیں‘ ایک طرح سے غیر اخلاقی طور پر ہی سہی‘ دو ممالک کے درمیان صحافتی اور ادبی رشتہ استوار رکھے ہوئے ہیں۔ تقریباً ہر اردو اخبار اور میقاتی جریدے کا اپنا آن لائن ایڈیشن ہے جس سے وہ دنیا کے ہر خطہ میں دیکھا اور پڑھا جاتا ہے جہاں اردو والے بستے ہیں۔ اردو صحافت کا فروغ اردو زبان و ادب کا بھی فروغ ہے کیوں کہ ادب اور صحافت کو ایک دوسرے سے علیحدہ نہیں کیا جاسکتا۔ ادب کو اخبارات نے ہی اپنے خصوصی ایڈیشنس کے ذریعہ پروان چڑھایا۔ ادبی شخصیات پر خصوصی گوشے شائع کرنے کی دیرینہ روایت رہی ہے۔ اب کتب خانوں میں کتب بینی کی روایت ختم ہورہی ہے‘ مگر انٹرنیٹ کے مختلف ویب سائٹ کے ذریعہ کتابوں، ناولوں، خصوصی شماروں کو محفوظ رکھنے کی ایک نئی روایت شروع ہوچکی ہے۔ کراچی کے راشد اشرف نے کراچی کے اتوار بازار سے قدیم نادر و نایاب کتابوں کو خرید خرید کر انہیں اسکان کرکے ویب سائٹ پر محفوظ کردیا ہے۔ لگ بھگ چار لاکھ صفحات وہ محفوظ کرچکے ہیں۔ ایک طرح سے کلاسیکی ادب کا وہ نایاب خزانہ جو دیمک زدہ ہوچکا تھا اسے راشد اشرف نے ایک نئے انداز سے دوبارہ پیش کیا ہے۔ انٹرنیٹ پر محفوظ ان قدیم کتابوں کو دوبارہ شائع کیا جاسکتا ہے۔ سنجو سراف نے تو کمال ہی کردیا‘ ریختہ ڈاٹ کام کے ذریعہ انہوں نے اردو کی ایسی خدمت کی ہے جو اُن لوگوں نے بھی نہیں کی جن کی مادری زبان اردو ہے‘ اور جو اردو کی روٹی کھاتے رہے ہیں۔ ریختہ ڈاٹ کام پر ہزاروں کتابیں دستیاب ہیں‘ طلسم ہوشربا، داستان امیر حمزہ جو کلاسیکی ادب کا اثاثہ ہے نئی نسل جس سے واقف بھی نہیں ہے وہ بھی ریختہ ڈاٹ کام پر دستیاب ہے۔ یہی نہیں بلکہ اردو کے تقریباً سبھی شعرائے کرام غالب، میر، اقبال و فیض سے لے کر دور حاضر کے اُبھرتے شاعر شامل ہیں۔ ان کا کلام اردو، انگریزی اور ہندی رسم الخط میں بھی ہے اور ان کی ویڈیو کلیپنگس بھی آپ اپنے محبوب شاعر یا شاعرہ کے کلام سے ان کی اپنی آواز میں محظوظ ہوسکتے ہیں۔ ادبستان ڈاٹ کام، کتابستان، شعر و سخن ڈاٹ کام، بہار اردو یوتھ فورم ڈاٹ آرگ اور سینکڑوں ایسی ویب سائٹس ہیں جن سے اردو زبان، ادب کا فروغ ہورہا ہے۔
انٹرنیٹ پر اردو کا کون سا خزانہ نہیں ہے‘ قرآن کی تفاسیر، تراجم، احادیث، ہوں کہ مختلف مسالک کے ماننے والوں کے لئے اِن کے عقائد کے مطابق فقہی مسائل سے متعلق مواد، تاریخ، جغرافیہ، سائنس، قانون، صحافت، سیاحت غرض کہ ہر موضوع پر انٹرنیٹ پر مختلف ویب سائٹس پر اردو میں مواد مفت دستیاب ہے۔ شعر و ادب پر جتنا مواد انٹرنیٹ پر ہے‘ اس کا اندازہ کسی کو نہیں اگر غالب، اقبال، میر، فیض اور ان کے ہم قبیل شعراء، پریم چند، چکبست، کرشن چندر، ابن صفی،منٹو سے لے کر ہر سطح ہر معیار کے ادیب، قلمکاروں کو ایک بار پھر اس دنیا میں آنے کا موقع ملے تو وہ اپنی مقبولیت اور انٹرنیٹ پر اپنے سے متعلق مواد کو دیکھ کر خوشی سے فوری مرجائیں گے۔
اردو دنیا میں مایوسی کی لہر تھی اور یہ اندیشہ تھا کہ اردو ختم ہورہی ہے۔ قاری کم ہورہے ہیں… کتابوں کی نکاسی نہیں ہوپارہی ہے‘ مگر انٹرنیٹ اور سوشیل میڈیا نے اس مایوسی کو ختم کیا اور اردو کو ایک نئی زندگی دی۔ حال ہی میں ندا فاضلی، ملک زادہ منظور احمد کا انتقال ہوا۔ پلک جھپکنے تک ساری دنیا میں فیس بک، ٹوئیٹر، واٹس ایپ اور ای میل کے ذریعہ یہ خبر دنیا کے گوشے گوشے میں پہنچ گئی۔ پھر ان کی خدمات کو سوشیل میڈیا پر خراج عقیدت پیش کیا جانے لگا۔ ساتھ ہی ان کے کلام اور خدمات کے تفصیلات کو بھی ان کے چاہنے والے اَپ ڈیٹ کرتے رہے۔جوگیندر پال چل بسے تو پیغامات خراج عقیدت کے ساتھ ساتھ ان کے افسانچے بھی فیس بک اور واٹس ایپ پر پیش ہونے لگے جس سے یہ اندازہ ہوا کہ محبان اردو اور ادبی ذوق رکھنے والوں کی کمی نہیں ہے۔ یہی خبریں دوسرے دن اخبارات میں دیکھتے ہیں تو یہ برسوں پرانی لگتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ انٹرنیٹ اور سوشیل میڈیا نے اخبارات کی اہمیت کو گھٹا دیا۔ سوشیل میڈیا ہو یا الکٹرانک میڈیا‘ ان پر تازہ ترین خبروں اور واقعات سے بروقت جانکاری کے باوجود اسے اخبار میں پڑھے بغیر صداقت پر یقین نہیں آتا اور نہ ہی ذوق کی تسکین ہوتی ہے۔ الکٹرانک اور سوشیل میڈیا کے علاوہ خود اخبارات اور جرائد کے آن لائن ایڈیشن کو قبل از وقت دیکھنے کے باوجود جب تک کاغذ پر چھپے اخبار کا مطالعہ نہیں ہوتا تشنگی باقی رہتی ہے۔
بہرحال سوشیل میڈیا پر شعر و ادب، شاعروں، ادیبوں سے متعلق لاکھوں صفحات کے مواد موجود ہیں۔ شعراء ادیبوں کے مداحوں کے گروپس یا کلبس ہیں‘ جو اپنے چہیتے شاعر، ادیب، فنکار کی مارکیٹنگ بھی کرتے ہیں اور ان کی تخلیقات کو اَپ ڈیٹ کرتے رہتے ہیں۔ کیا یہ اردو زبان و ادب کی عظیم خدمت نہیں ہے۔ کتابوں کی نکاسی ہر دور میں مسئلہ رہی ہے۔ ہر دور میں وہی کتابیں فروخت ہوئیں جن کی مانگ رہی۔ البتہ سوشیل میڈیا پر جو شاعر ادیب، دانشور زیادہ مشہور ہوئے ان کی تخلیقات عام ہوئیں‘ اور اگر یہ وقت کے ساتھ چلنے کے عادی ہیں تو ان کی کتابوں کی نکاسی اب AMAZON اور FLICKER کے ذریعہ آسان ہوگئی۔ آن لائن بکنگ، آئن لائن شاپنگ اب فیشن ہے۔ آپ آن لائن آرڈر دیجئے 24گھنٹوں کے اندر کتاب آپ کو مل جائے گی۔
اب تک صحافت کو چوتھی مملکت یا Fourth Estate کہا جاتا تھا۔ اب سوشیل میڈیا کو Fifth Estate قرار دیا گیا ہے۔ سوشیل میڈیا میں فیس بک، ٹوئیٹر کے بشمول مائی اسپیس، لنکڈ اِن، آرکٹ جیسے بے شمار ویب سائٹس ہیں۔ فیس بک سب سے زیادہ مقبول ہیں۔ حال ہی میں ہندوستانی وزیر اعظم نے اپنے دورہ امریکہ کے موقع پر فیس بک ہیڈ کوارٹر کا دورہ بھی کیا تھا۔ اس وقت فیس بک کے صارفین کی تعداد ماہانہ 1.59 بلین ہے جو اپنے کمپیوٹر، لیاپ ٹاپ یا پھر موبائل فون پر اس کا استعمال کرتے ہیں۔ فیس بک پر ہر ایک منٹ میں کم از کم 510 کامنٹس پوسٹ کئے جاتے ہیں۔ دو لاکھ 93ہزار اسٹیٹس اَپڈیٹ کئے جاتے ہیں۔ ایک لاکھ 36ہزار فوٹوز اَپ لوڈ کی جاتی ہیں۔ 60فیصد سے زائد ہندوستانیوں کا فیس بک اکاؤنٹ ہے جن میں شعراء، ادیب، فنکاروں کی اکثریت ہے۔ کتابوں، مجموعہ کلام، تخلیقات، تصاویر کے ساتھ ساتھ اپنے آواز میں کلام یا نظم بھی فیس بک پر اَپ لوڈ کی جاتی ہے۔ داد تحسین کے لئے لائک Like کو کلک کردیا جاتا ہے۔ اب تو فیس بک پر مختلف گروپس تشکیل پاچکے ہیں جن کے درمیان اپنے فن کا تبادلہ بھی ہورہا ہے، تنقید بھی اور فیس بک اور اس جیسے ویب سائٹس کی بدولت اردو والوں کی ایک نئی دنیا آباد ہوگئی ہے جو جغرافیائی حدود اور سرحدات سے آزاد ہے۔ ٹوئیٹر فیس بک کے بعد دوسرا مقبول عام سوشیل میڈیا سائٹ ہے جس سے ڈیڑھ بلین افراد استفادہ کرتے ہیں۔ اپنے خیالات سے دنیا کو واقف کروایا جاتا ہے۔ اسی طرح یوٹیوب جو ویڈیو کلیپنگ کی ویب سائٹ ہے مقبول ترین ہے جس میں آپ کو شعراء کا کلام بھی ملے گا، مشاعروں کی ریکارڈنگ بھی، قلمکاروں کے انٹرویوز بھی، ناقدین کے تبصرے بھی، ہر قسم کی ویڈیو کلیپنگس جس سے وہ لوگ بھی محظوظ ہوتے ہیں جو صرف اردو سمجھتے ہیں۔ اور جب یوٹیوب کے ذریعہ اردو کی میٹھاس سے وہ آشنا ہوجاتے ہیں تو اردو سیکھنے کے لئے بھی تڑپ اٹھتے ہیں‘ اور ایسے لوگوں کے لئے ایسی کئی ویب سائٹس ہیں جس پر اردو سکھائی جاتی ہے۔ تلفظ سدھارا جاسکتا ہے، لغت کی مدد لی جاسکتی ہے۔
سوشل میڈیا میں واٹس ایپ نے تو کمال کردیا ہے۔ حالیہ عرصہ کے دوران ایسے کئی واٹس ایپ گروپ بن گئے جس سے اردو زبان و ادب کی تعمیر و ترقی میں مدد مل رہی ہے جیسے عالمی اردو پروفیسر گروپ، واٹس ایپ پر تشکیل دیا گیا ایک ایسا گروپ ہے جس میں ہند۔پاک، بنگلہ دیش، امریکہ، کناڈا کے پروفیسرس، لکچررس شامل ہیں جن میں اردو دنیا میں ہونے والی نت نئی تبدیلیوں سے متعلق تبادلہ خیال کیا جاتا ہے۔ تخلیقات پر بحث کی جارہی ہے۔ ابھرتے شعراء کے کلام کی اصلاح بھی کی جارہی ہے۔ عالمی اردو دھنک، اردو کلچر، بزم جہان اردو جیسے واٹس ایپ گروپ میں اردو دنیا کو بھی ایک عالمی گاؤں میں تبدیل کیا بلکہ اردو والوں کی ایک عالمی بستی بسالی ہے۔
انٹرنیٹ اور ویب سائٹس کی کامیابی کا دار و مدار سرچ انجنوں پر ہے۔ یہ سرچ انجن کیا ہے؟ علاء الدین کا چراغ۔ علاء الدین کو اپنے جن کے ذریعہ کسی بھی شئے کو طلب کرنے کے لئے چراغ کو رگڑنا پڑتا تھا۔ اب یہ چراغ موبائل فون کی شکل میں 90فیصد سے زائد افراد کے پاس موجود ہے۔ انگلی کے ہلکے سے لمس سے گوگل جن حاضر ہوجاتا ہے‘ اور جس کی آپ فرمائش کرتے ہیں وہ آپ کے سامنے پیش کردیتا ہے‘ چاہے شخصیات ہوں یا مقامات۔ کوئی بھی موضوع ہو گوگل، یاہو اور اس جیسے بیسیوں سرچ انجن آپ کی فرمائش کی تکمیل کردیتے ہیں۔ کبھی کبھی یہ سرچ انجن ہمیں دیومالائی داستانوں کے ماحول میں بھی پہنچا دیتے ہیں۔ علی بابا چالیس چور کے داستان کی طرح وکی پیڈیا ’’کھل جا سم سم‘‘ ہے۔ سرچ کے خانے میں کسی بھی موضوع پر ماؤس کا لمس وکی پیڈیا کیلئے ’’کھل جا سم سم‘‘ کا اشارہ ہے۔ اِدھرکلک کیا اُدھر دریچے کھل گئے۔ جتنا چاہیں معلومات کا خزانہ سمیٹ لیں۔ بہرحال وکی پیڈیا جیسا انسائیکلوپیڈیا جس میں ہر موضوع پر ہر زبان میں کروڑوں صفحات پر مواد پلک جھپکتے مل جاتے ہیں۔ اس کی بدولت صحافت اور ادب کو غیر معمولی فائدہ پہنچ رہا ہے۔
انٹرنیٹ کی بدولت قلمکار، شعراء، فنکاروں کی رسائی دنیا کے گوشے گوشے میں ہونے لگی ہے۔ ان کی اپنی آواز میں ویڈیو کلیپنگ شےئر کرکے محظوظ ہونا اب موجودہ دور کا فیشن ہے۔ قلمکار، شعراء صحافیوں کی تخلیقات اردو دنیا میں عام ہونے لگی ہے۔ اِن پیج میں مضمون، کلام ٹائپ کرکے بیک وقت ہند و پاک ہی نہیں بلکہ امریکہ، کناڈا، انگلینڈ، ڈنمارک کے اخبارات و جرائد کو ای میل کردیجئے‘ کبھی املا کی غلطیوں کے ساتھ تو کبھی ایڈیٹنگ کے بعد شائع ہوجائیں گے۔ ویسے کاپی پیسٹ کی روایت بھی عام ہونے لگی ہے۔ اخبارات کے اخبارات، مضامین کے مضامین من و عن کاپی پیسٹ ہوجاتے ہیں۔ یہ روایت بہت قدیم ہے‘ پہلے پڑوسی ملک کے ڈائجسٹ، ناولس حتیٰ کہ قرآنی نسخے، مذہبی کتابیں ہمارے یہاں انتہائی اخلاص کے ساتھ نقل کرلی جاتی تھی۔ اب انٹرنیٹ کی سہولت کا بھرپور فائدہ اٹھایا جارہا ہے۔
انٹرنیٹ، ای میل، اِن پیج نے اخبارات و جرائد کی مشکلات کو کم کردیا۔ ایڈیٹر و سب ایڈیٹرس کے بوجھ کو کم کردیا ہے۔ یو این این، بصیرت آئن، فکر و خبر، تازہ ترین خبریں، مضامین ڈاٹ کام جیسے آئن لائن خبر رساں ادارے غیر معمولی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ انٹرنیٹ اور آن لائن جرنلزم کی بدولت دینی مدارس سے غیر معمولی قابل صحافی اور ادیب روشناس ہوئے ہیں۔
اردو یونی کوڈ کا استعمال اردو زبان کی ترقی کا ضامن ہے۔ یونی کوڈ کیا ہے؟ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ کمپیوٹر لینگویج مختلف کیریکٹرس پر مشتمل ہوتی ہے۔ ان کیریکٹرس کو چاہے وہ کسی بھی زبان کے کیوں نہ ہوں‘ انہیں اِنکوڈ کرنے کے لئے ایک مشترکہ نمبر کی ضرورت ہے۔ ایپل، ایچ پی، آئی بی ایم، مائیکروسافٹ، اورائیکل جیسی کمپنیوں نے یونی کوڈ اسٹینڈرڈ کو اختیار کیا ہے۔ اردو کو بھی یونی کوڈ نے قبول کرلیا ہے۔ جس کی بدولت یہ زبان عصری تقاضوں سے ہم آہنگ ہوچکی ہے۔ جس کی بدولت اب اپنے موبائل فونس، لیاپ ٹاپ یا کمپیوٹر سسٹم پر اردو یونی کوڈ میں ٹائپنگ آسان ہوگئی۔ اردو یونی کوڈ سے اِن پیج میں منتقلی نے اس زبان کی ترقی کی مزید راہیں ہموار کی ہیں۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہورہا ہے کہ اردو رسم الخط عام ہونے لگا ہے۔ نئی نسل بھی اردو رسم الخط کو رومن رسم الخط پر ترجیح دینے لگی ہے۔ ایس ایم ایس اردو میں ہونے لگے ہیں۔ ٹوئیٹر، واٹس ایپ پر اب اردو ہی میں تبادلہ خیال کیا جانے لگا ہے۔ اس طرح زبان اور رسم الخط کا تحفظ یقینی ہوگیا۔ انٹرنیٹ زندہ آباد۔
انٹرنیٹ کے فیوض و برکات کے تذکرے کے لئے وقت کی تنگی اور آپ کی اُکتاہٹ کا احساس ہے۔ بس اتنا کہتے ہوئے اپنی بات ختم کرتا ہوں کہ اردو کی جو نئی بستیاں آباد ہوئی ہیں ان کو ایک دوسرے سے مربوط کرنے میں اس کا کلیدی رول ہے۔جس طرح بہار یوتھ فورم کا یہ سمینار انٹرنیٹ کی بدولت ساری دنیا میں دیکھا جارہا ہے اُسی طرح دنیا کے مختلف ممالک میں محبان اردو انٹرنیٹ کے ذریعہ مشاعرے، سمینارس، ویڈیو کانفرنس کا اہتمام کررہے ہیں۔ ویب کے ذریعہ ہونے والے سمینارس کو WEBINAR اور انٹرنیٹ کی دنیا میں مگن رہنے والے NETIZEN کہلاتے ہیں۔ خواتین و حضرات یہ دنیا اور اس کی ترقی اب انٹرنیٹ کی مرہون منت ہے۔ جیسے جیسے اس کی ترقی ہوگی خالق کائنات پر ہمارا ایمان مضبوط ہوتا جائے گا۔ ایک چھوٹے سے Chip میں ساری دنیا کے راز محفوظ کئے جاتے ہیں تو اب ہم یقین کرنے لگتے ہیں قرآن کس طرح لوح محفوظ میں محفوظ ہے۔ جب اسٹنگ آپریشنس کے ذریعہ خفیہ سرگرمیاں راز نہیں رہتیں تو کراماً کاتبین کے وجود پر یقین آنے لگتا ہے۔ ہزاروں کیلو میٹر دور آپ کی سرگوشی، نادیدہ آلہ کی مدد سے سنی جاتی ہے‘ تو اللہ والوں کے سینہ بہ سینہ منتقل ہونے والے پیغامات پر بھی اعتبار کرنے کو جی چاہتا ہے۔
آپ کے ہاتھ میں یا جیب میں رکھا ہوا موبائل فون جام جہاں نما بھی ہے۔ یہ کئی اخبارات کا مجموعہ ہے‘ یہ کمپیوٹر بھی ہے‘ کیلکولیٹر بھی۔ سینکڑوں اخبارات کا مجموعہ بھی‘ لاکھوں کتابوں پر مشتمل لائبریری بھی۔ یہ آپ کا ماضی، حال، مستقبل ہے۔ آپ کی یادداشت کا خزانہ بھی ہے۔ آپ کا بینک بھی۔ یہ شعراء، ادیبوں کے لئے سب سے بڑی نعمت ہے۔ پہلے انہیں یہ دھڑکا لگا رہتا تھا کہ آیا کسی مشاعرے یا سمینار میں شرکت کے بعد انہیں معاوضہ ملے گا بھی یا نہیں اب‘ انٹرنیٹ کی بدولت آپ کا فون آپ کو اس بات کی طمانیت دیتاہے کہ آپ کے میزبان آپ کی آمد سے پہلے ہی آپ کا معاوضہ آپ کے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کرچکے ہیں۔ تو پھر اسی فون سے ٹرین، بس یا ہوائی جہاز کی ٹکٹ بک کرواےئے اور رخت سفر باندھئے اور انٹرنیٹ کے موجدین کے حق میں دعا کیجئے یا پھر ان کے حق میں جنہوں نے اردو زبان و ادب کے فروغ کے لئے انٹرنیٹ کے رول سے متعلق شعور کی بیداری میں اہم رول ادا کیا۔ چاہے وہ این سی پی یو ایل ہو یا کوئی اور….
یہ وہم ہے اے دوست کہ مرجائے گی ا ردو
خوشبو کی طرح ہر سمت بکھر جائے گی اردو

Share
Share
Share