عصری رجحانات اور امکانات کا حیدرآبادی شاعر۔ رفیق جعفر
پروفیسرمجید بیدار
سابق صدر شعبۂ اردو ، جامعہ عثمانیہ حیدرآباد
کسی بھی عصر اور زمانہ میں مختلف رجحانات اور امکانات کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور یہ رجحانات اور امکانات بعض اوقات مثبت روش کی نمائندگی کرتے ہیں تو بعض اوقات منفی رویوں کے بھی علمبردار ہوجاتے ہیں۔ کسی بھی ملک ، معاشرہ اور سماج میں رجحانات اور امکانات کا طویل سلسلہ ہوتا ہے اور جو قوم جس تیزرفتاری سے ترقی کرتی جاتی ہے اسی تیزرفتاری کے ساتھ اس ملک میں بسنے والے باشندوں کے رجحانات میں تبدیلی آتی ہے اور اس کی وجہ سے ہمہ جہت ترقی کے امکانات روشن ہوتے جاتے ہیں۔ کسی بھی ملک اور قوم میں پلنے اور پھلنے پھولنے والے رجحانات کو ایک جانب انفرادی اور اجتماعی رجحانات کی حیثیت سے قبول کیا جاتا ہے تو ہر قسم کے رجحانات کا تعلق سیاسی، معاشی، مذہبی ، معاشرتی اور سماجی رویوں سے حد درجہ گہرا ہوتا ہے۔ لازمی ہے کہ جب انسان قدیم تہذیب و تمدن کے دَور میں زندگی گذار رہا تھا تو اس کے رجحانات کا تعلق صرف عائلی زندگی تک تھا۔ چنانچہ رہنے سہنے کے لیے معمولی مکان اور لباس ہی بنیادی واسطے تھے جن کے توسط سے اُس دَور کے رجحانات کی شناخت ممکن تھی ۔
عصر حاضر میں سائنسی ایجادات اور علوم و فنون کے ترقی یافتہ دھاروں نے انسانی ذہن کو مختلف رجحانات سے وابستہ کردیا ہے اور یہ رجحانات ایک قوم سے دوسری قوم میں منتقل ہوتے جارہے ہیں اور افکار کی دنیا میں تہلکہ مچانے کا وسیلہ بن رہے ہیں۔ اردو شاعری میں عصری رجحانات نے نہ صرف تہلکہ مچایا ہے، بلکہ اِن رجحانات کا تعلق بھی کہیں منفی رویوں کا علمبردار بن گیا ہے تو کہیں مثبت وسیلوں کو کی نمائندگی کا وسیلہ قرار پاتا ہے۔ ساری دنیا کے باشندے تیزی کے ساتھ یورپی ترقی کے زیرنگیں ہوتے جارہے ہیں اور آج کے زمانہ میں یورپی خیالات اور رجحانات سے مالا مال ہوکر انسان یہ فخر کررہا ہے کہ وہ ترقی یافتہ اور افکار کی ہمہ جہتی کی جانب پیش رفت کررہا ہے۔
بیسویں صدی کی آٹھویں دہائی کے بعد ہندوستانی معاشرہ میں شعر و ادب کے وقار اور معیار کو بڑی ٹھیس پہنچی، جس کا نتیجہ یہ رہا کہ سارے ایشیائی ممالک ہی نہیں، بلکہ یورپی ممالک میں بھی سائنسی علوم اور ٹیکنیکل تعلیم پر بھی خصوصی توجہ دی جانے لگی، جس کی وجہ سے ادبیات کی طرف مائل ہونے والے دانشورانہ طبقہ کی توجہ دوسرے مسائل کی طرف مرکوز ہوگئی۔ اس کے باوجود بھی شاعر چوں کہ معاشرہ کی حقیقتوں میں زندگی گذارتا ہے اور اس کے خیال کی جڑیں، مذہب، تہذیب اور معاشرت سے مضبوط رہتی ہیں، اس لیے شاعر بڑھتی ہوئی ترقی اور انسان کے بدلتے ہوئے رویوں پر جب کسی قسم کی شعر گوئی کا طریقہ اختیار کرتا ہے تو بسااوقات اس کے رجحانات میں اجتماعیت کا اثر غالب ہوتا ہے اور بعض اوقات وہ اپنے رجحانات کو انفرادی رجحانات کا وسیلہ بنالیتا ہے۔ ہندوستان کی سرزمین میں کئی زبانوں کے شاعر و ادیب تیزرفتاری کے ساتھ عصری رجحانات کو اپنے اشعار کا ذریعہ بناکر نہ صرف خیالات کی پیشکشی کی طرف توجہ دے رہے ہیں، بلکہ اظہار کی دلبستگی اور شاعرانہ حسن کے توسط سے شعری فکر کی آبیاری پر بھی توجہ دے رہے ہیں۔ ایسا ہی ایک حیدرآبادی شاعر بھی ہے‘ جس نے بمبئی کی فلمی دنیا میں اپنا وقت گذارا اور اب پونے کی سرزمین سے وابستہ ہوکر حیدرآبادی شاعر کی حیثیت سے عصری رجحانات اور امکانات کو پیش کرنے کا ثبوت فراہم کررہا ہے، اُس شاعر کو اردو دنیا ، رفیق جعفر کے نام سے پہچانتی ہے۔ گذشتہ پچاس سال سے زیادہ عرصہ سے وہ شعر و ادب کی آبیاری کی طرف متوجہ ہے، گو کہ انہوں نے تحقیقی اور تنقیدی نثر کی طرف بھی خصوصی توجہ دی ہے، لیکن رفیق جعفر کی شناخت حیدرآبادی شاعر کی حیثیت سے حددرجہ مستحکم ہے۔ وہ نہ صرف غزل کے شاعر ہیں، بلکہ نظم نگاری اور عصری شعری رویوں کو اپنے اشعار میں سمونے کا ہنر بھی رکھتے ہیں۔ لازمی ہے کہ رفیق جعفر کی شاعری میں عصری رجحانات اور امکانات کا جائزہ لیتے وقت یہ لازمی نہیں سمجھا گیا کہ رفیق جعفر کے سوانحی کوائف کو زیربحث لایا جائے اور ان کی شخصیت کے مختلف گوشوں کو نمایاں کیا جائے۔ چوں کہ ان کی شاعری میں موجود عصری رجحانات اور اس سے شاعری میں پیدا ہونے والے نئے امکانات کی تلاش ہی موضوع کا اہم مقصد ہے، اس لیے ان کی شعری حقیقتوں کو واضح کرنے اور اس میں موجود عصری حسیت کے علاوہ معاشرہ کے کرب کو نمایاں کرنے کے لیے انہوں نے جو شعری کائنات سجائی ہے۔ اسی سے استفادہ کیا جارہا ہے۔ رفیق جعفر کا حسن کارانہ انداز اور شعر میں کیفیت کو اُجاگر کرنے کی صلاحیت ہی انہیں اپنے دورکے دیگر شعراء سے مختلف مقام عطا کرتی ہے۔ رفیق جعفر نے حسن و عشق کی روداد کو بیان کرنے یا پھر مسائل کی نمائندگی کو اپنی غزل میں جگہ نہیں دی، بلکہ انہوں نے اپنے عہد کے پیچیدہ حقائق کو عصری رجحانات کی صورت میں پیش کرکے کامیابی حاصل کی ہے، جس کا اندازہ ان کے اس شعر سے لگایا جاسکتا ہے۔
نئی صدی کے یہ بچے کمال کرتے ہیں
جواب جس کا نہیں وہ سوال کرتے ہیں
عصری رجحانات کی بڑھتی ہوئی ترقی کا یہ عالم ہے کہ آج کی نسل کا بچہ بچہ سائنسی ایجادات اور نئے نئے ترسیلی آلات کے محل استعمال سے پوری طرح واقف ہے، جب کہ بوڑھا ہونے والا انسان‘ اس کی بنیادی خصوصیات سے بھی واقفیت نہیں رکھتا۔ رفیق جعفر ایک حقیقت پسند شاعر اور عصری رجحانات میں معاشرت کی تبدیلی کو پیش کرنے کے علمبردار سخن شناس ہیں۔ شاعر چوں کہ جس معاشرہ میں رہتا ہے اور جن تجربات سے گذر کر زندگی کی حقیقتوں سے آشنا ہوتا ہے‘ ان ہی کو وہ اپنے رجحانات اور امکانات کی حیثیت سے پیش کرنے کا مجاز ہوتا ہے۔ رفیق جعفر غزل کی شاعری میں رواں اور بے ساختہ اشعار فن کی باریکی کے ذریعہ دل میں جگہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان کی شاعری کی بحریں رواں اور الفاظ کی تراکیب چست اور انتہائی چونکا دینے والی ہوتی ہے۔ وہ نہ صرف اپنے ضمیر کو جھنجھوڑتے ہیں، بلکہ حقائق کی پیشکشی کے ذریعہ صبرآزما کرب کو بھی شعری حسیت کا وسیلہ بنا لیتے ہیں۔ ان کی شاعری میں عصری رجحانات سے وابستگی کا یہی عمل حالات اور مسائل کی نمائندگی کرتا ہے۔ رفیق جعفر کی غزل کے دو شعر سماعت فرمائیے اور فیصلہ کیجیے کہ وہ اپنے دور کے عصری رجحانات کو پیش کرنے میں کس حد تک کامیاب ہیں:
پہچان کر انے میں بڑی دیر لگے گی
ہم کیا ہیں بتانے میں بڑی دیر لگے گی
بیٹا ہے بہت دور ، مگر آئے گا جعفر
میت کو اٹھانے میں بڑی دیر لگے گی
انسانی حقیقتوں اور اس کی مجبوریوں کو عصری رجحانات کے پس منظر میں پیش کرنے کا ہنر رفیق جعفر کو خوب آتا ہے۔ وہ نہ صرف دنیا اور اس کی حقیقت سے آشنا ہیں، بلکہ یہ بھی جانتے ہیں کہ محنت و مشقت کے توسط سے ہی دنیا میں انسان سرخرو ہوتا ہے۔ وہ اپنی غزلوں کے ذریعہ نہ صرف حقائق کی پیشکشی پر توجہ دیتے ہیں، بلکہ دنیا کی اٹل حقیقتوں کو ظاہر کرکے انسان کے مزاج کو عصری رجحانات سے وابستہ کرنے کی ترغیب بھی دیتے ہیں۔ ان کا کوئی شعری مجموعہ ابھی تک منظر عام پر نہیں آیا۔ ان کا کلام ہندوستان کے رسائل و جرائد میں بکثرت شائع ہوتا رہتا ہے، ان کی شاعری کے مطالعہ کے ذریعہ اندازہ ہوتا ہے کہ اپنے عہد کے بے شمار رجحانات کو شاعری میں شامل کرکے وہ اردو شاعری کے امکانات کو وسعت دینے کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ ان کے اس شعر میں موجود حقیقت اور شعری حسن کاری کے علاوہ روانی اور برجستگی کو محسوس کیجیے:
گھر بیٹھ کے ہم کو تو مقدر نہیں ملتا
ہیرا تو بڑی چیز ہے پتھر نہیں ملتا
دنیا کی حقیقتوں کی نمائندگی کو عصری رجحانات میں داخل کرکے انسانی رویے سے پیدا ہونے والے امکانات پر محاکمہ کرتے ہوئے انہوں نے ہندوستانی معاشرت اور اس ملک کے باشندوں کی بے عملی اور بے فکری کو جس کرب کے ساتھ غزل کی زبان میں پیش کیا ہے، وہ انداز ملاحظہ ہو:
کسی کو فکر نہیں ہے تو غم نہیں جعفر
ہماری قوم کا کیا ہم خیال کرتے ہیں
جیسا کہ بتایا جاچکا ہے کہ رفیق جعفر نے عصری شاعری کے ذریعہ انسان کے فکری اور اختیار کردہ رویہ کو رجحانات کا وسیلہ بناکر شعر گوئی کا کانامہ انجام دیا ہے ، ان کے ہر شعر میں بے ساختگی اور روانی کی وجہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ رفیق جعفر کو شعر گوئی کی طرف راغب کرنے والا جذبہ انہیں سہل ممتنع کی خصوصیت سے وابستہ کردیتا ہے اور وہ عصر حاضر کی نئی نسل کی بے بسی اور مجبوری کو محسوس کرتے ہوئے اشعار لکھنے کے دوران عربی اور فارسی تراکیب سے اجتناب برتتے ہیں۔ اس طرح روزمرہ کے الفاظ کے توسط سے شعر گوئی کا ایوان نے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ ان کی شاعری میں موجود حسن کاری پر بھی غور کیا جاسکتا ہے، لیکن موضوع سے متعلق ان کے اشعار کی پیشکشی کے ذریعہ یہ بتانا مقصود ہے کہ حیدرآباد کی سرزمین سے سفر کرکے ممبئی کی سرزمین میں زندگی کی رونقوں اور ظاہری منافقتوں سے آگاہی کے بعد جس تجربہ کو حاصل کیا ، وہ تجربہ رفیق جعفر کی شاعری میں حد درجہ شدید ہے۔ ان کے شعری ذوق میں عصری رجحانات کی مہک ہی نہیں، بلکہ آج کے انسان کی بدلتی ہوئی فطرت اور اس کی معاشرہ سے بے نیازی بھی نمایاں ہے جو رفیق جعفر کی شاعری کا قیمتی وصف ہے۔ ان کی شعری لفظیات، موزوں بحروں کا انتخاب، اور تشبیہات و استعارات کے مناسب استعمال سے بھی بحث کی جاسکتی ہے، لیکن موضوع کی مناسبت سے رفیق جعفر کے چند اشعار کے حوالوں سے یہ ثابت کیا جارہا ہے کہ ریاست حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے ررفیق جعفر نے مہاراشٹرا جیسی ریاست میں بود و باش اختیار کی اور بمبئی کی سرزمین سے استفادہ کے دوران انہوں نے عصری رجحانات کی فضا کو اپنی شاعری میں شامل کیا، اور اس کے امکانات کو شعری پیرہن میں روشن کردیا۔ رفیق جعفر کو ممبئی کی سرزمین میں بیشتر ترقی پسند شعراء اور جدیدیت کی نمائندگی کرنے والے ادیب و نقاد سے سابقہ رہا اور فلمی دنیا کی بدلتی ہوئی رونقوں کے اثرات بھی ان کی شخصیت پر گہرے نظر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ نہ صرف اپنی شاعری میں عصری رجحانات کی نمائندگی پر توجہ دیتے ہیں، بلکہ ان کے اشعار کے مطالعہ سے خود ان کی فہم و فراست کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے جو حقیقت کو واضح کرنے کی دلیل ہے۔ غرض حیدرآباد کی سرزمین سے اُبھرنے والے شاعر رفیق جعفر نے ہمیشہ گمنامی کی زندگی کو ترجیح دی۔ اس کے باوجود بھی ان کے کلام میں موجود شعری جاذبیت کو بنیاد بناکر یہ ثابت کیا جاسکتا ہے کہ عصری رجحانات اور امکانات کے شاعر کی حیثیت سے رفیق جعفر ، ساری اردو دنیا میں اپنا نام روشن کرنے کا وسیلہ بنے ہوئے ہیں۔
رواں اور مختصر بحروں کے ذریعہ شعر گوئی کے وصف کا اظہار اور بے ساختہ کیفیاتی فضاء کی فراہمی رفیق جعفر کی شعری کائنات کی انفرادیت ہے۔ وہ اپنے اشعار میں حسن و عشق کے روایتی انداز سے دور کا اختیار کرتے ہوئے کر حالات اور مسائل ہی نہیں بلکہ عصری رحجانات کی نمائندگی پر خصوصی توجہ دیتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی شاعری میں عصری رحجانات کی کارفرمائی میں اخلاقی شکست کا عنصر سب سے غالب نظر آتا ہے۔ وہ شاعری کے ذریعہ دھوکہ دہی ‘ استحصال‘ بے ایمانی‘ وعدہ خلافی اور وعدہ فراموشی کی بڑھتی ہوئی لعنت پر افسوس کرتے ہوئے انسانوں میں تیز رفتاری کے فروغ پانے والی اجتماعی عصری بے ضابطگی جیسے دشمنی‘ ناشکری‘ بے راہ روی‘ فرقہ پرستی‘ اقربا پروری‘ احسان فراموشی اور دہشت گردی کو عصائے ابلیس قرار دیتے ہیں‘ تیزرفتاری کے ساتھ جو عصری رحجانات میں اجتماعی طور پر فروغ پانے لگا ہے۔ تاریخی جبریت اور تاریخی استحصال کے علاوہ فسادات میں خون کی ہولی کھیلنے اور انسان کو کے وجود اور اس کی زندگی کو جانور سے بدتر بنا دینے کو وہ اپنی شاعری میں انصاف کا خون یا انصاف کے قتل سے تعبیر کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنی زندگی فلمی دنیا میں گذاری ‘اس لئے انہوں نے جو علامات اور اشارات کو اپنی شاعری میں استعمال کرکے اظہار کی جاذبیت کو نمائندگی دی ہے‘ اس کی مثال اور بے چینی کی کیفیت کو سمجھنے کے لئے رفیق جعفر کے دو شعر پیش ہیں۔
پھر زندگی کی فلم ادھوری ہی رہ گئی
وہ سین کٹ گئے جو کہانی کی جان تھے
ہم لوگ آنسوؤں سے اُگاتے ہیں کھیتیاں
ہم آج بھی کسان ہیں‘ کل بھی کسان تھے
جس شاعر کے کلام میں عصری رحجانات کی نمائندگی کے امکانات ہوتے ہیں‘ اس کی شاعری میں یہ خوبی ہوتی ہے کہ وہ اگرچہ شاعری کو اظہار کا ذریعہ بناتا ہے لیکن اس کے توسط سے تخلیقی حسیت اور عصری حسیت کی بھرپور نمائندگی کا سامان فراہم ہوتا ہے بلکہ شاعر اخلاقی جرأت کو اظہار کا وسیلہ بناکر لطیف احتجاج کا وصف کو نمایاں کرتا ہے۔ ہر رویے میں انسان کا ظاہر اور باطن میں یکسانیت ہی ایسی کسوٹی ہے جس سے وابستہ ہوکر صرف ادیب اور شاعر ہی نہیں بلکہ صوفیانہ مزاج رکھنے والے بزرگانِ دین بھی ضمیر کے احساس کی نشاندہی کرتے ہیں۔ دور حاضر میں خود شناسی کا یہ عالم ہے کہ شاعر خود اپنے اندرون میں جھانک کر نہ صرف شعر کہتا ہے بلکہ روحانیت کے توسط سے عصر حاضر کے انسان کو درس انسانیت سے مالامال کرنا چاہتا ہے۔ اس وصف سے مالامال ہونے کے بعد ہی کسی شاعر کی زبان سے اس قسم کے اشعار ادا ہوتے ہیں۔
اپنی چاہت کا یہ پتہ دینا
سامنا ہو تو مسکرا دینا
میرے اندر بھی ایک دشمن ہے
میرے دشمن کو یہ پتہ دینا
ظرف جتنا بھی ہوگا جعفر کا
اس کو اتنا ہی اے خدا دینا
سادہ اور آسان زبان کے علاوہ رواں بحر کا انتخاب کرکے رفیق جعفر نے مختصر بحر کو اپنی فکر کی تابندگی سے وابستہ کیا ہے۔ ظاہر کے بجائے باطن کا اظہار اور خواہشات کے مقابل ظرف کی حقیقت واضح کرتے ہوئے شاعر نے یہ ثابت کردیا ہے کہ اس کے دل کی دھڑکن حسن و عشق اور دنیا کی جاہ و شہرت کی طرف مائل نہیں۔ وہ اپنی شاعری میں ضمیر کے عطا کردہ تحفہ پرشادمان ہیں۔ کیونکہ انسان اگر ضمیر کو زندہ رکھے گا تو انسانیت خیر کی پناہ میں رہے گی۔عصر حاضرمیں پیش آمادہ بے شمار رحجانات اور امکانات کے پس منظر میں نمایاں ہونے والے فلسفوں کو سہارا بنائے بغیر رفیق جعفر اپنے اشعار کے ذریعہ زندگی کے نتائج کو نچوڑا ے۔ غرض زبان کی شاعری میں انفرادی یا پھراجتماعی طور پر ضمیر فروشی کے خلاف آواز بلند کرنے کا شدید احساس موجود ہے۔ اگر آج کا ترقی یافتہ انسان دوبارہ اپنے زمانے کو انسانیت کے نقوش سے مالامال کرنا چاہتا ہے تو بلاشبہ اُسے ضمیر کی آواز پر توجہ دینا ہوگا۔ شاعر کا یہ قیمتی احساس انسانیت کی بیداری کا وصف اور شاعری کے ذریعہ انقلاب آمیز اقدامات کی گواہی دیتا ہے۔ غرض ممبئی کی فلمی دنیا کی چمک دمک اور دولت کی ریل پھیل سے گذرتے ہوئے رفیق جعفر مادیت کا شکر نہیں ہوئے ‘فکر اور سوچ کے صالح طریقوں کو اختیار کرکے انہوں نے انسانیت کی فلاح و بہبود کی خاطر اپنے کلام کو حقائق کا آئینہ دار بنادیا ہے ‘جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ شاعر اور تخلیق کار کی حیثیت سے وہ اپنے ظرف کو زندہ رکھتے ہوئے دنیا اور کائنات کے ہر خطے میں بسنے والے انسانوں کے ضمیر کو بھی انفرادی اور اجتماعی سطح پر زندہ رکھنا چاہتے ہیں۔ یہی خوبی رفیق جعفر کی شعری حسیت کی دلیل ثابت ہوتی ہے۔ جسے عصری رحجانات اور امکانات کے اظہار کا نمائندہ وصف قرار دیا جائے گا۔
Prof. Majeed Bedar