وزیرآغا کے تنقیدی رویے ۔ ایک تعارف
مبصر:عبدالعزیز ملک
لیکچرار اردو ، جی سی یونیورسٹی فیصل آباد
ای میل :
اردو تنقید کا آغاز تو تذکرہ نگاری ہی سے ہو گیا تھا لیکن اس میں جدت اور نکھار اس وقت پیدا ہوا جب محمد حسین آزاد، الطاف حسین حالی اور شبلی نعمانی نے اسے اپنی تنقیدی بصیرت سے مالا مال کیا۔اس کے بعد اردو تنقید کی طویل روایت موجود ہے جس میں مجنوں گورکھ پوری ، عبدالرحمان بجنوری ،سید احتشام حسین، اختر حسین رائے پوری، حسن عسکری ، ممتاز حسین، رشید احمد صدیقی ، سید وقار عظیم ،ممتاز شیریں ،ڈاکٹر محمد علی صدیقی، شمیم حنفی، شمس الرحمان فاروقی، گوپی چند نارنگ،مناظر عاشق ہرگانوی، فہیم اعظمی ،ڈاکٹر سید عبداللہ اورعبادت بریلوی جیسے بڑے نام موجود ہیں۔
انھوں نے چمنِ تنقید کی آبیاری بڑی محنت اور جانفشانی سے کی۔ ان میں ایک نمایاں نام ڈاکٹر وزیر آغا کا بھی ہے جس نے اردو تنقید کو نئی جہات سے روشناس کروایا۔ان کی اب تک متعدد کتب منظرِ عام پر آکر قبولِ عام کے درجے پر فائز ہو چکی ہیں ۔ان کتب میں اردو شاعری کا مزاج،تخلیقی عمل،تنقید اور جدید اردو تنقید،معنی اور تناظر ،نظمِ جدید کی کروٹیں اور اردو ادب میں طنز و مزاح خا ص طور پر اہمیت کی حامل ہیں ۔ ان کے تنقیدی شعور میں وسعت اور گہرائی ان کے مسلسل مطالعہ کا نتیجہ ہے۔ انھوں نے نہ صرف مشرقی تنقیدی روایت کا گہرا مطالعہ کیا بلکہ خود کو مغربی ادب اور تنقید کے مطالعے کے لیے وقف کردیا۔ انھوں نے مغرب میں پروان چڑھنے والی تحریکوں اور نظریات سے اردو تنقید کو ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی۔ ’’وزیر آغا کے تنقیدی رویے‘‘ محمد رفیع ازہر کی ۲۰۱۵ء میں جمہوری پبلی کیشنز سے چھپنے والی ایک ایسی کتاب ہے جس میں انھوں نے وزیر آ غا کی متنوع تنقیدی جہات کو متعارف کروانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔یہ ان کی جہانِ تنقید میں پہلی باقاعدہ کتاب ہے،جس نے اشاعت کے قلیل عرصے میں وزیر آغا پر چھپنے والی چند بہترین کتب میں اپنا مقام پیدا کر لیا ہے۔’’وزیر آغا کے تنقیدی رویے‘‘دراصل محمد رفیع ازہر کا ایم اے اردو کا مقالہ ہے جو انھوں نے سرگودھا یونیورسٹی سے طارق حبیب کی نگرانی میں مکمل کیا اور بعدازاں ترامیم کے مراحل سے گزارکر زیورِ طباعت سے آراستہ کیا۔محمد رفیع ازہر آج کل ڈاکٹر جمیل جالبی کے تنقیدی رویوں پر پی ایچ ڈی کا مقالہ تحریر کرنے میں مصروف ہیں اور گاہے بگاہے ملک کے مؤقر ادبی جرائد میں تنقیدی مضامین تحریر کر کے ادب کے قاری کے لیے معیاری مضامین کی قرأت کا سامان مہیاکرتے رہتے ہیں۔ مذکورہ کتاب کا آغاز ’’تقدیم ‘‘ اور ’’ابتدائیہ‘‘سے ہوتا ہے ۔ اس کے بعد ’’وزیر آغا کا ادبی سفر‘‘کا عنوان قائم کیا گیا ہے جس میں وزیر آغا کے حالاتِ زندگی،تعلیمی سفر،خاندان کے تعارف اور ان کے علمی وادبی سفر کی کہانی بیان کی گئی ہے۔محمد رفیع ازہر کے بقول وزیر آغا اپنی ابتدائی ادبی زندگی میں سوامی رام تیرتھ،غالب، اقبال اور مجید امجد سے متاثر ہوئے۔ فیٖض احمد فیض کی ابتدائی شاعری کے ساتھ ساتھ میراجی اور ن م راشدکی شاعری نے بھی ان پر اثرات مرتب کیے۔فکشن میں کرشن چندر،ممتاز مفتی،غلام عباس،جوگندر پال اور غلام الثقلین نقوی سے انھوں نے اثر قبول کیا۔غزل کی صنف میں انھوں نے ظفر اقبال اور شکیب جلالی ایسے شعرا کی شاعری سے رس کشید کیا جب کہ جدید دور کے فکشن نگاروں میں انتظار حسین ، منشا یاد اوررشید امجد نے انھیں متاثر کیا۔’’ادبی دنیا‘‘ کے مدیر مولانا صلاح الدین احمد سے انھوں نے ادب کی باریکیاں سیکھیں ۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کے ادبی حلقے میں اضافہ ہوتا گیا ، عبدالرشید اشک ، انور گوئندی ،پروفیسر غلام جیلانی اصغر،الطاف مشہدی اور سجاد نقوی ان کے قریب آگئے بعد ازاں خورشید رضوی اور ڈاکٹر سہیل بخاری سے بھی ان کے تعلقات استوار ہوگئے ۔اب ادب کے مطالعے کے ساتھ ساتھ وزیر آغا نے لکھنا بھی شروع کردیا ۔ ابتدا میں انھوں نے قلمی نام سے لکھا لیکن بعد میں اصل نام اختیار کر لیا۔ ان کی پہلی کتاب ’’ مسرت کی تلاش‘‘کے عنوان سے۱۹۵۴ میں شائع ہوئی۔پھر اس کے یکے بعد دیگرے کئی کتب منظرِ عام پر آئیں ۔۱۹۶۰ء میں ان کے انشائیوں کا پہلا مجموعہ ’’ خیال پارے‘‘کے عنوان سے سامنے آیا۔۱۹۸۵ کے بعد ان میں ساختیاتی تنقید کے مطالعے کا رحجان بڑھا اوراور’’ بابائے اردو یادگاری خطبہ‘‘ انھوں نے ’’ تنقید اور جدید اردو تنقید ‘‘کے عنوان سے دیا جس میں انھوں نے تنقید کے جدید نظریات کا مطالعہ کیا ۔ بیسویں صدی کی آخری دہائی میں انھوں نے اردو تنقید میں کئی قابلِ قدر مضامین لکھے جو بعد میں’’معنی اور تناظر‘‘ کے عنوان سے کتابی شکل میں بھی سامنے آئے۔ اس باب کے بعد ’’ تنقیدی رویے اور جہات‘‘ کے عنوان سے ڈاکٹر وزیر آغا کی متنوع جہات کا تعارف پیش کیا گیا ہے۔ان جہات میں اخلاقی جہت،فکری جہت،تحقیقی جہت،اصطلاحی جہت،اجتہادی جہت،سائنسی جہت،امتزاجی جہت اور اسلوبی اوراسلوبیاتی جہت شامل ہیں ۔اسی باب میں متنوع جہات کی ذیل میں چوبیس مزید جہات کو اجاگر کیا گیا ہے۔ان میں اعترافی،اثباتی،تعمیری،احتسابی،تخلیقی،حیاتیاتی،اساطیری،تاریخی،نفسیاتی،جمالیاتی،فنی،تجزیاتی، حوالہ جاتی اور ساختیاتی و پس ساختیاتی جہات نمایاں ہیں ۔ان میں سے چند جہات پر تفصیلاً بات کی گئی ہے اورکچھ کو اقتباسات کی روشنی میں مختصراً بیان کر دیا گیا ہے۔اس حوالے سے کتاب کے مصنف کا کہنا ہے۔ ’’راقم نے مذکورہ بالا جہات کو یوں دیکھنے کی کوشش کی ہے کہ ابتدا میں ہر جہت کے تعارف کے ساتھ کچھ تمہیدی گفتگو کی جائے۔ اس کے بعد کسی قدر تفصیلی دلائل کی روشنی میں اقتباسات دیتے ہوئے اپنے نقطۂ نظر کو واضح کیا جائے۔ حوالہ جات و حواشی،اقتباسات کے ساتھ ہی قلم بند کر دیے گئے ہیں،تاکہ قارئین کو کسی قسم کی زحمت نہ اُٹھانی پڑے۔‘‘ ڈاکٹر وزیر آغا کی تنقید میں جہاں ارضی و ثقافتی حوالہ خا صا اہم ہے وہاں ان کا جدید تنقید کا حوالہ بھی خاصا مضبوط ہے۔ ساختیاتی و پس ساختیاتی حوالے پر مصنف نے اتنا وقت صرف نہیں کیا جتنا کہ اس کی ضرورت تھی، لیکن بحیثیت مجموعی ’’ وزیر آغا کے تنقیدی رویے‘‘ محمد رفیع ازہر کی عمدہ کاوش ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انھوں نے عمیق نگاہی سے وزیر آغا صاحب کی جملہ کتب کا مطالعہ کیا ہے اور پھر اس پراپنی رائے قائم کرنے کی کوشش کی ہے،اس عرق ریزی اور جانفشانی پر وہ داد و تحسین کے مستحق ہیں ۔ اس حوالے سے اگر یہ کہا جائے کہ وزیر آغا کی یہ خوش بختی ہے کہ انھیں محمد رفیع ازہر جیسا نقاد میسر آیا ہے،تو شاید غلط نہ ہوگا۔
Abdul Aziz Malik