عہدِ مغلیہ میں خطاطی کا فن
محمد رضی الدین معظم
مکان نمبر 20-3-866 ’’رحیم منزل ‘‘ ، شاہ گنج ، حیدرآباد ۔2
سیل: +914069990266, 09848615340
مصوّری کی طرح خوش نویسی یا خطاطی کا تعلق بھی انسان کے ذوقِ لطیف سے ہے۔ہر زبان کی عبارت کو ہر ملک اور ہرزمانے میں زیادہ دلآویز اور دل فریب طریقہ سے لکھنے اور پیش کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔خصوصاً ماضی میں جب ڈھلے ہوئے حروف کے ذریعہ چھپائی کا موجودہ طریق آدمی‘ نے دریافت کیا تھا۔خوش نویسی یا خطاطی کو بڑی اہمیت حاصل تھی حکومتوں کے قوانین بادشاہوں کے فرمان‘ امراء کے مراسلات اور مختلف قسم کی اہم دستاویزات کی کئی نقول تیار کرنے کے لئے خوش نویسوں کو اعلیٰ عہدوں پر مامور کیا جاتا تھا اور ان کو اچھی تنخواہیں اور معقول معاوضے عطا کئے جاتے تھے۔
اب بھی ان زبانوں میں جن کے حروف آہنی سانچوں سے ڈھل کر باہر نہیں آتے ہیں یاجو اس سلسلے میں ابھی پوری ترقی حاصل نہ کرسکی ہیں یہ نادربدستور اپنی اہمیت کا سکہّ جمائے ہوئے ہے۔
چونکہ احادیث نبویؐ میں زندہ اشیاء کی صورت گری کو ممنوع قرار دیا گیا ۔اس لئے اس قسم مصوّری اور بُت تراشی کو مسلمانوں میں زیادہ مقبولیت حاصل نہ ہوسکی۔اور ان کی بجائے مسلمانوں میں اور ان کی بجائے مسلمانوں کا ذوقِ جمال خّطاطی یا خوش نویسی کے دامن میں زیادہ تسکیں پانے لگا۔یہی سبب ہے کہ مغرب کے مقابلے میں مشرق میں اور خاص طور پر اسلامی ممالک میں اس گراں قدر فن کو زیادہ فروغ ہوا۔قدیم مسودات اور کتابت کا مطالعہ اس امر کا ثبوت پیش کرسکتا ہے ۔مسلمانوں میں خوش نویسی کا رواج کا ایک سبب یہ ہے کہ عربی رسم الخط میں قدرتی طور پر یہ صلاحیت موجود ہے اسے سپرد قلم کرتے وقت ہر فن کار اپنی ذاتی قابلیت کے رنگا رنگ جوہر دکھا سکتا ہے۔
ہر فاتح قوم کی طرح سرزمینِ حجاز کے رہنے والوں کا بھی یہی دستور رہا کہ وہ دوسرے ممالک پر اپنی حکومت کا سکہّ جمانے کے ساتھ ساتھ اپنی تہذیب وثقافت کا رنگ جمانے سے کبھی نہ چوکے۔چنانچہ جب ایران‘ توران اور افغانستان پر ان کا تسلط ہوا تو دوسرے فنون کے ساتھ خوش نویسی نے بھی اپنا نقش جمانا شروع کیا اور خوب فروغ حاصل کیا۔جب ترقی کی اپنی منزلیں طے کرتے کرتے یہ فن سرزمینِ ہند تک پہنچا تو اپنا سارا سرمایہ یہاں والوں کے سپرد کرکے ہی چین لیا۔سرزمینِ ہند کے عہدِ اسلامی پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ابتدائی عہد کے حکمران زیادہ تر ملک رانی اور جہان بانی کے جھمیلوں میں پھنسے رہے اور صحیح ذوق سلیم رکھنے کے باوجود عوام میں فنونِ لطیفہ کا شوق پیدا کرنے کے لئے ان کی سرپرستی خاطر خواہ نہ کرسکے۔تاہم عہد مغلیہ اس اعتبار سے مثالی زمانہ ہے کہ شہنشاہ بابر کے وقت سے ہی ان فنونِ آثار کا پتہ چلتا ہے۔
شہنشاہِ بابر فطرتاً چمن بندی اور باغبانی کا دلدادہ تھا۔سرزمینِ ہند میں بڑے پیمانے پر باغوں کی داغ بیل اسی کے ہاتھوں پڑی تھی۔اس کا یہ ذوقِ لطیف اتنا بڑھا ہوا تھا کہ وہ دوسرے فنون میں بھی چمن کی سی بہار کا خواہاں تھا۔چنانچہ اس کے عہد میں خطاطی نے ایسی ترقی کی کہ خاص خاص طرزوں کے نام ہی ’’خطِ گلزار‘‘ اور ’’خطِ ریحان‘‘ پڑگئے۔لوگوں نے اس طرح لکھنا شروع کیاکہ عبارت بیل بوٹوں کا شبہ ہونے لگا۔اگر نسخ یا نستعلیق میں کوئی تحریر لکھی گئی تو بھی اس کے حاشئیے عشقِ پیچاں کی بیلوں یا انگور کے خوشوں سے سجائے گئے۔گوشوں پر سرو وصنوبر کا قبضہ ہوا اور اس طرح عبارت کی زمین ‘ کھُل کر زمینِ چمن بن گئی۔
بابر کے عہد کے آخر میں اور ہمایوں کے زمانۂ شہزادگی میں میر علی ایک مشہور خطاط تھا۔انہوں نے ہمایوں کے حکم سے ۱۵۳۰ء میں تزک بابری کو نہایت محنت اور جاں فشانی سے دل پذیر انداز میں لکھنا شروع کیا۔اور ہمایوں کے تخت نشین ہونے کے بعد مکمل کرکے دربار شاہی سے بڑا انعام پایا۔اس کے صفحہ اول پر ہمایوں اور اکبر کی شاہی مہریں ثبت ہیں۔میر علی ہرات کے رہنے والے تھے۔۱۵۴۲ء میں انہوں نے وفات پائی۔موت سے ایک سال پہلے انہوں نے ’’حکایتِ لقمان‘‘ کو نستعلیق خط میں لکھا۔ہمایوں کے وقت تک خطاطی اور مصوری کے ضمن میں زیب وزینت کی اشیاء مناظر قدرت تک محدود رہیں۔لیکن اکبر کسی قدر آزاد خیال تھا۔اس نے قدیم مسلک سے ہٹ کر ایک قدم اور آگے بڑھایا اور اس طرح چند خاص جانور اور پرند بھی مصوری کے دائرے میں آگئے۔چنانچہ شمع کے ساتھ پروانے پھولوں کے ساتھ بلبل سرو کے ساتھ قمری‘ میدان کا رازو کے ساتھ ہاتھی گھوڑے بھی تصویروں میں نظر آنے لگے۔اس کے پہلو بہ پہلو خطاطی نے بھی ترقی کی اور موضوع عبارت کے پیش نظر حاشےئے کی نقاشی میں پرندوں کی پرواز دکھائی جانے لگی۔اسی عہد میں ایک نئے خط نے ترقی پائی جسے ’’خطِ ماہی ‘‘ کہتے ہیں اس کی صورت یہ ہے کہ حروف کی شکل میں مڑتی ‘ تڑپتی اور بل کھاتی مچھلیوں کو ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح ملایا جاتا ہے کہ الفاظ تخلیق پاتے چلے جاتے ہیں۔اور کوئی جگہ خالی ہونے نہیں پاتی۔
عہد اکبری میں شاہی حکم سے کئی عربی کتابوں کے فارسی تراجم ہوئے لہذا خطاطوں کی خاص طور پر ضرورت محسوس کی گئی تاکہ وہ ہر مسودے کے کئی کئی خوش خط نسخے تیار کرکے اسے ہمیشہ کے لئے محفوظ کردیں۔چنانچہ اس بڑھتی ہوئی ضرورت کے پیش نظر خطاطی کی مختلف طرزوں کے لئے چند اصول مرتب کرلئے گئے جو معمولی ردوبدل کے بعد آج تک رائج ہیں۔نہ صرف حروف کی تشکیل بلکہ ان کی لمبائی چوڑائی اور گولائی کشش میں فصل ‘ مرکزوں کے جھکاؤ‘ لفظوں کے انداز اور اعراب کی نشست تک کے لئے اصول قائم کئے گئے۔اس فن کی وسعت کا مختصر اندازہ اس امر سے ہوسکتا ہے کہ نستعلیق خط میں صرف نقطہ پانچ مختلف طریقوں سے لکھا جاتا ہے جن کے نام یہ ہیں:مربع‘ چھ گوسہ‘ مائل بہ علو‘ خمیدہ اور مدور۔ پھر نقطے ہی کو پیمائش کی اکائی مانتے ہوئے باقی حروف کی لمبائی وغیرہ متعین کی گئی ۔جیسے مبداء ‘ متہاء کو چھوڑ کر الف کو تین نقطوں کے برابر ہونا چاہئے۔
محمد حسین کشمیری ‘ مولانا عبدالعزیز ‘ میر حسین کلنکی‘ قاسم ارسلان‘ محمد امین مشہدی اور نظامی قزوینی دربار اکبری کے ممتاز خطاطوں میں شمار کئے جاتے تھے۔محمد حسین کشمیری کو شہنشاہ کی جانب سے زرین قلم کا خطاب حاصل تھا۔
جہانگیر اور شاہجہاں نے باپ دادا کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس فن میں ترقی کی اور بھی زیادہ راہیں کھولیں اور انسانی چہرے تصاویر کے پردوں میں جھلک دکھانے لگے اب یہاں کی مصوری بھی مغربی مصوری کی ہم پلہ اور ہمسر ہوگئی۔بت تراشی بھی فروغ پانے لگی چنانچہ وہ سنگین ہاتھی جو عہدِ اکبری میں فیل بان کے بغیر تراشے یا مصور کئے جاتے تھے شاہی عماری میں بیٹھے ہوئے بادشاہ کے درشن دینے لگے۔شاہنامہ تزکِ بابری ‘ تزک جہانگیری‘ جیسی مشہور وممتاز کتابوں کے وہ نسخے جن کے حاشئیے آج تک صرف بیل بوٹوں سے مزین تھے۔صفحات کے بیچ کے واقعات رزم وبزم کا پورا نقشہ پیش کرتے ہیں۔چنانچہ اس زمانے کی ایسی سینکڑوں قلمی کتب موجود ہیں جن کو صحیح معنوں میں مصور کیا جاسکتا ہے۔تاہم یہ کارنامے چونکہ صرف بادشاہ کے ایماء واشارہ پر تیار ہوسکتے تھے۔اس لئے ان کی تعداد محدود رہی اور رعیت میں ایسے قلمی نسخوں کا رواج عام نہ ہوسکا۔ان کا ذوق‘ ان ہی فن پاروں سے تسکیں پاتا تھا جو ان کے عہد کے مشہور خطا ط یا خوش نویس پیش کرتے رہے۔ عموماً لوگ یہ کرتے کہ اپنے محبوب شعراء کے دل پسند اشعار کو خطاط سے مرغوب طرز میں لکھواتے اور چوکھٹوں میں جڑوا کر اپنی نشست گاہوں میں آویزاں کرتے۔چنانچہ اس عہد کے ایسے بہت سے نمونے بھی دستیاب ہوچکے ہیں۔
عہدِ جہانگیری کے خوش نویسوں نے قلمی نیزے کے انتخاب ‘ قلم کی تراش کے لئے بھی اصول مقرر کئے تھے۔ان کو ابتدائی مشق کے وقت ابھی تک پیش نظر رکھا جاتا ہے۔
۱۶۰۶ء میں میر عماد نے بوستانِ سعدیؔ کو اپنے دلکش انداز میں تحریر کیا۔یہ میر عماد قزوین کے اساتذہ میں شمار ہوتے تھے۔ان کی کئی تحریریں ہندوستان آئیں جو شاہجہاں کو بے حد پسند تھیں۔مشہور ہے کہ شاہجہاں ہر اس شخص کو جو میر عماد قزوین کی تحریر فراہم کرتا ایک کثیر رقم انعام دیتا۔میر عماد بالکل فقیرانہ زندگی بسر کرتے تھے۔دنیا وی معاملات سے انہیں کوئی سروکار نہ تھا۔میر عماد کے بھتیجے عبدالرشید شاہجہاں کے عہد میں قزوین سے ہندوستان چلے آئے اور بہت جلد انھوں نے دربار شاہی میں باریابی حاصل کرلی۔بادشاہ نے ان کو داراشکوہ کا اثالیق مقرر کیا۔ان کی کوشش سے شہزادے نے اس فن میں بڑا نام پیداکیا۔انہوں نے ۱۶۷۲ء میں وفات پائی۔اورآگرہ میں مدفون ہیں۔۱۶۵۰ء میں محمد صالح نے ’’حکایت حضرت امام جعفر صادق‘‘ کو خوش خط انداز میں تحریر کیا۔
اورنگ زیب عالم گیر اور بہادر شاہ ثانی خود بھی اپنے وقت کے اعلیٰ خطاط سمجھے جاتے تھے۔ان کی خوش نویسی کے اکثر نمونے دہلی میں آج تک محفوظ ہیں۔دوسرے مغل شہنشاہ بھی فن سپہ گری اوردوسرے علوم وفنون سیکھنے کے ساتھ خطاطی میں بھی مہارت رکھتے تھے۔بعض نے خوش نویسی میں اتنی مشق کی کہ اساتذہ وقت بھی محو حیرت رہ جاتے تھے ان میں داراشکوہ اور شہزادہ فتح الملک کے نام قابل ذکر ہیں۔فتح الملک نے فن خوش نویسی کو میر پنچہ کش سے سیکھا تھا۔ان کے ہاتھ کی لکھی ہوئی ایک رباعی جس کی کتابت ۱۸۴۸ء میں ہوئی تھی کئی دائروں اور نقاط نہایت دل پذیر مناسبت کے باعث خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہے۔غدر سے کچھ عرصہ قبل میر پنجہ کش کو کافی شہرت حاصل تھی۔ان کا اصل نام سید محمد امیر رضوی تھا۔خوش نویسی کے علاوہ وہ پنجہ کشی کے بھی زبردست ماہر تھے۔یہاں یہ بات باعث حیرت ہے کہ پنجہ لڑانے کے باوجود ان کی انگلیوں میں اتنا لوچ موجود تھا کہ بہترین خطاطی بھی کرتے تھے ان کے متعلق مشہور ہے کہ حاجت مندوں کو رقم خیرات کرنے کے بجائے ایک آدھ شعر کاغذ پر لکھ کردے دیتے تھے۔تاکہ وہ قدردانوں کے ہاتھ اس نوشت کو فروخت کرکے اپنی ضرورت پوری کرلیں ۔کہا جاتا ہے کہ کاغذ کے معمولی پرزوں پر لکھے ہوئے یہ اشعار کافی قیمت میں فروخت ہوتے تھے۔ ایک بار انہوں نے بازار سے کچھ خریدنے کے بعد جیب میں رقم دیکھی تو کچھ پیسے کم تھے۔دکان دار نے ان کے سامنے قلم ودوات رکھ دی اور کہا کہ ایک کاغذ پر کچھ تحریر کردیں۔کچھ تحریر فرمایا اور دکاندار دم بخود ہوگیا ۔ وہ غدر کے زمانے میں(۹۱) سال کی عمر میں شہید ہوئے۔
عباد اللہ اعجاز رقم میر پنجہ کش کے شاگرد اور بہادرشاہ ثانی کے دربار میں باریاب تھے’’ اعجاز رقم‘‘ کے علاوہ انھیں بادشاہ نے ’’زمرد رقم‘‘ کا خطاب بھی عطا کیا تھا۔