نامورخاکہ نگارڈاکٹر یونس حسنی سے ایک ملاقات ۔ ۔ ۔ ۔ ڈاکٹر تہمینہ عباس

Share

hasni shab

ڈاکٹر یونس حسنی سے ایک ملاقات

انٹرویونگار: ڈاکٹر تہمینہ عباس
کراچی ۔ پاکستان

ڈاکٹر یونس حسنی کا شمار جامعہ کراچی کے شعبۂ اردو کے نامور اساتذہ میں کیا جاتا ہے۔ تدریس، تحقیق اور خاکہ نگاری میں مہارت رکھتے ہیں۔ وہ تمام طلبہ و طالبات جنھوں نے اپنی زندگی کے کسی بھی دور میں سے ان سے تلامذہ فیض حاصل کیا ان کی شخصیت کو نہیں بھول سکتے۔ڈاکٹر یونس حسنی کے مطابق وہ ۳ ،دسمبر ۱۹۳۷ ء کو ٹونک راجستھان میں پیدا ہوئے ، البتہ کاغذات میں ان کی تاریخ پیدائش یکم اپریل ۱۹۳۷ء درج ہے۔ ان کے والد کا نام سید عبید الرحمٰن تھا، ڈاکٹر یونس حسنی،حسنی حسینی خاندان سے نسبت رکھتے ہیں۔ڈاکٹرصاحب کے خاندان اور اجداد میں کئی معروف شخصیات گزری ہیں جن میں مولانا عبد الحئی اور ابو حسن علی ندوی حسنی کا نام خاص طور پر قابل ذکر ہے۔

ڈاکٹرصاحب نے ہائی اسکول تک تعلیم (راجستھان) ٹونک میں حاصل کی ۔ راجستھان میں اکیس ہندو ریاستیں ہیں صرف اجمیر اور ٹونک مسلمان ریاست ہے ٹونک میں شہری حدود میں اردو بولی جاتی ہے۔میٹرک کے بعد ٹونک میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے ادارے موجود نہ تھے۔مزید تعلیم کے لیے بھو پال چلے گئے،انٹر آرٹس سے کیا، اسی دوران ملازمت شروع کر دی۔بی اے (ورکنگ مین کلاسز) بھوپال سے تین سال میں کیا، واضح رہے کہ اس دور میں ملازمت پیشہ لوگوں کے لیے شام میں ورکنگ مین کلاسز موجود تھیں۔ جہاں بی۔اے تین سال کی مدت میں کروایا جاتا تھا۔ ڈاکٹر یونس حسنی کی مادری زبان اردو ہے، ہندی اور انگریز میں مہارت رکھتے ہیں،فارسی پر کسی حد تک عبور حاصل ہے۔ آپ نے ایم۔ اے اردو ۱۹۶۲ء میں حامدیہ کالج بھوپال (وکرم یونیورسٹی اُجین، انڈیا) سے کیا، ایم۔ اے میں فرسٹ ڈیویژن اور پہلی پوزیشن حاصل کی۔ آپ نے پی ایچ۔ ڈی حامدیہ کالج بھوپال (وکرم یونیورسٹی اُجین، انڈیا) سے کیا ۔ آپ کے پی ایچ ۔ڈی کے مقالے کا عنوان’’اختر شیرانی اور جدید اردو ادب ‘‘ تھا۔ یہ مقالہ آپ نے اس زمانے کے نامور استاد ڈاکٹر ابو محمد سحر کی زیر نگرانی مکمل کیا۔
سوال: آپ نے اس دور کے کن مشہور اساتذہ سے تعلیم حاصل کی؟
جواب:ڈاکٹر ابو محمد سحراور ڈاکٹر گیان چند جین کے علاوہ ڈاکٹر سلیم حامد رضوی سے تعلیم حاصل کی جنھوں نے بھوپال میں اردو کے حوالے سے تحقیقی کام کیا ہے۔
سوال نمبر:آپ نے اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے بھوپال کو ہی کیوں منتخب کیا؟
جواب : بھوپال میں میرے کچھ عزیز رہتے تھے، وہاں اعلیٰ تعلیم کے مواقع بھی تھے ،لیکن میں نے بھوپال میں رشتہ داروں کے گھر کے بجائے ہاسٹل میں رہنا پسند کیا ۔ مجھے اس دور کے کم عمر پی ایچ ۔ڈی ہونے کا اعزاز حاصل ہے میں نے ۲۹ بر س کی عمر میں پی ایچ۔ ڈی کی سند حاصل کی۔
سوال :آپ کو پی ایچ۔ ڈی کرنے کا خیال کیسے آیا؟
جواب: اس زمانے میں مجھے صحافت کا شوق ہو گیا تھااوراپنے صحافی دوستوں کے ساتھ اس دور کے اخبارو رسائل میں لکھنا شروع کر دیا تھا، اس دورمیں میرا ارادہ اردو میں پی ایچ ۔ڈی کرنے کا نہیں تھا مگر میرے استاد ڈاکٹر ابو محمد سحر میرا ذوق اورمزاج جانتے تھے، میں نے ایم اے کے دوران اختر شیرانی کے حوالے سے کچھ تحقیقی کام کیا تھا جو ڈاکٹر ابو محمد سحر کو بہت پسند آیا تھا، انھوں نے کہا کہ’’ اختر شیرانی کے حوالے سے جو کام تم نے کیا ہے۔ اس پر تفصیل سے کام کر کے اسے پی ایچ ۔ڈی کے مقالے کی شکل دی جا سکتی ہے‘‘۔ گوکہ میں اس بات پر راضی نہ تھا کیونکہ میرا ارادہ صحافت میں جانے کا تھا، مگر استاد کا یہ کہنا کہ’’ پی ایچ ۔ڈی کر لو، نہ کر و تو چھوڑ دینا‘‘۔ ان کی اس بات سے متاثر ہو کر میں نے پی ایچ۔ ڈی میں داخلہ لے لیا اور جب کام شروع کیا تو پھراک لگن اور جستجو ہوگئی کہ اس کام کو مکمل کرنا ہے بس وہیں سے میرا تحقیقی مزاج بنتا چلا گیا۔
سوال:کیا اس دور میں مقالہ کمپوز کرنے کی سہولت موجود تھی؟
جواب:اس دور میں پی ایچ۔ ڈی کے مقالے کی کمپوزنگ نہیں ہوا کرتی تھی بلکہ کتابت کروائی جاتی تھی میں نے اس دور میں زیڈنب سے کتابت کروائی تھی۔ میرے پی ایچ ۔ڈی کا ایک نسخہ آج بھی میرے پاس محفوظ ہے۔
سوال:بحیثیت استاد آپ کن کن اداروں سے وابستہ رہے؟
جواب:ایم ۔بی کالج اودے پور (رائے )انڈیا یکم اگست ۱۹۶۲ کو بحیثیت لیکچر ار جوائن کیا۔ دو سال بعد ۱۴ اپریل ۱۹۶۴ کو راجستھان کالج، راجستھان یونیورسٹی جے پوربحیثیت لیکچرار جوائن کی ۔ ۲ ستمبر ۱۹۶۵ کو مدہاوا کالج( وکرم یونیورسٹی، اجین انڈیا )بحیثیت لیکچرار جوائن کی۔۱۹۶۸ء میں پاکستان آنے کے بعد ۹ دسمبر ۱۹۶۸ء سے ۲۸ فروری ۱۹۷۸ء تک ایف ۔جے کالج، کراچی کینٹ میں بحیثیت لیکچرار اور پرنسپل کی خدمات انجام دیں۔
سوال:جامعہ کراچی سے کب وابستہ ہوئے؟۔
جواب:یکم اگست ۱۹۷۶ ء سے ۲۸ فروری ۱۹۷۸ ء تک جامعہ کراچی میں بحیثیت معاون استاد کام کیا۔ یکم مارچ ۱۹۷۸ ء سے بحیثیت اسسٹنٹ پروفیسر شعبۂ اردو جامعہ کراچی جوائن کر لیا۔ ۸ دسمبر ۱۹۸۵ ء کو ایسوسی ایٹ پروفیسر بن گیا۔ ۱۱ مئی ۱۹۹۵ ء کو پروفیسر کا عہدہ مل گیا۔ ۳ مارچ ۱۹۹۲ ء تا ۱۲ مارچ ۱۹۹۵ء تک شعبہ اردو کا چیئرمین رہا۔۳۱ مارچ ۱۹۹۷ء کو جامعہ کراچی کی ملازمت سے سبکدوش ہو گیا۔اس کے علاوہ انجمن ترقی اردو، پاکستان کراچی میں ۱۲ مئی ۱۹۹۸ء سے ۱۷ جنوری ۲۰۰۱ ء تک لٹریری ایڈوائزر کے فرائض انجام دیے اورسی ۔بی۔ایم کورنگی، محمد علی جناح یونیورسٹی، میں وزیٹنگ پروفیسر کے فرائض انجام دیے۔۲۰۰۷ ء سے ۲۰۰۹ ء کے درمیان ہائرایجوکیشن کمیشن نے جامعہ کراچی نے ایمینینٹ اسکالر مقرر کیا۔ ۲۰۰۹ ء سے تا حال وفاقی اردو یونیورسٹی میں کانٹریکٹ پروفیسر کے فرائض انجام دے رہا ہوں۔اس کے علاوہ،۱۸ جنوری ۲۰۰۱ ء تا ۱۷ جولائی ۲۰۰۳ء تک اردو لغت بورڈ کراچی کا چیف ایڈیٹر رہا۔
سوال:آپ کی زیر نگرانی کتنے اسکالرز نے پی ایچ ۔ڈی مکمل کیا؟
جواب:میرے زیرنگرانی ۹ طالب علموں کو پی ایچ ۔ڈی کی ڈگری مل چکی ہے۔ ۲۴ طالب علموں نے ایم اے کے تحقیقی مقالے مکمل کیے اس وقت بھی کچھ ریسرچ اسکالرز میرے زیر نگرانی اپنے پی ایچ ۔ ڈی کے مقالے مکمل کر رہے ہیں۔
سوال:آپ کی کتنی تصانیف منظر عام پہ آچکی ہیں؟
جواب:میری مندرجہ ذیل کتب منظرِعام پر آچکی ہیں۔
اختر شیرانی اور جدیدادب، جاپان آئینہ ایام میں (ترجمہ)، جاپان کا مکتبی نظام (ترجمہ)، انسان عہد بہ عہد (ترجمہ)، اختر شیرانی کتابیات، کاوشیں (ادبی اور تنقیدی مضامین) ،کلیات اختر شیرانی (ترتیب و تدوین)، صبح بہاراز اختر شیرانی (ترتیب و تدوین)، اختر ستان از اختر شیرانی (ترتیب و تدوین)، لالہ طور از اختر شیرانی (ترتیب و تدوین) ، طیور آوارہ از اختر شیرانی (ترتیب و تدوین)، شہناز اختر از اختر شیرانی (ترتیب و تدوین)، شہر دو دو نغمۂ آوارہ از اختر شیرانی (ترتیب و تدوین) ، نغمہ حرم از اختر شیرانی (ترتیب و تدوین)، پھولوں کے گیت از اختر شیرانی (ترتیب و تدوین)، مناقب سید نا حضرت ابو بکر، اردو لغت (جلد:۱۸) تدوین وادارت، نگارشات اختر۔
اس کے علاوہ تقریباََ ۴۲ تحقیقی اور تنقیدی اور ادبی مقالات مختلف تحقیقی اور ادبی رسائل و جرائد میں شائع ہو چکے ہیں۔ ابو الحسن علی ندوی، ابو الخیر کشفی، ڈاکٹر ابو محمد سحر، شمیم احمد، اور دیگر شخصیات کے خاکے تحریر کیے ہیں۔ مختلف کتابوں کے دیباچے اور مقدمات تحریر کیے بچوں کے مشہور و معروف رسالے نو نہال میں ۱۹۷۴ء سے ۱۹۷۷ء کے درمیان بچوں کی کہانیاں تحریر کیں۔
سوال:کیا کبھی کسی ملازمت کے لیے آپ کو سفارش کی ضرورت پڑی؟
جواب: الحمداللہ میں نے ملازمت کے لیے کبھی کسی سے درخواست نہیں کی بلکہ اللہ تعالیٰ کے کرم سے خود بخود پیشکش ہوتی گئیں اور مواقع ملتے چلے گئے۔
سوال:جس وقت آپ ملازمت سے سبکدوش ہوئے اس وقت آپ کی تنخواہ کتنی تھی؟
جواب: جس وقت میں جامعہ کراچی سے اپنی ملازمت سے سبکدوش ہوا اس وقت میری تنخواہ ساڑھے اٹھارہ ہزار مع پی ایچ ڈی الاؤنس تھی۔ جبکہ اس وقت جامعہ کراچی کے پروفیسر کی تنخواہ ڈیڑھ لاکھ سے اوپر ہے۔
سوال: آپ کو کون سے مضمون پڑھانا پسند تھا؟
جواب: مجھے کلاسیکی شاعری پڑھانا پسند تھامگر ’’اردو شاعری کا سیاسی و سماجی پس منظر‘‘ بطور مضمون دس برس پڑھایا اس کے علاوہ نثر میں داستانیں بھی کافی عرصہ پڑھائیں۔
سوال: کراچی جیسے تجارتی شہر میں ادب کا مستقبل کیا ہے؟
جواب: کراچی تاجروں کا شہر ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ تاجروں کا شہر مثلاََ بمبئی کبھی ادب کا مرکز نہیں بنتا بلکہ لکھنؤ اور دہلی جیسے شہر ادب کا مرکز بنتے ہیں۔ پنجاب میں اردو اور ادب کے حوالے سے جو کام ہو رہا ہے اس کا عشر عشیر بھی کراچی میں نظر نہیں آتا۔کراچی میں ادب پر جو کام ہوا ہے وہ ان ادیبوں نے کیا جو ہندوستان کے مختلف شہروں سے ہجرت کر کے پاکستا ن آئے اور آج بھی کراچی میں ان ادیبوں کی باقیات پر کام ہو رہا ہے۔ تاجروں کے ذہن میں لفظ پبلک کا تصور ہے اس لیے تاجر عام طور پر عوام کہہ رہی ہے کا جملہ استعمال کرتے ہیں تذکیر و تانیث کے اعتبار سے عوام مذکر ہے مگر اب مونث کے طورپر استعمال کیا جا رہا ہے۔ اردو بولنے والے عام طور پردوسروں کے شین قاف پر اعتراض کرتے ہیں۔ پنجابی ق کی آواز نہیں نکال سکتے۔ جبکہ اردو بولنے والے س اور ص کی آواز میں تخصیص نہیں کر سکتے اس لیے اردو بولنے والوں کو لہجوں او ر زبانوں پر اعتراض نہیں کرنا چاہیے۔
سوال:اگر آپ کو جامعہ کراچی کا وائس چانسلر بنانے کی پیشکش کی جائے تو آپ کا کیا جواب ہوگا؟
جواب: میں اس بات کی رتی برابر توقع نہیں رکھتا کہ مجھے یہ پیش کش کی جائے گی، معاشرہ بہت بگڑ چکا ہے، وسائل کی کمی کی وجہ سے مسائل کا حل ممکن نہیں ہے، عبدالوہاب جس دور میں آئے تو اس شرط پر آئے کہ میرے کام میں کوئی مداخلت نہیں کرے گا۔حقیقت تو یہ ہے کہ موجودہ سیاسی سماجی اور تعلیمی صورتحال بہت خراب ہے۔ تعلیمی اداروں میں اپنے مفادات پر کام ہو رہا ہے۔
سوال: آپ کی شادی کس سن میں ہوئی اور بچے کتنے ہیں؟
جواب:۱۹۶۹ میں میری شادی فاطمہ جعفر سے ہوئی، جو شادی کے بعد فاطمہ حسنی ہوگئیں،جن سے میری چار بیٹیاں ہوئیں، ایک بیٹی کا انتقال ہوگیا۔میری بیٹی نہد یہ حسنی نے جرنلزم میں ماسٹرز کیا ہے اور ڈی۔ ایچ۔ اے میں تدریسی فرائض انجام دے رہی ہے۔دوسری بیٹی لبینہ حسنی نے ایم اے اسلامیات میں کیا ہے جبکہ تیسری بیٹی رباب حسنی نے (بی) فارمیسی کیا ہے۔
سوال: آج کل آپ کے کیا مشاغل ہیں؟
جواب:وفاقی اردو یونیورسٹی سے وابستہ ہوں۔ کئی طلبہ و طالبات میری زیر نگرانی پی ایچ ۔ڈی کے مقالے مکمل کر رہے ہیں۔ اپنے استاد ابو محمد سحر کا خاکہ ’’ استاذی‘‘ کے عنوان سے لکھا جو زیست میں شائع ہوا۔ اللہ تعالیٰ کا کرم احسان ہے کہ زندگی لکھنے پڑھنے میں اور تدریس مشاغل میں گزر رہی ہے۔ اسی کے ساتھ ہم نے حسنی صاحب سے گفتگو کا اختتام کیا۔
Dr. Tahmina Abbas
tahmina

Share

One thought on “نامورخاکہ نگارڈاکٹر یونس حسنی سے ایک ملاقات ۔ ۔ ۔ ۔ ڈاکٹر تہمینہ عباس”

Comments are closed.

Share
Share