افسانہ : شکار
محمد نواز۔ کمالیہ پاکستان
’’ یار حکومت نے ہر طرح کا شکار کرنے پر پابندی لگا دی ہے ‘‘ ایان نے اپنے سیل فون سے نظریں ہٹاتے ہوئے کہا ۔’’ تمہیں کس نے بتایا ؟‘‘ شانی نے حیرانگی سے دریافت کیا ’’ یہ دیکھو ابھی ابھی پوسٹ آئی ہے میری وال پہ‘‘ ایان نے اپنا سیل فون اپنے دوست شانی کی طرف بڑھا دیا شانی نے پوسٹ پڑھتے ہی ناگواری کا اظہار کرنا شروع کر دیا اور حکومت وقت کو کوسنے لگا ۔شانی اور اس کے دوست شکار کے شوقین تھے ، وہ باقائدگی سے شکا ر پر جایا کرتے ۔ کہا جاتا ہے انسان جس ذہین کا مالک ہو اس کو اسی سوچ کے دوست بھی مل جاتے ہیں ۔ شانی کے دوست بھی اس کی سوچ کے پیروکار تھے۔ ان کی دوستی کی بیل کالج کی زرخیر زمین سے پھوٹ کر اب یونیورسٹی کی منڈیر چڑھ چکی تھی۔
کالج میں وہ پانچ دوست تھے مگر یونیورسٹی میں چار رہ گئے ۔ان میں سے ایک دوست ون ویلنگ کرتے ہوئے ایسے گرا کہ پھر اٹھنے کے قابل نہ رہا اور چند ماہ ہسپتال میں زیر علاج رہنے کے بعد ماں باپ ،عزیز و اقارب کے ساتھ ساتھ دوستوں کو بھی داغ مفارقت دے گیا ۔ دنیا کا کاروبار کسی کے آنے اور جانے سے متاثر نہیں ہوتا بلکہ وہ اسی شدو مد سے چلتا رہتا ہے ۔یہی کچھ ون ویلنگ میں اپنی جان گنوا دینے والے شانی کے دوست آفاق کے ساتھ بھی ہوا ۔وہ تو اس دنیا سے چلا گیا لیکن اس دنیا کا کاروبار یو نہی چلتا چھوڑ گیا شانی اور اس کے باقی ماندہ تینوں دوست شہر کی معروف سڑک پر اپنے شوق کی تسکین کیلئے ہیوی بائیک لے کر پہنچ جاتے ہیں ۔ ایک دو بار تو شانی بھی گرتے گرتے سنبھلا لیکن جنون کے سامنے سب ہیچ ۔ انتظامیہ نے ہیوی بائیک پرون ویلنگ کرنے والوں کی پکڑ دھکڑ کی تو شانی بھی اپنے دوستوں کے ساتھ پولیس کے شکنجے میں آیا مگر جلد ہی اثرو رسوخ کی وجہ سے رہا ہو گیا ۔مگر ون ویلنگ کا شوق نہ گیا ۔
ون ویلنگ کے ساتھ ساتھ شکار کرنا شانی کا شوق ثانی یا یوں کہیے جنون ثانی تھا ۔ اپنے ذوق کی تسکین کیلئے اس نے اپنے دوستوں کو بھی اس کا عادی بنا دیا تھا ۔ ایک رائفل خریدی اور شانی کے ہم رقاب ہو لیئے ۔ اب کی باربھی ان کا پروگرام شکار پر جانے کا تھا مگر سوشل میڈیا پر پھیلی اس خبر نے ان کے پروگرام پر پانی پھیر دیا ۔ اگلے ہی لمحے شانی کے باقی ماندہ دونوں دوست بھی آن پہنچے ۔ان کا ردعمل بھی شانی جیسا ہی تھا ۔ شکار پر لگی پابندی نے سب کو جیسے مایوس کر دیا تھا ۔’’ آخر حکومت نے کیا جواز بنایا ہے شکار پر پابندی لگانے کا ‘‘ سمیر نے منہ بسوڑتے ہوئے کہا ۔ ’’ وجہ کچھ بھی نہیں ، بہانہ ہے صرف وائلڈ لائف والوں کا ۔ کہتے ہیں وائلڈ لائف خطرے میں ہے اس لئیے شکار پر پابندی لگائی ہے ‘‘ مائی فٹ شانی غصے سے لا ل پیلا ہو رہا تھا ’’ تمہیں معلوم ہے یہ حکومتی عہدار شکار پر پابندی کیوں لگاتے ہیں ؟‘ ‘ شانی نے سب کی طرف دیکھا، ارحم جو ابھی تک خاموش بیٹھا تھا وہ بھی شانی کی شکار پر لگی پابندی کی وجوہات جاننا چاہتا تھا ’’ یہ جو ہمارے ملک کی ایلیٹ کلاس ہے ،یہ اپنے ذوق کی تسکین کیلئے پہلے شکار پر پابندی لگواتے ہیں ،خبر نشر کرواتے ہیں ،پھر خاموشی سے پابندی اٹھا لی جاتی ہے ، بڑی شان و شوکت سے غیر ملکی مہمانوں کے ساتھ شکار کھیلا جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہم جیسوں کو اس کی خبر بھی نہیں ہوتی ‘‘
’’ شانی بنا کچھ بتائے تم ہم سب کو کہاں لے جا رہے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟ ‘‘ ایان نے پوچھا ’’ ہاں شانی تم نے مجھے بھی کچھ نہیں بتایا کہ ہم نے کہاں جانا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟ سمیر نے خاموشی توڑی ’’ خاموشی سے بیٹھے رہو ۔۔۔۔۔۔۔۔ سب جیپ میں بیٹھے تھے شانی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا تھا جیب شہر کی سڑک پر دوڑ رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شانی خاموشی سے جیپ ڈرائیو کرتا رہا ،آخر اس نے اپنی کاموشی کا بت توڑا اور بولا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ’’شکار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم سب شکار پر جا رہے ہیں‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ’’ شکار ‘‘۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سب نے بیک زبان کہا اور ایک دوسرے کی طرف آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے لگے ۔۔۔۔۔۔ شانی تم ہوش میں تو ہو ، اس وقت جب کہ سورج ڈھلنے کو ہے اور تم چلے ہو شکار کھیلنے ‘‘ ارحم کی زبان میں ذرا کی سختی محسوس ہونے گی انہوں نے جیپ سڑک کنارے روک دی اور شانی پر بر پڑے ’’ بنا کسی ہتھیار یا گن کے تم ہم سب کو شکار پر لے چلے ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا تم نے ہم سب کو پاگل سمجھا ہوا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘ سمیر جیپ سے اترا اور ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے شانی کے پاس آن کھڑا ہوا ہے گویا شانی سے اس کا سبب جاننا چاہتا ہو ’’ آج میں آپ کو ایک ایسے شکار پر لے جا رہا تھا جس کیلئے کسی گن کی ضرورت نہیں ہوتی اور نہ ہی وقت کی۔ یہ شکار ہر گھڑی ہر وقت دن رات کے کسی بھی پہر کھیلا جا سکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو شکار ہم کھیلنے والے ہیں اس پہ حکومت نے ابھی تک پابندی لگانے کا سوچا ہی نہیں ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پہلے میں نے سوچا کہ مجھے اس شکار پر اکیلے ہی جانا چاہیے پھر میں نے سوچا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ون ویلنگ سے لے کر وسیع و عریض جنگل میں جب تم سب میرے ساتھ تھے تو شہر میں پھیلے انسانوں کے جنگل میں بھی میں اکیلا شکار نہیں کھیلوں گا اس لیئے تم سب کو اپنے ساتھ لے آیا‘‘ ’’ جنگل میں شکار تو ہماری سمجھ میں آتا ہے شانی پر شہر میں انسانوں کا جنگل اور شکار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہماری سمجھ میں نہیں آتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘ ارحم حیران و ششدر دھیمی آواز میں پوچھنے لگا ۔’’ جیپ میں آرام سے بیٹھ جاؤ تھوڑی دیر میں سب سمجھ آجائے گا ‘‘ سب جیپ میں بیٹھ گئے اور جیپ منزل کی طرف روانہ ہوگئی ۔
جیپ ایک فائیو سٹار ہوٹل کے سامنے رکی ۔ سب ایک دوسرے کو حیرانگی سے دیکھنے لگے ۔شانی نے رسپشن پر موجود لڑکی سے کچھ بات کی اور کمرے کی چابی لے کر سیدھا کوریڈور میں چلا گیا اس کے دوست بھی اس کے پیچھے ہو لیئے ۔ کمرہ نمبر 20 کا لاک کھولا اور اندر چلا گیا ۔
’’ دوستو ! یہ ہے ہماری شکار گاہ ۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘ شانی نے بیڈ پر خود کو گراتے ہوئے کہا اور دراز ہو گیا ’’ لوگ اس کو عموماً خواب گاہ،آرام گاہ کہتے ہیں لیکن میں اس کو شکار گاہ کہتا ہوں اگر چہ یہ شکار گاہ جنگل کی شکار گاہ کے مقابلے میں بہت ہی کم ہے لیکن مجھے امید ہے یہاں بھی شکار کھیلنے کا مزہ خوب آئے گا ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘ شانی کی باتیں باقی دوستوں کی سمجھ سے بالا تر تھیں لہذا انہوں نے اپنا اپنا سیل فون نکالا اورسوشل میڈیا پرکنکٹ ہو گئے اور اپنی اپنی وال دیکھنے لگے ۔مارک زک برگ نے سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں کو قریب لانے کا عزم کیا تھا لیکن ہمارے ہاں معاملہ الٹ نظر آتا ہے دوست ایک دوسرے کے پاس بیٹھے ہوئے بھی میلوں کی مسافت پر ہوتے ہیں آدھ گھنٹے سے ایک ہی کمرے میں بیٹھے دوست بت بنے تھے نہ کسی سے بات کی اور نہ ہی نظر اٹھا کر کسی کی طرف دیکھا ۔اچانک شانی نے چیخا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔’’ شکار ۔۔۔۔۔۔ شکار آ رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سب تیار ہو جاؤ اور میری بات غور سے سنو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سمیر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم دروازے پر کھڑے ہونا تا کہ شکار بھاگ نہ جائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ارحم تم نے ویڈیو بنانا ہے مگر دھیان سے ۔ تم تو جانتے ہو جب شکار نر غے میںآتاہے تو پھر وہ بھاگنے کی کوشش کرتا ہے‘‘ دروازے پر دستک ہوئی ،دروازہ کھلا ،ایک خوبرو پستہ قد کی لڑکی اندر داخل ہوئی ،سب کو حیرانگی سے دیکھنے لگی اس نے جونہی شانی کو دیکھا وہ بولا ’’ یہ غزال ہے میری فیس بک فرینڈ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ‘‘ غزال صرف نام کی ہی غزال نہ تھی قدو قامت ،جسم اور اوصاف کے لحاظ سے بھی غزال لگتی تھی ۔پتلی کمر،موٹی آنکھ ،لمبا قد اور گھنے سیاہ بالوں والی غزال کی شانی سے سوشل میڈیا پر دوستی کا سفر گزشتہ چھ ماہ سے جاری تھا ۔ چھ ماہ کا یہ عرصہ دوستی سے محبت کے لفظوں میں تبدیل ہوتا چلا تھا۔ دونوں نے آن لائن چیٹنگ سے آن لائن ویڈیو گفتگو کا یہ سفر چند ہی دنوں میں طے کر لیا ۔ اب دونوں کا رابطہ ویڈیو لنک تھا ۔ دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور دیکھتے ہی محبت کے عہدو پیماں کرنے لگے ۔ ہمارے نوجوانوں کا یہ ایک المیہ ہے کہ انہیں پل بھر میں ہر لڑکی سے محبت ہو جاتی ہے اور اگلے ہی لمحے نفرت کے بیج ان کے دلوں میں پھوٹنے لگتے ہیں ۔ ویڈیو لنک نے دونوں کو اس قدر قریب کیا کہ حجاب کے سارے پردے درمیان سے اٹھ گئے ۔ شدت جذبات نے دونوں کو بے خود کر دیا۔درمیان سے سب واسطے ختم کیئے اور فائیو سٹار ہوٹل کے کمرے میں برہنہ آنکھ سے بدن کی پیاس اور روح کی بھوک کو مٹانے کا بندوبست کرنا پڑا ۔ ’’ غزال ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ میرے چیتے ہیں ‘‘ شانی نے اپنے دوستوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ’’ میں نے تم کو بتایا تھا نا ۔۔۔۔۔۔۔ کہ میں ایک شکاری ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں جب بھی شکار پر جاتا ہوں ،اپنے ان چیتوں کو ساتھ لے جاتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
حکومت نے شکار پر لگائی جانے والی پابندی اٹھا لی ۔شانی اور اس کے دوست چولستان میں پائے جانے والے کالے ہرن کا شکار کرنے جا پہنچے ۔دور صحرائی جھاڑیوں میں ان کو ایک ہرنی نظر آئی ۔شانی نے فائر کیا ۔فائر سے ہرنی زخمی ہو گئی ۔ہرنی سر پٹ دوڑی اور دور جا گر ی۔ اس کے حلق میں درد بھری آواز اٹک کر رہ گئی اورسوکھی کھاس پر پڑی زخمی ہرنی ہانپ رہی تھی ۔