کاٹھ پھوڑا ۔ Woodpecker ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ڈاکٹرعزیزاحمدعُرسی

Share

Woodpecker کاٹھ

جو درختوں میں بہ آسانی سوراخ بنادیتا ہے
کاٹھ پھوڑا ۔ Woodpecker

ڈاکٹرعزیزاحمدعُرسی، ورنگل
موبائل : 09866971375

الم ترا ان اللہ یسبح لہ من فی السماوات و الارض و الطیر صافات کل قد علم صلاتہ و تسبیحہ۔ و اللہ علیم بما یفعلون۔ (النور۔ ۲۴)
(کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ کی تسبیح کر رہے ہیں وہ سب کو آسمانوں اور زمین میں ہیں اور وہ پرندے جو پر پھیلائے اڑ رہے ہیں، ہر ایک اپنی نماز اور تسبیح کا طریقہ جانتا ہے اور یہ سب جو کچھ کرتے ہیں اللہ اس سے با خبر رہتا ہے۔)
یہ بہت پرانی بات ہے کہ مجھے میرے خالو صاحب کے پاس ایک قصبے کوجانے کا اتفاق ہوا تھا جس کا نام ’’ناگارم‘‘ تھا،چھوٹا سے گاؤں تھا ہرطرف خوبصورت مناظر ، گھر کے پاس ہی ندی بہتی تھی جس کے کنارے میں اور میرے برادر مکرم ریت میں گھروندے بنا کر کھیلا کرتے ، پاس ہی ایک امرائی تھی جہاں درختوں پر جھولا ڈال کر زندگی کا اور وقت کا صحیح لطف اٹھایا کرتے ، گھر چھوٹا تھا لیکن صحن بڑا اور صحن ہی کے ایک کونے میں کچھ صنوبر کے درخت تھے جس پر تقریباً روزآنہ فجر کے وقت ایک آہنگ کے ساتھ آواز گونجتی رہتی تھی، جس کے متعلق میں اور میرے خالہ زاد ڈاکٹر مبشر احمد نشترؔ ہمیشہ تشویش میں رہتے کہ آخر یہ آواز کیا ہے۔

ایک دن میں نے اس آواز کے تعلق سے قالو صاحب سے پوچھا، جس پر انہوں نے بتایا کہ یہ ایک چڑیا ہے جسکو کاٹھ پھوڑا کہتے ہیں اور یہ چڑیا صبح ہوتے ہی خدا کی عبادت میں مشغول ہوجاتی ہے اور اس کی عبادت کا طریقہ یہ ہے کہ وہ ان جیسے درختوں کو اپنی چونچ سے مار مار کر سوراخ بناتی رہتی ہے اور اللہ کے حضور نذرانہ پیش کرتی رہتی ہے۔دو ایک دن بعد انہوں نے مجھے اس چڑیا کا دیدار بھی کروایا ، یہ ایک عام سی چڑیا تھی ، میں اس چڑیا کی وضع قطع سے قطعی متاثر نہیں ہوا جیسے کہ میں ہدہد کی وضع قطع سے متاثر ہوا تھا لیکن اس چڑیا کی چونچ سے پیدا ہونے والی مسلسل آواز نے مجھے بہت کچھ سونچنے پر مجبور کر دیااور میں اس کی اس عبادت کے طریقے سے بڑا متاثر بھی ہوا، ویسے مجھے اْس دور میں یہ بات مکمل طور پر سمجھ میں نہیں آئی تھی کہ چڑیا کی یہ عادت زندگی اس کی عبادت کیسے قرار پاتی ہے۔ میں نے چاہا کہ اس کی تفصیل پوچھوں لیکن پاس ادب نے زبان پر تالا ڈال دیا، پھر کچھ دنوں بعد میں یہ بات بھول گیا،لیکن جب زندگی کی کئی بہاریں دیکھ لیں تو ایک دن قرآن میں سورہ النور کا ترجمہ پڑھ رہا تھا تب مجھے یہ بات سمجھ میں آئی کہ اس زمانے میں میرے خالو عبد الحمیدصاحب کیا کہنا چاہتے تھے کیونکہ قرآن میں لکھا ہے کہ ’’ وہ پرندے جو پر پھیلائے اڑ رہے ہر ایک اپنی نماز اور تسبیح کا طریقہ جانتے ہیں اور یہ سب جو کچھ کررہے ہیں اللہ اس سے باخبر ہے‘‘
کاٹھ پھوڑا یعنی Woodpecker پرندوں کے قبیلہ Piciformes سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کو ہندی اردو میں کاٹھ پھوڑا،تلگو میں ’’وڈرنگی پٹّا‘‘ پنجابی میں’’ ترکھان چڑی‘‘، فارسی میں ’’دارکوب‘‘ اور عربی میں’’ نقار الخشب ‘‘کہا جاتا ہے۔ یہ پرندہ عام طور پر درختوں پر اپنے پنجوں سے چلتا ہوا کیڑے تلاش کرتا ہوا یا درختوں کے تنوں میں سوراخ بنا کر غذا ڈھونڈتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔یہ پرندہ ساری دنیا میں پایا جاتا ہے۔ قدیم روم میں اس پرندے کی بڑی اہمیت تھی اسی لئے اکثر لوگ اس کے گوشت کو کھانا گناہ خیال کرتے تھے ۔ کاٹھ پھوڑا 7 تا 17انچ کا خوبصورت پرندہ ہے، اس پرندے کی زائد از 200 انواع پائی جاتی ہیں جو جنگلی یا woodland علاقے میں پائی جاتی ہیں،بعض پرندے ریگستان اور پہاڑوں کے دامن میں بھی دیکھے گئے ہیں ،ان پرندوں میں انواع کے اعتبار سے رنگوں میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ ان میں رنگوں کی ترتیب کافی خوبصورت ہوتی ہے ۔ بالغ پرندوں میں چونچ گہرے رنگ کی ہوتی ہے، اوپری حصے میں لال رنگ کا Crest پایا جاتا ہے چہرے پر سفید رنگ کے پر موجود ہوتے ہیں جو اس کے حسن میں اضافہ کرتے ہیں ،یہ سفید رنگ آنکھوں کے پیچھے سے ہوتا ہوا لال Crest تک پہنچتا ہے۔
Woodpecker اپنی چونچ سے درخت میں سوراخ بناتا ہے تاکہ اس کے اندر اپنی رہائش گاہ بنائی جاسکے علاوہ اس کے وہ غذا بھی اسی ذریعہ سے حاصل کرتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق یہ چڑیا اس مقصد کے لئے دن بھر میں تقریباً 12,000ٹھونگیں مارتی ہے۔یہ خدا کی قدرت ہے کہ ٹھونگ مارنے کے دوران یہ چڑیا اپنی ناک اور آنکھ کو بھی بچاتی ہے تاکہ درخت کی برادہ جیسی شئے اسکوتکلیف نہ پہنچائے ۔عام طور پر یہ چڑیا ایک سکنڈ میں تقریباً 20دفعہ ٹھونگ مارتی ہے اس کے ٹھونگ مارنے کی رفتار فی سکنڈ 20ہوتی ہے۔ٹھونگ کی رفتار اور اس کے لئے استعمال کی جانے والی قوت کا حساب کیا جائے تو ضابطہ فطرت کے مطابق اس کا دماغ hemorrhage کا شکار ہوجانا چاہئے ۔لیکن یہ چڑیا ان ٹھونگوں سے متاثر نہیں ہوتی کیونکہ ان میں قدرتی طور پر ایک انتظام موجود ہے، جس کو Suspension نظام کہا جاتا ہے، یعنی ان کے دماغ میں تقریباًچونچ کے پیچھے ایک اسپنج جیسی ساخت پائی جاتی ہے اور کھوپڑی کے کچھ عضلات چونچ سے جڑ جاتے ہیں جس کے باعث اس ٹھونگ کا اثر اس چڑیا کے دماغ پر راست نہیں ہوتا اور اس کا دماغ صدمات سے محفوظ رہتا ہے ،علاوہ اس کے اس کی کھوپڑی سخت ہوتی ہے تاکہ ان صدمات کو آسانی سہار سکے۔علاوہ ازیں یہ چڑیا اس ٹھونگ مارنے کے عمل کے دوران آنکھ پر ایک حجاب ڈال دیتی ہے اور اس کے نتھنوں میں موجود بال غیر ضروری اشیاء کو اندر جانے سے روکتے ہیں ۔ اس طرح نہ صرف کھوپڑی بلکہ سارا جسم ٹھونگ مارنے کے اس عمل کے دوران مصروف رہتا ہے اور ہم آہنگی کی بہترین مثال بن جاتا ہے۔
Woodpecker کی زبان بہت لمبی ہوتی ہے،زبان کاآخری حصہ bristle کی طرح ہوتا ہے اس انداز کی زبان اس پرندے کی غذائی فطرت کے اعتبار سے نہایت متناسب ہوتی ہے ، اسکی زبان کو مخصوص انداز کی ہڈیاں سہارا دی ہوئی ہوتی ہیں،جس کی وجہہ سے یہ زیادہ تر اپنی زبان کو درخت کی سوراخوں میں داخلکرکے چیونٹیوں کو اپنی غذا بناتا ہے یہاں خدا کی قدرت ملاحظہ فرمائے کہ اس کی زبان پر چیونٹیوں کے جسم سے نکلنے والے ترشے کا کوئی اثر نہیں ہوتا،تاکہ یہ بہ آسانی انہیں اپنی غذا بنا سکے۔علاوہ اس کے درختوں پر رینگنے والے کیڑوں کا شکار اور اس میں چھپے حشرات کا استعمال ایک طرف جہاں Woodpecker کے لئے فائدہ مند ہے وہیں درختوں کی صحت کے لئے بھی بہت مفید ہے کہ انہیں نقصان دہ کیڑیوں سے نجات مل جاتی ہے۔کاٹھ پھوڑا کے کان بہت تیز ہوتے ہیں یہ کیڑوں کے رینگنے کی آواز کو بھی سن لیتا ہے۔حشرات الارض کے علاوہ یہ پرندے مختلف پھل اور اخروٹ وغیرہ استعمال کرتے ہیں۔کاٹھ پھوڑا اپنا گھونسلہ عام طور پرصنوبر کے درخت (Pine Tree) میں بناتا ہے اور خود کو دوسرے جانداروں کا شکار ہونے سے بچانے کے لئے اپنے گھونسلے کے اطراف بھی کئی ایک سوراخ بناتا ہے جو مابعدصنوبر کے درخت سے نکلنے والے رس سے بھر جاتے ہیں اور اس کے گھونسلے کو محفوظ بناتے ہیں۔ پرندے کا گھونسلہ تقریباً 8 تا 18 انچ تک ہوسکتا ہے۔ ویسے یہ زیادہ تر درختوں کی چھال کے نیچے موجود کیڑوں کا شکار کرتا ہے۔اس پرندے کی مادہ عام طور پر چار انڈے دیتی ہے جو عموماً سفید ہوتے ہیں ان انڈوں کو تقریباً 15 تا 18 دن دونوں مل کر سیتے ہیں دن میں مادہ ان کو سیتی ہے اور رات کے وقت نر پرندہ ان انڈوں پر بیٹھتا ہے۔انڈے سے نکلنے والے بچوں کی نگہداشت دونوں ملکر انجام دیتے ہیں ان کے بچے جب پیدا ہوتے ہیں تو ان کے جسم ’’پروں‘‘ سے عاری ہوتے ہیں اور ان کی آنکھوں میں
روشنائی بھی نہیں ہوتی یعنی بالکل چھوٹے بچے اندھے ہوتے ہیں۔
اس پرندے کی کھوپڑی کے نچلے حصے میں قلیل مقدار میں Cerebrospinal fluid پایا جاتا ہے اس کے پیروں میں چار پنجے ہوتے ہیں جس میں دو اگلی جانب اور دو پچھلی جانب مڑے ہوتے ہیں ،جو درخت پرمضبوطی سے جڑ جاتے ہیں تاکہ درخت کو سوراخ کرنے کے عمل میں آسانی ہوسکے۔ اس پرندے کی دم بھی اس عمل میں مدد دیتی ہے ، اس کی دم اس کے جسم کو ایسی حالت میں رکھنے میں مدد دیتی ہے جس کی باعث سوراخ کرنے کا عمل آسان ہوجاتا ہے۔ درخت میں جب سوراخ ہوتی ہے تو اس کی ٹھونگ سے نکلے والی آواز درخت میں موجود کیڑے مکوڑوں کا پتہ چلانے میں ممدو مددگارثابت ہوتی ہے بالکل اسی طرح جیسے آپ دیوار یا زمین پر ہتھوڑی مار کر اس بات کا پتہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں کہ دیوار یا زمین کے کس حصے کی کیا نوعیت ہے۔ بعض اوقات یہ چڑیا مردہ درخت کے کھوکھلے تنے یا پائپس(Pipes) پر مسلسل چونچ مار کر طبلہ جیسی گونج دار آواز پیدا کرتی ہے اور یہ آواز دوسرے پرندوں میں اس بات کا اعلان کرتی ہے کہ ائے پرندوں سن لو کہ جہاں تک اس آواز کی پہنچ ہے وہاں تک میری سلطنت کی حد ہے ۔ یہ پرندہ اپنے صوتی دھاگوں سے بھی آواز نکانے پر قادر ہے لیکن ٹھونگ کی اس آواز کو بعض ماہرین نے ملن کے لئے گایا جانے والا گیت بھی قرار دیا ہے کہ یہ آواز مقابل صنف کو اپنی جانب متوجہہ کرنے کے کام بھی آتی ہے ،قدرت کا یہ انوکھا انتظام ہے کسی کو اس مقصد کے لئے خوشبو دی کسی کو مترنم آواز عطا کی اور Woodpecker کی کھٹ کھٹ کرتی آواز میں محبت کا پیام سمو دیا۔اس طرح اس کی چونچ اور درخت کے تنے سے ٹکراکر نکلنے والی آواز میں قدرت کے کئی ایک افعال کو بھر دیا ہے اور ہر فعل اپنی جگہ مکمل اورجداگانہ نوعیت کا ہے جب کہ آواز کا منبع اور خارج ہونے کا طریقہ کار ایک جیسا ہے۔شاید اسی کو قدرت کہتے ہیں کہ چاہے تووہ ایک ہی شئے سے کئی کام لے لے اور چاہے تو کئی کاموں کے لئے ایک ہی شئے کو مامور کر دے ۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ کاٹھ پھوڑا قدرت نے ایک ایسی صلاحیت سے نوازا ہے جس کے متعلق انسانی تحقیق نے گذشتہ کچھ برس قبل معلومات حاصل کیں ہیں کہ 100سال کے بعد صنوبر کادرخت کی اوپری سطح ملائمت اختیار کر جاتی ہے اور دنیا نے یہی دیکھا ہے کہ کاٹھ پھوڑا اپنا گھر بنانے کے لئے جس درخت کا انتخاب کرتا ہے وہ 100سال عمر گذار چکا ہوتا ہے اور وہ یہ بات ہزاروں صدیوں سے جانتا ہے۔یعنی قدرت نے اس کو یہ سکھا دیا ہے کہ 100 سال بعد درخت کی اوپری سطح یا چھال ملائم ہوجائے گی،یہ جبلت ہی دراصل قدرت ہے جو انہیں ہر موڑ پر سہارا دیتی ہے اور انہیں زندہ رکھتی ہے۔

Dr.Azeez Ahmed Ursi
Photo Dr Azeez Ahmed Ursi, Warangal

Share

One thought on “کاٹھ پھوڑا ۔ Woodpecker ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ڈاکٹرعزیزاحمدعُرسی”

Comments are closed.

Share
Share