سمینار: مولانا حالیؔ کی نا قابل فراموش ادبی خدمات ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ رپورتاژ: ڈاکٹرعزیزسہیل

Share

Haali حالیؔ
کہکشاں کلچرل اینڈ لٹریری سوسائٹی نظام آباد
قومی سمینار: مولاناحالیؔ کی نا قابل فراموش ادبی خدمات

از: ڈاکٹرعزیزسہیل
لیکچرار ،ایم وی ایس گورنمنٹ ڈگری کالج محبوب نگر

ضلع نظام آباد اردو ادب کے فروغ و اشاعت کیلئے تلنگانہ میں کافی ذرخیز علاقہ تصور کیا جاتا ہے جہاں اسکول ، کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر اردو ذریعہ تعلیم کا نظم ہے سیکڑوں طلباء و طالبات اپنی مادری زبان میں تعلیم حاصل کرتے ہوئے ترقی کی منزلیں طئے کررہے ہیں یہاں اردو زبان و ادب کے فروغ میں بہت سی انجمنیں اور سوسائٹیز اپنی گراں قد رخدمات انجام دئے رہی ہیں ان اداروں میں ایک باوقار ادارہ کہکشاں کلچرل اینڈ لٹریری سوسائٹی بھی ہے جس نے اردو کے فروغ اور اسکی ترقی و ترویج کے لئے خودکو وقف کردیاہے۔کہکشاں کلچرل اینڈ لٹریری سوسائٹی نظام آبادکی ایک رجسٹرڈ سوسائٹی ہے جس کا قیام آج سے 22سال قبل عمل میں آیاتھاتب سے لیکر آج تک سوسائٹی کے زیر اہتمام بے شمار کل ہند مشاعرے،بین الریاستی مشاعرے ،ادبی اجلاس اور ،سمینار کا انعقاد عمل میں لایا جاتا رہا ہے،سوسائٹی نے 90سے زائد نئے شعراء کو اپنے پلیٹ فارم سے متعارف کروایا ہے۔ڈاکٹر ضامن علی حسرت ممتاز ادیب و شاعرہونے کے ساتھ ساتھ اس سوسائٹی کے کامیاب کنوینر بھی ہیں ان ہی کی کاؤشوں کی بدولت اس ایک روزہ قومی سمینار کا انعقاد عمل میںآیا۔

کہکشاں کلچرل اینڈ لٹریری سوسائٹی (رجسٹرڈ) نظام آبادنے قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی کے اشتراک سے 4جون بروز ہفتہ 2016ء صبح 11بجے تا 5بجے دن نیو پریسڈنٹ پلازہ فنکش ہال بودھن روڈ نظام آباد پرایک خوبصورت سمینار بعنوان ’’مولا نا حالی ؔ کی ناقابل فراموش ادبی خدمات ‘‘ کا انعقاد عمل میں لایا،نظام آباد شہر میں اپنی نوعیت کے اس منفرد سمینار کا آغاز بین الاقوامی شہرت یافتہ قاری ڈاکٹرمحمد نصیرالدین المنشاوی کی تلاوت کلام پاک سے عمل میں آیا۔ قاری صاحب نے بڑے ہی اطمنان اور خوش الہانی سے کلام مجید کی تلاوت سے ایک بہترین سماع باندھ دیا۔ سمینار کی نظامت کی ذمہ داری قومی سطح پر مقبول شاعر جناب فیروز رشید نانڈیڑ کے حوالے کی گئی تھیں۔ہم نے اب تک فیروز صاحب کوکل ہند مشاعروں کی کامیاب نظامت کرتے ہوئے دیکھا تھا ۔پہلی مرتبہ سمینار میں بہت ہی اچھے اندازمیں انہوں نے نظامت کے فرائض انجام دئے اور ناظم سمینار، محرک سمینار، معتمد کہکشاں کلچرل اینڈ لٹریری سوسائٹی نظام آبادڈاکٹر ضامن علی حسرت کو ابتدائی کلمات کیلئے دعوت دی۔ ڈاکٹر ضامن علی حسرت نے استقبالیہ خطاب میں سمینار کے انعقادکے مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوے مہمانوں،میزبانوں و سامعین کا استقبال کیا۔ سوسائٹی کی جانب سے مہمانوں کو تہنیت پیش کی گئی، سوسائٹی کے ذمہ داروں نے ،پروفیسر نسیم الدین فریس،ڈاکٹر سید فضل اللہ مکرم،ڈاکٹر شجاع کامل(نانڈیڑ)،جناب میرزاہد علی ایڈوکیٹ کو تہنیت پیش کی۔ جناب فیروز رشید نے کلید ی خطبہ کیلئے حیدرآباد سے تشریف لائے ہوئے مہمان جناب ڈاکٹر سید فضل اللہ مکرم چیرمین بورڈ آف اسٹڈیز اورینٹل اردو عثمانیہ یو نیورسٹی کو دعوت دی انہوں نے اپنے کلیدی خطبہ میں کہا کہ خواجہ الطاف حسین حالیؔ کی حالات زندگی کے اہم موڑ بیان کیے اور ان کی ناقابل فراموش خدمات کا اجمالی جائزہ پیش کیا۔انہوں نے مزید کہا کہ اُردو کے مشہور شاعر‘ سوانح نگار‘ اور نقادتھے‘ وہ سرسید کی اصلاحی تحریک سے بہت زیادمثاثر تھے۔انہوں نے نواب مصطفی خان شیفتہ کی شاگردی اختیار کی ان کی مصاحبت میں رہے پھر وہ مرزا غالبؔ سے مشورہ سخن کرنے لگے ۔انہوں نے سر سید احمد خان کی فرمائش پر 1879 ؁ء میں مشہور نظم ’’مسدس مدوجزر اسلام‘‘ لکھی۔ اس نظم کی تعریف کرتے ہوئے۔ سرسید نے کہا تھا کہ ’’اگر خدا مجھ سے پوچھے کہ کیالائے ہو تو میں کہوں گا کہ حالیؔ سے مسدس لکھوالایا ہوں۔ ‘‘ حالیؔ نے نثر میں تین سوانحی کتابیں لکھیں۔ ’’حیات سعدی‘‘ ’’یاد گار غالب‘‘اور حیات جاوید حیاتِ جاوید سرسید کی سوانح ہے۔ ان سوانحی کتابوں سے حالیؔ نے جدیدسوانح نگاری کو فروغ دیا۔ محمد حسین آزادؔ کے ساتھ مل کر حالیؔ نے انجمن پنجاب لاہور میں جدید مشاعروں کا آغاز کیا۔ جس میں طرحی مصرعہ کے بجاے دئے گئے عنوانات پر نظمیں سنائی جاتی تھیں۔ حالیؔ نے اپنے دیوان کو ایک طویل مقدمے کیساتھ شائع کیا۔ جس میں اُردو شاعری اور اُس کی اصناف میں اصلاح کی بات پیش کیں۔ لیکن ان کے دیوان سے زیادہ یوان کے مقدمہ کو مقبولیت حاصل ہوئی ۔ان کے دیوان کا یہ مقدمہ ایک الگ کتاب کی شکل میں 1893ء میں ’’مقدمہ شعر و شاعری‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ اس کتاب میں حالیؔ نے جو تنقیدی خیالات پیش کئے۔ اس سے وہ جدید اُردو تنقید کے بانی قرار پائے۔ حالیؔ اُردوادب میں جدید شاعری ‘ جدیدسوانح نگاری‘ اور جدید تنقید نگاری کے باوا آدم قرارپاتے ہیں۔ عورتوں کی تعلیم کیلئے انہوں نے کتاب ’’مجالس النساء‘‘ تحریر کی ،انہوں نے نسل نوکو پیغام دیا کہ وہ حالی کو اپنارول ماڈل بنائیں۔
افتتاحی اجلاس کی صدرات پروفیسر نسیم الدین فریس، صدر شعبہ اردو مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد نے کی انہوں نے اپنے خطاب میں حالی کی مجموعی ادبی خدمات کا تفصیلی جائزہ لیااور کہاکہ خواجہ الطاف حسین حالیؔ نے اردو ادب میں نئے افکار پیش کئے جس کی وجہ سے اردو ادب میں صحت مند تبدیلیاں آئیں۔ حالی وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے اپنے نظریہ ادب برائے زندگی کے ذریعے حقیقت نگاری کو ادب میں پیش کیا ۔ وہ جدید اردو تنقید کے بانی تصور کئے جاتے ہیں۔’’مقدمہ شعر و شاعری‘‘ حالی کی مشہور تصنیف ہے جس میں حالی نے شعر اور شاعری کی تعریف ‘شاعری اور سوسائٹی کا تعلق اور اردو کی شعری اصناف غزل‘مثنوی‘قصیدہ‘مرثیہ اور رباعی کے فن پر بحث کی اور ان میں صحت مند تبدیلیوں کی تجاویز پیش کیں یادگارغالبؔ ، غالب ؔ کی شخصیت اور شاعری کو سمجھنے کے سلسلہ میں پہلی اور اچھی کوشش ہے۔ یادگار غالب کا شمار اردو ادب کی ہمیشہ زندہ رہنے والی تصانیف میں ہوتا ہے انہوں نے اپنے بصیرت افروز خطاب میں حالی کی ناقابل فراموش خدمات کو اردو ادب پر احسان عظیم قراردیا ۔ان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔مہمان خصوصی کے طور پر ڈاکٹر شجاع کامل صدر شعبہ اردو سری راما نند تیرتھ یونیورسٹی نانڈیڑ ، جناب ڈاکٹر محسن جلگانوی ممتاز شاعر،ادیب اور دانشور ،نذیر احمد صدر شعبہ اردو ویمنس کالج عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآ باد نے شرکت کی ۔افتتاحی سیشن کا اختتام جناب زاہد علی ایڈوکیٹ سرپرست اعلی کہکشاں کہکشاں کلچرل اینڈ لٹریری سوسائٹی نظام آبادکے شکریہ پر عمل میں آیا۔طعام و ضیافت خاص کے بعد سمینار کے دوسرے اور تیسرے سیشن کا آغاز عمل میں آیا جس کی صدارت ڈاکٹر شجاع کامل صدر شعبہ اردو سری راما نند تیرتھ یونیورسٹی نانڈیڑ اور جناب ڈاکٹر محسن جلگانوی ممتاز شاعر،ادیب اور دانشور نے فرمائی۔ اس اجلاس میں سب سے پہلے قاری ڈاکٹرمحمد نصیرالدین المنشاوی حیدرآباد نے ‘‘خواجہ الطاف حسین حالی کی نظم چپ کی داد کا تجزیاتی مطالعہ‘‘کے عنوان سے اپنامقالہ پیش کیا ،دوسرا مقالہ ڈاکٹر ضامن علی حسرت نے’’ اردوادب کی عہد ساز شخصیت مولانا الطاف حالی ‘‘،کے موضوع پرپڑھا ،تیسرا مقالہ نذیر احمد صدرشعبہ اردو ویمنس کالج عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآ باد نے’’حالی کی نظم نگاری‘‘ پرپیش کیا۔ان کے بعد ڈاکٹرعبدالقوی اسسٹنٹ پروفیسر تلنگانہ یونیورسٹی نے ’’الطاف حسین حالی کے تنقیدی تصورات ‘‘کے عنوان پرمقالہ پڑھا،ڈاکٹر محمد عبدالعزیز سہیل لیکچرار ایم وی ایس گورنمنٹ ڈگری کالج محبوب نگر نے ’’خواجہ الطاف حسین حالی ؔ بہ حیثیت سوانح نگار‘‘ پراپنا مقالہ پیش کیا ۔ان کے بعد ڈاکٹر عبد القدیر عادل آباد نے ’’مولانا الطاف حسین حالی کی دیرینہ ادبی خدمات ،نظموں کے تناظر میں‘‘ پر اپنا مقالہ پڑھا،پھر محمد عبدالبصیر لیکچرار تلنگانہ ریسڈینشل کالج ناگا رام نے ’’الطاف حسین حالی اور مقدمہ شعر و شاعری‘‘کے عنوان پر اپنا مقالہ پیش کیا، ڈاکٹرسید حامد نے اپنا مقالہ’’ اردو شعر و ادب کے دو اہم ستون حالی اور غالب ‘‘کے عنوان پرپڑھا،محمد وسیم نے ’’الطاف حسین حالی کی فارسی سوانح نگاری‘‘ پر اپنا مقالہ پیش کیا جب کہ ڈاکٹر ابرار الباقی ستاواہنا یونیورسٹی کریم نگرنے’’مسدس حالی ۔ایک مطالعہ کے عنوان سے مقالہ تحریر کیا ۔ صدارتی کلمات میں شجاع کامل نے تمام مقالہ نگاروں کو مبارکباد پیش کی اور حالی کی ادبی خدمات پر سرسری جائزہ پیش کیا ،اور کہا کہ خواجہ الطاف حسین حالی کی شاعری اصلاحی،اخلاقی ‘ مقصدی اورغیر معمولی معنویت و اہمیت کی حامل ہے اصلاحی،اخلاقی،افادی اور مقصدی شاعری نے انیسویں صدی کی آخری دہائیوں میں بہت بڑا انقلاب آفریں کردار ادا کیا ہے۔ انھوں نے اْس دور سے قبل تک کی نام نہاد روایتی شاعری کے پس منظر اور پیش منظر کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے۔ انھوں نے سرسید کی اصلاحی تحریک کے زیر اثر اپنی غیر معمولی فکری اور فنّی شعور و آگہی سے اْردو شاعری کو زندگی کا فنّی ترجمان بنا دیا۔۔ ڈاکٹر محسن جلگانوی نے اپنے صدراتی خطاب میں حالی کی زندگی کے مختلف گوشوں پر روشنی ڈالی اور پڑھے گئے مقالوں کا جائز لیااور کہا کہ الطاف حسین حالی خداداد صلاحیتوں کے حامل نہایت خلیق ،با وقار ،ملنسار ، حلیم الطبع ،سلیم الفطرت اور سچے فدائی قوم تھے۔ دنیوی جا ہ و جلال اور دولت و ثروت انکے کبھی پیش نظر نہیں رہی۔ تصنیف و تالیف انکی فطرت ثانیہ ہے۔انسانی ہمدردی انکا زیور حیات تھا۔ اختلافات اور آپسی نزاعات سے کنا رہ کشی انکا طرہ امتیاز تھا۔ انکا مطمح نظر بہت بلند اور انکا عزم و حوصلہ اعلیٰ و ارفع تھا۔۔سمینار کے آخری سیشن میں مقالہ نگاروں میں اسناد کی تقسیم پروفیسر نسیم الدین فریس اور ڈاکٹر سید فضل اللہ مکرم کے ہاتھوں عمل میں آئی ، اس بامقصدی سمینار کا اختتام ڈاکٹر ضامن علی حسرت معتمد کہکشاں کلچرل اینڈ لٹریری سوسائٹی نظام آباد کے شکریہ پر ہوا۔دیگر معزز مہمانان میں سید مجیب علی،ڈاکٹر ناظم علی‘شیخ احمد ضیا و دیگراحباب شامل تھے۔سوسائٹی کہ ذمہ داران محمد سمیع اللہ،سید حقانی ،سیدممتازعلی،محمد فصیح الدین نے انتظامی امور انجام دئے۔اس سمینار میں فیس بک گروپ’’ ہماری بیاض ‘‘ میں منعقدہ بیت بازی کے مقابلہ میں جناب رضی الدین اسلم پرنسپل گورنمنٹ جونیر کالج نظام آباد کو انعام اول حاصل کرنے پر اڈمین گروپ ڈاکٹر سید فضل اللہ مکرم نے ان کی گلپوشی کی اور جناب زاہد علی ایڈوکیٹ ‘ ڈاکٹر ضامن علی حسرت اور نامور شاعر جناب فیروز رشید کے ہاتھوں جناب رضی اسلم نے انعام حاصل کیا۔شہر کے معزز شعراء اور اہل علم حضرات نے شرکت کرتے ہوئے قومی سمینار کو زبردست کامیابی سے ہمکنارکیا۔

Haali 2

Share
Share
Share