مور۔ Peacock ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ڈاکٹرعزیزاحمدعُرسی

Share

peacock-مور

مور۔ Peacock
(ایک خوبصورت پرندہ )

ڈاکٹرعزیزاحمدعُرسی، ورنگل
موبائل : 09866971375

مور ایک خوبصورت پرندہ ہے جس کی دلکشی اس کی لمبی دنبالہ(Tail train) میں پنہاں ہوتی ہے بعض ماہرین طیورکے نزدیک مورپرندوں کی دنیا کا حسین ترین پرندہ ہے۔ خصوصاً ہرے رنگ کا مور دیکھنے والے کومبہوت کردیتاہے۔ اس پرندے کی شہرت نہ صرف اس کے اپنے وطن یعنی ہندوستان بلکہ ساری دنیا میں زمانہ قدیم سے موجود ہے۔ کتب میں لکھا ہے کہ حضرت سلیمانؑ کے پاس کچھ مور موجود تھے۔ معلوم پرندوں میں مور سب سے قدیم آرائشی پرندہے جس کا ذکر 4000 برس قبل میسو پٹومیائی تہذیب میں بھی ملتاہے اور اس پرندے کی مختلف انواع کی افزائش کاذکربھی موجود ہے۔ زائد از تین ہزار برس قبل مور کا وجود مصر میں تھا ۔ رومن عوام اسکو آرائشی پرندے کے طور پر پالتے تھے اور اسکے گوشت کو شوق سے کھاتے تھے حالانکہ مور کا گوشت مزے دار نہیں ہوتا۔ ایک خیال کے مطابق سکندر نے مور کو ہندوستان سے یونان پہنچایا۔یونانی عوام مور کو دیوی Hera کے وسیلے سے مقدس خیال کرتے ہیں۔ کیونکہ ان کے مطابق Hera نے Argus کی آنکھ نکال کر مور کے پروں پر چسپا ں کردی تھی ۔ ہندوں کے نزدیک مور’’کارتیکیا‘‘ کی سواری ہے جو شواکا اور پاروتی کابیٹا اور گنیش کابھائی ہے۔

قرآن میں مور کا ذکر راست طور پر نہیں آیا۔ لیکن سورہ بقرہ میں ’ صر ‘ (ھنّ) کی تشریح کرتے ہوئے مفسرین اکرام نے جن چار پرندوں کاذکر کیاہے اس میں مور بھی شامل ہے۔ ان چار پرندوں کاذکر قرآن یا حدیث سے ثابت نہیں ہے لیکن بعض مفسرین نے ان کے نام مرغ، کبوتر، بط اور مور لکھے ہیں۔پرندوںیا ان کے اعضاء کا ذکرقرآن میں کئی مقامات پرموجود ہے۔ جسے صافات(سورہ النور ، الملک) طائر(الانعام،بنی اسرائیل) طیراً (البقرہ، آل عمران، المائدہ،النحل، الحج،النمل ،سورہ ص، یوسف ،الانبیا، النور، سبا، الواقعہ،الفیل)علاوہ ا س کے پرندوں کے متعلق یہ مفہوم والے جملے بھی قرآن میں ملتے ہیں کہ ’’ان خدا فراموشوں نے پرندوں پر غور نہیں کیاجو فضا ئے آسمانی میں پابند ہیں کہ انہیں بجز اللہ کے اور کون تھا مے یاسنبھالے ہوئے ہے۔‘‘
عرب میں پرندوں مثلا شترمرغ اور مور وغیرہ کے پروں کو زینت کیلئے استعمال کیا جاتا تھا، تاریخ طبری میں لکھا ہے کہ’’اُمیہ نے مجھ سے پوچھا کہ تم میں وہ کون ہے جس کے سینے پر شترمرغ کاپرنشان کے طور پرلگاہوا ہے‘‘ میں نے کہا وہ حمزہ بن عبدالمطلبؓ ہے۔ عربی میں مور کو طاؤس کہاجاتا ہے۔ اکثر خیال کیاجاتا ہے کہ مور کو اپنے حسن ذاتی، پروں کی خوبصورتی اوردم پر نازہے۔ بعض تو ہم پرست مور کو منحوس خیال کرتے ہیں کیونکہ حضرت آدمؑ کے جنت سے خروج کاسبب مور تھاجس نے جنت میں ابلیس کے داخلے کی راہ پیدا کی۔
پرندوں کا ذکر توریت اور انجیل دونوں میں موجود ہے۔ توریت میں تخلیق کائنات کے باب میں پرندوں کی پیدائش پانچویں دن بتائی گئی ہے۔ علاوہ اس کے حضرت نوحؑ کی کشتی کے ذکر میں تمام پاک پرندوں کاذکرموجود ہے۔
مور کو انگریزی میںPeafowl کہا جاتا ہے۔اس کی مادہ Peahen اور نرPeacock کہلاتے ہیں۔ نراورمادہ میں کافی فرق ہوتاہے۔مور کی تین انواع ہیں۔(۱) ہندوستانی مور (Pavo cristatus) (۲) ہرا مور(Pavo muticus) (۳) کا نگو کی نوع (Afropavus congensis) ۔ان میں اولالذکر دو انواع کے اختلاط سے کئی نئی نسلیں افزائش کی گئی ہیں۔ہندوستانی مور اپنے Coverts کی وجہ سے مشہور ہیں۔ انکے پر عموماً ہرے یا سنہرے ہوتے ہیں۔ اور ان پروں پرآنکھوں کی شکل کانشان بنارہتاہے جسکا رنگ ہر انیلاہوتا ہے۔ اس کو Peacock blue کہتے ہیں۔ بعض جانداروں میںیہ رنگ ان کے سر،گردن اور کلغی پر بھی پایا جاتاہے۔ مور کی اڑان اونچی نہیں ہوتی ہے۔ اسی لئے یہ عموماً اپنا گھر یاگھونسلہ درخت کی نچلی شاخوں پربناتے ہیں۔ اور زیادہ وقت زمین پر دانہ چگنیمیں صرف کرتے ہیں۔ یہ Omnivorous جاندار ہے جو مختلف بیج کیڑے مکوڑے چھوٹے سانپ حتیٰ کہ زہریلے سانپ بھی کھاجاتا ہے۔ ان کو غذا میں پروٹین کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ مور کی لمبائی 3 تا 5 فٹ اور مادہ مور (مورنی) کی لمبائی ڈھائی تا ساڑھے تین فٹ ہوتی ہے۔ جبکہ نر کے دم کی لمبائی 5 فٹ سے زیادہ بھی ہوتی ہے انکا وزن عموماً 5 کیلوہوتا ہے ۔مور کثیر زوجی پرندہ ہے۔ عمل تولید کی انجام دہی سے قبل مور اپنے دم کے پروں کوپھیلا کر مادہ کوآواز دیتاہے جسکو Mating call کہا جاتا ہے۔
اگست کے مہینے میں عموماً مو ر کے پر جھڑجاتے ہیں۔ اور پھر سے ان کی دم پرنئے پر اگتے ہیں ۔،دم پر پائے جانے والے پراور ان پروں کاپھیلا کر پنکھا نما شکل بنا کرناچنا مو ر کے تولید ی عمل کے لئے ضروری ہے دم کے یہ پر دنبالہ(Tail Trainکہلاتے ہیں۔ جو عمر کے ابتدائی تین سال میں اپنی مکمل لمبائی حاصل کرلیتے ہیں۔ اس کے بعد آنے والے برسوں میں یہ لمبائی باقی رہتی ہے۔ لیکن عمر میں بڑھوتی کے ساتھ ساتھ ان پروں کی تعداد اور لمبائی میں کمی واقع ہوتی ہے۔بہترین نسل کے مور کے Train کی لمبائی 1.6 میٹر سے زیادہ ہوتی ہے اس لئے ناچنے کے دوران کھلے پروں کے ساتھ مور کو دنیاکا بڑا اڑنے والا پرندہ کہاجاسکتا ہے۔اس کا دنبالہ خوبصورت رنگا رنگی 100 تا150 پروں(Coverts) سے ملکر بنتا ہے ،جس پر خوبصورت نمایاں آنکھ جیسی ساخت بنی رہتی ہے۔ ان coverts کے ساتھ کھلے Barbs بھی پائے جاتے ہیں۔ ان دونوں کاحسین امتزاج دیکھنے والے کے لئے ایک خاص کیفیت پید اکرتا ہے۔ اور ان پروں کے نازک ریشے جب جسم سے مس ہوتے ہیں تو ملائمت کاخاص تاثر دیتے ہیں جو عرصہ دراز تک یاد رہتا ہے۔ جب مور اپنی مادہ کو متوجہ کرنے کے لیے اپنی دنبالہ کو پنکھانما شکل دیتاہے تو دنیاکاخوبصورت ترین پرندہ نظر آتاہے۔ اگر کسی مور کےTail train میں نقص یا لمبائی میں کمی پائی جائے تو ایسے مور کو بہتر بریڈر(Breader) تصور نہیں کیا جاتا۔ یعنی بہترین بریڈر بننے کے لئے دنبالہ کااپنی مکمل خوبصورتی کے ساتھ وسعت پانا ضروری ہے۔ عموما اس مقصد کے لئے منتخب کئے جانے والے مور کامورنی سے رشتہ آنے والی نسل کی صحت کے لئے مناسب نہیں رہتا ۔اسی لئے بحیثیت بریڈر بے تعلق مور کا انتخاب کیاجاتاہے۔ جفتی کا زمانہ عموما موسم بہار ہوتا ہے۔مورنی عموما اگست ستمبر میں ایک ہی دفعہ انڈے دیتی ہے جو 6 تا12 ہوتے ہیں۔ انڈوں کونر اور مادہ مل کر سیتے(Incubate) ہیں۔ چونکہ نر میں Parental care زیادہ نہیں پایاجاتا ہے اسی لئے ان دنوں انڈوں کی مصنوعی طور پر Incubate کیا جارہاہے۔ 28 دن کے بعد بچے باہر نکلتے ہیں ۔جوچھوٹے مرغ یابطخ کے چوزوں کی طرح ہوتے ہیں ۔ یہ چوزے دو ہفتوں کے اندر اڑنے کے قابل ہوجاتے ہیں ماں ان بچوں کو مختلف آوازوں کے ذریعہ زندہ رہنے کے طریقے اور آرام کرنے کے اندازسکھاتی ہے ۔ مورنی حتی الامکان ان چوزوں (Peachik) کو گرم ماحول میں رکھتی ہے۔کیونکہ ٹھنڈک میںیہ ختم ہوجاتے ہیں۔ ویسے بالغ مور میں قوت مدافعت زیادہ ہوتی ہے ۔ اسی لئے یہ زیادہ بیمار نہیں ہوتے اور ان کی اوسط عمر 35 تا 40 برس ہوتی ہے۔
مو رکی بیشتر نسلیں جو آج ساری دنیا میں قال قال موجود ہیں ہندوستانی مور سے پیدا کردہ ہیں۔ ان دنوں کئی مقامات پر ان کی افزائش کی جارہی ہے جس کے نتیجے میں سفید اور کالے رنگ کی انواع بھی حاصل کی جا چکی ہے۔ علاوہ اس کے ہلکے بھورے،ارغوانی اور دوسرے رنگوں کے مور کی افزائش بھی ہوچکی ہے۔ اس پرندے کو ساری دنیا میں پسند کیا جاتاہے۔ اس لئے مختلف تہذیبوں میں اس کی کافی اہمیت ہے۔ ہندوستان کایہ قومی پرندہ ہے جسکی افسانوی ومذہبی حیثیت ہے۔ حالیہ سروے سے ظاہر ہوتاہے کہ ہندوستان کا قومی پرندہ ہونے کے باوجود دنیا کے اس خوبصورت پرندے کی حفاظت کاکام سلیقے سے انجام نہیں دیا جا رہاہے۔ جس کے نتیجے میںیہ پرندہ معدومیت کے دہانے کے قریب آتا جا رہا ہے۔ حالانکہ اس سلسلے میں حکومت کے اقدامات مفید ہیں اس پرندے کا شکار 1972 کے وائلڈ لائف پروٹکشن ایکٹ کی شق 51,1-A کے مطابق ممنوع ہے۔ لیکن کیا ہی بہتر ہوتا اگرحکومت مزید اس خصوص میں احکامات جاری کرتی اورعوام کو ماحولیاتی توازن اور اس پرندے کی اہمیت کا احسا س دلاتی جیسے امریکہ کے قومی پرندے Bald Headed Eagle کو اس قوم نے زندہ رکھااور اسکی آبادی بڑھانے کے سو جتن کئے۔ ہندوستان میں اس پرندے کے شکار کی وجہ ایک غلط فہمی ہے۔ خیال کیا جاتاہے کہ اس پرندے کے پنجے اور پیروں سے بنایا گیا تیل گٹھیا کے مریضوں کے لئے مفید ہے۔ جبکہ اس کی کوئی سائنسی حقیقت نہیں ہے۔ قدیم اطبا نے بتایا کہ مور کی ہڈی گھس کرسانپ کے کاٹے زخم پرلگایاجائے تو زہر اُتر جاتا ہے۔ اور اس کے پروں کو گھس کر زخم پر لگایں تو کوئی بھی زخم مندمل ہوجاتا ہے۔ مشہور سائنس داں ومفکر قزوینیؔ نے بتایا ہے کہ اس کی ہڈی کا مغز کسی کے پاس ہو تو اس پر نظر بد کااثر نہیں ہوتا اور شیخ رئیس کے مطابق مور کا پالنا گزندوں سے پناہ دیتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ سانپ کو مسحور کرکے اس کے انڈوں کو گندہ کردیتاہے۔
مور کی آواز سریلی نہیں ہوتی۔ لیکن تولیدی زمانے میں اس کی آواز میں رعنائی آجاتی ہے مور جب کبھی بیرونی حملہ آوروں کا خطرہ محسوس کرتاہے تواپنی آوازسے اس کی اطلاع دوسروں تک پہنچاتا ہے۔ قدرت نے خوبصورت پروں کے تحفے سے صرف نر(Male) مور کو نوازا ہے۔ جبکہ مادہ میں دنبالہ نہیں پایاجاتا ہے۔ لیکن جہاں تک کلغی کے پر ہیں وہ نر اور مادہ دونوں میں پائے جاتے ہیں مور اپنے جن پروں پر نازاں ہوتا ہے وہ تین سال کی عمر میں مکمل لمبائی حاصل کرتے ہیں۔لیکن ہر برس اگست اور سیپٹمبر کے مہینوں میں وہ پروں(Feathers) کو بدلتا ہے اس طرح پرانے پر جھڑ جاتے ہیں اورنئے پر پیدا ہوجاتے ہیں۔ ان پروں کوعوام اپنے گھروں میں آرائش وزیبائش کے لیے استعمال کرتی ہے۔اس کے پر مسلم گھرانوں میں بھی ایک خاص احترام سے رکھے جاتے ہیں۔ درگاہوں میں مورچل بنایا جاتا ہے۔ اس کے پر مذہبی کتب میں رکھے جاتے ہیں اورمختلف آرائشی مصنو عات کی تیاری میں اسکا استعما ل کثرت سے رائج ہے۔ جوانسان کی جمالیاتی حِس کی تسکین کاسامان مہیا کرتے ہیں کیونکہ خوبصورت اشیا ء اورحسین مناظر کے دیدار سے لطف اندوز ہونا انسانی فطرت کا خاصہ ہے ، صحیح مسلم میں ارشاد ہے کہ ’’خدا خود جمال والا
ہے اور جمال کوپسند کرتاہے۔‘‘
Dr.Aziz Ahmed Ursi
aziz

Share
Share
Share