پاکستان میں اگلا دور افسانچے کا ہے
ممتازشاعر، افسانچہ نگار ،دانشور اور استاد پروفیسر ڈاکٹر اخلاق گیلانی سے دلچسپ گفتگو
انٹرویونگار: ابنِ عاصی
جھنگ ۔ پاکستان
ڈاکٹر اخلاق گیلانی کا نام اردو ادب میں کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے تعلیم و تدریس سے تعلق تھا اور سائنس جیسا خشک مضمون ان کا میدان ،لیکن ادبی سرگرمیوں میں بھی آگے آگے رہے اور ابتدا میں شاعری اور پھر نثر میں مغرب سے اردو ادب میں آئی صنف افسانچہ سے ایسا دل لگایا کہ بس اسی کے ہو کر رہ گئے اور آج ان کا نام پاکستان میں افسانچہ کی صنف کو فروغ دینے والوں میں سب سے نمایاں نظر آتا ہے حال ہی میں ان کی افسانچوں پر مشتمل کتاب ،سچائیاں ، منصہ شہود پر آکر اہلِ ادب سے بے پناہ داد پا چکی ہے ان کے افسانچے پڑھ کر جہاں ان کے وسیع المطالعہ ہونے کا شدت سے احساس ہوتا ہے وہیں یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ موصوف اس افسانچہ کے بارے میں کافی ،حساس، بھی واقع ہوئے ہیں اور اس صنف کے بارے میں ان کو یقین ہے کہ ،یہ اردو ادب کا نام فخر سے بلند کرنے والی ہے اور اگلا دور بھی اسی کاہے،اور اس حوالے سے ان کے پاس زبردست،مضبوط اور شاندار دلائل بھی ہیں ،اسی لیے خاکسار نے ان سے اس بارے تفصیل سے گفتگو کی ،جو کہ یہاں پیشِ خدمت ہے۔
س(۱): پہلے تو اپنے بارے میں کچھ بتائیے؟
ج: میرے آباؤ اجداد جالندھر سے ہجرت کر کے۱۹۷۰ء کسان کانفرنس اور منٹو کے بڑے افسانے کی وجہ سے مشہور قصبے ٹوبہ ٹیک سنگھ میں آباد ہوئے۔ جہاں میں ۷ ستمبر ۱۹۴۹ء کو پیدا ہوا۔ لیکن زیادہ عرصہ صوبۂ بلوچستان میں گذارا کیونکہ وہاں میر ے والد سید اقبال محمود گیلانی محکمہ صحت میں ملازمت کے سلسلہ میں مقیم تھے۔ میرا بچپن کوئٹہ سے ۲۰۶ میل دور شہر فورٹ سنڈیمن (موجودہ ژوب) میں گذرا۔ یاد رہے کہ اردو ادب کے مایۂ ناز مصنف گوپی چندتارنگ کے بچپن کا کچھ حصہ بھی فورٹ سنڈیمن میں بسر ہوا ہے۔ اُس کے بعد میری زندگی کا سب سے اہم شہر کوئٹہ ہے۔ کوئٹہ کے بعد لاہورمیری محبت ہے جہاں سے ۱۹۷۳ء میں میں نے ایم ایس ۔سی کی ۔ بلوچستان کے محکمہ تعلیم میں بطور لیکچررپروفیسر اور پرنسپل کی حیثیت سے تعینات رہا۔۹۶۔۱۹۹۲ء کے عرصہ میں برطانیہ شہر کارڈ ف میں یونیورسٹی آف ویلزسے میں نے فزیکل کیمسٹری میں پی۔ ایچ۔ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ ۲۰۰۹ء میں بحیثیت پروفیسر آف کیمسٹری ریٹائر ہوا۔
۱۹۹۸ء میں میری کتاب بلوچستان کا تعلیمی المیہ شائع ہوئی۔ اس کے علاوہ شاعری میں ’’محبت نامہ‘‘ اور افسانچوں کی کتاب ’سچائیاں‘ چھپ چکی ہیں۔
س(۲): سائنس میں کیمسٹری جیسے خشک مضمون کے استاد رہے،لیکن ادب کی طرف رجحان بھی رہا اور خوب رہا، اس کی کیا وجہ ہے؟
ج: یہ سوال مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے ۔ ابنِ عاصی بھائی! میرے محنتی پن ،ذہانت ،واقعات و حالات نے مجھے سائنس کا طالب علم بنا دیا۔ مگر میں بچپن ہی میں بچوں کے مشہو رسائل پڑھنے لگا تھا اور مطالعے کی یہ عادت مجھے اردو و اور عالمی ادب کی جانب لے آئی۔ کیمسٹری میرے روزگار کا ذریعہ بنا جبکہ ادب میری روح اور زندگی کا۔ بالکل مشہور افسانہ نگار انتونی چیخوف کی مانند جو پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر تھا لیکن اُسے شہرت بطور ادیب و افسانہ نگار ملی۔ بے یک وقت سائنس اور ادب کے مطالعے نے میری سوچ کے کینوس کو وسعت دی اور زندگی کو سمجھنے کے سلسلے میں بہترین وژن دیا۔
س(۳):شاعری کی نئی سے نئی کتابیں آ رہی ہیں لیکن دیکھا جا رہا ہے کہ کوئی اعلیٰ پائے کی کتاب سامنے نہیں آ رہی ہے، اس کی کیا وجہ ہے۔۔۔؟ لکھنے والوں میں کوئی کمی ہے یا سمجھنے اور پڑھنے والوں کا ذوق وہ نہیں رہا ہے؟
ج: آج کل شاعری محض ردیف کا قافیہ پیمائی بن کے رہ گئی ہے۔ لوگ شاعر بن کر راتوں رات شہرت حاصل کر لینا چاہتے ہیں۔ شاعرکے معیار میں کمی کی ایک وجہ بیرونِ ملک مقیم حضرات بھی اس جو دولت کے ذریعے شاعری خرید کر شاعر بن جاتے ہیں۔ اِسی طرح کافی لوگ شاعر نہ ہوتے ہوئے بھی شاعر بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ ایک بحث طلب موضوع ہے۔ اس پر مفصل بات پھر کبھی سہی۔ میری اولین شاعری کی کتاب ’محبت نامہ‘ ہے۔ لیکن اب میری زیادہ توجہ نثر نگاری کی طرف ہے۔ ملک میں شاعر بڑھ رہے ہیں اور نثر نگار کم ہو رہے ہیں۔یہ ایک بڑا المیہ ہے۔
س(۴):آپ نے اب افسانچہ لکھنا شروع کر دیا ہے، اس کا تو کوئی ایک نام بھی طے نہیں ہوسکا ہے ابھی تک، کوئی افسانچہ کہہ رہا ہے اور کوئی پوپ کہانی، یک سطری کہانی، شارٹ سٹوری، مختصر افسانہ، نکی کہانی، نثر پارہ ، منی کہانی اور کوئی کچھ اور نام دے رہا ہے، ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ اس کے نام پر لکھنے والے ابھی تک متفق کیوں نہیں ہو پا رہے ہیں؟
ج: افسانچہ اکثریت کا متفق علیہ نام ہے۔ جو کہ اردو ادب میں ہی شناخت بنا چکا ہے۔ کئی مشہور ادبی پرچے مثلاً شاعر بمبئی، اسباق لکھنو، انشاء کلکتہ افسانہ نمبر شائع کر چکے ہیں اور اب تک افسانچوں کی ساٹھ ستر کتب شائع ہو چکی ہیں۔ زیادہ تر تو بھارت سے شائع ہوئی ہیں۔ کچھ دوستوں نے اپنی ذاتی انفرادیت اور توجہ حاصل کرنے کے لیے افسانچہ کو کئی نام دے دیئے ہیں۔ مگر وہ قبولیت حاصل نہیں کر سکے۔ چھوٹی چھوٹی کہانیوں کو بڑے افسانہ نگار جو گندر پال (جن کا حال میں انتقال ہوا ہے) کا دیا ہوا خوبصورت نام افسانچہ ہی جچتا ہے۔ باقی سب انفرادی نام ہیں جو زیادہ دیر تک اپنا وجود قائم نہیں رکھ سکیں گے۔ ہم اردو ادب والے مغربی ادب والوں سے خوش قسمت ہیں کہ افسانچے کے نام پہ اکثریت متفق ہے۔ البتہ مغرب میں اب تک اس صنف کو کوئی ایک نام نہیں دیا جا سکا۔
س(۵):ہم یہ بھی محسوس کر رہے ہیں کہ اہلِ ادب کا ایک حلقہ افسانچہ کو کسی طور پر بھی قبول کرنے پر آمادہ دکھائی نہیں دے رہا ہے ان کے نزدیک افسانچہ ادب کی بعض بنیادوں کو نقصان پہنچا رہا ہے اور ان کا، کینوس محدود، کر رہا ہے۔۔۔؟ کیا واقعی ایسا ہو رہا ہے۔۔۔؟
ج: نہیں! بالکل نہیں۔ افسانچے میں بڑی وسعت ہے یہ تو سمندر یا دریا کو کوزے میں بند کرنے کا عمل ہے۔ کہ اس کوزے میں بند کہانیاں باہر آنے پر دوبارہ دریا یا سمندر کا روپ دھار لیتی ہیں۔ افسانچہ ادب کو فروغ دے رہا ہے۔ اور اس کے لامحدود امکانات ہیں۔ ہر نئے آنے والے دن افسانچہ مقبول سے مقبول تر ہو رہا ہے۔ آج کل تو سوشل میڈیا پر نوجوان بہت اچھے افسانچے تحریر کر رہے ہیں۔
س(۶): آپ کے نزدیک افسانچہ کی تعریف کیا ہے۔۔۔؟ اس کی حدود کاتعین کیسے کر یں گے۔۔۔؟ مطلب یہ کہ یہ کم از کم کتنے لفظوں پر مشتمل ہونا چاہیئے۔۔۔؟
ج: کم سے کم الفاظ میں کہانی لکھنے کا عمل افسانچہ نگاری ہے ۔اسے لفظوں میں محدود نہیں کیا سکتا۔ کچھ حضرات کہتے ہیں کہ لفظ افسانچہ میں کل سات حروف ہیں اس لیے اچھا افسانچہ صرف سات سطروں کا ہونا چاہیئے۔ کئی حضرات ایک یا دوسطری کہانی کو افسانچے سے خارج سمجھتے ہیں۔ میرے نزدیک وہ افسانچہ مکمل ہے جسے قاری دوچار منٹ میں پڑھ لے لیکن وہ کہانی ایک اچھے شعر کی مانند قاری کے دل و دماغ پہ نقش ہو جائے۔ وہ ایک کامیاب افسانچہ ہے۔ ناول ،کہانی، افسانے یا افسانچے کو الفاظ کی تعداد میں قید نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ افسانچے کے لیے اختصار بنیادی شرط ہے۔ بقول شیکسپیئر "Brovity is soul of wit” یعنی اختصاری خرد کی روح ہے۔
س(۷):آپ کے خیال میں کس علاقے میں افسانچہ زیادہ اچھا لکھا جا رہا ہے۔۔۔؟
ج: بھارت میں ،خاص کر وہاں کے صوبہ مہاراشٹر میں جس کی ایک وجہ جو گندر پال کا بحیثیت پروفیسر اورنگ آباد میں قیام بھی ہے۔
س(۸):آپ کی کتاب سے تاثر مل رہا ہے کہ پاکستان میں اس صنف کی طرف زیادہ توجہ نہیں ہے لوگوں کی، اس کی کیا وجہ ہے۔۔۔؟
ج: یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ پاکستان میں بیانیہ اور علامتی افسانے کے علاوہ لکھاریوں نے اس طرف زیادہ توجہ نہیں دی۔ جس کی ایک بڑی وجہ ادبی رسائل کے مدیر حضرات کی عدم توجہ ہے جن کے بقول ہم نے کبھی افسانچے چھاپنے کا تجربہ ہی نہیں کیا۔اور معذرت کے ساتھ دوسری وجہ افسانہ نگاروں کا لکیر کے فقیرہونا اور نئے تجربات سے کنی کترانا ہے۔
بھارت میں فلمی نیم فلمی و ادبی پرچوں نے اِسے بہت مقبول بنایا ہے۔وہاں تو مشاعروں کی طرح افسانچہ خوانی کے اجلاس بھی ہوتے ہیں جن میں افسانچے پڑھ کر سنائے جاتے ہیں اور اچھے افسانچہ نگاروں کو باقاعدہ شاعروں کی طرح داد ملتی ہے۔
ابن عاصی صاحب !یقین کیجئے پاکستان میں اگلا دور افسانچے کا ہی ہے۔
س(۹): دنیا میں ، شارٹ اسٹوری، کو کتنا سراہا جا رہا ہے اس کی مثال ، لڈیا ڈیوس، کو بکرپرائز ۲۰۱۳ء دیا جانا ہے کیاآپ سمجھتے ہیں کہ ہمارے ہاں بھی اس صنف کو پذیرائی مل سکتی ہے آنے والے وقتوں میں۔۔۔؟
ج: بالکل ملے گی کہ عالمی رجحان ہی اس طرف ہے زندگی مصروف ہوگئی ہے۔ لوگوں کے پاس وقت نہیں۔ لوگ ایس ایم ایس کی طرح کم سے کم لفظوں میں بات کرنا ، پڑھا اور سننا چاہتے ہیں۔ میرے وقت کا تقاضا ہی مختصر نو یسی ہے۔
س(۱۰):آپ افسانچہ کی کس کتاب کو سب سے اعلیٰ، معیاری، زبردست اور متاثر کن قرار دیں گے؟ یار لوگوں نے حکایتِ سعدی، خلیل جبران کے اقوال اور دیگر ایسی کئی چیزوں کو افسانچہ کہنا شروع کر رکھا ہے، آپ کے خیال میں یہ روش ٹھیک ہے۔۔۔؟
ج: چوگندر پال کی ’پرندے‘ ،بشیر مالیر کوٹلوی کی ’جگنو شہر‘ پاکستان میں عباس خان کی کتاب ’پل پل‘ قابل ذکر ہیں باقی رہی بات حکایتِ سعدی اور خلیل جبران وغیرہ کے اقوال کی ،تومیرے ذاتی خیال میںیہ بالکل درست ہے۔ افسانچہ حکایت کی ہی ترقی یافتہ شکل ہے۔ کافکا اور بورخیس نے بھی مختصر ترین کہانیاں یعنی افسانچے لکھے ہیں۔ کچھ حضرات لطیفے کو بھی افسانچہ کہتے ہیں جو غلط ہے۔ مولانا رومی نے مثنوی میں حکایت نما افسانچے ہی تو لکھے ہیں!
س(۱۱): افسانچے کے لئے سب سے بہترین موضوع ان دنوں کیا ہے؟
ج: افسانچے کو موضوع میں قید نہیں کیا جا سکتا۔ معاشی، معاشرتی، نفسیاتی، فلسفیانہ سائنسی روحانی کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ افسانچہ زندگی سے ہی کو کشید کہاجاتا ہے۔
س(۱۲): آپ کو کہا جائے کہ، آپ اس صنف کا کوئی ایک نام رکھ دیں یا تجویز کر دیں تو کس نام پر آپ کی نگاہِ انتخاب ٹھہرے گی۔۔۔؟
ج: افسانچہ۔۔۔ افسانچہ۔۔۔ اور صرف افسانچہ
س(۱۳):پاکستان میں اردو اخبارات نے ۱۰۰ لفظوں کی کہانی، اور، آج کی کہانی، کے نام سے روزانہ کی بنیاد پر، افسانچے سے ، شائع کرنے کی روایت ڈالی ہوئی ہے، کچھ لوگوں کا اعتراض ہے کہ ، واقعاتی بنیادوں ، پر لکھے جانے والے ان کہانیوں کا معیار وہ نہیں ہے جو کہ ہونا چاہیے تھا‘‘ اس بارے آپ کی کیا رائے ہے۔۔۔؟
ج: اخبارات میں چھپنے والا سب کچھ ادب نہیں ہوتا میں نے پہلے بھی عرض کیا ہے کہ افسانے اور افسانچے کو الفاظ میں قید نہیں کیا جا سکتا۔ ۱۰۰ لفظوں کی کہانی کو مبشر علی زیدی نے رواج دیا ہے۔ شاعری کی زود گوئی اور مختصرکہانی میں کثرت نویسی سے اس کا معیار برقرار نہیں رکھاجا سکتا۔ ویسے بھی خالص صحافتی تحریر ادبی تحریر کا درجہ حاصل نہیں کر سکتی۔ بہرحال ان کہانیوں نے مختصر نویسی یا افسانچے کوفروغ دیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں بالواسطہ طور پر یہ افسانچے کی خدمت ہے۔
س(۱۴):مقصود الٰہی شیخ کے دیئے گئے نام، پوپ کہانی، (جو کہ، پاپولر کہانی، سے نکلا ہے) پر بڑی لے دے ہو رہی ہے وہ اس نام کے بانی ہونے کی وجہ سے سنا ہے اس صنف کے بھی، بانی، ہونے کے دعوے کر رہے ہیں۔۔۔ کیا کہیں گے اس بارے۔۔۔؟
ج: پوپ کہانی سینئر افسانہ نگار اور جناب مقصود الٰہی شیخ کا انفرادی تجربہ اور نام ہے۔ میں نے تقریباً اُن کی ساری پوپ کہانیاں پڑھی ہیں۔ اور وہ قاری کی توجہ حاصل نہیں کر پاتیں ۔ پوپ کہانی کا لفظ اور تجربہ اور نام مقصود الٰہی شیخ کے ساتھ ہی زندہ ہے ۔ پوپ کہانی کا مستقبل انتہائی تاریک ہے۔بانی ہونے کا دعویٰ کسی اچھے کام کے بارے میں کرنا چاہیے۔۔۔؟
س(۱۵):اردو میں کن افسانچہ نگاروں کا کام سراہے جانے کے لائق ہے۔۔۔؟
ج: پاکستان میں ابنِ عاصی اورعباس خان ،نیلم احمد بشیر، حسن نثار، ہندوستان میں جوگندر پال، بشیر مالیر کوٹلوی ، عظیم راہی، نواب رونق جمال، اسلم جمشید پوری، مناظرعاشق ہرگانوی، ایم ۔ اے حق ف۔ س اعجاز نے بہت اچھے افسانچے لکھے ہیں۔ خاص کر عظیم راہی نے تو افسانچہ نگاری میں پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کی ہے۔
س(۱۶) :آپ کی نئی کتاب کون سی آ رہی ہے۔۔۔؟
ج: انشاء اللہ جلدہی میری افسانچوں کی کتاب ’’روشنیاں‘‘ انشائیوں کی کتاب ’لفظانے‘ اور طنز و مزاح کی کتاب ’’شگفتہ شگفتہ‘‘ شائع رہی ہیں۔ آج کل کوئٹہ کی یاداشتوں پہ ایک کتاب ’’کوئٹہ ۔۔۔ ایک شہر خوباں ‘‘ تحریر کر رہا ہوں۔
ابنِ عاصی صاحب آخر میں آپ کا بہت بہت شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے اِس انٹرویو کے ذریعے افسانچے کے بارے چند باتیں کہنے کا موقع فراہم کیا اور چنداہم سوالات اُٹھا کر افسانچہ نگاری کے فروغ میں مدد فراہم کی۔ شکریہ
ٰIbne Aasi