افسانوی مجموعہ: ذہن کی جھیل پہ اُبھرے ہیں کنول ۔ ۔ ۔ مبصر: ڈاکٹرعزیزسہیل

Share

مجوعہ Short

افسانوی مجموعہ : ذہن کی جھیل پہ اُبھرے ہیں کنول
افسانہ نگار : عاصمہ خلیل

مبصر: ڈاکٹرعزیز سہیل،
لیکچرار ایم وی ایس ڈگری کالج، محبوب نگر

ُُُُافسانہ کے فن سے متعلق کہا گیا کہ’’افسانہ ایک ایسی فکری داستان کو کہتے ہیں جس میں ایک خاص کردار، ایک خاص واقعہ، ایک تجربے یا ایک تاثر کی وضاحت کی گئی ہو۔ نیز اس کے پلاٹ کی تفصیل اس قدر منظم طریقے سے بیان کی گئی ہو کہ اس سے تاثر کی وحدت نمایاں ہو۔‘‘

اردوادب کا میدان کافی وسیع ہے اور اس کے اصناف بھی اہمیت کی حامل ہیں۔ بیسویں صدی میں ترقی پسند تحریک نے اردو ادب کو نئے اصناف سے روشناس کروایا جن میں افسانہ نگاری‘ رپوتاژنگاری اورآزاد نظم شامل ہیں۔ عصر حاضر میں ٹکنالوجی کے فروغ نے ہر چیز کومتاثر کیا ہے۔ ہمارا ادب بھی ٹکنالوجی کے اثرات سے متاثر ہے لیکن جہاں متاثر ہے وہیں اردو ادب میں نئی تبدیلیاں واقع ہوتی رہے ہیں اور اردو زبان وادب کو ٹکنالوجی کی مدد سے فروغ حاصل ہورہا ہے۔ مصروفیت کے اس دور میں لوگوں کے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ لوگ مطالعہ کے لئے زیادہ سے زیادہ وقت نکال پائیں لیکن پھر بھی بہت سے افراد ایسے ہیں جو مطالعہ کے ذریعہ اپنی معلومات میں اضافہ کرناچاہتے ہیں اورمطالعہ سے وہ سکون حاصل کرتے ہیں۔ افسانے کی صنف میں بھی تبدیلیاںں واقع ہوئی ہیں اب منی افسانچہ اور مختصر افسانوں کا چلن عام ہو رہا ہے۔جہاں ادب کے میدان میں مرد حضرات کاغلبہ ہے وہیں خواتین بھی ادب کے میدان میں کسی سے کم نہیں ہیں اگر سچ پوچھئے توخو اتین مرد حضرات سے زیادہ علم کے میدان میں کامیابیاں حاصل کررہی ہیں ۔حیدرآباد کے قلم کاروں میں شامل ایک ایسی ہی خاتون افسانہ نگار عاصمہ خلیل بھی ہیں جن کا تیسرا افسانوی مجموعہ ’’ذہن کی جھیل پہ اُبھرے ہیں کنول‘‘کے عنوان سے منظرعام پر آیا ہے۔ اس سے قبل ان کے دو افسانوی مجموعہ’’وہ جسے کہ دل کہیں‘‘مئی 2012ء اور’’اِک فقط دِل کے سوا ‘‘مارچ 2014ء میں شائع ہوکر ادبی حلقوں میں مقبول ہو چکے ہیں۔
اس افسانوی مجموعہ کے ابتداء میں استاد شاعر مسرورؔ عابدی ‘ نادرؔ المسدوسی ‘ یوسف روشؔ کے قطعات شامل ہیں ۔مسرور ؔ عابدی کا قطعہ ملاحظہ ہو جس منفرد شعری انداز میں انہوں نے عاصمہ خلیل کے اس افسانوی مجموعہ کو تہنیت پیش کی ہے ۔
جیسے ہی جل اٹھا فانوسِ غزل پڑگئے چاند کی پیشانی میں بل
عاصمہ اوڑھ کے پوشاکِ نظر ذہن کی جھیل پہ ابھرے ہیں کنول
عاصمہ خلیل کے افسانوی مجموعہ کا پیش لفظ’’رائے گرامی‘‘ کے عنوان سے مشہور افسانہ نگار محترم سیداجمل محسن ایڈوکیٹ ورنگل نے رقم کیا ہے۔ جس میں انہوں نے عاصمہ خلیل کی افسانہ نگاری کا جائزہ لیا ہے اور انہیں ایک بہترین افسانہ نگار قراردیا ہے وہ لکھتے ہیں۔’’ عاصمہ خلیل صاحبہ ایک حساس دل اور سوجھ بوجھ والی فکر کی مالک ہیں۔ مزاج بہت ناز ہے ۔ ذرا سی مخالف بات پر دنوں تک اُداس رہتی ہیں لیکن ان کی ایک خوبی یہ ہے کہ دوست اوردشمن کی پہچان اچھی ہے ۔سینئرس کی بہت عزت کرتی ہیں ۔رائے دل کو لگے تو قبول کرلیتی ہیں ۔کہانیوں کا موضوع آج بھی عشق ومحبت ہی ہے لیکن موضوع اور پلاٹ کے انتخاب کا دائرہ وسعت اختیار کرگیا ہے۔ ایک مخصوص طبقہ سے نکل کر معاشرہ کے مختلف طبقوں میں جھانکنے لگی ہیں ۔معاشرہ کے سلگتے مسائل کوبھی موضوع کہانی بنانا اور فکر اور قلم کی خُو میں نمایاں نظرآنے لگا ہے۔ محل وبنگلوں سے نکل کر کویلی‘ کپھریل کے مکانوں‘ گھانس پھونس جھونپڑیوں کی خبر گری کرتی نظرآئیں ۔اپنے اس تیسرے افسانوی مجموعہ ’’ذہن کی جھیل پہ اُبھرے ہیں کنول‘‘ اس مجموعہ میں شامل 14کہانیاں یقیناًبہت دلچسپ ہیں۔‘‘
اس افسانوی مجموعہ میں اظہار خیال کے عنوان سے عاصمہ خلیل صاحبہ نے اپنی بات پیش کی ہے اور اپنے افسانوی مجموعہ سے متعلق لکھتی ہیں کہ ’’افسانوں کے مجموعہ کا نام افسانہ نگار کی گہری فکر‘ تجر بات‘ مشاہدات اوراحساسات کے نمائندہ کا ارتکاز ہوتا ہے۔ میرے افسانے قریب قریب سچائی پرمبنی ہے ۔یہ کہہ سکتی ہوں کہ سچائی کومحسوس کروانے کی جرت رکھتی ہوں میں ! میں نے اپنے افسانوی مجموعے اس لئے شائع نہیں کروائے کہ مجھے شہرت درکار ہے بلکہ محض اس لئے شائع کروائے کہ مجھے اردو سے بہت پیار ہے اورمیں اردو کوپھلتے پھولتے دیکھنا چاہتی ہوں‘‘۔
اس افسانوی مجموعہ میں عاصمہ خلیل صاحبہ نے 14افسانوں کو شامل کیا ہے۔ جن کے عنوانات اس طرح سے ہیں ۔نمود سحر‘ پھر مجھے دیدۂ تریاد آیا‘ وہ سرخ وہری چوڑیاں‘ رزم گاہ ‘ رجنیؔ مائی‘ عطائے لا قیمت‘ نئی سحر کا نیا آفتاب‘ بھیگی پلکیں‘ دید کی پیاسی آنکھیں‘ رزلٹ‘ تجھے کھودیا ہم نے پانے کے بعد‘ وہ اپنا ظرف بتاگئے‘ شکست خوردگی کا الاؤ اور اک تری تمنا ۔
’’نمود سحر‘‘ کے عنوان سے شامل افسانہ میں انہوں نے ایک بزنس میان کی غیرمسلم لڑکی سے شادی ،ماں کی نہ فرمانی ،ماں کے خدشات اور بچوں کی فکر،تلخ واقعات زندگی کا بکھرنا اور آخر میں جوڑ جاناسے متعلق بہت ہی اچھا نقشہ پیش کیا ہے۔ دوران افسانہ ان کے اسلوب کامشاہدہ فرمائیں۔ ’ ’ماں جائے نماز پربیٹھی زار زار رو کر اپنے خدا سے اپنے بیٹے اوراپنے لئے صبر آزما لمحہ کے لئے نئی سانسیں مانگ رہی تھی کہ بچے دھوتی باندھے لہنگا پہنے۔۔پیشانیوں پر تلک لگائے وارد ہوں گے ۔۔۔۔تو ۔۔۔۔کیا ہوگا؟
ایک قیمت صغریٰ ٹوٹ پڑے گی ۔۔۔۔ہم پر ! !
ہال میں گھڑیال نے اِدھر ٹن ٹن آٹھ بجائے۔۔۔۔ اُدھر کال بیل چیخ اٹھی ۔۔۔۔
میں پہلی منزل سے دوچار سیڑھیاں پھلانگتا ہوا آیا تو ماں کو روتے ہوئے کھڑاپایا۔
بے ساختہ میں نے اپنی ماں سے لپیٹ گیا اور بولا:
ماں ۔اللہ بڑا رحیم ہے ۔۔۔۔ہم نے بے تحاشہ دعائیں مانگی ہیں۔۔۔۔
کیونکہ جوبھی مانگنا ہے وہ اُسی سے مانگنا ہے ۔۔۔۔
ہمت سے رہنا ہے جوبھی نتیجہ نکلے گا ۔۔۔۔
وہ ہماری تقدیر کالکھا ہوگا۔
زیر نظر افسانوی مجموعہ کے دیگر افسانوں میں عاصمہ خلیل نے لوازم افسانہ موضوع،پلاٹ،کردار،مکالمہ،ٹکنیک،منظرنگاری،اسلوب زبان وبیان پر خصوصی طورپرتوجہہ کے ذریعہ اپنے افسانوں میں فن کے میعارکو قائم رکھا ہے اور اپنے آپ کوایک اچھے افسانہ نگار کے طورپر پیش کیا ہے۔ان کے افسانے سماجی مسائل کے حل کیلئے بہت کار آمد ہے۔ان کی فکر اور خیال اصلاحی ہے اور وہ اپنے افسانوں سے قارئین کو اچھی فکر اور بہتر خیالات کی دعوت فکر دئے رہی ہیں۔میں اس خوبصورت افسانوی مجموعہ کی اشاعت پر محترمہ عاصمہ خلیل صاحبہ کو مبارک باد پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے سماج کے سلگتے ہوئے مسائل کو اپنے ان افسانوں میں اجاگرکیا ہے۔ وہ ایک بہترین افسانہ نگارہیں ۔امید کہ وہ مزید افسانوی مجموعوں سے اردو ادب میں تعمیری فکر کو پروان چڑھائیں گی اور خاتون قلمکاروں میں اپنی انفرادیت و مقبولیت کو ثابت کریں گی۔
یہ افسانوی مجموعہ تلنگانہ اردو اکیڈیمی کے جزوی مالی اعانت سے شائع ہو ا ہے۔ عاصمہ خلیل صاحبہ نے اس افسانوی مجموعہ کا انتساب اپنے شوہر سیدخلیل اللہ قادری مرحوم اور اپنی بیٹیوں‘نواسوں ‘نواسیوں کے نام معنون کیا ہے۔140صفحات پرمشتمل خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ اس مجموعہ کی قیمت150روپئے رکھی گئی ہے جو ڈائمنڈ بک ڈپو نامپلی حیدرآباد یا ھدی بک ڈپوپرانی حویلی سے حاصل کی جاسکتی ہے۔

Dr.Azeez Suhail
suhail

Share
Share
Share