کتاب : نکات وجہات ۔ مصنف : احمد علی جوہر۔ ۔ ۔ ایک کتاب دوتبصرے

Share

nikat نکات
ایک کتاب دو تبصرے

نامِ کتاب: نکات و جہات
مصنف:احمد علی جوہر

پہلا تبصرہ :
تبصرہ نگار:عبدا لرزاق زیادی ،
121، چندربھاگا ہاسٹل، جواہر لال نہرو یو نیور سٹی، نئی دہلی۔67

اردو کے علمی و ادبی حلقے میں احمد علی جوہر کا نام محتاج تعارف نہیں۔آئے دن ان کی تحریریں مختلف رسائل و جرائد اور اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہیں۔ کچھ مہینے قبل ا ن کی ایک بڑی اہم کتاب ’’طارق چھتاری:فکروفن‘‘ کے نام سے بھی شائع ہوچکی ہے ۔ کتاب کے منظرِ عام پر آتے ہی اسے قارئین نے ہاتھوں ہاتھ لیااوراس کی بدولت انھیں حد درجہ مقبولیت بھی ملی۔ اس کی اشاعت پرنہ صر ف قارئین کی طرف سے انھیں وافر مقدار میں دادو تحسین ملی بلکہ ان کی اس کوشش کے اعتراف میں بہار اردو اکادمی نے انھیں وہاب اشرفی ایوارڈ سے بھی نوازا۔

زیر تبصرہ کتاب’’نکات وجہات‘‘احمد علی جو ہر کی تازہ ترین تصنیف ہے۔ یہ کتاب در اصل ان کے ان مطبوعہ و غیر مطبوعہ مضامین کا مجموعہ ہے جو وقتافوقتاان کے رشحات قلم سے نکلتے رہے اور ملک کے مختلف رسائل و جرائد میں شائع ہوتے رہے ۔ اس میں کل تیرہ تحقیقی و تنقیدی مضامین شامل ہیں۔ مقدمے کے علاوہ کتاب تین حصوںیعنی باب فکشن، باب شاعری اور متفرقات پر منقسم ہے۔بابِ فکش کے ذیل میں مصنف نے صنف افسانہ اور اس کا ارتقا، دیوندر اسر اور ان کی افسانہ نگاری، انسانیت کا نوحہ گر افسانہ نگار: اقبال متین، ہم عصر اردو افسانے میں حاشیائی کرداروں کی عکاسی، ’چراغِ تہہ داماں‘: فکری و فنی جائزہ اور ’کھوکھلا پہیا‘ : تجزیاتی مطالعہ جیسے اہم مضامین رکھے ہیں ۔ ان مضامین کے مطالعے سے مصنف کی فکشن شناسی اور اس سے متعلق ا ن کی گہرائی و گیرائی کا اندازہ لگانا قطعاََ مشکل نہیں۔اس کے لیے وہ سب سے پہلے متن کا براہ راست مطالعہ کرتے ہیں اور پھر جب تک وہ کسی نتیجے پر نہیں پہنچ جاتے ہیں تب تک وہ اپنی بات صفحہء قرطاس کے حوالے نہیں کرتے ہیں۔
چونکہ مصنف کا تحقیقی میدان مختصر افسانہ ہے اس لیے انھو ں نے اپنی اس کتاب میں صنف افسانہ اور اس کے رموز و نکات سے بحث کرتے ہوئے ان تخلیق کاروں پر اپنا مطالعہ پیش کیا ہے جن کی طرف قدین نے ابھی تک کم ہی توجہ دی ہے حالانکہ ان کا شمار اس عہد کے ممتاز افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے ۔ دیوندر اسر،اقبال متین او ر طارق چھتاری بلاشبہ ہمارے عہد کے اہم نام ہیں ۔مذکورہ بالا مضامین میں مصنف نے انھیں کو اپنا موضوع بنایا ہے اور بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ ان کے فکری و فنی امتیاز ات کو سامنے لانے کی کوشش کی ہے۔فکشن کے ذیل میں آ نے والے مضامین میں ’ہم عصر اردو افسانے میں حاشیائی کرداروں کی عکاسی‘ میں مصنف نے اردو افسانے کے حاشیائی کر داروں پر جس تفصیل سے گفتگو کی ہے وہ واقعی قابل تحسین ہے۔
بابِ شاعری کے ضمن میں موجود تمام تر مضامین جیسے پرویز شاہدی کی غزلیہ شاعری، احمد فراز کی شاعری میں انسانی عظمتوں کا شعور، میراجی اورپروین شاکر کی شاعری اپنی اپنی معنویت کے لحاظ سے بڑے اہم ہیں۔ان مضامین میں مصنف نے ان شعرا کے یہاں موجود فکری وفنی خوبیوں کو سامنے رکھتے ہوئے ان کی شاعرانہ مرتبت و عظمت کا تعین کیاہے۔میراجی ہو،پرویز شاہدی ہو یا پھر احمد فراز ان تمام کی شاعری پر ا نھو ں نے بڑی سنجیدگی کے ساتھ ا ظہار خیال کیا ہے ۔ پروین شاکر کی شاعری میں نسائی حسیت کا اظہار جس شد ومد کے ساتھ ہوا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ا س پہلو کو سامنے رکھتے ہوئے مصنف نے پروین شاکر کی شعری جہتوں کو تلاش کرنے کی ایک اچھی سعی کی ہے۔
زیر تبصرہ کتاب میں متفرقات کے تحت آنے والے مضامین دیدہ و ر محقق:پروفیسر حنیف نقوی، متن ،معنی اور تھیوری اور عرفان و ادراک: ایک جائزہ بھی بڑے اہم ہیں۔حنیف نقوی پر لکھے گئے مضمون کے شمول نے اس کتاب کی اہمیت و افادیت میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔آخرا لذکر دو مضامیں یعنی ’متن، معنی اورتھیوری‘ اور’ عرفان و ادراک: ایک جائزہ‘درا صل قدوس جاوید اور رئیس احمد کی کتابوں پر تبصراتی مضامین ہیں۔ ان میں مذکورہ بالامصنفین کی علمی و ادبی خدمات پر روشنی ڈالتے ہوئے مصنف نے ان کی ان دو کتابوں پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ اس طرح کتاب میں شامل تما م تر مضامین کے مطالعے سے جہاں ہمارے علم میں بہت سارے اضافے ہوتے ہیں وہیں ان سے صاحبِ کتاب کا ایک خاص تنقیدی نقطہء نظر بھی سامنے آتا ہے جو واقعی بہت ہی سنجیدہ، استدلالی اور توانا معلوم ہوتا ہے۔ کتاب کی طباعت حد درجہ عمدہ ، جاذب نظر اور دلکش ہے۔سر ورق بھی بہت ہی حسین ہے۔بیک سائڈ پرمصنف کا تعارفی خاکہ موجود ہے۔اس کے علاوہ ضخامت کے اعتبار سے کتاب کی قیمت بھی بے حد مناسب ہے۔
بہرحال بحیثیت مجموعی کتاب ’’ نکات وجہات ‘‘ احمد علی جوہر کی نہ صرف ایک غیر معمولی کاوش ہے بلکہ علمی و ادبی سرمائے میں ایک بیش بہا اضافہ بھی ہے۔ ادب کے ہر قاری کے لیے اس کا مطالعہ یقیناًبہت ہی مفید ثابت ہوگا۔کیونکہ اس کے مطالعے سے بہت سی ایسی علمی وادبی گتھیاں سلجھ جاتی ہیں جو کہ لائبریری کی کئی کتابوں کی ورق گردانی سے بھی نہیں حاصل ہو تا ۔امید کی جاتی ہے کہ مصنف کی سابقہ کوشش کی طرح اس کتاب کی بھی علمی و ادبی حلقے میں خاطر خواہ پذیرائی کی جائے گی اور ادب کے شائقین اسے بھی ہاتھوں ہاتھ لے کر مصنف کی حوصلہ افرائی فرمائیں گے۔
——

دوسرا تبصرہ :

مبصر: تبریز حسن جعفری
شعبۂ فارسی، جواہرلعل نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی۔
Mob: 9013877433

’’نکات و جہات‘‘ احمد علی جوہر کے تحقیقی وتنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے۔ اس میں باب فکشن کے تحت چھہ مضامین ، باب شاعری کے تحت چار مضامین اور متفرقات کے ذیل میں تین مضامین ہیں۔ کل تیرہ مضامین پر مشتمل یہ کتاب منفرد حیثیت رکھتی ہے۔ اس میں متن کے مطالعہ، اس سے معنی کشید کرنے اور اسے پیش کرنے کا جو طریقہ کار اختیار کیا گیا ہے، وہ خاصا دلچسپ ہے۔ ان مضامین میں سے کچھ مضامین کی نمایاں خوبی ہی یہی ہے کہ متن کو سامنے رکھ کر ایسی بامعنی اور دلچسپ بحث کی گئی ہے کہ قاری اس کو پڑھ کر متن کے کئی زاویوں سے روشناس ہوتا ہے اور ایک لطف وانبساط کی کیفیت محسوس کرتا ہے۔ کچھ مضامین میں گہرائی وگیرائی کی کمی کا بھی احساس ہوتا ہے۔ ایک نوجوان اسکالر سے بہت زیادہ گہرائی وگیرائی کی توقع شاید کی بھی نہیں جاسکتی۔ خاصی ریاضت وجانفشانی کے بعد ہی تحریر میں وہ پختگی پیدا ہوتی ہے جو ممتاز دانشوروں کا طُرّۂ امتیاز کہی جا سکتی ہے۔ ابھی مصنف عمر اور مطالعہ کی جس منزل میں ہیں، اس منزل پہ بھی انھوں نے جس تگ ودو سے کام لیا ہے اور جتنی محنت سے یہ تحریریں قلمبند کی ہیں، اس میں ان کی بالغ نظری صاف محسوس کی جاسکتی ہے اور ان کی دیدہ ریزی کا قائل ہونا پڑتا ہے۔ ان مضامین میں مصنف کے وُسعتِ مطالعہ کی جھلک نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔ کہیں کہیں تو مطالعہ کی گہرائی قاری کو چونکا دیتی ہے اور اس کی معلومات میں اضافہ کرنے کے ساتھ ساتھ مصنف کی بے پناہ تنقیدی بصیرت اور علمی ذہانت کا احساس دلاتی ہے۔ اس کتاب میں مصنف کا طریقہ کار غیر رسمی نظر آتا ہے۔ انھوں نے زیادہ تر تشنہ پہلوؤں پر مضامین لکھے ہیں۔ دیوندر اسّر، اقبال متین، پرویز شاہدی اور پروفیسر حنیف نقوی پر مضامین ایسے ہی مضامین کہے جاسکتے ہیں۔ ان اُدباء کو ناقدین اور اہلِ علم وادب نے خاطر خواہ توجّہ نہیں دی۔ مقامِ خوشی ہے کہ نئی نسل کے ایک ہونہار قاری نے اس جانب توجّہ دے کر خلا کو پُر کرنے کی مستحسن سعی کی ہے۔ ایک مضمون ہم عصراُردوافسانے میں حاشیائی کرداروں کی عکّاسی پر ہے۔ طویل ہونے کے باوجود خاصا دلچسپ اور نئے اندازِ نقد ونظر کا حامل ہے۔ احمدفراز، میراجی اور پروین شاکر کی شاعری پر بھی جدّت ونُدرت کے حامل، بصیرت افروز مضامین ہیں۔ ان مضامین میں مذکورہ شعراء کی شاعری میں ڈوب کر غوّاصی کرتے ہوئے ایک نئے جہانِ معانی کو سامنے لایا گیا ہے۔ پوری کتاب کے مطالعہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس میں نقد وتحقیق کے معیارووقار کو برقرار رکھنے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے۔ بات کہنے کا دلچسپ انداز بھی خاصا متاثرکن ہے۔ فکروبصیرت سے پُر مضامین پر مشتمل یہ کتاب اُردوادب میں خوشگوار اضافہ کاباعث ہے جو مصنف کی ذہانت وعلمیت کا غمّاز ہونے کے ساتھ ساتھ مستقبل میں ان کی سُنہری آمد اور اچھا کرگزرنے کے امکانات کا پتہ دیتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اہلِ علم وادب مصنف کی اس کاوش کو تحسین کی نظروں سے دیکھیں گے۔
۔ ۔ ۔ ۔
ضخامت:216صفحات
قیمت: 123روپئے
ملنے کا پتا: ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی

nikat

Share
Share
Share