وقت کا جہاد
مولانا سید احمد ومیض ندوی
Email:
Mob: 09440371335
نیٹ اور ای میل کے وسیع استعمال سے قبل جب سارا انحصار ڈاک نظام پر تھا تو بڑے شہروں میں جگہ جگہ پوسٹ باکسیس نصب کئے جاتے تھے جہاں سے خطوط اکٹھے کرکے اور انھیں چھانٹ کر ان کی منزل مقصود تک پہوجایا جاتا تھا، اس قسم کے پوسٹ باکسیس سے ہر شخص واقف ہے لیکن گذشتہ دنوں اردو کے ایک کثیر الاشاعت معروف روزنامہ میں نئے انداز کے باکسیس سے متعلق خبر پڑھ کر حیرت کی انتہا نہ رہی، خبر کچھ یوں تھی:
انڈیانا(امریکہ) میں اب ایسے غیر شادی شدہ والدین جن کو بچہ ہوگیا ہے اور وہ اسے پالنا نہیں چاہتے، بچے کو ڈراپ ان باکسیس میں ڈال سکتے ہیں، ڈراپ باکسیس کو کچھ اس طرح تیار کیا گیا ہے کہ اس میں ڈالے جانے والے نوزائدہ بچوں کا دم نہیں گھٹے گا، چوں کہ وہاں کلائمیٹ کنٹرول کا پورا پورا اہتمام ہوگا، جب جب کسی بچے کو باکس میں ڈالا جاتا ہے تو ایمرجنسی اسٹاف کو چوکس کردیا جاتا ہے اور وہ فوری طور پر بچہ حاصل کرلیتے ہیں، اس نوعیت کے پہلے ۱۱۰ باکسیس کی تنصیب کے اخراجات نائٹ آف کولمبس نامی تنظیم پوری کرے گی۔ (روزنامہ سیاست ۶؍مئی ۲۰۱۶ء)
بہت سے لوگوں کے لئے شاید اس خبر میں کوئی اچنبھے کی بات نہ ہو، اس لئے کہ مشرقی ممالک میں بھی بن بیاہی تعلقات قائم کرکے نوزائدہ بچوں کو کوڑے دانوں کی نذر کرنا اب معمول بنتا جارہا ہے، آئے دن اخبارت میں اس قسم کی خبریں شائع ہوتی رہتی ہیں کہ کچڑے کے کنڈی میں شیر خوار بچہ پڑا ہوا پایا گیا، لیکن مغربی تہذیب کے علمبرادا امریکہ اور دیگر یورپی ملکوں میں اب نوبت یہاں تک پہونچی اور اس قسم کے واقعات اس کثرت سے پیش آنے لگے کہ جگہ جگہ ڈراپ ان باکسس کی تنصیب نا گزیر ہوگئی ، حیرت اس پر نہیں کہ امریکن معاشرے میں پوسٹ باکسس کی طرح حرام بچوں کے لئے باکسس لگائے جانے لگے ہیں، حیرت ان اہل مشرق پر ہے جو غلاظت اور جنسی انارکی کے دہلیز پر کھڑی حیا باختہ اور انسانیت نا آشنا مغربی تہذیب کے نہ صرف دلدادہ ہیں بلکہ اس کی نقالی کو با عث فخر خیال کرتے ہیں، چنانچہ ایسے فریب خوردہ جاہلوں کے سبب مغربی تہذیب کی وہ ساری غلاظتیں جو مغربی معاشروں کے لئے سوہانِ روح بنی ہوئی ہیں ایک ایک کرکے مشرق میں عام ہوتی جاری ہیں، مغربی تہذیب کے ماضی اور اس کے حال کا جائزہ لیا جائے تو وہ ایک خونخوار ظلم وبربریت کی خوگر، خدا نا آشنا، جنس زدہ کرم خوردہ اخلاقی قدروں سے عاری عریانیت وفحاشی کی علمبردار ایک ایسی تہذیب ہے جس کی بنیاد خود غرضی ومفاد پرستی پر رکھی گئی ہے، جس کا خمیر اباحیت وعریانیت سے اٹھا ہے اور معدہ اور مادہ کی پرستش جس کے رگ وریشہ میں پیوست ہے جس کے علمبردار سب سے زیادہ انسانی حقوق کی راگ الاپتے ہیں، لیکن پوری دنیا میں حقوق انسانی کو پیروں تلے وہی روندتے ہیں، ذرا مغربی تہذیب کے ماضی کی طرف آیئے، انسانیت دشمن کارناموں سے صفحات کے صفحات سیاہ نظر آئیں گے،اہل مغرب اسلام پر غلامی کی حوصلہ افزائی کا ا لزام دیتے ہیں، لیکن غلاموں کے حوالہ سے خود مغربی تہذیب کا دامن کس قدر داغدار ہے اس کی تفصیلات کے تصور ہی ہے بدن پر کپکپی طاری ہونے لگتی ہے،عہد قدیم کی سب سے متمدن کہلانے والی مملکت یونان میں غلاموں کی تعداد آزاد لوگوں سے بڑھ گئی تھی،اس لئے کہ وہاں پر پیشہ ور اور محنت ومزودوی کرنے والے کو غلام شمار کیا جاتا تھا،یونانی فلاسفہ کا استاذ الاساتذہ ارسطو کہتا تھا کہ غریب لوگ پیدائشی طور پر امراء کے غلام ہیں،یہ مملکت تین لاکھ اور ۹۰ ہزار آزاد شہریوں پر مشتمل تھی، قدیم یونانی تہذیب میں غلاموں کو قتل کردیا جاتا تھااور ان کا جنسی استحصال کرنا جرم نہیں سمجھا جاتا تھا،بسا ا وقات غلاموں کا اجتماعی قتل ہوتا تھا،لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی تھی،افلاطون جو انسانی اقدار کا یونانی معلم سمجھا جاتا ہے کے نزدیک غریب لوگ عام انسان نہیں بلکہ ان کی پیدائش غلامی اور مفلوک الحالی کے لئے ہوتی ہے،وہ اپنی معروف تصنیف ’’ری پبلک‘‘ میں لکھتے ہیں:
کچھ لوگوں میں حکمرانی کی صلاحیت ہے وہ سونے سے پیدا ہوئے ہیں، کچھ لوگوں میں ان سے تعاون کی صلاحیت ہے وہ چاندی سے پیدا ہوئے ہیں، کچھ لوگ کاشت کار اورہنرمند ہیں وہ پیتل اور لوہے سے پیدا ہوئے ہیں‘‘۔
یورپ کی دوسری بڑی تہذیب رومن تہذیب تھی جو سلطنت روما کے بطن سے پیدا ہوئی،رومی افواج جن علاقوں کو فتح کرلیتی تھیں وہاں کے باشندوں کو مکمل طور پر غلام بنالیا جاتا بلکہ رومی تہذیب نے افلاطون کا نظریہ اپنا لیا تھا،افلاطون کہتا تھا :
’’انصاف طاقتور کے مفاد کے سوا کچھ نہیں، دنیا میں ہر جگہ انصاف کا فقط ایک اصول ہے، اور و ہ ہے طاقتور کا مفاد، نیز غلاموں کو وہ سزا ملنی چاہئے جس کے وہ حقدار ہیں، اگر انھیں امراء کی طرح معمولی تنبیہ کی جائے گی تو ان کے دماغ خراب ہوجائیں گے‘‘۔
رومی تہذیب میں غلاموں کو سخت سزائیں دی جاتی تھیں، رات کے وقت انھیں زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا، ان کے سر کے نصف بال مونڈ دئے جاتے، تاکہ وہ فرار ہوں تو آسانی سے پہچان لئے جائیں، آقا کو اجازت تھی کہ سزا کے لئے غلاموں کو کوڑوں سے مارے، یا ان کے اعضاء کاٹ لے، چاہے تو قتل بھی کردے، جب آقا گھوڑے پر سوار ہوتا تو غلام ننگے پاؤں آگے آگے بھاگتے تھے، بعض اوقات آقا اپنے غلام کی پیٹھ پر بھی شوق سے سواری کرتے تھے، اور اس کی سست گامی پر اسے جانور کی طرح کوڑوں سے لہو لہان کردیتے تھے، رومی کسی علاقہ پر فتح حاصل کرتے تو بیشمار لوگوں کو غلام بنا کر فروخت کیا کرتے تھے، ایک مرتبہ رومی مملکت میں قیدیوں کی گنتی کی گئی تو چھ کروڑتھے، غلاموں کی اجتماعی اموات کی کوئی پرواہ نہیں کی جاتی تھی، سب سے روح فرسا وہ موقع ہوتا تھا، جب اجتماعی طور پر انسانوں اور درندوں کی باقاعدہ جنگ کرائی جاتی تھی، جو لیو گلیڈ خاندان جس نے روم پر کئی سو سال تک بادشاہت کی، اس نے اپنے دورِ حکمرانی میں گلیڈیٹر کے نام سے ایک وحشیانہ کھیل شروع کیا تھا، گلیڈیٹر ایسے قیدی اور غلام ہوتے تھے جنہیں پالتوکتوں کی طرح پالا اور پوساجاتا تھا، سالانہ فیسٹول کے لئے انہیں تیار کیا جاتا تھا، مقررہ وقت پر بڑے میدان میں تماش بیں لوگوں کا انبوہ جمع ہوتا بادشاہ موجود ہوتا اور ان قیدیوں اور غلاموں کو جنہیں طویل عرصہ سے سدھایا گیا ہوتا ، ہتھیاروں کے ساتھ میدان میں آنے کا حکم دیا جاتا، پھر ان پر ان وحشی درندوں کو چھوڑ دیا جاتا، جنہیں کئی دن سے بھوکا رکھا گیا ہوتا، شیر، چیتے، ریچھ ان پر ٹوٹ پڑتے، اور وہ گلیڈیٹر اپنے ہتھیاروں کے ساتھ بھوکے درندوں کا مقابلہ کرتے، میدان، انسان اور حیوانوں کے خون سے بھر جاتا، مؤرخین کا محتاط اندازہ یہ ہے کہ اس کھیل میں ہر سال کم از کم آٹھ ہزار گلیڈیٹر مارے جاتے ، روم میں یہ کھیل کئی سو سالوں تک جاری رہا، ٹیٹس رومی نے ایک بار پچاس ہزار درندے جمع کرکے انہیں ہزاروں قیدیوں پر چھوڑ دیا، بعض مقابلوں میں بیک و قت گیارہ ہزار درندوں اور دس ہزار غلاموں کو لڑایاجاتا، کبھی ا ن غلاموں کو آپس میں بھی لڑایا جاتا، گلاویوس نے ایسے ہی ایک کھیل میں انیس ہزار غلاموں کو تلواریں دے کر باہم لڑادیا، سلطنت روما کی ساری تعمیرات اور جنگی مہمات یہی غلام انجام دیتے تھے، لیکن اس کے بدلہ انہیں جو غذا دی جاتی وہ جانوروں کے چارے سے بد تر ہوتی تھی، انھیں صاف پانی پینے کا حق نہیں تھا، گدلا پانی دیا جاتا تھا، مغرب میں انسانی حقوق کی پامالی اور غلاموں پر ظلم کا بھیانک دور اس وقت شروع ہوا جب یہودی کپتان کولمبس ہندوستان کی تلاش میں امریکہ پہونچا،وہاں کے مقامی باشندے ریڈ انڈینزمیں سے پچاس کو ا پنے ساتھ اسپین لے گیا، جہاں انھیں غلام بناکر فروخت کیا، لاس کیسس نامی مشہور مؤرخ ریڈ انڈینز کے ساتھ اس کی قوم کے ظالمانہ سلوک کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے:
’’ہسپانیوں نے ان بچوں کی ٹانگیں کاٹ دیں، جو ان سے ڈر کر بھاگ رہے تھے ان لوگوں پر کھولتا ہوا صابن انڈیلا، پھر وہ شرطیں لگا کر تلوار کے ایک وار سے انسانی جسموں کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کا کھیل کھیلنے لگے، خونخوار کتوں کو سراسیمہ لوگوں پر چھوڑ دیا گیا، جنھوں نے آناً فاناً انھیں چیرپھاڑکر رکھ دیا، کتوں کی کارگزاری پر انھیں انعامی خوراک یہ دی گئی کہ نومولود بچوں کو ان کے سامنے پھینک دیا گیا‘‘(غلامی ایک تاریخی جائزہ، مصنف میاں اشرف)
یہ تو مغربی تہذیب میں غلاموں کی بدترین صورت حال کی ایک جھلک تھی،اہل مغرب غلامی کے حوالہ سے اسلام پر انگشت نمائی کرتے ہیں، جب کہ خود مغربی تہذیب اس سلسلہ میں انتہائی داغدار ہے، اس کے بر خلاف اسلام نے صدیوں سے چلی آرہی غلامی کے خاتمہ کے لئے مؤثر اقدامات کئے، اور غلاموں کے ساتھ حسن سلوک کے ایسے نمونے پیش کئے جن کا دوسرے مذاہب میں تصور بھی ممکن نہیں، غلاموں کے علاوہ عام انسانیت اور اقوام عالم کے ساتھ مغربی تہذیب اور اس کے پیرو کاروں نے ایسے ایسے مظالم ڈھائے کہ جن کے تصور ہی سے جسم پر کپکپی طاری ہوجاتی ہے، اہل مغرب مسلمانوں اور ا سلام پر جنگی جنون کاالزام لگاتے ہیں، اور خود کو انسانی حقوق کا علمبردار اور احترام انسانیت کے ٹھیکے دار قرار دیتے ہیں، جب کہ جنگوں کے حوالوں سے یورپ کی تاریخ جس قدر المناک ہے کسی دوسری قوم کی نہیں ہے، معروف تجزیہ نگار اوریا مقبول جان لکھتے ہیں:
’’یورپ کی آپس میں جنگوں کی تاریخ اٹھاکر دیکھیں تو دنیا میں کسی بھی دوسرے علاقوں میں ہونے والی خوں ریزی بھول جاتی ہے، میں قدیم تاریخ میں جانا نہیں چاہتا، صرف چند صدیاں پہلے کی جنگوں کا حال پڑھ کر یوں لگتا ہے کہ یورپ کو سوائے جنگ کرنے اور قتل وغارت گری کے اور کوئی کام ہی نہ تھا،انگلینڈ اور فرانس کے درمیان ۱۳۳۷ء سے ۱۴۵۳ء تک ۱۱۶ سال جنگ جاری رہی،جس کے بعد سو سالہ جنگ کا محاورہ ایجاد ہوا، میلانونس اور فلورنس کے درمیان ۱۴۰۲ء سے ۱۴۵۴ء تک ۵۲ سال جنگ چلتی رہی، ڈنمارک اور سویڈن کے درمیان ۱۵۰۶ء سے ۱۵۱۳ء تک اسپین اور ہالینڈ کے درمیان ۱۵۶۷ء سے ۱۵۹۳ء تک انگلینڈ اور ہالینڈ کے درمیان ۱۶۵۳ء سے ۱۶۷۴ء تک جنگ ہوتی رہی، الغرض کوئی سال ایسا نہیں ہے کہ یورپ کے کسی نہ کسی خطے میں جنگ نہ چلی ہو یا پھر اندرونی طور پر ملکوں میں قتل وغارت گری نہ رہی ہو، دنیا کی تاریخ کی خوفناک اور ہیبت ناک آخری جنگیں بھی یورپ کی سرزمین سے شروع ہوئیں اور پھر انھوں نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، جنگ عظیم اول اور جنگ عظیم دوم میں جتنے افراد مارے گئے پوری انسانی تاریخ میں مارے جانے والے افراد کی کل تعداد سے بھی زیادہ ہوں گے‘‘۔
۲۷؍ جولائی ۱۹۱۴ء کو جنگ عظیم اول کا آغاز ہوا،۵۱؍ماہ یہ جنگ جاری رہی، جس میں ۱۴؍ممالک شریک رہے، کئی کروڑ ا فراد اس جنگ میں براہِ راست ملوث تھے، ۸۵؍ لاکھ سے زیادہ افراد لقمۂ اجل بن گئے، ۲؍کروڑ۲۰ لاکھ ز خمی ہوئے، ۸۵؍ لاکھ لا پتہ ہوئے، ۴؍ کھرب ڈالر کا نقصان ہوا،دوسری جنگ عظیم ۱۹۳۹ء سے ۱۹۴۵ء تک جاری رہی، جس میں ۲۸ ممالک شریک ہوئے، ایک کروڑ پچاس لاکھ ہلاکتیں ہوئیں، بے شمار زخمی اور لاپتہ ہوگئے، ایک اور جہت سے دیکھا جائے تو ۱۹۴۵ء سے ۲۰۱۴ء تک دنیا میں مجموعی طور پر ۱۰۸ بڑی جنگیں ہوئیں، جن میں گھر جلے، شہر ویران ہوئے اور لاشیں گریں، ان ساری جنگوں کے پیچھے ایک ہی ملک اور ایک ہی قوم تھی، یعنی اور امریکہ اور امریکی، بعض جنگیں امریکہ نے براہ راست لڑیں، بعض میں شریک ہوا، اور بعض میں اس کا اسلحہ استعمال ہوا، ان ۱۰۸ جنگوں میں ۱۹۹۶ء تک ایک کروڑ نوے لاکھ تہتر ہزار انسان ہلاک ہوئے، افغانستان، عراق اور شام کا مسئلہ توبالکل تازہ ہے، جہاں مغربی شاطروں کی سازشوں نے بموں کی بوچھار کرکے اور ظالموں کا ساتھ دے کر لاکھوں بے قصوروں کو موت کے گھاٹ اتار دیا، شام اور عراق جیسے سرسبز وشاداب عرب ملکوں کو کھنڈرات میں تبدیل کرکے رکھ دیا، بوسنیا میں ان تن کے گوروں اور من کے کالوں نے جو قیامت ڈھائی وہ مغربی تہذیب کے ماتھے پر ایک ایسا داغ ہے جو دھلائے نہیں دھلے گا، دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد اسرائیل گذشتہ ساٹھ برس سے فلسطینیوں پر مظالم ڈھارہا ہے، اور امریکہ اس کی بھر پور پشت پناہی کررہا ہے، بھلا جس تہذیب میں انسانی خون کی ارزانی ہو، اور جو تہذیب اپنے ہی جیسے انسانوں کو محض رنگ ونسل اور مذہب کے ا ختلاف کی بنیاد پر جینے کے حق سے محروم رکھتی ہو جس میں گوروں کا خون قابل احترام اور دوسروں کا پانی سے ارزاں ہو،کیا ایسی تہذیب اس لائق ہے کہ اسے گلے سے لگایا جائے؟ دنیا کا کونسا خطہ ہے جس کے ساتھ امریکہ نے براہ راست یا بالواسطہ جارحیت کا مظاہرہ نہ کیا ہو؟ جس تہذیب نے پوری کی پوری نسلوں کو تباہ کیا ہو وہ کیوں کر لائق تقلید قرار دی جاسکتی ہے؟
اب ذرامغربی تہذیب کے سماجی، خاندانی اور اخلاقی پہلو کی طرف آئیے، اخلاق وانسانی اقدار حیا ومروت، عفت وپاکدامنی اور خاندانی استحکام کے نقطہ نظر سے مغربی تہذیب کو پرکھا جائے تو اس کی بنیادیں انتہائی کھوکھلی نظر آئیں گی، آزادانہ اختلاط ، بے لگام لذت کیشی، جنسی انارکی، فحاشی وبے حیائی، شادی کے بندھنوں سے آزاد ہوکر مردوزن کی شہوت رانی، ہم جنس پرستی وغیرہ ایسے ناسور ہیں جنھوں نے اس تہذیب کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگادیاہے، مغربی تہذیب میں خاندان کا تصور ناپید ہوتا جارہا ہے، اول تو قانونی شادی سے گریز کیا جاتا ہے، پھر جو شادیاں ہوتی ہیں ان میں سے بیشتر کا انجام فوری طلاق کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے، المونڈ نامی ایک فرنچ اخبار مغرب کی موجودہ صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے:
’’مغربی معاشرہ تہذیب وتمدن کے دائروں سے نکل کر اس جنگلی نظام زندگی میں داخل ہونے جارہا ہے جس میں جانور رہتے ہیں، انسانی معاشرے جو تہذیب وتمدن کی بنیادیں رکھتے ہیں، اس کی بنیادی اینٹ خاندان کا ا دارہ ہے، اگر وہ ختم ہوگیا تو معاشرت ہی ٹوٹ کر بکھر جاتی ہے، پھر انسانوں کی کسی قسم کی اجتماعی ہیئت نہیں بن سکتی‘‘۔(بحوالہ الفرقان رجب المرجب ۱۴۳۶ھ)
مغربی تہذیب میں شادیوں کی صورت حال انتہائی ابتر ہے، نیشنل فرنچ انسٹی ٹیوٹ فار ڈیمو گرافک ریسرچز کی ایک رپورٹ کے مطابق ہر۱۰ جوڑوں کے مقابلہ میں ۹ کسی عرفی یا دینی شادی کے بغیر ایک ساتھ رہتے ہیں، جوان جوڑوں میں آدھے سے زیادہ گھر بغیر کسی قانونی ضابطے کے ایک ساتھ رہتے ہیں، ۵۳ فیصد ولادتیں ایسے ہی جوڑوں کے یہاں ہوتی ہیں، اور ان میں ۲۵ فیصد بچے زندگی بھر باپ کے چہرہ کو ترستے رہتے ہیں، فرانس میں تقریبا سالانہ ۷ لاکھ بچے پیدا ہوتے ہیں، اور اس میں سے تقریبا ۱۰ ہزار بچوں کی ماؤں کی عمر ۱۰ سے ۱۳ سال تک ہوتی ہے، جو اپنے اسکول سے یہ تحفہ بھی ساتھ لاتی ہیں، اور اسی رپورٹ نے بجا طور فرنچ انتظامیہ کو اس تعداد پر قابو رکھنے اور اس کو دس ہزار تک محدود رکھنے تک داد دی ہے کہ اس نے بچوں میں مانع حمل وسائل تقسیم کرکے اس پریشان کن صورت حال کو قابو میں رکھنے کی قابل ستائش کوشش کی، اس مقصد کے لئے اسکولوں میں خصوصی میڈیکل اسٹورس کھولے گئے، اور ان وسائل کے استعمال کی تربیت کے لئے نرسوں کی ڈیوٹی لگائی گئی(بحوالہ ہفت روزہ المجتمع ،کویت۲۳؍ صفر ۱۴۲۱ھ)سویڈن میں ۶۵ فیصد طلاق ہوجاتی ہے، امریکہ میں طلاق کاتناسب ۴۵ فیصد ہے، جرمنی میں ۳۵ فیصد اور روس میں ۳۳ فیصد ہے(مجلہ البیان ،لندن اپریل،مئی ۲۰۰۰ء) امریکہ کے ا یک معروف ا دارے ایسوسی ایشن آف امریکن یونیورسٹیز نے حال ہی میں ایک سروے کروایا جس کے مطابق امریکہ میں ایک چوتھائی (ہر چار میں سے ایک) طالبات یونیورسٹی کیمپس میں جنسی حملوں اور غلط طرز عمل کا شکار ہوتی ہیں، یہ سروے امریکا کی ۲۷ اعلیٰ یونیورسٹیوں بشمول ہارورڈ یونیورسٹی کروایا گیا، جس میں تقریبا ڈیڑھ لاکھ طالبات سے جنسی حملے اور زیادتی کے متعلق ان کے تجربات کے بارے میں پوچھا گیا، ۲۷ یونیورسٹیوں کی ۱,۲۳فیصد انڈر گریجویٹ طالبات نے بتایا کہ انھیں جبری طور پر جنسی حملے کے تجربہ سے گزرنا پڑا۔
عورت کسی بھی معاشرہ میں خاندانی عمارت کی اینٹ ہوتی ہے، لیکن مغربی تہذیب میں جو خود کو حقوق نسواں اور تحفظ نسواں کی علمبردار کہتی ہے، عورت کی حیثیت بس جنسی تسکین کے سامان کی ہے، عورت کا رول بس اتنا ہے کہ وہ مرد کے لئے اپنے جسم کی نمائش کرے، مغرب میں ہر تاجر اپنے سامان کے ساتھ عورت کی بھی تجارت کرتا ہے،کوئی اشتہار عورت کی نیم عریاں تصویر سے خالی نہیں ہوتا،مساواتِ مردو زن کا دلفریب نعرہ دے کر اس پر دوہری ذمہ داری ڈالی گئی، وہ گھریلو ذمہ داریوں کے ساتھ مرد کے شانہ بشانہ معاش کی دوڑ میں بھی شامل کی گئی، پھر عریاں تہذیب میں طلاق کی کثرت اور بوائے فرینڈ اور گرل فرینڈکے کلچر نے اسے ذہنی تناؤ کا شکار بنادیا ، اس و قت مغرب میں گھر سے باہر کام کرنے والی اکثر عورتیں نفسیاتی اور اعصابی بیماریوں کا شکار ہیں، امریکہ میں ۴۸ فیصد سویڈن میں ۶۵ فیصد اور جرمنی میں ۳۷ فیصد ملازمت پیشہ خواتین دماغی اور نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہیں۔
یہ مغربی تہذیب کے تاریک پہلوؤں کی ایک ہلکی سی جھلک ہے، جس کسی میں تھوڑی بہت انسانیت کی رمق ہو وہ اس گندی تہذیب کو پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھ سکتا، مگر افسوس ہے ان لوگوں پر جو آنکھوں پر پٹی باندھ کر مغرب کی گن گاتے رہتے ہیں، اس وقت سب سے بڑا جہاد یہ ہے کہ عالم انسانی کو اس حیا سوز تہذیب کے چنگل سے آزاد کرایا جائے، اور یہ تب ہی ممکن ہے جب اسلامی تہذیب کو خوب فروغ دیا جائے، ان دونوں تہذیبوں میں بعد المشرقین ہے۔