بچوں کا ادب اوراسمعٰیل میرٹھی
ڈاکٹر تہمینہ عباس
ا ی میل :
بڑے نام اور اچھے کام ہمیشہ یاد رکھے جاتے ہیں زمانہ اگر انھیں بھلانا بھی چاہے تو نہیں بھلا سکتا یہ جملہ حکیم محمد سعید نے ’’بچوں کے اسمعٰیل میرٹھی‘‘ کے پیش لفظ میں مولانا اسمعٰیل میرٹھی کے لیے استعمال کیا ہے۔مولوی اسمعٰیل میرٹھی اردو ادب کا ایک ایسا نام ہیں جنھوں نے نئی نسل کے ذہنی سانچے کی تیاری میں اپنی قابلیت، استعداد اور تخلیقی صلاحیتوں کا استعمال کیا اورنونہالوں کے لیے ایسا ادب تخلیق کیا جس کی مثالیں شاذ ہی نظر آتی ہیں۔ان کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ بچے علم ہی نہ سیکھیں بلکہ وہ اپنی اخلاقی اورتہذیبی روایات سے بھی با خبر رہیں ۔
حکیم نعیم زبیری کے مطابق مولانا اسمعٰیل میرٹھی کی پیاری پیاری نظمیں اردو کی پہلی،دوسری،تیسری،چوتھی،پانچویں اور چھٹی کی کتابوں میں ہم نے بھی پڑھی تھیں اور ہماری طرح ہمارے بزرگوں نے بھی اپنی تعلیم کی ابتدا ان ہی کتابوں سے کی تھی ان کے اشعار آج بھی ضرب المثل کی طرح ہم سب کی زبانوں پر چڑھے ہوئے ہیںیہ اشعار ایک مدرس کے ہیں مگر ایسے مدرس کے جو بغیر کسی تصنع اور بناوٹ کے اپنے شاگردوں کو سبق ذہن نشین کروادیتا ہے۔اردو زبان اور اس کے ساتھ ساتھ ادب، تہذیب، تمیز کا سبق دینے والی ان سے اچھی کتابیں اب تک نہیں لکھی جاسکی ہیں۔
بچوں کا ادب اسمعٰیل میرٹھی کی شخصیت کا محض ایک رخ ہے سرسید احمد خان کی تحریک سے متاثر ہونے والوں میں الطاف حسین حالی کے ساتھ ساتھ اسمعٰیل میرٹھی کا نام بھی آتا ہے ان کا کردار اور شاعری دونوں سرسید کے دور اوران کے مخصوص رحجان کی آئینہ دار ہیں ۔ وہ سر سید اور حالی کی طرح پرانے رسم و رواج سے بے زار تھے انھوں نے عام زندگی کے تجربات اور مشاہدات کو موضوع سخن بنایااور اخلاقی پہلو کو نمایاں کیا وہ عوام کی زبان استعمال کرتے تھے اور عوام کی زبان کو شعر بنا دیتے تھے۔انھوں نے ترقی پسند شعراء سے بہت پہلے آزاد نظم اور معری نظم کے تجربے کیے اردو کی پہلی بے قافیہ نظم لکھی تھی ’’تاروں بھری رات‘‘ اور’’چڑیا کے بچے‘‘ان کی بے قافیہ نظمیں ہیں۔انھوں نے اپنی نظموں میں مسدس کے علاوہ مخمس،مربع اورمثمن سے بھی کام لیا ۔وہ حالیؔ سے متاثر تھے قوم کی زبوں حالی کا درد ان کے دل میں بھی تھا وہ شاعری کو اخلاق درست کرنے کا درست ذریعہ قرار دیتے تھے ۔انھوں نے ابتدا میں روایتی موضوعات پر غزلیں لکھیں مگر جلد ہی حالی کا رنگ سخن اختیار کر لیا اور زندگی کے عام موضوعات پر عام فہم اور سادہ زبان میں نظمیں لکھ کر سر سید کے زاویۂ نظر کو آگے بڑھایا ۔
مولانا اسمعٰیل میرٹھی ۱۲ نومبر۱۸۴۴ء کو میرٹھ میں پیدا ہوئے وہ محلہ جس میں مولانا کا آبائی گھر تھا اسمعیل نگر کہلاتا تھا انھوں نے ابتدائی تعلیم گھر پر پائی پہلے فارسی زبان کی تعلیم حاصل کی گلستان، بوستان، شاہ نامہ وغیرہ فارسی درسیہ ختم کرنے کے بعد اسکول میں داخل ہوئے ۔تعلیم مکمل کرنے کے بعد درس و تدریس کا پیشہ اختیار کیا ۱۸۶۸ء سے ۱۸۷۰ء تک سہارن پور کے ضلع اسکول میں مدرس فارسی کے عہدے پر مامور رہے۔۱۸۹۹ء میں پینشن ہوگئی پینشن کے بعد اپنے آبائی وطن میرٹھ آگئے اور بقیہ تمام عمر تصنیف و تالیف میں گزاری۔ان کی اعلی ادبی خدمات کے صلے میں انھیں ’’خان صاحب ‘‘ کا خطاب ملا ۔یکم نومبر ۱۹۱۷ء کو انتقال ہوا۔
مولانا اسمعٰیل میرٹھی کی زیادہ شہرت ان درسی کتابوں کی وجہ سے ہے جو انھوں نے بچوں کے لیے لکھی تھیں یہ کتابیں اپنی زبان، طرز بیان، مضامین کے لحاظ اور تدریسی نقطۂ نظر سے ایسی موزوں اور کار آمد تھیں کہ گورنمنٹ کی منظوری سے ایک عرصے تک نصاب میں داخل رہیں ۔مولانا کی شاعری اور نثردونوں کا چرچا انھیں کتابوں کی بدولت ہوا۔درسی کتابوں کے علاوہ انھوں نے ایسی نظمیں بھی لکھیں جن کی بنا پر ان کو نظم جدید کے معماروں میں شمار کیا جاسکتا ہے۔انگریزی نظموں کے ترجمے میں بھی انھوں نے نام پیدا کیا بقول جمیل جالبی وہ انگریزی سے زیادہ واقف نہ تھے مگر ان کے ترجمے پڑھ کر یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ فطری شاعری کے قائل تھے۔
ان کی تمام عمر درس و تدریس میں گزری ان میں یہ صلاحیت بدرجہ اتم موجود تھی کہ وہ عام شاگردوں کی سطح پر آکر ان سے مخاطب ہو سکتے تھے اور اسی سطح پر انھوں نے شاعری بھی کی بچوں کی متعدد کتابوں کے مصنف تھے ایک کلیات ان کی یادگار ہے غزلیات کے علاوہ انھوں نے ا۷اخلاقی نظمیں،قصے ،کہانی کے طور پر لکھیں جن سے عمدہ اخلاقی نتائج بر آمد ہوئے۔
مولانا اسمعٰیل میرٹھی نے شاعری میں مختلف اصناف سخن کی ہیئت تو وہی باقی رکھی جو اس زمانے میں رائج تھی مگر خیال ،موضوع اور طرز ادا میں اس خاص انگریزی رنگ کو اپنا کر تمام اردو اصناف کا رنگ ہی بدل دیا۔ان کی تمام کتابیں درس و تدریس سے تعلق رکھتی ہیں جن میں قند پارسی،اردو قاعدہ اور اردو کی پہلی سے پانچویں کتاب تک برسوں یوپی کی ابتدائی درجوں کے لیے استعمال کی جاتی رہی ہیں اسی طرح ’’تزک اردو‘‘مڈل کلاس کے طلبہ کے نصاب میں شامل رہی ہے۔قواعد اردو حصہ اول و دوم بھی درسی کتابیں ہیں۔ان کی کتاب ’’سواد اردو ‘‘۱۹۱۴ء سے ۱۹۳۰ء کے نصاب میں شامل رہی ہے۔
آج اردومیں نونہالوں کا ادب قلت کا شکار ہے آج اردو زبان کو اسمعٰیل میرٹھی جیسے بچوں کے شاعر اور نثر نگار کی ضرورت ہے کہ جس نے آج سے تقریباََ ایک صدی قبل کہا تھا کہ ’’رب کا شکر ادا کر بھائی،جس نے ہماری گائے بنائی۔ جو اس دور کے بچوں اورآج کے بزرگوں کو لفظ بہ لفظ یاد ہے ۔
رب کا شکر ادا کر بھائی
جس نے ہماری گائے بنائی
اُس مالک کو کیوں نہ پکاریں
جِس نے پلائیں دودھ کی دھاریں
خاک کو اُس نے سبزہ بنایا
سبزے کو پھر گائے نے کھایا
کل جو گھاس چری تھی بَن میں
دودھ بنی اب گائے کے تھن میں
سُبحان اللہ دودھ ہے کیسا
تازہ، گرم سفید اور میٹھا
گائے کو دی کیا اچھی صورت
خُوبی کی ہے گویا مورت
دانہ دُنکا، بھوسی، چوکر
کھا لیتی ہے سب خوش ہوکر
کیا ہی ٍغریب اور کیسی پیاری
صبح ہوئی جنگل کو سدھاری
سبزے سے میدان ہرا ہے
جھیل میں پانی صاف بھرا ہے
پانی پی کر چارہ چر کر
شام کو آئی اپنے گھر پر
دوری میں جو دِن ہے کاٹا
بچے کو کِس پیار سے چاٹا
بچھڑے اُس کے بیل بنائے
جو کھیتی کے کام میں آئے
رَب کی حمد و ثنا کر بھائی
جِس نے ایسی گائے بنائی
———-
Dr.Tahmina Abbas
One thought on “بچوں کا ادب اوراسمعٰیل میرٹھی – – – – ڈاکٹر تہمینہ عباس”
مولانا اسمعیل میرٹھی ادب اطفال کے منفرد شاعر اور نمایاں مقام کے حامل تھے، انگریزی نظمو ں کےترجمے سے قطعی یہ گمان نہیں ہوتا کہ وہ انگریزی زبان سے ناواقف تھے انکی شاعری میں بے پناہ حلاوت اور سلاستکے علاوہ روانی اور ں شگفتگی تھی وہ انتہائ سلیس زبان میں بچوں کے لئے اپنی تخلیقات میں جو التزام برتا ہے بچوں کی ذہنی نفسیات سے کما حقۂ واقف تھے آج بھی اس بات کی ضرورت ہے کہ تدریسی نصاب میں انکی نظموں کو شامل کیا جائے لیکن اب تو جو روش ہے اس سے کوئ بھی امید نہیں’ اردو زبان کے ساتھ جو گندی سیاست کا کھیل کھیلا جارہا ہے وہ جگ ظاہر ہے۔