ماہِ رمضان : ماہِ پکوان یا ماہِ خریداری ؟
ابن ساجد ۔ حیدرآباد ۔ تلنگانہ
موجودہ مسلم معاشرہ نے اپنی بے دینی یا دین بیزاری کے ذریعہ ماہِ رمضان کو عملاً ماہِ پکوان ، ماہِ خریداری بنالیا ۔ شہر میں بعض جگہ رمضان المبارک کے دو مہینے پہلے ہی سے مسلسل رمضان کی یاد دہانی بورڈز آویزاں کئے ہوئے ہیں ، یہ در اصل ماہِ رمضان کی یاد دہانی نہیں ہے بلکہ ؛ اپنے تجارت (پکوان ) کی تشہیر ہے ۔ حلیم کی بھٹی ، اڈلی دوسہ کی بنڈی اور کپڑوں کی مارکٹ رمضان المبارک کی عبادتوں پر اپنا غلبہ جمائے ہوئے ہیں۔ ’’ سارے جہاں میں دھوم ہماری حلیم کی ہے ‘‘ کے مانند جگہ جگہ حلیم کی بھٹیاں غیر مسلموں کو اتنا تو سمجھا دئیے کہ رمضان کا مطلب حلیم اور دہی بڑے ہے ، شرمندگی تو اس وقت ہوئی جب ایک غیر مسلم نے مجھ سے سوال کیا کہ ’’انّا تُمارارا حلیم پنڈوگا کب آتا ؟ (بھائی !تمہاری حلیم کی عید کب آتی ہے)‘‘
ہماری ان حرکتوں نے روزے کے فوائد، تراویح کی لذت اور خدا کے حضور سر بسجود ہونے ، نیم شب میں سرد آہیں بھرنے سے بالکلیہ طور پر محروم کردیا ۔ سماجی کارکنان و سیاسی لیڈران کی کرم فرمائی کہ 24گھنٹے بازاروں کو کھلے رکھنے کی اجازت ودیگر سہولتیں فراہم کرکے ان کے حوصلوں کو بلند کرتے ہیں ۔ رحمتوں کا عشرہ مکمل بھی نہیں ہوتا ، بے اعتدالیاں پورے شباب پر ہوتی ہیں ،افطار پارٹیوں میں اسراف سے کام لیا جاتا ہے اور افطاری کی بے انتہاء ناقدری کی جاتی ہے جس کی وجہ سے نیکی برباداور گناہ لازم ہونے کے خدشات لاحق ہوتے ہیں۔ رمضان کا چاند دیکھ کر مساجد کا رخ کرنے والے لوگ پہلے ہی عشرہ میں مساجد سے غائب ہوجاتے ہیں اور ایک بڑے طبقے نے اخیر دو عشروں کو تو خریداری کے لئے وقف کرلیا ہے ۔ بازاروں میں خریدی کرنے والوں کو نہ روزہ کا خیال رہتا ہے اور نہ ہی روزہ داروں کا ۔پارچہ تاجرین بھی نیم خواتین کی عریاں تصاویر کے ساتھ اپنے اشتہارات شائع کروانے میں جھجک محسوس نہیں کرتے ۔ ان تمام حرکات کا سد باب انتہائی ناگزیر ہے ۔ نبی رحمت ﷺ کا حال تو یہ تھا کہ رجب کا چاند دیکھتے ہی خدا ئے برتر سے رمضان تک رسائی کی دعا مانگا کرتے تھے۔اور آپ کے فرمانِ عالیشان کے مطابق : شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان المبارک اللہ رب العزت کا مہینہ ہے اور آقا علیہ السلام ماہِ شعبان ہی سے روزوں کی کثرت کیا کرتے تھے تاکہ ماہِ رمضان المبارک کے روزوں میں یکسوئی اور انہماک میسر ہوسکے ۔ ماہِ شعبان کی پندرہویں شب ہمیں یاد دلاتی ہے کہ رمضان المبار ک میں عبادتوں کی کثرت کرنا ہے ۔ چونکہ اگلے چند دنوں میں رمضان المبارک ہم پر سایہ فگن ہونے والا ہے ۔اللہ رب العزت کی رحمت اس مہینے میں عام ہوتی ہے اور جہاں وہ ایک فرض کا بدلہ ستر فرضوں کے برابر کردیتا ہے وہیں سنن و نوافل کا ثواب فرائض کے بقدر کردیتا ہے ۔بہرِ حال رمضان شریف کی آمد رحمتوں کی سوغات کی آمد ہے، الٰہی عنایتوں کی آمد ہے، رمضان المبارک ہماری دامنِ مراد کو بھر نے ، سرد جذبات کو گرمانے، ہم میں ایمانی حرارت کو جگانے، خدا کی رحمتوں کو برسانے آتا ہے۔ رمضان ہم کو ایک صالح انقلاب سے آشنا کرنے کے لئے آتا ہے تو ہمیں چاہیے کہ عام خرافات سے بچتے ہوئے رمضان المبارک تک پہنچنے کی خصوصی دعائیں کریں ، اس متبرک مہینہ کو غنیمت جانتے ہوئے اس کے آغاز سے پہلے ہی رمضان اور عید کی تمام تیاریاں مکمل کرلیں ، رمضان سے متعلق احکام و مسائل کی جانکاری حاصل کرلیں ، عبادات کے لئے منصوبہ بندی کریں ، عبادتوں میں اضافہ کیا جائے ، فرائض کے ساتھ سنن و نوافل کا اہتمام کریں ، رمضان کے لئے گھریلو نظام کو مرتب کریں عورتوں و بچوں کے لئے سیکھنے سکھانے کا خصوصی ماحول بنائیں ، رمضان تعلق بالقرآن کا مہینہ ہے اسی لئے کثرت سے تلاوت کلام پاک کا اہتمام کیا جائے ، شروع رمضان تا ختم رمضان تراویح کا پابندی کے ساتھ اہتمام کریں ، یہ وضاحت بھی ذہن نشین رہے کہ تراویح میں مکمل قرآنِ پاک کا سننا علیحدہ سنت ہے اور تراویح کا ختم رمضان تک پڑھنا الگ سنت ہے اس کا لحاظ رکھیں ، دعوتی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اور گرمی کی شدت مختلف بہانوں سے تارکِ صوم نہ بنیں ، رمضان تزکیہ کا مہینہ ہے اس میں صدقِ دل کے ساتھ خوب توبہ کریں اور آئندہ گناہوں سے بچنے کا مکمل عزم کریں ۔ ان شاء اللہ رمضان المبارک کی نعمت کو غنیمت جانتے ہوئے اس کی قدر دانی کریں گے زندگیوں میں غیر معمولی تغیر آئے گا ، انوار و برکات سے مالامال ہوں گے۔ ائمہ و خطباء حضرات بھی جمعہ کے بیانات میں اس عنوان پر مفصل روشنی ڈالیں ۔اللہ تعالی توفیقِ عمل نصیب فرمائے ۔ آمین
کسی شاعر نے کیا ہی خوب کہا :
غافل تجھے گھڑیال یہ دیتا ہے منادی
گردوں نے تیری عمر کی اِک اور گھٹادی