’ھدف‘کا تیسراعالمی مشاعرہ ’جشنِ مزاح‘ بیادِ سلیمان خطیب

Share

mushaiera - سلیمان

’’ھدف ‘‘کا تیسرا عالمی مشاعرہ
’’جشنِ مزاح ‘‘بیادِ سلیمان خطیب

رپورتاژ: محمداصغر الدین (نائب صدر ھدف)

سلیمان خطیب حسنِ فطرت کا سفیر بن کر’’دیہی دانش کو‘‘ ادبِ کے ایوانوں میں پہنچادیا۔ کیوڑے کا بن مزاح کی دستاویز ، ’’میگنا کارٹا ‘‘بن گئی جو روح کو کھل کرقہقہہ لگانے کی آزادی بانٹتی ہے۔ادبی تحریکات کے ہنگام میں آج بھی مزاح کے ممبر پرخطیب کا خطبہ چلتا ہے۔جس موضوع پر خطیب کا قلم چلتا ہے حسنِ فطرت ساتھ ہوجاتی ہے۔ جیسے ’’کوّا لہرا کے چھت پہ گاتا ہے۔ مرغی آنگن میں پر سکھاتی ہے۔ توّا رہ رہ کے مسکراتا ہے۔ پھر اللہ کی رحمت بن کر مہمان آتاہے‘‘۔خطیب کے شعر کیا ہیں۔ دکھی دلوں کے درد میں ڈھلے شعری نغمات ‘‘۔ ان خیالات کا اظہار ناظم مشاعرہ نعیم جاوید نے مشاعرے کے اولین مرحلے پرکیا۔

مملکتِ سعودی عرب کےمنطقہ شرقیہ میں ’’الخبر‘‘کے صاحل پر ایک اعلی شان ایوان ’’لولوا کنسرٹ ہال‘‘میں ادارہ ھدف نے تیسرا عالمی مشاعرہ ’’جشن ِ مزاح‘‘ بیادِ سلیمان خطیب منعقد کیا۔ زندہ دل وسخن شناس سامعین کے تال میل اور وارفتہ داد سے قہقہہ بردوش ساعتیں مدتوں بھول نہ پائیں گیں۔
پروگرام کی خوبی یہ تھی کہ خطبہ استقبالیہ سے کلمات تشکرتک ھدف کے ذمہ داروں نے اپنے اظہار کو ظرافت سے زعفراں زار رکھا۔ رسمی اور بوجھل زبان کو راہ نہ دی۔ ھدف کے خیرخواہوں میں یہ رسم چلی ہے کہ مشاعروں میں لوگ کاروان بن کر آتے ہیں۔ کئی سو کیلو میٹر پر پھیلا ہوا یہ منطقہ شرقیہ کے لوگ اپنی تفریح کو یاد گار بنانے کے لئے اپنے لکژری کاروں کو چھوڑ کرمل جھل کر بسوں میں سوار آتے ہیں۔ راستہ بھر لطیفوں کی پھوار چلتی رہتی ہے۔ شہر جبیلؔ کے خوش مزاج لوگ جناب وحید لطیف کی
قیاد ت میں آئے۔الاحسا ؔکے قافلہ ڈاکٹر عبدالغنی کے جلو میں چلا۔ مشاعرے سے جڑے اس سفرکی شادابیاں مدتوں انھیں اُردو سے جوڑے رکھتی ہیں۔ پہلے پہل ایک ہزار شایقین شعر کا استقبال ایک شاندار عشائیہ سے کیاگیا۔
اس پروگرام کو سلیمان خطیب ٹرسٹ گلبرگہ کے بانی جو سلیمان خطیب کے صاحبزادے ہیں جناب تمکین خطیب جو امریکہ میں مقیم ہیں ۔ادارہ ھدف سے اس عزم کا اظہار کیا کہ اب جشن ِ مزاح ایک عالم میں بیادِ خطیب منایا جائے گا۔ سلیمان خطیب کی صاحبزادی ڈاکٹرشمیم ثریاصاحبہ نے اپنی آواز میں ایک آڈیو کلپ بھیجا جو جشن مزاح میں تالیوں کی گونج میں سنایا گیا۔ پروگرا م میں پہلے پہل مرحوم سلیمان خطیب کےآڈیو، ویڈیو ایک بڑے اسکرین پرلوگوں کی فرمائش پر بار بار بتائے اور سنائے گئے جس پر لوگوں نے والہانہ داد دی۔ ان کی آواز کا جادو پورے مشاعرہ گاہ میں سحر طاری کردیا تھا۔
اس جشن ِ مزاح میں پاپولر میرٹھی کی شوخیوں بھری ظرافت اور مزاح کی خفیہ گدگدیوں سے لفظ لفظ پر ایوانِ مشاعرہ میں قہقہوں کے انار پھوٹتے رہے۔انھوں نے سنا یاتو خوب بس یہاں ایک قطعہ پیش ہے۔
تدبیر کا کھوٹا ہے مقدر سے لڑا ہے
دنیا اسے کہتی ہے کہ چالاک بڑا ہے
خود تیس کا ہے اور دلہن ساٹھ برس کی
’’گرتی ہوئی دیوار کے سائے میں کھڑا ہے‘‘
شوکت جمال (پاکستان) اپنے شعر کچھ اس طرح سناتے ہیں کہ بظاہر اکھڑی ہوئی سنجیدگی لگتی ہے لیکن مزاح چشمہ کی طرح یک بہ یک پھوٹ پڑتا ہے۔
چوتھے نکاح میں جو میں اک دوست کے گیا
پوچھا کہ یار تیری یہ شادی ہے آخری
پہلے تو اس نے دیکھا ادھر ادھر
پھر مسکرا کے بولا واللہ ہی مادری
مشاعرے میں سردار اثر ؔنے متوالی داد دینے والے ذہین ہوٹروں کی زندہ دل شوخیوں کا خوب جواب دیا۔ جس سے ایک اور خوش کن کہرام مچا۔ساتھ ساتھ انھوں نے خطیب گھرانے کی ادبی مہمات کی خدمات کو سراہا اورادارہ ھدف کے برپا کردہ مشاعروں کے معیار کی جی کھول کر ستائش کی۔ ان کے چند شعر:
ہے اگر سچی محبت جل کو مرجانا کتے
اُن ہے موم بتی اور میں ہوں پروانہ کتے
اک غزل غالبؔ کی لاکو رُس کو کونے میں پڑیںخود میں سمجھو یا نہ سمجھو ان کو سمجھانا کتے
اب باری آئی ریاست ِ بہار کے کہنہ مشق شاعر جو مملکتِ قطر سے تشریف لائے تھے جناب افتخار راغب
ان کے مزاح کاانداز بہت بلند ہوتا ہے۔ غالبؔ کے یا دیگر معروف شعرا کے مصرعوں کو بڑی فنکاری
سے برتتے ہیں اور انتہائی سنجیدہ اشعار سے مزاح کشید کرلیتے ہیں۔جیسے سوکھے صحرا سے پٹرول کے چشمے برآمد کرنا۔
’’جو ذرہ جس جگہ ہے وہی آفتا ب ہے‘‘
کیسے کروں نہ قدر میں گنتی کے بال کی
’’اُردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ‘‘
راغبؔ ہمیں ہیں وجہہ بھی اس کے زوال کی
طبی دنیا میں ہونے والی چوک سے چونکا دینے والا تجربات کو اپنے اشعار کے پیکیج میں پیش کرنے میں پاکستان کے شاعر جناب ڈاکٹر عابؔد علی کا بڑا نرالا انداز ہے۔
تو بھی تڑپے مری طرح ڈینٹسٹجان مشکل میں ڈال دی تو نے
ہل رہی تھی جوداڑھ رہنے دی
تھی جو اچھی نکال دی تو نے
شیراز مہدی ضیا مؔقامی شاعر ہیں۔ ان کے اشعار پر قہقہوں کی جھڑی لگ گئی تھی۔ اچھا لکھتے ہیں ۔ اچھا پڑتے بھی ہیں۔
اپنی عزت یوں گنوانے کی ضرورت کیا تھی
اس طرح ناک کٹانے کی ضرورت کیا تھی
اب ترستے ہو کہ بچے تیرے اُردو بولیں
اتنی انگریزی پڑھانے کی ضرورت کیاتھی
جس مشاعرے کو نعیم جاوید صاحب جیسا ساحر ناظم میسر آیا جس کے جملے لوگ یادر رکھتے ہیں۔ مدتوں مصری کی ڈلی کی طرح گھولتے ہیں ۔لوگرہ رہ کر داد دیتے ہیں۔ جو داد کو دھڑکنوں سے جوڑنے کا ہنر جانتے ہیں۔جن کے لفظ لفظ پر خوشبووں کا احساس ہوتا ہے۔پہلے پہل اپنی مشہور نظم ’’اقامہ اقامہ‘‘سنا کر محفل کو لوٹ لیا پھر ’’مردانہ پیٹ‘‘
بھی سنائی جس میں مزاح کے روپ رنگ میں غذائی صنعتوں کی زہرہ گداز سازشوں اور ملاوٹ کو نشانہ بنایا۔
یہ مرد کی زبان سا مردانہ پیٹ ہے
خوش خوریوں کے ڈھیر سا پیمانہ پیٹ ہے
بالغ بدن پہ دیکھو یہ بچکانہ پیٹ ہے
الجھے ہوئے پلاٹ کا افسانہ پیٹ ہے
دھوکہ فریب اور ملاوٹ کے بازیگر
اندھی تجارتوں کی ہے اب لوٹ ہر نگر
انگار بیچتے ہیں کباڑی ہیں سر بہ سریہ زہر کی سبیل ہے بندے خدا سے ڈر
اس عالمی مشاعرے آغاز جناب صفی حیدر جنتی کی کمال ہنر مندی سے ہوا ۔ انھوں نے شعرا کا اس بانکپن سے تعارف کروایا کہ لوگوں نے انھیں والہانہ داد دی۔ قرات اور خطبہ استقبالیہ کے بعد مائیک ادارے کے صدر جناب جاوید مسعود صاحب کے حوالے کردیا۔ جنھوں نے ادارے کے مہمات اور منصوبوں کا ذکر کیا جس میں حیدرآباد میں ’’نون اسکول ‘‘ میں کم سن طالبات جو اُردو بھی پڑھ رہی ہیں ھدف کے بھر پوراور نتیجہ خیز تعاون کاذکر کیا۔انھوں نے معاونین مشاعرہ کو ھدف کے اعزازات دیئے۔جن میں : اٹلس ٹراویلس، عمان ائیر، قطر ایر، (او۔ ایس۔ این)، فوکس (مشہور حیدرآبادی سافٹ ویر کمپنی)، انڈس، فیوچر فلیگ، صالح یوسف دُسری کمپنی، اخبار سعودی گزٹ شامل تھے۔ اس جشنِ مزاح کو کامیاب بنانے میں کئ اہم شخصیات اور اداروں نے ساتھ دیا جس میں سید منہاج الدین، محمدظہیر بیگ، محمد اظہر شیخ، ممتاز علی اکرم، انیس بخش، وحیدلطیف، معراج انصاری، صادق سیٹھ، ڈاکٹر عبدالغنی، شہریار احمد، پرویز احمد وانی اور خواجہ احسان قادر قابل ِ ذکر ہیں۔
مشاعرے میں نائب صدر ادارہ ھدف جناب محمداصغر الدین نے شعرا ئے کرام کو اعزازات عطا کئے۔
اُردو کے نمایاں خدمات پر اعزاز پانے والوں میں شہرِ ریاض کے آرکیٹیکٹ جناب عبدالرحمن سلیم اور شہرِ جبیل کے نئے قلم کارجناب محمد فاروق شاہ بھٹکلی بھی شامل ہیں۔ھدف کی یوتھ وینگ کے قائد انجنئیر محمد احسان نے اس مہم میں موثر رول ادا کیا۔
پورے مشاعرے میں خطیب کے اشعار کو جناب نعیم جاوید نے برجستگی سے استعمال کیاجن میں : اٹھائیس تاریخ، تلاش ِ گمشدہ، عید کا دن، حلیم ، رستے اور اختتام پرسلیمان خطیب کی معرکتہ الارا نظم ’’چھورا چھوری‘‘ کے اشعار سے جشن ِ مزاح کو سلیمان خطیب کی سماجی خیر کی تمناوں سے جوڑ دیا۔
جس کی بچی جوان ہوتی ہے
اُس کی آفت میں جان ہوتی ہے
جس کا آخری شعر۔۔۔۔
اس کی تربت پہ یہ بھی لکھ دینا
زرپرستوں میں نے مارڈالا ہے۔
مقامی موقر انگریزی اخبار ’’سعودی گزٹ ‘‘ نے ھدف کی تعلیمی مہم سے متاثر ہوکر چھے افراد کو سال بھر مفت اخبار قرعہ کے ذریعہ سے جاری کیا۔ اور جشنِ مزاح میں شریک تمام لوگوں کو سال بھرکا بدل اشتراک نصف قیمت پر دینے کا اعلان کیا۔
آخر میں سامعین کا یہ جل تھل ایک تازگی کے ساتھ یہ اعلان سن کر جھوم اٹھا کہ ھدف کا آئندہ مشاعرہ ماہ نومبر میں ’’جشنِ اقبالؒ ‘‘ہوگا۔
Web: http://hadafgroup.org

Email:

Share

One thought on “’ھدف‘کا تیسراعالمی مشاعرہ ’جشنِ مزاح‘ بیادِ سلیمان خطیب”

Comments are closed.

Share
Share