یومِ مادر کے موقع پر
ماں کا دودھ ۔ ماں اور بچہ کی صحت کا ضامن
محمد رضی الدین معظم
مکان نمبر 20-3-866 ’رحیم منزل – شاہ گنج ،حیدرآباد ۔2
سیل: +914069990266, 09848615340
ای میل :
حقیقی سچی محبت کا دوسرا نام ماں (Mother) ہے۔ ماں کی چاہت کا کوئی انسانی نعم البدل نہیں۔ ماں کا دودھ، صحت و حفاظت کا ضامن ہے۔ حالیہ تحقیق نے یہ ثابت کردیا ہے کہ ماں کے دودھ پلانے سے بچوں کی پیدائش میں وقفہ بڑھ جاتا ہے۔ تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ موروثی ذیابطیس سے متاثرہ بچوں میں ماں کا دودھ نعمت عظمیٰ ہے۔ ماں کا دودھ پلانا بچے میں ماں سے انسیت بڑھانے کا سبب بنتا ہے اور نفسیاتی طور پر شیر خوار اپنی ماں سے قریب ہوتا ہے۔ ماں کے دودھ پر کوئی خرچ نہیں آتا صرف محبت توجہ اور تھوڑے سے ایثار کی حاجت ہے ۔ یاد رکھئے ماں کا دودھ شیر خوار کا حق ہے جس کا ذکر قرآن معظم میں پارہ ۲۶ کی پہلی سورۃ احقاف کی آیت ۱۵ میں کیا گیا ہے ۔ اور جو ماں کسی معقول وجہ کے بغیر بچے کو اپنے دودھ سے محروم رکھتی ہے وہ ماں نہیں جس کے قدموں کے تلے جنت ہے دودھ پلانا خود ماؤں کے لئے فائدہ مند ہے اور پستان (Breast) کے کینسر جیسی خطرناک بیماری سے انھیں محفوظ رکھتی ہے اس لئے کہ حالیہ تحقیق نے یہ ثابت کیا ہے کہ یہ خطرناک بیماری بانجھ عورتوں میں اور دودھ نہ پلانے والی ماؤں میں سب سے زیادہ پائی گئی ہے۔
استقرار حمل سے پیدائش تک بچے کو ماں کے خون کے ذریعہ غذا ملتی ہے ۔ دوران حمل اور زچگی کے دوران ہونے والی ساری جان لیوا تکالیف برداشت کرتی ہے تاکہ اس کی ممتا کا مرکز یعنی اولاد بخیر و خوبی اس دنیا میں آجائے ۔ جب بچہ بطن مادر سے آغوش مادر میں آجاتا ہے تو بچہکی پرورش کا اہم ترین جزو یعنی دودھ ماں ہی فراہم کرتی ہے جو بچے کی نشو نما و صحت کیلئے ازحد ضروری ہے ۔ واضح رہے کہ ماں کو دودھ آنا یعنی اس کا جاری ہونا یا نہ ہونا صرف اور صرف اللہ تعالیٰ نے ماں کی مرضی پر چھوڑدیا ہے ۔ اگر وہ ممتا بھری شخصیت اپنے جگر گوشہ کو دودھ پلانا چاہے تو دنیا کی کوئی طاقت اسے مجبور نہیں کرسکتی۔ بہت ہی کم یعنی ہزاروں میں ایک آدھ کیس ایسا ہوتا ہے کہ کسی بیماری کی وجہ سے ماں کی خواہش کے باوجود دودھ جاری نہیں ہوتا ۔ معاشی معاشرتی اور ثقافتی تقاضے اور ماں کا کسی متعدی بیماری میں مبتلا ہونا وہ اسباب ہیں جن کی بنیاد پر بچہ کو ماں کے دودھ سے محروم رہنا پڑتا ہے ۔قدرت کے اس نظام کو ہمیں فخر کرنا چاہئے کہ دوران حمل بچے کو آنول کے ذریعہ غذائیت فراہم ہوتی ہے لیکن وہ حمل کے فوری بعد آنول کے الگ ہوجانے پر بچے کو غذا کی فراہمی کا سلسلہ ماں کے دودھ کے ذریعہ جاری ہوتا ہے اور دودھ کے بننے اور خارج ہونے کا عمل شروع ہوجاتا ہے جسے شریعت میں رضاعت کہتے ہیں ۔ پستان جلد میں موجود غدودوں سے تعلق رکھتے ہیں انہی میں غذائیت سے بھر پور وہ مرکب تیار ہوتا ہے جسے ماں کا دودھ کہا جاتا ہے۔ جس میں کاربوہائیڈریٹ پروٹین اور چربی کی ضروری اور مناسب مقدار قدرتاً پائی جاتی ہے اس کی وجہ سے بچے کی نشونما بہتر طریق پر ہوتی ہے۔ جب عورت حاملہ ہوجاتی ہے اور چوتھا یا پانچواں مہینہ شروع ہوجاتا ہے ت قدرتاً پستانوں کے سائز میں اضافہ ہوکر خاص قسم کی شئے پیوسی (Olostrum) کی ذخیرہ اندوزی شروع ہوجاتی ہے جس سے حاملہ میں ایک عجیب سی کیفیت و جذبات اُبھرتے ہیں جس کا اظہار ماں جیسی رفیق و مشفق ہستی کے سوا دوسرا اس کا اظہار نہیں کرسکتا۔ اس کا دل اندر ہی اندر ’’ماں‘‘ کے جذبہ لازوال سے سرشاراشرف سلیم اعجاز حاصل کرتا ہے ۔ یہ شئے زردی مائل ہوتی ہے اوراسے بچے کا پہلا کھانا کہا جاتاہے جو اسے رحم مادر ہی میں ملتا رہتا ہے۔ لیکن اکثر و بیشتر دیکھنے میں آیاہے کہ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں بچے کو مختلف وجوہات کی بناء پر اس نعمت سے محروم رکھا جاتا ہے اور ضائع کردیا جاتا ہے ۔ حالانکہ اس میں ماں کی طرف سے ملنے والی (Antibodies) کثیر مقدارمیں موجود ہوتی ہے جو نوزائیدہ کو ہر قسم کی بیماریوں سے محفوظ رکھتی ہے ۔ واضح رہے کہ بچہ کا حفاظتی نظام پانچ سال تک مکمل طور پر اس قابل نہیں ہوتا کہ وہ اپنی حفاظت کے لئے Antibodies تیار کرسکے۔Antibodiesمیں پروٹین اور وٹامن اے کی بھاری مقدار موجود ہوتی ہے ۔ وٹامن اے جلد اور آنکھوں کی حفاظت کیلئے بہت ضروری ہے ۔ پیدائش کے بعد جب بچہ ماں کے پستانوں کو چوسنا شرع کرتا ہے تو غدوی تخامیہ (Pituitory Glands) سے دو ہارمون Prolactinاور Oxytocinخارج ہوکر خون میں گردش کرنے لگتے ہیں۔ بلکہ ماں کے پستان دودھ بنانے اور اسے خارج کرنے کے عمل میں مصروف ہوکر نوزائیدہ اور ماں کے درمیان فعلیاتی و حرکیاتی تعلق قائم ہوجاتاہے ۔ یاد رہے کہ Prolactinہارمون دودھ بنانے کے لئے اور Oxytocin دودھ کے اخراج کے لئے قدرتی بناوٹ ہے۔ اس طرح ماں کے دودھ کا سب سے بڑا فائدہ متعدد بیماریوں سے بچانا بھی ہے اور جذبہ ممتا کو پروان چڑھانا ہے۔ ہمارے میں ملک میں حالیہ تحقیق سے یہ ثابت ہوا ہے کہ سب سے زیادہ جان لیوا قئے و دست ہیں ان کا خطرہ بچوں کا باٹل سے دودھ پلانا ہے۔ لہٰذا نہ صرف قئے و دست سے نجات ملتی ہے بلکہ تنفس کی بیماریوں سے بھی ماں کا دودھ پینے والے بچے محفوظ و تندرست ثابت ہوئے ہیں۔ گائے ، بھینس ، بکری یا ڈبے کا دودھ استعمال کرنے والے نوزائیدہ بچوں میں ایک ایسا مادہ بھی موجود ہوتا ہے جو قدرت نے انسانی دودھ میں نہیں رکھا اور یہ مادہ شیر خوارگی کے دور میں الرجی (Elergy) کا سبب بنتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ آج کی نسل زیادہ تر الرجی کا شکار ہے۔ اس لئے ماں کا دودھ ہی وہ مناسب و قدرتی غذا ہے کہ جو صرف اور صرف نوازائیدہ کے جسمانی نظام کے لئے موزوں و قابل قبول ہے ۔ ماں کے دودھ کی نمایاں خوبی یہ بھی ہے کہ اس کی وجہ سے نوزائیدہ بچے کی آنتیں بڑھوتری کے وقت اس کی ضرورت محسوس کرتی ہے۔ اور محض ماں کے دودھ کے باعث چار پانچ ماہ بعد سے ہی دوسری غذاؤں کو قبول کرنے کی متحمل رہتی ہیں۔ اسی لئے قدرت نے ماں میں الحمدللہ ۱۲ تا ۱۸ ماہ کی خاصی مقدار میں دودھ پیدا کرنے کی صلاحیت رکھی ہے جو بچوں کی بہر نشو و نما کے لئے موزوں ثابت ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ماں کے دودھ پینے والے بچے اپنا متوازن وزن بھی قائم رکھتے ہیں بلکہ ماں کو خود دودھ پلانے کی کئی جھنجھٹوں سے پاک رکھتا ہے جس میں دودھ کی خریداری ، پانی، بوتل کا گرم کرنا ، صفائی وغیرہ بلکہ کہیں پر مہمانی میں جانے پر انھیں یہ تمام مسائل خود ماں کے لئے شرمندگی کا باعث بنتے ہیں ۔ ان تمام صورتوں میں ماں کے لئے اپنا دودھ پلانا ہی بہت ہی آسان کام ہے۔
بچے کے لئے ماں کا دودھ سب سے اعلیٰ ترین غذا ہے اور قدرت کا عظیم تحفہ ہے لہٰذا ہر ماں کو چاہئے کہ بلا جھجک اپنے بچے کو ڈھائی سال تک ضرور دودھ پلائے اس عمل سے اس کی چھاتیوں میں خوبصورتی ، حسن و جمال میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ اس کو دودھ پلانے کا اجر عظیم بھی ملتا ہے۔ اگر مائیں ڈھائی سال تک دودھ پلاتی رہیں تو بچے صحت و سلامتی کے ساتھ محفوظ رہتے ہیں ۔ فطرتاً بچے اطاعت گذار نکلتے ہیں اور آگے بھی بچوں کی پیدائش میں وقفہ آتا ہے جو بچہ اور ماں دونوں کی بہترین صحت کا ضامن ہے۔ اگر ماں شرعی اعتبار سے بچے کو مدت رضاعت میں دودھ پلاتے رہے تو بچہ اور ماں دونوں کے لئے نعت ہے اور اجر عظیم ہے ۔
ماں کے دودھ کی خصوصیات:
۱۔ ماں کا دودھ صاف اورجراثیم سے پاک رہتا ہے کیوں کہ ماں کا دودھ براہِ راست بچے کے منہ میں داخل ہوتا ہے۔ اس لئے اس میں جراثیم ، گندگی کی موجودگی کے امکان کم ہوتے ہیں۔ جس سے بچوں میں پیٹ کی بیماریاں پیدا ہونے کے امکان کم ہوجاتے ہیں۔
۲۔ ماں کے دودھ کے مقابلے میں گائے کے دودھ سے الرجی کی وجہ سے کئی بیماریاں پیدا ہوجاتی ہیں ۔
۳۔ ماں کے دودھ میں پولیو وائرس سے بچنے کے لئے اہم کیمیائی اجزاء بھی موجود ہوتے ہیں جس سے وہ اس بیماری کے حملے سے محفوظ رہتے ہیں ۔
۴۔ پیوسی (کولیسٹرم) اور ماں کے دودھ میں لائی سوزائم اور لیکٹوفیرن کی تکسید کے امکان بڑھ جاتے ہیں ۔ یہ مرض کو روکنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔
۵۔ ماں کا دودھ اچھی پروٹین ، لیکٹوفرینکا عمدہ ذریعہ ہے ان کی موجودگی کی وجہ سے آنت میں ایکولائی جراثیم کے بڑھنے کے امکانات کم ہوجاتے ہیں۔
۶۔ مکمل طور پر متوازن غذا لینے والی ماؤں کے دودھ میں حیاتین ڈی ، آئرن اور کلورائیڈ کو چھوڑ کر دوسرے ضروری غدائی اجزا موجود ہوتے ہیں۔
۷۔ ماں کا دودھ آسانی کے ساتھ مناسب درجہ حرارت پر فراہم ہوتا ہے جو بچے کے لئے فائدہ مند ہوتا ہے۔
۸۔ جن بچوں کو مائیں دودھ نہیں پلاتیں ان کی بیضہ دانیاں (اووریز) وقت سے پہلے پختہ ہوجاتی ہیں جو انتہائی خطرناک ہے اس لئے ایسی خواتین رحم اور چھاتی کے کینسر کے مرض میں بھی اکثر مبتلا ہوجاتی ہیں ۔
ہاں ماں اگر کسی بیماری میں مبتلا ہو مثلاً پستان کا زخم، پستان کا کینسر، قلبی بیماری، گردے میں ورم، دق یا تیز بخار ہونے پر تو بچے کو دودھ نہیں پلانا چاہئے۔ مجبوری پر گائے کا دودھ بہتر متبادل ہے ۔ لیکن ابالنا نہایت ضروری ہے تاکہ دودھ میں جراثیم باقی نہ رہیں۔
دودھ پلانے والی خواتین کا ایام ماہواری دیر سے شروع ہوتا ہے اس طرح اگلے بچے کی پیدائش کاامکان آنے والے سال تک کم رہتا ہے ۔
نومولود کی غذا کا خیال رکھنا ماں کا اولین فریضہ ہے ۔ بچے کو کسی ٹائم ٹیبل کے مطابق غذا نہیں دی جاتی بلکہ جس وقت بھی بچہ بھوکا ہو اسے فوراً غذا بہم پہنچانا لازمی ہے ۔ نومولود کی بھوک بڑی ہیجان انگیز ہوتی ہے۔ جب وہ ماں کے رحم میں ہوتا ہے تو پلینٹا کے ذڑیعے مسلسل غذا ملتی رہتی ہے ۔ مگر دنیا میں آنے کے بعد بچے کو وقفے وقفے سے خوراک کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اس کا نظام ہاضمہ ایک وقت میں زیادہ غذا لینے کے قابل نہیں ہوتا لہٰذا اب بچے کو تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد تھوڑی تھوڑی غذا دینی ضروری ہے ۔
جب بچہ اپنی غذا یعنی دودھ کا مطالبہ کرے تو اسے فوراً دودھ پلانا چاہئے۔ اس میں تاخیر بچے کیلئے تکلیف کا سبب بنے گی۔ اور بعد میں وہ احتجاجاًدودھ پینے کے لئے تیار نہیں ہوگا ۔نتیجتاً آپ کو اسے پر سکون کرناپڑے گا ، منانا پڑے گا تاکہ دودھ پینے کیلئے تیار ہوجائے ۔ اگر بچہ دودھ مانگتا ہے اور آپ اسے فوراً دودھ مہیاکردیتی ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ اس کی عادتیں خراب کررہی ہیں بلکہ یہ اس کی بنیادی ضرورت ہے جسے فوراً پورا کرنا آپ کا فرض ہے ۔
شروع کے ہفتوں میں خالی معدے کی وجہ سے رونا ، چیخنا چلانااور جاگنا اس کا معمول بن جاتا ہے۔ رفتہ رفتہ اس کا نظام ہضم مستحکم ہونے لگتاہے اور اس کا معدہ پروان چڑھنے لگتا ہے ، لہٰذا اسے ہر دفعہ غذا کی نسبتاً زیادہ مقدار درکار ہونے لگتی ہے اور غذا کے درمیان کا وقفہ پہلے کے مقابلہ میں بڑھنے لگتا ہے۔
بچہ ایک دن میں کتنی دفعہ دودھ پینے کے مطالبے کا اظہار کرتا ہے؟
جب بھی بچے کو غذا کی کمی محسوس ہوگی وہ غذا کا مطالبہ کرے گا ۔ شروع میں یہ مطالبہ بڑی کثرت سے ہوگا اور اس کے لئے کوئی وقت مقرر نہیں ہوگا۔ ابتدائی دنوں میں اسے ہر دو تین گھنٹے کے دوران تقریباً تین چار دفعہ دودھ پینے کی ضرورت پیش آتی ہے اور شام میں اسے تقریباً آٹھ دفعہ تھوڑا تھوڑا دودھ پینے کی حاجت ہوگی۔ رات کو آپ اپنے بچے کو دو یا تین دفعہ دودھ پلاتی ہیں، کیوں کہ چھ ہفتے سے کم عمر کے بہت کم بچے بغیر جاگے مسلسل پانچ گھنٹے تک بھوک سے بے نیاز سوسکتے ہیں۔ جو بچے ماں کا دودھ پیتے ہیں وہ ان بچوں کی نسبت زیادہ دودھ پینے کا مطالبہ کرتے ہیں جو بوتل سے دودھ پیتے ہیں ۔ کیوں کہ ماں کا دودھ بوتل کے دودھ کی نسبت جلدی اور بہ آسانی ہضم ہوجاتا ہے۔
جب آپ کے بچے کی عمر ۳ ماہ ہوجائے گی تو بچے کو تقریباً ہر چار گھنٹے کے بعد دودھ پینے کی عادت ہوجائے گی اس طرح دن میں پانچ دفعہ اور رات میں ایک یا دو دفعہ آپ کو اسے دودھ پلانا ہوگا اگر آپ کا بچہ بوتل سے دودھ پیتا ہے تو شاید وہ نسبتاً جلدی تقریباً ہر چار گھنٹے بعد دودھ پینے کی عادت اپنالے گا۔
ہوا کا اخراج (ڈکار):
چاہے آپ کا بچہ آپ کا دودھ پیتا ہو یا بوتل کا مگر آپ اسے ڈکار ضرور دلوائیں گے جو ہو ااس نے دودھ پیتے ہوئے اندر لے لی ہے ، اس ہوا کی وجہ سے اسے اپنا پیٹ بہت جلد بھرا ہوا محسوس ہوگا۔ اگر وہ آدھے منٹ کے بعد تک ڈکار نہیں لیتا تو پھر اپنی کوشش ترک کردیں کیوں کہ بچے کو اس خوراک پر ڈکار کی ضرورت نہیں ہے۔
بالکل نوزائیدہ بچے کو ڈکار دلوانے کیلئے ضروری ہے کہ آپ اسے اپنے کندھے پر لگالیں اور اس کی پشت پر ہاتھ پھیریں یا پھرا اسے اپنی گود میں سیدھا لٹا کر اسے تھوڈی کے نیچے ہاتھ کا سہارا دیں ۔بہت ممکن ہے کہ وہ منہ سے کچھ دودھ بھی خارج کردے ۔ لہٰذا اپنے پاس اس کے منہ سے خارج شدہ دودھ صاف کرنے کیلئے کوئی کپڑا وغیرہ رکھیں۔
گود میں یا بازوؤں پر پیٹ کے بل لٹانے سے بھی بچے کو ڈکار آجاتی ہے ۔ اگر بچہ تین ماہ کا ہوجائے اور تھوڑی دیر کے لئے بیٹھنے بھی لگے تو گود میں لے کر بیٹھنے اور کمر سہلانے سے بھی وہ زائد ہوا خارج کردیتا ہے۔
بچے کو بوتل کا دودھ دیا جائے یا ماں کا دودھ:
پہلا فیصلہ جو آپ کو اپنے بچے کے بارے میں کرنا ہے وہ یہ ہے کہ بچہ بوتل کا دودھ پیئے گا یا ماں کا۔ ماں کا دودھ بچے کیلئے ایک مکمل غذا کی حیثیت رکھتا ہے اور جلد ہضم ہوجاتا ہے۔مگر ہر صورت میں یہ یاد رکھیں کہ بچے کو دودھ پلانا ایک انتہائی خوشگوار عمل ہے ۔ اسے آپ اپنے لئے سردرد نہ سمجھیں ۔ ماں کے دودھ سے بچے کو وہ توانائی ملتی ہے جس کے ذریعے وہ اپنے ابتدائی مہینوں میں بیماریوں کے خلاف اپنے اندر قوت مدافعت جمع کرسکتا ہے۔ لیکن اگر آپ اسے بوتل کا دودھ پلانا شروع کردیں گی تو پھر اس کیلئے ماں کا دودھ پینا ممکن نہیں رہے گا۔ کیوں کہ ماں کا دودھ نہیں پی رہا ہے لہٰذا قدرتی طور پر ماں کا دودھ خشک ہوجائے گا۔ بہرحال چاہے آپ بوتل کا دودھ پلائیں یا اپنا مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ آپ کی محبت ، توجہ اور پیار ہی بچے کیلئے سب کچھ ہے ، اور دودھ پیتے وقت بچہ آپ کے خلوص اور وارفتگی کے واضح اظہار کا تہہ دل سے طلب گار ہوتا ہے ۔
جراثیم کش اور صحت مند ماحول کا قیام:
دودھ میں بہت آسانی سے جراثیم پیدا ہوجاتے ہیں ۔ اس قسم کے دودھ کو پینے سے معدہ کی دیواریں متاثر ہوتی ہیں اور نظام ہضم خراب ہوجاتا ہے۔ جراثیم بچے کو بد ہضمی میں مبتلا کردیتے ہیں ۔ اس صورت میں الٹیاں (قئے) اور دست شروع ہوجاتے ہیں۔ یہاں تک کہ بچے کی زندگی خطرے میں پڑجاتی ہے لہٰذا اس سلسلے میں سب سے پہلے تو آپ کو چاہئے کہ بچے کے دودھ پینے کی بوتل کو جراثیم سے پاک کرکے رکھیں ۔ دودھ پلانے کے بعد بوتل اور نپل کو پانی میں اچھی طرح کھنگالیں ۔ اور ایک طرف رکھ دیں۔ ذیل میں بوتل کو جراثیم سے پاک کرنے کا صحیح طریقہ دیا گیا ہے بغور پڑھیں اور عمل کریں ۔
تمام کھنگالی ہوئی بوتلیں ، ڈھکن، جگ ، قیف، کفچہ، اور چاقو وغیرہ گرم صابن اور پانی میں ڈال دیں اور انہیں اچھی طرح دھوئیں ۔ بوتل کو بوتل دھونے والی برش کی مدد سے اس طرح اندر باہر سے رگڑیں کہ بوتل پر کہیں دودھ کا کوئی دھبہ نہ رہ جائے ۔بوتل کے منہ کے آس پاس بھی برش رگڑیں تاکہ بوتل کا دھاگہ یا اسکرو وغیرہ بے داغ ہوجائے ۔ نپل کے اندر نمک ڈالیں اور اندر باہر سے اچھی طرح انگلی کی پور سے رگڑیں ۔ اس طرح اس پر سے دودھ کے تمام نشانات صاف ہوجائیں گے۔ بوتل، نپل اور دیگر اشیاء کو نل کے بہتے پانی سے اچھی طرح دھوئیں ۔ نپل کے سوراخ میں جما ہوا دودھ نکالنے کے لئے پن استعمال کریں۔
جراثیم سے پاک کرنے کے لئے مندرجہ ذیل طریقہ استعمال کریں۔
ایک بڑے برتن میں ٹھنڈا پانی بھریں اور اس میں جراثیم کش ٹیبلیٹ یا لیکویڈ دالدیں۔ جب ٹیبلیٹ پانی میں گھل جائے تو بچے کی دودھ کی بوتل وغیرہ اس میں ڈال دیں۔ بوتل میں پانی اس طرح بھریں کہ اس میں بلبلے نہ بنیں اگر کسی چیز میں بلبلے ہیں اور ہوا جمع ہوجائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ برتن جراثیم سے پاک نہیں ہوا۔ تھوڑی دیر کے بعد جب بوتل وغیرہ کے استعمال کی ضرورت پڑے تو انہیں برتن میں سے نکال کر گرم پانی سے دھوئیں اور کچن پیپر پر ان کا پانی خشک ہونے دیں۔
بچے کو معدے کی خرابی سے محفوظ رکھنا:
اگر آپ ذیل میں دئیے گئے اقدامات پر عمل کریں تو اپنے بچے کو جراثیم سے محفوظ رکھ کر معدے کی خرابی سے بچاسکتی ہیں ۔
بچے کو دودھ پینے کی بوتل وغیرہ چاہے آپ نے فوری طور پر بازار سے خریدی ہو استعمال سے پہلے اسے جراثیم سے پاک کریں ۔اگر آپ کے پاس فریج نہ ہو تو جب ضرورت پڑے فوری طور پر دودھ بنائیں ۔ اگر آپ کا بچہ ایک دفعہ میں سارا دودھ نہ پیئے تو ماباقی دودھ پھینک دیں۔ اگلی دفعہ وہ دودھ ہرگز نہ پلائیں۔ کیوں کہ بچے کا لعاب دہن دودھ کو آلودہ کردے گا۔ اگر آپ نے بچے کا دودھ بنالیا ہے مگر بچے نے اسے بالکل بھی نہیں پیا ہے تب بھی ایسے دودھ کو پھینک دیں کیوں کہ اس میں جراثیم کے جمع ہوجانے کاامکان ہے ۔ اگر آپ کے پاس فریج ہے تو بنا ہوا دودھ ۲۴گھنٹے سے زیادہ فریج میں نہ رکھیں ۔ بچے کے دودھ کی بوتل وغیرہ ٹی ٹاول یا کچن پیپر پر خشک ہونے کیلئے رکھیں ۔ جراثیم سے پاک برتنوں کو بغیر ہاتھ دھوئے نہ چھوئیں۔
نپل کی دیکھ بھال:
آپ کا بچہ اسی صورت میں دودھ خوشی سے پیئے گا جب کہ نپل سے صحیح مقدار میں دودھ خارج ہورہا ہو ، نپل سے ایک سکینڈ میں دو یا تین قطرے ضرور نکلنے چاہئیں ۔ اگر نپل کا سوراخ چھوٹا ہے تو دودھ ٹھیک مقدار میں نہیں نکلے گا۔ جس کی وجہ سے پھندا لگنے کا خطرہ ہوتا ہے ۔ نپل خراب بھی ہوجاتے ہیں لہٰذا کچھ زائدنپل جراثیم سے پاک کرکے گھر میں ضرور رکھیں تاکہ ضرورت پڑنے پر فوری طور پرنیا نپل استعمال کرسکیں۔ اگر سوراخ بڑا ہوجائے تو نپل پھینک دیں اگر سوراخ چھوٹا ہوجائے تو سوئی کی مدد سے سوراخ بڑا کرلیں اور پھر یہ دیکھیں کہ اب نپل سے کتنی مقدار میں دودھ خارج ہورہا ہے۔
نپل کے چھوٹے سوراخ کو بڑا کرنے کیلئے سوئی کی آنکھ (سوراخ) والا حصہ ایک کارک میں پیوست کریں اور سوئی کی نوک کو آگ کے شعلے پر گرم کریں ۔ جب گرم ہوجائے تو نپل کا سوراخ ضرورت کے مطابق ٹھیک کرلیں۔
دودھ بنانے کے لئے صاف پانی کا استعمال:
بچے کا دودھ بناتے وقت اگر آپ نے پاؤڈر کی زیادہ مقدار شامل کردی ہے تو ایسا دودھ پینے سے بچے کا وزن بڑھ جائے گا اور ہوسکتا ہے کہ اس کے گردے بیکار ہوجائیں۔ جبکہ ضرورت سے کم مقدار میں پاؤڈر ڈالنے سے بچے کا وزن کم ہوجائے گا ۔ لہٰذا دودھ بناتے وقت تمام اجزا کا صحیح تناسب میں شامل ہونا ضروری ہے۔ اور ایک دفعہ جب اس صحیح تناسب کے ساتھ دودھ تیار ہوجائے تو پھر بچے کو جی بھر کے دودھ پینے دیں۔
دودھ بنانے کے لئے ہمیشہ تازہ اورٹھنڈا پانی استعمال کریں۔ اور اس پانی کو صرف ایک دفعہ ابالیں۔ مندرہ ذیل اقسام کا پانی دودھ بنانے کیلئے ہرگز استعمال نہ کریں۔
ایسا پانی جسے دو بارہ ابالا گیا ہو یا کیتلی میں پڑاچھوڑدیا گیا ہو۔ معدنیاتی جیسے زمیں سے نکلا ہوا پانی ، یا کنوئیں ، سمندر کا پانی ۔ ایسے پانی میں موجود سوڈیم اور معدنیات ضرر رساں ہوسکتے ہیں۔
اگر نل کے آگے کوئی ربر کا پائپ وغیرہ لگاہوا ہے تو اس سے بھی دودھ بنانے کیلئے پانی نہیں لینا چاہئے کیوں کہ ایسے پائپ میں جراثیم جمع ہوجاتے ہیں۔
بوتل میں پاؤڈر کا دودھ بنانا:
اس طریقہ کار کے لئے آپ مندرجہ ذیل چیزوں کی ضرورت ہوگی ۔ پاؤڈر کا دودھ ، چاقو، پیپر۔
بچے کے دودھ کی بوتل کو گرم پانی میں کھنگالیں پھر ہاتھ دھوئیں اور سب چیزیں کچن پیپر پر رکھ دیں تاکہ وہ خشک ہوجائیں ۔ صرف چاقو کو کاٹن کے صاف کپڑے سے پونچھ لیں۔
کیتلی میں ٹھنڈا پانی بھریں اور اسے ابالیں ۔ ابلے ہوئے پانی کو بوتل میں مخصوص نشان تک بھریں اور بوتل کو آنکھوں کے قریب لاکر پانی کی مقدار کو مقررہ نشان تک چیک کریں۔ مقدار نشان تک ہونی چاہئے تاکہ دودھ کو حل کرنے کے نتیجے میں غدا صحیح تناسب سے تیارہوسکے ۔ اب دودھ کے ڈبے کو کھولیں اور مقدار ناپنے والے چمچے کی مدد سے مقررہ مقدار نکالیں ۔ جراثیم سے پاک چاقو کی مدد سے دودھ کی مقدار نکالیں ۔ جراثیم سے پاک چاقو کی مدد سے دودھ کی مقدار برابر کریں اور اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ چمچے نہ ضرورت سے زیادہ دودھ لیں نہ کم۔
چمچے میں موجود تمام مقدار کو بوتل میں انڈیل دیں اور اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ صرف اتنی ہی مقدار میں ڈالیں جتنی کہ بوتل میں موجود پانی کی مقدار کے لحاظ سے اس کی ضرورت ہے۔ بوتل پر ڈسک رکھئے اور پھر بغیر نپل کے ڈھکن اس پر ٹائٹ کردیجئے اب بوتل کو اچھی طرح ہلائیں تاکہ فارمولا مکس ہوجائے۔
جگ میں بچے کا دوھ بنانے کا فارمولا:
بچے کے دودھ سے متعلق سامان : مثلاً بوتل ، چاقو، پیمائش کرنے والا جگ، چمچہ اور پلاسٹک کی قیف کو دھوئیں اور سکھائیں ۔ کیتلی میں تازہ ٹھنڈا پانی گرم کریں اور جگ میں اس کیمطلوبہ مقدار انڈیل دیں۔ اب ڈبے کے اندر رکھے ہوئے چمچے سے دودھ نکالیں ۔ چاقو کی پشت سے چمچے میں پاؤڈر کی سطح ہموار کریں ۔ نہ پاؤڈر چمچے سے اوپر نکلا ہوا ہو اور نہ چمچے میں دبادباکر بھردیا ہو۔اب یہ پاؤڈر جگ میں ڈال دیں ۔ صرف اتنے چمچے پاؤڈر ڈالیں جتنے پانی کا حساب سے ڈالنے کی ہدایت کی گئی ہے(یہ ہدایت ڈبے پر درج ہوتی ہے)۔ اب جراثیم سے پاک چمچے کی مدد سے جگ میں پاؤڈر تحلیل کریں ۔ یاد رکھیں گرم پانی میں پاؤڈر جلد حل ہوجاتا ہے۔
بچے کو بوتل سے دودھ پلانا:
فریج سے دودھ کی بوتل نکالیں اور اس پر نپل لگائیں۔ گرم پانی میں بوتل کو گرم کریں۔ بوتل گرم کرنے کیلئے مائکرو ویو اوون استعمال نہ کریں۔ورنہ دودھ تو بہت گرم ہوجائے گا مگر بوتل باہر سے ٹھنڈی رہے گی۔
دودھ نکلنے کی رفتار چیک کریں ۔ ایک سکینڈ میں دو یا تین قطرے نکلنے چاہئیں۔ سوراخ نہ بہت چھوٹا ہو اور نہ بہت بڑا ۔ ایک دو قطرے اپنی کلائی پر گراکر دودھ کی حرارت چیک کریں۔ دودھ تیز گرم نہیں ہونا چاہئے ۔ دودھ ٹھنڈا ہو تو کوئی حرج نہیں ہے ، بچہ نیم گرم دودھ پینا پسند کرتا ہے ۔ ڈھکن تھوڑا سے ڈھیلا کریں تاکہ جب آپ کا بچہ بوتل سے دودھ پئے تو ہوا اندر جاسکے اور نپل ہوجانے سے پچک نہ جائے ۔ شروع کے دس دنوں میں بچے کو دودھ پینے کی طرف راغب کرنے کیلئے یہ کریں کہ نپل کا دودھ کا قطرہ ابھاریں اور بچے کے ہونٹوں سے اسے مس کریں۔ اس طرح بچہ دودھ کا ذائقہ چکھ سکے گا اور اس کی طبیعت دودھ پینے پر مائل ہوگی ۔ جب آپ کا بچہ دودھ پیئے تو بوتل کو تھوڑا سا تیڑھا کریں تاکہ نپل میں دودھ آئے ، ہوا نہیں۔ اگر نپل خراب ہونے لگے توبوتل کو بچے کے منہ میں حرکت دیں تاکہ بوتل میں ہوا داخل ہوجائے ۔جب بوتل خالی ہوجائے تو بوتل نکال لیں ۔ اگر پھر بھی بوتل منہ سے لگائے رہنے کی طرف مائل ہو تو اسے اپنی صاف ستھری انگلی چوسنے کیلئے پیش کریں۔ اگر وہ انگلی چوسے تو سمجھ جائیں کہ بچے کا پیٹ نہیں بھرا اور وہ مزید دودھ پینے کا خواہاں ہے ۔ لہٰذا اسے کچھ اور دودھ پلائیں۔ اگر دودھ پینے پر بھی بچہ بوتل منہ لگائے رکھنے پر بضد ہو تو بوتل کے نپل کے ساتھ اپنی چھوٹی انگلی اس کے مسوڑھوں پر پھیریں۔
اگر بچہ دودھ پیتے پیتے سوجائے اور اس کے پیٹ میں ہوا بھر جانے سے وہ یہ محسوس کرے کہ اس کا پیٹ بھر گیا ہے ۔ اسے ہلائیں اور چند منٹ کیلئے کوشش کریں کہ وہ ڈکار لے۔ اس کے بعد مزید دودھ پلائیں۔
عام طورپر اکثر مائیں اپنی چھاتیوں میں دودھ کی کمی نہ یا نہ آنے کی شکایت کیا کرتی ہیں لہٰذا ماں کے دودھ میں اضافہ کے لئے مندرجہ ذیل امور کو اپنائے انشاء اللہ ماں کے دودھ میں خوب اضافہ ہوگا ۔
(۱) یامتین (۹) بار اور سورہ ھود کی آیت (۶) ومامن دابۃ فی الارض ۔۔۔ فی کتب مبین o تک ۔
(۲) سورہ بقرہ کی آیت (۲۳۳) والوادت یرضعن ۔۔۔ ان یتم الرضاعۃ تک اور
(۳) سورہ محمد کی آیت (۶۰) مثل الجنۃ الحق ۔۔۔ مصفی تک
(۴) یامتین (۹) بار کے ساتھ تمام آیات کو اسکیچ پن سے لکھ کر پانی سے دھوکر ایک شیشہ میں لکھ کر تعویذ بنا لیجئے اور اپنے گلے میں ڈالے رکھئے ۔ علاوہ ازیں اسی پانی کو چھاتیوں پر روزانہ مل لیا کریں ۔ یہ عمل ایک ماہ تک کیجئے ۔ انشاء اللہ خوب دودھ آئے گا ۔
بعض اوقات بچے چھاتیوں میں دودھ رہنے کے باوجود ماں کا دودھ پینا نہیں چاہتے ایسے وقت ماں کو چاہئے کہ سورہ زخرف کی آیت (۸۲) سبحان رب السمٰوٰت والارض رب العرش عما یصفون تک اور سورہ احقاف کی آیت (۱۲۔۱۴ ) وھذا کتب مصدق ۔۔۔ یعملون O تک لکھ کر بچے کو تھوڑا تھوڑا پلاتے رہیں اور ان دونوں آیات کو مکمل لکھ کر تعویذ کی شکل میں بچے کے گلے میں ڈالئے ۔ انشاء اللہ اس عمل سے بچے چھاتیوں سے دودھ پینا شروع کردیں گے ۔
یہ یاد رکھیں کہ ماں کا دودھ بچہ کے لئے عطیۂ اکرم ہے جس کی قدر و منزلت شکر خداوندی ہے۔